از: مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانی

            ”عورت“ سماج کا اٹوٹ حصہ اور اہم ترین عنصر ہے،اسی کے وجود سے کائنات ہستی میں رنگ و نکہت ہے،اسی کے دم قدم سے زندگی کا سوز و ساز ہے،عورت کے بغیر دنیا کی رنگینی کوئی معنی نہیں رکھتی اور عورت سے ہٹ کر پرلطف زندگی کا تصور نہیں کیاجاسکتا؛یہی وجہ ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک خاتون کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا اور اپنی محبوب چیزوں میں خوشبو کے ساتھ ساتھ عورت کا بھی ذکر فرمایا۔(مسند احمد)

            انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ جاہلیت قدیمہ میں عورت کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتا تھا؟کتنے مظالم ڈھائے جاتے تھے؟کن حالات سے گزاراجاتاتھا؟اگر مختصر الفاظ میں کہاجائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ بعثت نبویﷺسے قبل عورت کی زندگی ذلت و پستی،مملوکیت و غلامی اور ظلم و استحصال سے عبارت تھی؛مگر جب اسلام آیا تو اس نے عورت کوسر بلندی عطا کی،اس کی قدر و منزلت کو آشکار کیا،اسے بلندمقام دیااور قابل احترام شخصیت قرار دیا،پھر اس کے حقوق متعین کیے،اس کے فرائض و واجبات طے کیے اور اسے مردوں کی طرح بہت سے معاملات میں مساوی حقوق سے سرفرازفرمایا۔

            تحفظ نسواں کے حوالے سے اسلام نے عورتوں کے لیے جو حدود مقرر کیے اور جن احکام پر عمل آوری کی تاکیدکی ان میں سرفہرست پردہ اور حجاب ہے؛اس لیے کہ حجاب کے بغیر عورت کی حفاظت کا تصور تک نہیں کیاجاسکتا،بنا بریں وابستگان اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے سنجیدہ افراد نے بھی فواحش و منکرات کے انسداد کا اگر کوئی حل بتلایا ہے تو وہ صرف اسلام کا نظامِ پردہ و حجاب ہے۔

ستر اور حجاب کے درمیان فرق

            عورت کے پردے کے بارے میں اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ ستر اور حجاب کے درمیان یاتو فرق ہی نہیں کرتے یا فرق کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے؛ جب کہ شریعت ِاسلامیہ میں ان دونوں کے الگ الگ احکام بیان کیے گئے ہیں۔ حضر ت مولانا مفتی محمدشفیع دیوبندی  معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ستر ِعورت اور حجابِ نساء یہ دومسئلے الگ الگ ہیں۔ستر عورت ہمیشہ سے فرض ہے،حجاب نساء سن ۵/ ہجری میں فرض ہوا۔ستر عورت مرد وعورت دونوں پر فرض ہے اور حجاب صرف عورتوں پر۔ستر عورت لوگوں کے سامنے اور خلوت دونوں میں فرض ہے،حجاب صرف اجنبی کی موجودگی میں ضروری ہے۔(معارف القرآن،ج7،ص212)

            عورت کا ستر یہ ہے کہ وہ اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے سوا اپنا پورا جسم چھپائے گی، جس کا کوئی حصہ بھی وہ اپنے شوہر نیزگھر میں محرم مردوں(باپ،بھائی،بیٹے) کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں کھول سکتی؛البتہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے پورے جسم کو شہوت اور بغیر شہوت دونوں طرح دیکھ سکتے ہیں اور چھو بھی سکتے ہیں۔ شوہر کے علاوہ دیگر محارم کے سامنے مثلاً باپ، بھائی، بیٹا، بھتیجا وغیرہ کے سامنے چہرہ، سر، بال، گردن، بازو اور گھٹنے سے نیچے کا حصہ بہ وقت ضرورت کھو لا جاسکتا ہے، مثلاً فرش دھوتے وقت پائنچے اوپر چڑھا لینایا آٹا گوندھتے وقت آستین اوپر کر لینا وغیرہ۔ اور محرم رشتہ دار بھی عورت کے مذکورہ بالا حصوں کو بغیر شہوت کے دیکھ اور چھو سکتے ہیں او راگر فتنہ کا خطرہ ہو تو محرم کے سامنے بھی ان اعضا کو کھولنا جائز نہیں۔ اگر کوئی محرم ایسا بے حیا ہو کہ اس کو عزت اور ناموس کی پروانہ ہو، وہ نامحرم کے حکم میں ہے اور اس سے پردہ ہی کرنا چاہیے۔

            یہ تفصیلات تو عورت کے ستر سے متعلق تھیں،حجاب کا حکم سترِ عورت پر مستزاد ہے،وہ یہ کہ جب عورت گھر سے باہر کسی ضرورت کے لیے نکلے یا گھر کے اندر غیر محرم مردوں سے سامنا ہوتو اس صورت میں عورت جِلباب یعنی بڑی چادراوڑھ لے؛تاکہ اس کا پورا جسم ڈھک جائے، ایسے ہی چہرے پر بھی چادرکا ایک پلو ڈال لے۔ اب وہ صرف اپنی آنکھ کھلی رکھ سکتی ہے، باقی پورا جسم چھپائے گی۔ یہ چہرے پر نقاب کا حکم ہے، اجنبی مردوں سے عورت کا یہی پردہ ہے جسے ’حجاب‘ کہا جاتا ہے۔ اُردو زبان میں اسے ’گھونگھٹ نکالنا‘ بھی کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ارشاد خداوندی ہے:”اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنہیں کوئی نہ ستائے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“(الاحزاب)

            ایک اورموقع پر حق تعالی شانہ نے ارشاد فرمایا:”اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں۔“(الاحزاب)اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپالیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔

             ابن جریراور ابن منذر رحمہما اللہ کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔(حضرت عبیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہوچکے تھے؛ مگر حاضر خدمت نہ ہوسکے تھے۔ حضرت عمر کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اُنھیں فقہ اور قضا میں قاضی شریح کے ہم پلہ مانا جاتا تھا۔)اُنہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھاکہ پورا سر،پیشانی اور پورا منہ ڈھانک لیا اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔

            اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایسا برقعہ جو چہرے کے علاوہ سارے جسم کو چھپائے وہ شرعی برقعہ نہیں ہوسکتا؛کیوں کہ شرعی اعتبار سے چہرہ بھی پردے کے تحت داخل ہے اور آج کل بہت سی ماڈرن خواتین چہرے کو پردے سے خارج سمجھ کر کھلے عام یوں ہی گھوم پھر رہی ہیں اور زبان حال سے مردوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں۔

حجاب سے بے حجابی تک

            جاہلیت قدیمہ کی طرح جاہلیت جدیدہ میں ایک بار پھر عورت کی عزت و ناموس پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں،ان کی عصمتوں سے کھلواڑ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،انھیں برہنہ و نیم برہنہ کرکے سر بازار رسوا کیا جارہاہے اور ایک منصوبہ بند سازش کے تحت انھیں شمع خانہ کے بجائے چراغ محفل بنایا جارہاہے،کل تک علماء و مصلحین خورد و نوش، لباس و پوشاک اور رہن سہن کے مغربی ہونے کا شکوہ ہی کرتے رہے کہ اب برقع اور حجاب بھی تجدد کی راہ پرچل پڑے ہیں،دیکھنایہ ہے کہ یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہوگا؟؟؟

            کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک غیرت مند مسلم خاتون ماضی قریب تک حجاب کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی مصالحت کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی،اولاً تو وہ بے ضرورت گھر سے باہر ہی نہیں نکلتی تھی اور ثانیا ًکسی ضرورت سے نکلنا پڑجاتا تو اس طرح پردے اور حجاب کا اہتمام کرتی تھی کہ پہچاننا مشکل ہوجاتا تھا؛مگر افسوس صد افسوس کہ اب یہی مسلم خواتین جدت پسندی اور ماڈرنائیزیشن کا شکار ہوگئیں،کل تک جو برقعے لباس و جسم کے جمال کو چھپایا کرتے تھے آج وہی سرعام دعوت نظارہ دے رہے ہیں،افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ نہ صرف خواتین کو ؛بل کہ سرپرستوں اور ذمہ داروں کوبھی اس کا احسا س تک نہیں۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

            مولانا ڈاکٹر محمد ادریس حبان رحیمی لکھتے ہیں:بعض مسلم خواتین کے اندر بے حجابی کا نظریاتی اور عملی رجحان کہیں نہ کہیں یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ مذہب پر ہماری گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے۔ قرآن کو اللہ کی کتاب سمجھنا اور پھر اس کے کچھ احکام کو ماننا اور کچھ کو نہ ماننا، کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ہم اللہ کی مکمل اطاعت کرنے کی بجائے بعض معاملات میں اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ اسلام ایک عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا سرڈھک کر رکھے، باہر نکلتے وقت چادر اس طرح اوڑھ کر نکلے کہ جسم کے نشیب وفراز نمایاں نہ ہوں۔ آواز پیدا کرنے والے زیور پہن کر نہ نکلے، ایسی خوشبو استعمال نہ کرے، جس سے لوگوں کی توجہ بطور خاص اس کی طرف ہوجائے۔ کسی نامحرم سے تنہائی میں نہ ملے، اس کی باتوں میں لچک اور لوچ نہ ہو کہ کوئی بدطینت اپنے دل میں گندے خیالات پیدا کرلے۔ زینت کی چیزیں دانستہ ظاہر نہ کرے۔ بغیر محرم کے تنہا سفر نہ کرے، میل جول کی خواتین سے بے تکلفی برتے، ان خواتین سے نہیں جو اس کے لیے اجنبی ہوں۔وغیرہ

            آج تعلیم کے راستے سے بے حجابی کی جو وبا پھیل رہی ہے اس پر ملت کے ہمدردوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اپنی تہذیب اور اس کی شناخت کو بچانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم بچیوں کی تعلیم کا علاحدہ انتظام کریں، ذمہ دار استانیوں سے ان کی تربیت کرائیں، امور خانہ داری میں انھیں طاق بنائیں اور انھیں ان کے فرائض کی یاد دہانی کرائیں۔ (ملخص ازعورت پر اسلام کی مہربانیاں)

برقعہ کے شرائط واوصاف

            اخیر میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسلام میں کون سا برقعہ پہننا جائز ہے اور کون سا ناجائز؟قرآن و حدیث کی تصریحات اور مفسرین و محدثین کی توضیحات کو پیش نظر رکھتے ہوئے،کن شرائط کی رعایت ضروری ہے؟ حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی امام ابوبکر جصاص رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ:مزین برقعہ پہن کر نکلنا ناجائز ہے؛کیوں کہ جب زیور کی آواز تک کو قرآن نے اظہارِ زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزیّن رنگوں کے برقعے پہن کر باہر نکلنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا۔

            مختصریہ کہ:فقہاء کرام کے مطابق برقعہ درج ذیل شرائط پرپورا اترنا چاہیے،تبھی اس سے پردے کا مقصدحاصل ہوگا ورنہ نہیں:

            ۱- برقعہ سادہ ہو، اس میں نقش ونگار اور زیب وزینت نہ ہو،اور نہ ہی ایسا رنگ ہو جو جاذبِ نظر ہونے کی وجہ سے مردوں کی توجہ کا سبب بنے۔

            ۲- برقعہ چست نہ ہو کہ اس سے جسم کی ہیئت اور نشیب وفراز ظاہر ہو؛ بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو، جس سے جسم نمایاں نہ ہوتا ہو۔

            ۳- برقعہ باریک نہ ہو؛ جس سے جسم یا جسم کا لباس ظاہر ہوتا ہو؛ بلکہ وہ اس قدر موٹا ہو جس سے جسم اور اس کا لباس نظر نہ آئے۔

            ۴- برقعہ اس قدر بڑا ہو جس میں جسم اچھی طرح چھپ جائے۔

            ۵- برقعہ مردوں کے لباس کے مشابہ نہ ہو، اسی طرح کافروں یا دین بیزار عورتوں کے فیشنی برقعہ کے مشابہ بھی نہ ہو؛ کیوں کہ ان لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

            ۶- برقعہ پرمہکنے والی خوشبو بھی نہ لگائی جائے، جو مردوں کے لیے فتنے کا سبب بنے۔(ملخص از: عورت کا پردہ اور برقعہ کیسا ہونا چاہیے؟ ماہ نامہ بینات کراچی)

            خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان عورتوں کے ایمان اور حیا کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایسا برقعہ پہننے کا اہتمام کریں جس میں مذکورہ بالا شرائط پائی جاتی ہوں، جیسا کہ بعض علاقوں میں ٹوپی والے برقعے رائج ہیں، جن میں یہ شرائط پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے برقعے پہننا جو نقش ونگار والے ہوں،جاذبِ نظر ہوں، چست یا باریک ہوں، جس سے جسم نمایاں ہوتا ہو تو واضح رہے کہ یہ ناجائز ہے۔ اسی طرح مرد حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خواتین کو ایسے ناجائز برقعوں سے منع کرکے جائز برقعے پہننے کا پابند بنائیں۔حق تعالی تمام کو توفیق عمل نصیب فرمائے۔آمین

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts