محمد سلمان بجنوری

            ۱۰/دسمبر ۲۰۲۱/ بروزجمعہ، سعودی عرب کی مساجد میں عام طور پر جو خطبہ پیش کیاگیا وہ تبلیغی جماعت کے موضوع پر تھا، جس کا حکم سعودی وزارت مذہبی امور کی جانب سے جاری کیاگیا تھا، اس خطبہ میں مساجد کے خطباء کی زبان سے تبلیغی جماعت کے بارے میں جس موقف کا اظہار کرایاگیا وہ نہایت منفی اور بعض پہلوؤں سے تشویشناک اور دور رس اثرات کا حامل ہے۔ اس خطبہ کے مشمولات پر غور کیا جائے تو اس میں تین قسم کی باتیں کہی گئی ہیں:

            (۱) کچھ باتیں تو ایسی ہیں جو جماعت کے نظام اور مزاج میں شامل ہیں اور وہ اگر ایک حد کے اندر رہیں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے اور اگر اُن میں غلو ہوجائے تو بلاشبہ وہ نکیر کے لائق ہیں اوراہل حق علماء خود اُن پر نکیر کرکے اصلاح کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

            (۲) دوسری قسم کی باتیں وہ ہیں جو، سلفی علماء یا غیرمقلدین کی جانب سے نہ صرف تبلیغی جماعت؛ بلکہ تمام ہی علماء دیوبند اور اُن کے منتسبین کے بارے میں، پہلے ہی سے کہی جاتی رہی ہیں مثلاً تصوف کے سلسلوں سے اُن کا تعلق یا اُن کا عقیدةً ماتریدی ہونا، یا اسماء وصفات الٰہی میں تحریف و تاویل کرنا، یا اپنے فقہی مذہب کی پابندی میں تعصب برتنا، قبروں کی تعظیم کرنا یا بہت سی بدعات کو اختیار کرنا وغیرہ اور اسی قسم کی صحیح یا غلط باتیں۔ یہاں تک کہ تبلیغی جماعت کی برائیوں میں اس کا علماء دیوبند سے انتساب بھی ذکر کیاگیا ہے۔

            ان میں سے بعض باتیں تو بالکل خلاف واقعہ ہیں مثلاً قبروں کی تعظیم یا بدعات کو اختیار کرنا وغیرہ؛ البتہ جو باتیں علماء دیوبند کے مسلک و مذہب کا حصہ ہیں مثلاً تقلید ائمہ کو ضروری سمجھنا، عقائد میں ماتریدی ہونا، تصوف سے اشتغال اور اس کے سلسلوں سے تعلق (جو علماء دیوبند کے یہاں پورے طور پر شریعت کے تابع اور تزکیہ کے مرادف ہے اور اس کا مقصد صرف شریعت پر عمل کی عادت ڈالنا اور تقوے حاصل کرنا ہے) تو یہ تمام چیزیں وہ ہیں جن کا ہم اپنے یا جماعت کے بارے میں بے تکلف اقرار واعلان کرسکتے ہیں اور ان موضوعات پر بہت کچھ کیا اور لکھا جاچکا ہے اور حسب ضرورت آئندہ بھی یہ کام ہوتا رہے گا۔

            ان دونوں عناصر کے اعتبار سے اس خطبے میں کوئی نئی بات نہیں کہی گئی ہے؛ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں انہی بنیادوں پر تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی کی صورت حال پہلے سے قائم ہے۔

            (۳)ان سب باتوں سے بڑھ کر اس خطبہ کا وہ حصہ ہے جس میں تبلیغی جماعت کے بارے میں ایک بالکل نئی بات کہی گئی ہے یا صحیح الفاظ میں نیا الزام لگایا گیا ہے جو اب تک کسی غیرمسلم حکومت کی جانب سے بھی نہیں لگایاگیا تھا اور وہ ہے دہشت گردوں کا تعاون اور ملک میں بدامنی و بے اطمینانی پھیلانے کا الزام اور یہ بات مجمل یاسرسری انداز میں نہیں؛ بلکہ باقاعدہ پوری وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہے؛ چنانچہ ایک جگہ تو کہا گیا ہے کہ: اس جماعت کے ہماری مملکت میں موجود رہنے سے ہمارے لیے بہت سے خطرات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کردیتی ہے ایک تو وہ جو ہمارے بادشاہ اور ولی امر کی بیعت واطاعت کے پابند ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو جماعت کے اُس امیر کی بیعت کے پابند ہیں جو ہندوستان یا پاکستان یا بنگلہ دیش یا قطر میں موجود ہے اس طرح گویا سعودی معاشرہ انتشار کا شکار ہوتا ہے۔

            اس کے بعد کچھ دوسری باتیں ذکر کرکے آخر میں یہ الزام لگایاگیا ہے کہ یہ جماعت، دہشت گرد اور تکفیری گروہوں کی مدد کرتی ہے جو کبھی قصداً اور کبھی بلاقصد ہوتی ہے اور اس جماعت کو سیاسی خطرہ نہ سمجھے جانے کی وجہ سے دہشت گرد اور تکفیری گروہ اس میں شامل ہوکر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس ضمن میں باقاعدہ کچھ واقعات کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔

            ان میں سے پہلی بات کے بارے میں تو ہر آدمی سمجھ سکتاہے کہ وہ غلط فہمی پر مبنی ہے، اس لیے کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کا اپنے امیر سے تعلق صرف جماعتی اور دعوتی امور کی رہنمائی کے سلسلے میں ہوتا ہے اس کا سیاست یا حکومت سے یا کسی حکومت کی مخالفت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ جماعت کسی بھی قسم کے سیاسی امور سے تعلق رکھتی ہے۔ تبلیغی جماعت کا یہ کردار اتنا واضح ہے کہ اپنے پرائے سب اس سے واقف ہیں۔

            جہاں تک دہشت گردی کے تعاون کی بات ہے وہ تو ایک ایسا بے بنیاد الزام ہے جو اس جماعت کے مزاج پر منطبق ہی نہیں ہوتا۔ اگر سعودی عرب کے کسی حادثے کے ذمہ داران یا کسی دہشت گرد تنظیم کے کارکنان میں سے کسی کا پرانا تعلق تبلیغی جماعت سے ثابت بھی ہوا ہو تب بھی اُن کی اُس سرگرمی کا ذمہ دار تبلیغی جماعت کی فکر و مزاج کو قرار نہیں دیا جاسکتا؛ بلکہ بعد کی کوئی تربیت یا صحبت اس کی ذمہ دار ہوگی ہاں اگر غور کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کا تبلیغی جماعت سے تعلق باقی رہتا تو وہ کسی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہوتے، اُن کی بعد والی غلطیوں کے لیے جماعت سے اُن کے قدیم تعلق کو ذمہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔

            اس لیے ہم سعودی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس خطبے کے مشمولات پر اور اس کی اشاعت پر روک لگادے اور کسی بھی چیز کے جاری کرنے سے پہلے متعلقہ افراد، جماعات یا دیگر معتبر تنظیموں اور اُن کے ذمہ داروں سے تفصیلی تبادلہٴ خیال کا اہتمام کیا جائے اور یہ کام اُن کے لیے مشکل بھی نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ اُن کی نظراس بات پر بھی رہنا ضروری ہے کہ اُن کے اس طرح کے اقدامات، مسلم اقلیتی ممالک میں مسلمانوں کے لیے سنگین مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔

            اس سلسلے میں اطمینان کی بات یہ ہیکہ اس مسئلے پر ہندوستان اور پڑوسی ممالک کے اہم اور ذمہ دار علماء اور تنظیموں نے عمومی طور پر یکساں موقف کا اظہار کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم نے فوری طور پر ایک موٴثر اور واضح بیان جاری کیا، اسی طرح صدرالمدرسین حضرت مولانا سیّدارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم نے سعودی سفیر سے ملاقات کرکے صورت حال کو واضح کیا، اس کے علاوہ دیگر ملی رہنماؤں، تنظیموں اور علماء نے نیز دیگر ملکوں کے ذمہ دار حضرات نے بھی اسی قسم کی کوششیں کی ہیں، جو یقینا بارآور ہوں گی۔

            اس موقع پر تبلیغی جماعت کے ذمہ داران وکارکنان سے یہ امید رکھنا بے جا نہیں ہوگا کہ وہ بھی تمام معاملات پر گہری نظر رکھیں اور علمی وفکری اور عملی معاملات میں اکابر علماء دیوبند کے طریق پر کاربند رہ کر کام کریں اورعلماء کرام کی مشاورت سے بھی غافل نہ رہیں تاکہ اکابر کا جاری کیاہوا یہ سلسلہٴ خیر ہرقسم کی خرابیوں سے محفوظ رہ کر جاری رہے۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:105‏،  ربیع الثانی – جمادِی الاول 1443ھ مطابق   دسمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts