از: مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی

استاذ انگلش یونیک ریسرچ سینٹر گجرات

            ہماری زندگی میں ٹکنالوجی کا استعمال جیسے جیسے بڑھتا جارہا ہے ویسے ویسے ہماری لت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اور اگر ہم نے ٹکنالوجی کے غلط استعمال کی لت کی وجوہات کاتجزیہ کرلیا تو سمجھیے ہم اگلے چار پانچ سو سال کی پلاننگ آرام سے کرسکتے ہیں؛ کیوں کہ فی الحال ہماری زندگی کے اکثر حصوں پر ٹکنالوجی قابض ہے اور آگے چل کر یہ تناسب ننانوے کے آنکڑے کو آرام سے پار کر جائے گا۔

            ہم ان کی زندگی کو سب سے پہلے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ”اسکرینی زندگی“ اور”حقیقی زندگی“ اسکرینی زندگی سے مراد جہاں وہ موبائل، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹاپ کی اسکرین کااستعمال کرتا ہے۔

            اب اسکرینی زندگی میں آدمی عموماً ان عادتوں میں مشغول ہوتا ہے:

            ۱- سوشل میڈیا:ہارورڈ یونیورسٹی کے ریسرچر ٹریور ہائینس کے مطابق دماغ میں ایک ترسیلاتی کیمیکل ہے (ڈوپامین dopamine) جو بہت زیادہ خوشی کے وقت ریلیز ہوتااور نکلتا ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر کھانے، ایکسرسائز، محبت، مجامعت، ڈکیتی اور ڈرگ سے تھا؛ مگر اس لسٹ میں سوشل میڈیا بھی شامل ہوگیا ہے، یعنی سوشل میڈیاپر ایک لائک ملنے کے بعد اتنا ہی ڈوپامین نکلتا ہے جتنا کہ ڈرگ لینے کے بعداور اسی لیے یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انسان کو سوشل میڈیا کی لت لگ گئی

ہے اور چوں کہ یہ لت ایسی ہے جسے سماج میں برا بھی نہیں مانا جاتا اور جس کاحصول بھی محض انگلیوں کی حرکت پر موقوف ہے؛ اس لیے یہ شراب اور ڈرگ سے بھی بری عادت بن جاتی ہے، نیز statista کی رپورٹ کے مطابق ساڑھے تین بلین (ساڑھے تین ارب)لوگ میٹا (فیس بک)کے پروڈکٹس مثلا واٹس ایپ، فیسبک، میسنجر، انسٹاگرام میں سے کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں اور ساڑھے تین سو ملین (تیس کروڑ) یوزرس کے ساتھ ہندوستان سب سے زیادہ فیس بک استعمال کرنے والا ملک ہے اور نوجوانوں میں سب سے زیادہ پاپولر ایپ انسٹاگرام پر بھی192 (تقریباً بیس کروڑ) ملین یوزرس کے ساتھ انڈیا ہی نمبر ایک پر ہے۔

            ۲- ویڈیوز دیکھنا:مثلاً انسٹاگرام کی ریلز، یوٹیوب ویڈیوز یا نیٹ فلکس پہ موویز اور ویب سیریز دیکھنا۔

            ۳- کنٹینٹ میکنگ مثلاً ٹک ٹاک پہ (لپ سنکنگ lip syncing) ہونٹوں کو ڈائلاگ یا گانے کے بول کے مطابق کرکے ویڈیوز بنانا جس کا مطلب ہے خود جس قابل نہیں ہے اس قابل ہونے کی ایکٹنگ کرنا اسی طرح انٹرٹینمنٹ کے دوسرے طریقے مثلاً میمز اورکامیڈی بنانا۔

            ۴- پورن

            ۵- گیم کھیلنا مثلاً پب جی اور فری فائر وغیرہ

رئیل لائف

            (۱) فٹنس                                     (۲) معاشقہ         

            (۳)کیرئیر بنانے کے لیے پڑھائی         (۴) اسپورٹس۔

تناسب کیا ہے؟

            چوں کہ سوشل میڈیا، پورن اور گیمنگ وغیرہ ایک لت اور عادت ہیں؛ اس لیے انسان جبراً پڑھائی گئی تعلیم کے علاوہ باقی سارے اوقات انھیں چیزوں میں عموماً صرف کرتا ہے اسے ان چیزوں کی عادت کیوں لگ گئی ہے؟ اس لیے کہ یہ ایپس یوزر سینٹرڈ ڈیزائن (user centred design) کا استعمال کرتی ہیں جس میں صارف اور اس کی پسند مرکزی نقطہ ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ اپلی کیشنز پہلے انسان کی فطرت کا مطالعہ کرتی ہیں پھر ہر فرد کی ضروریات اور پسند پر ریسرچ کرتی ہیں اور پھر ان کے مطابق اس کے ہر جذبے اور خواہش کی تسکین کا ساماں اپنے ایپ کے ذریعے فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ خواہشات صحیح ہیں یا غلط۔

            آئیے ان جذبات، خواہشات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ باطل ٹکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کون کون سے حربے آزما رہا ہے:

            ۱- جذبہٴ انعام (reward): انسان کو فطرتاً انعام کی امید ہوتی ہے اور یہ ایپس اسے انعامات سے نوازتی ہیں۔

            ۲- جذبہٴ عجلت (haste):یعنی کم وقت میں وہ ایپ آپ کو اتنا قابل باور کرادیتا ہے،جتنا قابل وہ پچیس تیس سال کی محنت کے بعد ہی بن سکتا تھا وکان الانسان عجولا․

            کمپنیاں اب اسی عجلت پسندی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے پروڈکٹس اور کنٹینٹ لانچ کررہی ہیں مثلاً پہلے تین گھنٹے کی فلمیں ہوا کرتی تھیں پھر جب نئی جنریشن کے لیے یہ بورنگ ہونے لگا تو ویب سیریز کو لانچ کیا گیا پھر آدھے گھنٹے کی شارٹ موویز اور اب ایک منٹ اور پندرہ سیکنڈ کی ویڈیوز کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔

            ۳- جذبہٴ جدت (novelty):انسان کی فطرت ہے کچھ نیا کرنا جو اس کو مختلف موضوعات کی طرف مسلسل منتقل ہونے کی دعوت دیتی ہے اور یہ ایپس اس فطرت کے عین مطابق ہرپندرہ سیکنڈ ایک منٹ کے بعد ایک نیا مواد دکھاتی ہیں۔

            ۴- جذبہٴ طمانیت و راحت (satisfaction):مذکورہ چیزوں میں ملوث ہوکر انسان وقتی طور پر سکون محسوس کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ اتنے کم وقت میں مجھے اتنی ساری معلومات حاصل ہوگئیں یا اتنا سارا انٹرٹینمنٹ ہوگیا۔

            ۵- جذبہٴ سستی و غفلت (procrastination):یہ ساری چیزیں اس کو محض انگلیاں حرکت دینے سے مل جاتی ہیں اس کو محنت نہیں کرنی پڑتی تو اس کے جذبہٴ سستی کو بھی تسکین مل رہی ہوتی ہے۔

            ۶- جذبہٴ ندرت (wonder & Marvel):عجیب چیزوں کے دیکھنے کا شوق اس کی فطرت میں ہے اور بیٹھے بٹھائے ان ایپس سے دنیا کا ہر عجوبہ دیکھنے کو مل رہا ہے تو کیوں نہ دیکھے، اب تو ابنارملیٹی ایک نیا نارمل بن چکا ہے۔

            ۷- جذبہٴ تعریف و منقبت (admiration & complement):جو تعریف اسے رئیل زندگی میں نہیں ملتی وہ وہاں مل رہی ہوتی ہے مثلاً ادھر آپ نے فوٹو ڈالی کہ ادھر لائکس اور دل کے ریکٹ مل رہے ہوتے ہیں اور کمینٹ میں ماشاء اللہ سبحان اللہ سے نوازاجارہا ہوتا ہے، اور انسان کو اپنی تعریف کروانا پسند ہے۔

            ۸- جذبہٴ مصنوعی زینت (beauty complex):انسان کی فطرت میں ہے خود کو حسین اور خوبصورت دکھانا، اب یہ ایپس بنا پیسے خرچ کیے آپ کو خوبصورت دکھنے کا موقع فراہم کررہے ہیں تو کیوں نہ جوان ایسے ایپس استعمال کریں۔

            ۹- رنگت و صورت میں دلچسپی (colour & visualisation):کتابیں بلیک اینڈ وائٹ میں ہوتی ہیں اور ویڈیوز کلرفل، اور حضرتِ انسان رنگ اور کلر کا رسیا ہوتا ہے اسی طرح صورت کی طرف انسان کی توجہ جلدی مبذول ہوتی ہے بمقابلہ حروف کے اور یہ ایپس رنگینی ہائے عالم اور فطرت کی بوقلمونیوں سے ہمیں متعارف کرواتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید تعلیمی ادارے کلر اور تصویر کو اپنے سلیبس کالازمی حصہ بنارہے ہیں، پی پی ٹی وغیرہ اس کی مثال ہیں۔

            ۱۰- جذبہٴ سیر و سفر (travelling & expedition):انسانوں کی اکثریت گھومنے اوردنیا کے عجائبات فطرت کے نظاروں کو دیکھنے کی شوقین ہوتی ہے؛ لیکن جب انسان دیکھتا ہے کہ میں جسمانی طور پر اتنے مقامات نہیں گھوم سکتا تو ویڈیو ہی کیوں نہ دیکھ لی جائے اور یہ ایپس وہ سہولتیں فراہم کررہی ہوتی ہیں۔

            ۱۱- جذبہٴ برتری و فوقیت (superiority complex):ہر انسان کو بڑا بننے کا شوق ہوتا ہے؛ لیکن وہ محنت نہیں کرنا چاہتا اور رئیل زندگی میں وہ کتنا ہی گیا گزراکیوں نہ ہو کوئی اس کو پوچھتا بھی نہ ہو مگر فالوورز کی بڑھتی ہوئی تعداد اسے احساس برتری عطا کررہی ہوتی ہے۔

            ۱۲- جذبہٴ تفریح (entertainment):آدمی کی دل چسپی کا ہر سامان وہاں موجود ہوتا

ہے چاہے کسی گھٹیا چیز سے بھی دل چسپی کیوں نہ ہو۔

            ۱۳- پیسے کمانے کی حرص (greed of wealth): یہ ایپس آپ کو انٹرٹینمنٹ کرتے ہوئے بھی پیسے کمانے کی ضمانت دیتی ہیں جس کی بنا پر آدمی گھنٹوں اس پر محنت کرتاہے؛ حالاں کہ اگر وہ رئیل ورلڈ میں اتنی محنت کسی اور شئی پر کرے تو اس سے کہیں زیادہ کماسکتا تھا؛ مگر اس کے دماغ کی وائرنگ ایسے کی جاتی ہے کہ تم محنت تھوڑی کررہے ہو بس مستی اور انٹرٹینمنٹ کررہے ہو اور مستی کے بھی پیسے مل رہے ہیں۔

            ۱۴- جذبہٴ عدم تنقید (criticism):انسان کی فطرت ہے کہ وہ چاہتا ہے کوئی اس پرتنقید نہ کرے اور وہاں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا وہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے۔

            ۱۵- جذبہٴ عدم بدنامی و ذلت (humiliation & degradation):انسان برے کاموں سے اسلیے بھی رکتا ہے؛ تاکہ اس کی ذلت نہ ہو اور یہ ایپس آپ کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ آپ جتنی مرضی چاہیں غلط کام کریں کوئی آپ کو ذلیل کرنے والا نہیں ہوگا؛کیوں کہ آپ نے نام بدلا ہوا یا چھپایا ہوا ہے کوئی آپ کو جانتا ہی نہیں ہے کہ ذلت کی نوبت آئے۔

            ۱۶- جذبہٴ شہرت اور جذبہٴ رجائیت (publicity and pessimism):کسی دور دراز دیہات میں واقع ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں بیٹھا شخص ایک ویڈیو بناتا ہے، اور یہ ایپ اس کو یہ امید دلاتا ہے کہ اگر ویڈیو وائرل ہوگئی تو بہت سارے لوگ لائک کمینٹ کریں گے اور وہ مشہور ہوجائے گا تو بنا کچھ خرچ کیے گھر بیٹھے کون ایسی شہرت نہیں چاہے گا؟

            ۱۷- جذبہٴ طلبِ التفات (drawing attention):اسے دوسروں کی توجہ پسند ہوتی ہے اور سوشل میڈیا اسے لوگوں کی توجہ فراہم کرکے دیتا ہے۔

            ۱۸- جذبہٴ شہوت (vulgarity):انٹرٹینمنٹ کے جلو میں ننگے پن کو غیر محسوس طور پرعام کیا جارہا ہے اور انسان شہوت کا بھوکا ہوتا ہے۔

            ۱۹- جذبہٴ جستجو (curiosity & exploration):انسان کی کھوجی فطرت جو بھی سرچ کرتی ہے وہ اسے آسانی سے اس ایپ پر دستیاب ہوتا ہے؛ اس لیے بھی آدمی یہ ایپس استعمال کرتا ہے۔

            ۲۰- جذبہٴ تخلیقیت (creativity):اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں دنیا کو مواد دے رہا ہوں اسی لیے یہ فضول کے ایپس بھی اپنے بہترین ٹاپ یوزرس کو کنٹینٹ کرئیٹر (مواد کا تخلیق کار) کے اوارڈ سے نوازتے ہیں، ہے نا مزے کی بات اور تخلیقیت بھی کیسی؟ لپ سنکنگ جس میں آدمی الفاظ کے مطابق ہونٹ ہلانے اور ایکسپریشن دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا۔

            ۲۱- ماحول سے متاثر ہونا ( adopting from surroundings):انسان اپنے ماحول کا پروردہ ہوتا ہے تو وہ جو چیز اپنے ارد گرد دیکھتا ہے کرتے ہوئے وہی کرنا شروع کردیتا ہے، تو کمپنیاں صرف صارف کی پسند کا خیال نہیں رکھ رہی ہوتیں؛ بلکہ کچھ ایجنڈوں کے ساتھ وہ ایڈورٹائزنگ وغیرہ کے ذریعے ہمارے خواہشات کو کنٹرول بھی کررہی ہوتی ہیں، پھر جب انسان اس برائی کو معاشرے میں عام دیکھتا ہے تو خودبھی اس میں ملوث ہوجاتا ہے۔

            ۲۲- عدم مقصدیت (lack of objectivity):چوں کہ اس کی زندگی کا کوئی خاص مقصد ہے نہیں؛ اسی لیے وہ اپنی زندگی بس انٹرٹینمنٹ اور تفریح کے حوالے کردیتا ہے، کل ملاکر ان ایپس کے ایڈکشن کی وجہ ہے ہر قسم کی ویڈیوز مثلاً انٹرٹینمنٹ، معلوماتی، جذباتی، شہوانی، اخلاقی اور جمالیاتی ویڈیوز کا ایک ہی جگہ سمٹ کرآجانا، اسی طرح یہ ایپس لپ سنکنگ کے ذریعے اپنے جذبات کے اظہار اور ایکٹنگ کے ذریعے اپنے ٹیلینٹ کے مظاہرہ کا موقع بھی فراہم کررہی ہوتی ہیں۔

            ۲۳- مشن (mission):پب جی اور فری فائر گیم میں مذکورہ وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کو ایک مشن بھی دیا جاتا ہے اور انسان کی فطرت ہے مقصدیت، وہ بغیر مقصد اورمشن کے زیادہ دن خوشی خوشی نہیں گزارسکتا خواہ وہ فیک اور غلط ہی کیوں نہ ہو، اب پب جی اور فری فائر ان کو وہ مقصد اور مشن فراہم کررہا ہے۔

            ۲۴- جذبہٴ تقابل (competition & comparison):ہم ایک curated life جینے لگے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی زندگیوں کی سب سے بہترین چیزوں اور لائف اسٹائل کو لے کر خواہ وہ مصنوعی اور فیک کیوں نہ ہو اپنی زندگی کی سب سے بدترین چیزوں سے موازنہ کررہے ہوتے ہیں، اور وہ لوگ پھر اپنے لیے اس شخص کو آئیڈیل بنالیتے ہیں مطلب ان کی زندگی کی کمیاں اور ہماری زندگی کی خوبیاں ہماری نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں، جس کا نتیجہ عموماً ڈپریشن اور مایوسی کی صورت میں باہر آتا ہے۔

            ۲۵- باطل نے ہر لفظ کا مفہوم بدل کر رکھ دیا ہے (change the culture by changing norms or meaning of norms) : یہ باطل کا سب سے بڑا حربہ ہے کہ وہ یا تو کسی برائی کو اچھے نام سے تبدیل کردیتے ہیں مثلاً ایک لفظ ہے رنڈی دوسرا لفظ ہے طوائف، تیسرا ہے ویشیا، چوتھا لفظ ہے پروسٹیٹیوٹ (prostitute) اور پانچواں لفظ ہے اسکورٹ escorts اور پانچوں کے معنی ایک ہی ہیں؛ لیکن ہر لفظ سے پیدا ہونے والی قباحت کو اپنے ذہنوں میں لائیے آسمان زمین کا فرق نظر آئے گا اسی طرح لفظ وہی ہے؛ مگر اس کے مفہوم کو بدل دیا جاتا ہے جیسے اسلام کو انفرادیت میں محدود کردینا، ڈانس کو کلچر کا حصہ بنانا، انٹرٹینمنٹ میں فحاشی کا مفہوم شامل کردینا وغیرہ وغیرہ، اور اس کام کے لیے انہوں نے ٹکنالوجی کا بہت موثر استعمال کیا ہے، اس کے کیا مضر اثرات ہورہے ہیں؟

            (۱) عدم ارتکاز:اتنی ساری مشغولیات اس کی زندگی میں ہیں کہ وہ کسی ایک چیز پر چاہ کر بھی فوکس نہیں کرسکتا۔

            (۲) جہل میں اضافہ:آج کم وقت میں ہم کو ڈھیر ساری معلومات حاصل ہورہی ہوتی ہیں جو ہمیں بہت زیادہ معلوماتی آدمی تو بناتی ہیں؛ مگر ان معلومات کی پروسیسنگ اورتجزیے کا وقت ہی نہیں ملتا جو کہ علم کی بنیاد ہے تو ہم معلومات فراہم کر رہے ہیں مگر علم والے نہیں بن پارہے ہیں۔

            (۳) جہل مرکب:وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میرے پاس جتنی معلومات ہیں اتنی کسی اور کے پاس نہیں ہیں؛ لہٰذا میں سب سے بڑا عالم ہوں مجھے سب کچھ آتا ہے؛ حالاں کہ اس کی حیثیت گدھے پر لدے کتابوں سے زیادہ کچھ نہیں؛ اسی لیے میں اس انفارمیشن کو انفارمیشن نیوکلیئر بم کہا کرتا ہوں جس نے انسان کے ذہن کو تباہ و معطل کرکے رکھ دیا ہے۔

            فرینکلن یونیورسٹی شکاگو کی رپورٹ کے مطابق اب انسان کی عام توجہ کا عرصہ گھٹ کر صرف آٹھ سیکنڈ رہ گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے انفارمیشن اور معلومات کی بھرمار۔

            (۴) ڈپریشن اور مایوسی:پھر اس نے اپنی مصنوعی زندگی میں ملنے والی گالیوں، غلط رویوں اور چھوٹے چھوٹے واقعات اور پریشانیوں کو اپنے اوپر سوار کرلیا اور یوں وہ ڈپریشن کا شکار ہوگیا۔

            (۵) سیلفش:اس کو اپنے خیالات و مشغولیات اور انٹرٹینمنٹ سے اتنی فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی اور کے بارے میں سوچے۔

            (۶) بدزبانی:مصنوعی دنیا کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں کوئی دیکھ ریکھ کرنے والا تنبیہ کرنے والا روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا پھر وہاں ایک شریف انسان بھی وحشی بھیڑیا بن جاتا ہے، غلاظت انڈیلتا ہے، حقیقی دنیا میں جو نہیں کرپاتا وہ وہاں کرنے کی کوشش کرتا ہے، ماں بہن کی گالیاں نکالتا ہے، اپنے مخالف کو ریپ کی دھمکیاں دیتا ہے۔

            (۷) تشدد:واٹس ایپ یونیورسٹی فیسبک ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے، نفرت بھرے مواد اور ویڈیوز دکھا کرکے فرقہ پرست انتہاپسند طاقتیں اس کے اندر تشدد کو جنم دے رہی ہوتی ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا اتنا اچھا ہنسنے کھیلنے والا بھائی یا بیٹا اتنا زہرناک ہوچکا ہے اسی طرح پب جی گیم میں گولی مارنے کی عادت خود انسان کو حقیقی زندگی میں غیرمحسوس طور پر متشدد بنارہی ہوتی ہے۔

            (۸) منشیات کا عادی بننا:انسان جب اپنے ذہن میں بنائے ہوئے کامیابی کے معیار پر اترتے ہوئے لوگوں کو نشہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ خود بھی ان کی اقتداء میں نشے کا عادی بن جاتا ہے۔

            (۹) خیر و شر کا خلط ملط ہو جانا:اب خیرِ محض کا تصور مٹنے لگاہے، چاہے ہم خیرکی نیت سے ہی کیوں نہ ٹکنالوجی کا استعمال کررہے ہوں ہمیں خواہی نہ خواہی شرکا سامنا کرنا پڑتا ہے، ٹکنالوجی اسی الگورتھم (algorithm) پر کام کررہی ہے۔

            (۱۰) احساس کمتری:(inferiority complex) وہ چاہتا ہے تعریف اور توجہ، مگر یہ بسا اوقات نہیں مل پاتی نیز تقابل میں ہمیشہ اپنے اوپر والوں کو سامنے رکھنا اسے احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے کیوں کہ اس کی نگاہ میں یہ حدیث نہیں ہوتی ”انْظُرُوا إِلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْکُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَی مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ, فَہُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ“․

            (۱۱) تنہائی:چوں کہ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دنیا ہے جس میں بظاہر تو لگتا ہے کہ وہ بہت سے دوستوں سے جڑا ہوا ہے؛ مگر وہ بس عارضی ہوتا ہے، اور انسان جسمانی قرب کا محتاج ہوتا ہے تو یہ فکر اس کو اندر سے کھائے جاتی ہے کہ جب حقیقتاً ضرورت پڑے گی تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگا مجھے، اور عموماً یہی ہوتابھی ہے۔

            (۱۲) عدم توازن:اس اسکرین لائف کی وجہ سے اس کی زندگی کے ہر حصے سے توازن ختم ہوگیا مثلاً موبائل میں مشغولیت کی بنا پر اس نے بیوی بچوں والدین کو کم وقت دینا شروع کیا اور یوں فیملی سسٹم تباہ ہوکر رہ گیا۔

            (۱۳) خودکشی:اور اسی عدم توازن، ڈپریشن، اور احساس کمتری وغیرہ جیسی وجوہات کی بنا پر ڈبلیو ایچ او (WHO)کے مطابق 1999 سے 2019 تک خودکشی کی شرح میں ٪33کااضافہ ہوگیا ہے اور ہر سال سات لاکھ لوگ خودکشی کررہے ہیں اور خودکشی کی کوشش کرنے والوں اور سوچنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

            (۱۴) پرائیویسی خطرے میں:ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ کوئی نہیں دیکھ رہا مگر انٹرنیٹ پر کی گئی ہر چیز کا ڈاٹا محفوظ رہتا ہے اور ہماری پرائیویسی بس نام کی پرائیویسی رہ گئی ہے۔

            (۱۵) بلیک میلنگ:مجھے غالب گمان ہے اس بات کا کہ جتنے بھی بڑے ایکٹوسٹ اور قائد قسم کے لوگ ہیں جب یہ ان حکومتوں اور کمپنیوں کے لیے درد سر بن جاتے ہوں گے تو یہ انھیں ڈاٹا (مثلاً غلطی سے فحش مواد دیکھنا، پرسنل معلومات وغیرہ وغیرہ) کے ذریعے سے ان کو بلیک میل کرکے خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہوں گے، اور اسی وجہ سے اس وقت دنیا کی سب سے ابھرتی ہوئی سونے سے بھی زیادہ قیمتی شئی ڈاٹا انڈسٹری ہے جس کا مارکیٹ سائز 2022 میں 274 بلین ڈالر تک ہوجائے گا۔

            خلاصہ یہ کہ اس ٹکنالوجی نے پہلے انٹرٹینمنٹ کا معنی و مفہوم ہمارے نظروں میں تبدیل کیا اور اسے جسمانی حرکت سے جسمانی جمود میں شفٹ کیا پھر ”ان النفس لأمارة بالسوء“ میں جو نفس ہے اس کی نفسیات کا مطالعہ کرکے ایڈکشن اور لت لگانے کے طریقوں کو اپلائی کرتے ہوئے انٹرٹینمنٹ اور اسکرین کا تناسب ہماری زندگیوں میں غیر معمولی حد تک بڑھا دیا، اور پھر خیر و شر کو خلط ملط کردیا، اور یوں ہمارا نوجوان یعنی مابعدِ جدیدیت والی نسل ذہنی، تعلیمی، تفریحی، اخلاقی غرض ہر سطح پر ڈسرپشن disruption، کش مکش اور انتشار کا شکار ہے اور اب یہ ٹکنالوجی میٹاورس (Meta Verse) کے ذریعے اپنے عروج و انتہا کوپہنچنے والی ہے۔

مضر اثرات سے اپنے نوجوانوں کو کیسے بچایا جائے؟

            ۱- انھوں نے گناہ کرنے کو آسان بنایا ہے ہمیں اسے مشکل بنانا ہے۔

            ۲- تعلیم کو انٹرٹینمنٹ کی شکل میں پیش کرنا ہے۔

            ۳- اس کی خوشی کے مفہوم کو پھر سے تبدیل کرنا ہے۔

            ۴- ہمیں اپنے نوجوانوں کو مقصد اور مشن دینا ہے۔

            ۵- اس کے آئیڈیل اور ہیرو کو بدلنا ہے:انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کو اپنا ہیرو بناتا ہے اور سب سے بڑا ہیرو وہ ہوتا جس نے سب سے بڑی پریشانیوں کو سامنا کرکے اس کو مات دی ہو تو ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ اور تجزیہ کرکے ان کو بطور ہیرو پیش کرنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کتنی مشکلات تھیں اور انہوں نے کیسے ان سب سے ڈیل کیا۔

            ۶- مظاہر تبدیل کیے جائیں کیوں کہ مظاہر بواطن یعنی دل و دماغ کو بدلنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

            ۷- ان کو رئیل لائف میں اتنا مشغول کیا جائے کہ ریل لائف کے صحیح استعمال کے علاوہ غلط استعمال کا اس کو موقع ہی نہ ملے، کیوں کہ یاد رکھیں جب تک اسکرین پر ہے، وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے۔

            ۸- کل ملاکر ہمیں بھی نفس کی انھیں نفسیات کا مطالعہ کرکے ان فطری خواہشات کو خیر کی طرف موڑنا ہے، ٹکنالوجی کے ذریعے اسے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہے اور اسی پر مزید ریسرچ اور فیلڈ ورک کے لیے ہم نے پروجیکٹ ”تقویتِ امت“ لانچ کیا ہے، دعا فرمائیں کہ رب کریم اخلاص و للہیت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطافرمائے اور لوگوں کے دلوں کو امت محمدیہ کی ترقی کے لیے مسخر فرمادے!

————————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts