حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            دارالعلوم دیوبند کے مقبول استاذ اورہردل عزیز نائب مہتمم حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی رحمہ اللہ بھی رخصت ہوگئے اور مادرعلمی اور اس کے متعلقین کے غموں میں ایک غم کا اضافہ ہوگیا۔

            حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلیؒ، دارالعلوم دیوبند کے علمی قافلہ میں تقریباً چالیس سال پہلے شامل ہوئے اورجلد ہی مقبولیت حاصل کرلی۔ وہ ایک نرم خو، متواضع، خوش اخلاق اور فعال انسان تھے، علمی صلاحیت میں بھی ممتاز تھے، اپنے درئہ حدیث کے سال انھوں نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، اس کے بعد استاذ گرامی حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رحمہ اللہ سے عربی میں مہارت حاصل کی، پھر متعدد اداروں میں تدریسی خدمات انجام دے کر دارالعلوم تشریف لائے۔

            وہ بلاشبہ ایک جامع شخصیت کے مالک تھے جن میں تدریسی، تحریری، تقریری اور انتظامی ہر طرح کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ آخر کے چودہ سال وہ تدریس کے ساتھ نائب مہتمم کے منصب پر فائز رہے، اس طرح انھوں نے ہرمیدان میں دارالعلوم دیوبند کی بہترین خدمت کی۔

            حضرت مولانا سنبھلی صاحبؒ کی شخصیت کا سب سے بڑا امتیاز اُن کی مرنجان مرنج طبیعت تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ غصہ کرنا یا براماننا جانتے ہی نہ ہوں، عجیب بات ہے کہ طویل مدت تک انتظامی منصب پر فائز رہنے کے باوجود اُن کے طرز عمل سے طلبہ یا ملازمین کو غالباً کبھی کوئی شکایت پیش نہیں آئی۔ وہ ہر ایک کے ساتھ یکساں تواضع اور نرمی سے پیش آتے تھے، نرم گوئی اُن کی شخصیت کی پہچان تھی، ظرافت اُن کی گفتگو کا عنوان تھی، اپنی تمام ذمہ داریاں مقررہ وقت میں پوری کرنا اُن کا خاص وصف تھا۔

            وہ دینی تقاضوں کے تحت سفر بھی کرتے تھے اور بے شمار مدارس کی سرپرستی بھی فرماتے تھے، وہ اپنے بہت سے تلامذہ کے مخلص مشیر تھے۔ ان کی ذات لوگوں کے لیے نافع تھی، حقیقت یہ ہے کہ ان کے جانے سے ہم ایک اچھے انسان سے محروم ہوگئے ہیں۔

            اللہ رب العزت حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے اور دارالعلوم کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :10،    جلد:105‏،  صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق   اكتوبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts