نام کتاب : ہدایة النحو (اردو حاشیہ کے ساتھ)
محشی : مولانا محمد معروف صاحب ، استاذ دارالعلوم دیوبند
صفحات : ۱۲۸
ناشر : مکتبہ بیت المعارف دیوبند، موبائل:۹۶۹۰۵۷۹۷۶۷
تعارف نگار : ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند
====================
”ہدایة النحو“ شیخ سراج الدین عثمان (م۷۵۸ھ) کی مفید ترین کتاب ہے،یہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید ہیں، کئی صدی سے مدارسِ اسلامیہ کے نصاب کا جز ہے، اس پر متعدد حواشی اور بہت سی شروحات لکھی گئی ہیں۔ یہ آٹھویں صدی ہجری کی تصنیف ہے، اس وقت اردو زبان پیدا ہوچکی تھی؛ مگر ابھی ”بولی“ سے ”زبان“ کے حدود طے کررہی تھی، فارسی کا دور دورہ تھا، ہندوستان کی حکومت اور عوام کی زبان فارسی تھی، اس زمانے میں کسی محقق نے اس کا فارسی حاشیہ لکھا تھا، یہ اس زمانے کے لحاظ سے بڑا مفید کام تھا، طلبہ اپنے نصاب میں گھربار اور دفاتر میں اسی زبان کی مزاولت رکھتے تھے، اب ہندوستان میں فارسی کی جگہ اردو نے لے لی ہے۔ فارسی زبان سے طلبہ ایک حد تک ہی واقف ہیں، ان میں بھی بہت سے طلبہ حواشی اور علمی موشگافیوں کو اس زبان میں پڑھنے سے عاجز ہوتے ہیں، دوم عربی میں اکثر طلبہ عربی زبان سمجھنے پر قدرت نہیں رکھتے؛ اس لیے وہ عربی حاشیہ اور شرح سے بھی فائدہ حاصل نہیں کرپاتے، تو وہ نہ تو فارسی سے مستفید ہوتے ہیں اور نہ عربی سے اور ان میں بھی جو طلبہ فارسی سے بالکلیہ دامن بچاکر عربی پڑھتے ہیں، ان کے لیے بھی فارسی حاشیہ بے کار ہے؛ اسی محرک کے پیش نظر جناب مولانا محمدمعروف صاحب زیدمجدہ نے اردو زبان میں حاشیہ تحریر فرمایا؛ جب کہ پہلے عربی میں حاشیہ نگاری شروع کرچکے تھے۔
غرض یہ کہ اس حاشیہ میں جتنی باتیں لکھی گئی ہیں وہ سب قابلِ اعتمادمراجع سے لی گئی ہیں، مثلاً درایہ، شرح جامی، الہامیہ اور رضی وغیرہ سے پختہ مواد جمع کیاگیا ہے، اگرچہ بعض مقامات پر حوالہ درج نہیں ہے۔ انداز بیان سادہ اور اختصار لیے ہوئے ہے، اس حاشیہ کی مدد سے ادنیٰ طلبہ بھی ہدایة النحو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، اس میں بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو اتنی تفصیل اور باریک بینی سے فارسی حاشیے میں نہیں ہیں۔ مثلاً عدد اور معدود کے اعراب کی بحث وغیرہ۔ کتابت ایسے کاتب سے کرائی گئی ہے جو علمی ذوق رکھتے ہیں، علم نحو سے بھی ان کو مناسبت ہے۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ خوش خطی کے صدر جناب مولانا قاری عبدالجبار قاسمی زیدمجدہ ہیں، موصوف کو ”قرآن مجید“ کی کتابت کا شرف حاصل ہے ایک نسخہ تو ”محمود المصاحف“ کے نام سے چل پڑا ہے اور دوسرے کی کتابت میں لگے ہوئے ہیں، اُن کا نحوی ذوق پختہ ہے؛ اس لیے غلطیاں نظر نہیں آتیں، یہ حاشیہ اردو شروح سے مستغنی کرنے والا ہے۔ کتابت میں عربی متن کے بین السطور کی فارسی اور عربی عبارت کو جوں کا توں لکھا گیا ہے؛ حالاں کہ اس کو بھی اردو میں لکھنا چاہیے۔ شاید اگلے ایڈیشن میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔
راقم حروف کی نگاہ میں یہ کام مفید ہے، کمزور اور متوسط استعداد کے طلبہ اس سے مستفید ہوں گے اور بچوں سے زیادہ بچیوں کے مدرسوں میں زیادہ مقبول ہوگی؛ اس لیے کہ وہاں طالبات کے ساتھ استانیوں کی استعداد بھی قدرے کچی ہوتی ہے۔ اللہ کرے یہ حاشیہ اصل کتاب کی طرح اردو خواں حلقے میں ہاتھوں ہاتھ لیاجائے۔ محشی مبارک بادی کے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ قبولیت سے نوازیں اور بیش از بیش خدمات کا موقع عنایت فرمائیں!
———————————————–
دارالعلوم ، شمارہ1۔2، جلد: 106 ، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء
٭ ٭ ٭