از: مفتی محمد وقاص رفیع

اسلام آباد

            ارکانِ اسلام؛ نماز، روزہ، حج اور زکوٰة یعنی فرائض کے بعد حلال مال کمانا فرض ہے اور یہ صرف اُس شخص کے ذمہ ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ضروری خرچ کے لیے مال کا محتاج ہو۔ باقی وہ شخص جس کے پاس ضرورت کے بقدر مال موجود ہو مثلاً وہ صاحب جائیداد ہے یاکسی اور طرح سے اُس کو مال میسر ہے تو اُس کے ذمہ یہ فرض نہیں رہتا؛اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے؛ تاکہ بندہ اپنی ضروری حاجتیں پوری کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجائے؛ کیوں کہ رہنے سہنے، کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے بغیر صحیح طرح سے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں ہوسکتی۔ گویا اصل مقصود مال کمانا نہیں ہے؛ بلکہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یک سوئی سے مشغول ہونا مطلوب ہے۔

            قرآنِ مجید میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”ہم نے دن کمائی کرنے کے لیے بنایا“(سورةالنبا:۱۱) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ”ہم نے زمین میں تم کو جگہ دی اور اُس میں تمہارے لیے روزیاں مقرر کردیں، تم بہت کم شکر کرتے ہو“(سورة الاعراف:۱۰) ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ”کتنے لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کا فضل (یعنی رزق) ڈھونڈنے کے لیے پھریں گے“ (سورةالمزمل:۲۰)ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ”زمین میں پھیل جاوٴ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو“ (سورة الجمعہ:۱۰)

            شریعتِ اسلام نے کسبِ حلال کو عبادات میں شمار فرمایا ہے اور اس کے بے شمار فضائل بتلائے ہیں؛ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی:۸۶۱۰)

            اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا(اصل) فرائض کے بعد فرض ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۹۹۹۳)

             حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے بھی حلال مال کماکر خود اپنے کھانے اور پہننے میں خرچ کیا یا اپنے علاوہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی دوسرے کو کھلایا یا پہنایا تو یہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہوگا۔(صحیح ابن حبان:۴۲۳۶)

            حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داوٴد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔(صحیح بخاری:۲۰۷۲)

            اِس سے معلوم ہوا کہ مطلق مال کمانا فرض اور واجب عبادت نہیں؛بلکہ حلال اور جائز طریقے سے مال کمانا عبادت ہے۔حرام یا مشتبہ مال کمانا عبادت تو کجا اُلٹا سخت گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے؛ لیکن افسوس کہ آج کل لوگ مال کمانے کی حرص میں اِس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے کہ حلال طریقے سے کما رہے ہیں یا حرام طریقے سے؛بلکہ آج کل تو لوگ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اوردو نمبری کے ذریعہ مال کمانے کو کمالِ ہنر سمجھتے ہیں اور اسے اپنی ہوشیاری و چالاکی خیال کرتے ہیں؛ حالاں کہ حقیقت میں یہ دوسروں کے ساتھ نہیں؛ بلکہ اپنے ساتھ ہی دھوکہ فریب ہے اور ”نیکی برباد گناہ لازم“ کا مصداق ہے۔

            چناں چہ قرآنِ مجید ا ور ا حادیث مبارکہ میں متعدد جگہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز اور ناحق طور پر کھانے سے بڑی سختی سے منع کیا ہے؛چناں چہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاوٴ!اِلا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجود میں آئی ہو(تو وہ جائز ہے)(سورة النساء:۲۹)علماء نے ناحق طریقے سے مال کھانے کے ضمن میں بے شمار چیزیں ذکر کی ہیں، جن میں سے ڈکیتی،چوری، رشوت، سود، جوا،غصب، خیانت ، ناپ تول میں کمی بیشی، دھوکہ دہی،ذخیرہ اندوزی ، مالِ یتیم میں خرد برد اور جھوٹی قسم سے حاصل کیا گیا مال سر فہرست ہے۔

             حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاوٴ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے موٴمن بندوں کو دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاوٴ! اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم:۱۰۱۵، جامع ترمذی:۲۹۸۹)

            چنانچہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ”مستجاب الدعاء“ لوگوں کی ایک جماعت تھی۔جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا، اُس کے لیے بد دعا کرتے، وہ ہلاک ہوجاتا۔حجاج ظالم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اُس نے کہا کہ میں ان لوگوں کی بد دعا سے محفوظ ہوگیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ میں داخل ہوگئی۔(فضائل رمضان:۲۹)

            حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ”ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے لیے دُعا کیجیے کہ میں ”مستجاب الدعوات“ ہوجاوٴں!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اپنے کھانے کو پاک کرو!“ اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا۔ جس شخص کا بدن حرام مال سے بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اورکچھ بھی نہیں ہے۔“ (المعجم الاوسط للطبرانی: ۶۴۹۵)

            حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا؛ لیکن اُس میں ایک درہم حرام کا تھا ، تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا، اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔“ (مسند احمد:۵۷۳۲)

            حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت میں ہے کہ: ”جس نے حرام مال سے کرتا پہنا تو اُس کی نماز قبول نہیں۔(مسند بزار:۸۱۹)

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”منہ میں خاک ڈال لینا اِس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص حرام مال اپنے منہ میں ڈالے۔“ (شعب الایمان:۵۳۷۹)

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”اگر کسی نے حرام مال جمع کیا، پھر اُس میں سے زکوٰة ادا کی یا صدقہ دیا، تو اُس کو اِس کا کچھ اجر نہیں ملے گا؛ بلکہ اُلٹا اُس کو اِس کا وبال ہوگا۔“ (صحیح ابن حبان:۳۲۱۶،۲۲۶۷،مستدرک حاکم:۱۴۴۰، شعب الایمان:۳۲۰۲)

            حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: “حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کو فرمایا کہ تم ایسا کام کر رہے ہوجس سے پہلی اُمتیں ہلاک ہوچکی ہیں۔“ (ترمذی:۱۲۱۷)

            حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”ناپ تول میں کمی بیشی سے ”قحط“ پڑ جاتا ہے، جس طرح ”زنا“ کی کثرت سے ”طاعون“ مسلط ہوجاتا ہے۔“ (ابن ماجہ:۴۰۱۹، شعب الایمان:۱۰۰۶۶)

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ (صحیح مسلم:۱۰۱)

            حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس نے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور دھوکہ اور فریب (دونوں دوزخ کی ) آگ میں (لے جانے والے) ہیں۔“ (المعجم الصغیر للطبرانی:۷۳۸)

            حضرت ابوالحمراء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ”ایک شخص نے سوکھے گیہوں اوپر رکھ چھوڑے تھے اور گیلے اندر کردیے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اُٹھاکر دیکھا اور فرمایا کہ: ”جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ (ابن ماجہ:۲۲۲۵)

            حضرت معمر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: ” غلہ مہنگا کرنے کے لیے خطا کار شخص ہی روکتا ہے۔“ (ترمذی:۱۲۶۷، صحیح مسلم:۱۶۰۵)

            حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس شخص نے چالیس دن سے زیادہ ”غلہ“ کو روکا تو اللہ تعالیٰ کا اُس سے کوئی واسطہ نہیں۔“ (مصنف ابن ابی شیبہ :۲۰۳۹۶، مسند احمد:۴۸۸۰، مسند ابی یعلی :۵۷۴۶، مستدرک حاکم:۲۱۶۵)

             حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”غلہ کو روکنے والا ملعون ہے۔“ (ابن ماجہ:۲۱۵۳، سنن دارمی:۲۵۸۶)

            حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جو شخص غلہ کی گرانی میں کوشش کرتا ہے اور نرخ میں دخل اندازی کرکے غلہ کا بھاوٴ مہنگا کردیتا ہے تو ایسا شخص اِس قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی تہہ میں ڈالے۔“ (مسند ابو داوٴد الطیالسی:۹۷۰، المعجم الاوسط للطبرانی:۸۶۵۱، مستدرک حاکم:۲۱۶۸)

            حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”جو شخص شدید ضرورت کے وقت غلہ کو روکے گا ، تو اللہ تعالیٰ اُس کو ”جذام“ اور ”افلاس“ میں مبتلا کردے گا۔“ (شعب الایمان:۱۰۷۰۴،مسند ابی داوٴد الطیالسی:۵۵)

            حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”بائع اور مشتری جب سچ بولتے ہیں تو برکت ہوتی ہے۔ جب کچھ چھپاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تو برکت ختم ہوجاتی ہے۔ جھوٹی قسم سے مال تو بک جاتا ہے؛ مگر برکت ختم ہوجاتی ہے۔“ (صحیح بخاری:۲۰۷۹، صحیح مسلم:۱۵۳۲)

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا کہ: ”جو شخص جھوٹی قسم کھاکر مال فروخت کرتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کی طرف نظر بھر کر بھی نہ دیکھے گا۔“ (صحیح بخاری:۲۳۶۹)

            کسبِ حلال اور کسبِ حرام کے درمیان تیسرا ذریعہ کسبِ مشتبہ کا ہے۔ یعنی ایسے طریقے سے مال کمانا کہ جس کے حلال اور حرام ہونے میں شک و شبہ ہوکہ بعض اعتبار سے اُس کا حلال ہونا معلوم ہورہا ہو اور بعض اعتبار سے اُس کا حرام ہونا معلوم ہورہا ہو۔ تو ایسے مال کا کمانا بھی حرام ہے؛چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔سو جو شخص شبہات سے بچا اُس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا اور جو شخص شبہات میں پڑگیاوہ حرام میں پڑجائے گا۔(بخاری و مسلم)حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات یاد رکھی ہوئی ہے کہ جو چیز شک میں ڈالے اُس کو چھوڑ دیا جائے اور اُس چیز کی طرف بڑھا جائے جو شک میں نہ ڈالے؛اِس لیے کہ صحیح چیز میں اطمینان ہوتا ہے اور غلط چیز میں شک ہوتا ہے۔ (مشکوٰة شریف)

            چناں چہ حافظ ابو قاسم طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے مشہور صحابی حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلی رضی اللہ عنہ کاایک واقعہ نقل کیا ہے کہ” ایک مرتبہ آپ نے اپنے غلام کو ایک گھوڑا خرید لانے کا حکم دیا ، وہ تین سو درہم میں گھوڑا خرید لایا اور گھوڑے کے مالک کو رقم دلوانے کے لیے ساتھ لے آیا ، آپ کو طے شدہ دام بھی بتلائے گئے ، اور گھوڑا بھی پیش کردیا گیا ، آپ نے اندازہ لگایا کہ گھوڑے کی قیمت تین سو درہم سے کہیں زیادہ ہے؛ چنانچہ آپ نے گھوڑے کے مالک سے فرمایاکہ : ”آپ کا یہ گھوڑا تین سو درہم سے زائد قیمت کا ہے، کیا آپ چار سو درہم میں فروخت کریں گے ؟ ۔“ اس نے جواب دیا : ” جیسے آپ کی مرضی ؟“ پھر فرمایا : ” آپ کے گھوڑے کی قیمت چار سو درہم سے بھی زائد ہے ۔ کیا آپ پانچ سو درہم میں بیچیں گے ؟ “ اس نے کہا کہ : ”میں راضی ہوں۔ “ اسی طرح آپ گھوڑے کی قیمت میں سو سو درہم کی زیادتی کرتے چلے گئے ۔ بالآخر آٹھ سو درہم میں اس سے گھوڑا خرید لیا اور رقم مالک کے حوالے کردی ۔آپ سے سوال کیا گیا کہ : ” جب مالک تین سو درہم پر راضی تھا ، تو آپ نے اسے آٹھ سو درہم دے کر اپنا نقصان کیوں مول لیا ؟ “ آپ نے فرمایا : ” گھوڑے کے مالک کو اس کی اصلی قیمت کا صحیح اندازہ نہیں تھا ، میں نے خیر خواہی کرتے ہوئے اس کو پوری قیمت ادا کی ہے ، کیوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ: ” ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی والامعاملہ کیا کروں گا ۔ میں نے اپنے اس وعدے کا ایفا کیا ہے۔ “ ( شرح مسلم للنووی : ج۱ص۵۵)

            حافظ ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تجارت میں اپنے ایک شریک کے پاس کپڑا بھیجا اور بتایا کہ کپڑے میں عیب ہے، خریدار کو عیب سے آگاہ کردینا، اُس نے وہ کپڑا فروخت کیا؛ لیکن خریدار کو عیب بتلانا بھول گیا، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جب معلوم ہوا اُس سے حاصل ہونے والی ساری قیمت صدقہ کردی، جس کی قیمت تین ہزار درہم تھی۔ (الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفة النعمان: ص۱۴۹)

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts