از:حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم

            دارالعلوم دیوبند کے لیے یہ سال مسلسل حادثات اورمحرومی کا سال رہا ہے، آپ سب حضرات کو معلوم ہے کہ حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحبؒ گزشتہ سال ہم سے جدا ہوگئے، بہت بڑا حادثہ تھا، ابھی اس صدمہ کے اثرات باقی تھے کہ اس وبائی بیماری کے دور میں یکے بعد دیگرے چار بڑے اساتذئہ کرام رخصت ہوگئے، حضرت مولانا نورعالم صاحبؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ، حضرت قاری محمدعثمان صاحبؒ اور فارسی درجہ کے استاذ مولانا محمد قاسم صاحبؒ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ یہ سارے اساتذئہ کرام رخصت ہوگئے اورایسی فضا بن گئی کہ لگتا تھا جیسے مکھن اتارلیا جائے، دارالعلوم کے طبقہٴ اولیٰ کے اساتذہ یکے بعد دیگرے جدا ہوتے چلے گئے۔

حضرت مولاناؒ حادثہ کا شکار

            حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلیؒ اگرچہ سال گزشتہ ایک حادثہ کے شکار ہوکر ان کے پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، گرگئے تھے؛ لیکن اس پریشانی سے نکل چکے تھے، صحتیاب تھے، ماشاء اللہ دفتر میں بھی تشریف لاتے تھے، چونکہ اسباق کا سلسلہ بند تھا؛ لیکن باقی دلچسپیاں اور ان کی سرگرمیاں باقی تھیں کہ اچانک رمضان المبارک میں وہ بیمار ہوگئے، اس بیماری نے اتنا طول کھینچا کہ آخر کار وہ بھی تین دن پہلے جمعہ کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے، دنیا میں جو بھی آیا ہے جانے کے لیے ہی آیا ہے، میں نے آیت پڑھی:

                                                کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانِ وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ (الرحمن:۲۶-۲۷)

حضور … کی دعا کی تلقین

            حضرت نبی کریم … نے ایسے موقع پر جو دعا تلقین فرمائی ہے، حدیث پاک کا واقعہ آتا ہے حضرت زینبؓ جو رسول اللہ … کی صاحبزادی ہیں، ان کا شیرخوار بچہ بہت بیمار تھا، لگتاتھا کہ اس کا آخری وقت ہے، انھوں نے رسول اللہ … کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ تشریف لے آئیں، آپ نے یہی جملے ارشاد فرمائے جو دیا وہ بھی اللہ کا، جو لیا وہ بھی اللہ کا، ہر ایک کی اللہ کے یہاں ایک مدت متعین ہے، زینب کو صبر کرنا چاہیے اور وہ اللہ سے ثواب کی امید رکھے؛ لیکن انھوں نے انتہائی اصرار کے ساتھ رسول اللہ … کو دوبارہ بلایا اور آپ تشریف لے گئے، یہ جملہ ایک سنت بن گیا اور حادثہ کے وقت اس کو پڑھ کر اپنے ایمان اور عقیدے کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور تسلی بھی حاصل کی جاتی ہے۔

حضرت مولاناؒ دارالعلوم کے مایہ ناز استاذ تھے

            حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلیؒ دارالعلوم کے ممتاز، اہم اساتذئہ کرام میں تھے، اگرچہ میرا ذمہ دار کی حیثیت سے اہتمام میں حاضر ہونا دس سال پہلے ہوا ہے؛ لیکن ۱۹۹۳/ سے برابر دارالعلوم میں حاضری ہوتی تھی، مولانا سے بھی ملاقات ہوتی تھی، ان کے اخلاق، ان کے برتاؤ، ان کے سلوک سے مستفید ہونے کا موقع بھی ملتا تھا، یہ دس سال کی ہم نشینی نے انتہائی قربت پیدا کردی تھی، دارالعلوم دیوبند میں بہت سے شعبہ ہیں، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحبؒ نے سہولت کے لیے شعبوں کو تقسیم فرمادیا، کچھ شعبے اپنے پاس رکھے تھے، کچھ حضرت مولانا قاری محمدعثمان صاحب کے پاس، کچھ حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی کے پاس، پھر جب حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب علیحدہ ہوگئے، تو ان کے شعبہ مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی کے پاس آگئے، جو نائب مہتمم کی حیثیت سے اہتمام میں تشریف لائے، ان شعبوں میں دارالاقامہ، مطبخ یہ دو شعبے ایسے تھے جن کا تعلق طلبہ سے ہے، مساجد کی دیکھ ریکھ بھی مولانا سنبھلی سے ہی متعلق تھی، روزانہ کچھ نہ کچھ مسائل ان کے سامنے رہتے تھے، میں تھوڑے فاصلہ سے بیٹھا دیکھتا رہتا تھا، مولانا اتنی پست آواز سے، صاحب معاملہ سے قریب ہوکر گفتگو فرماتے تھے کہ اکثر بات بھی نہیں پلے پڑتی تھی کہ کیا ہورہی ہے، تھوڑی دیر میں مسئلہ حل ہوجاتا تھا، مولانا کی اس خوبی کا تذکرہ تمام حضرات اپنے تاثرات کے اندر کررہے ہیں، میں نے بھی یہ تعزیتی مجلس کے اندر بیان کیا تھا کہ ان کی نرم گفتاری اوران کا جو تواضع اور انکسار کا انداز تھا وہ بے مثال تھا، اگر کبھی ناراضگی کا بھی اظہار کرنا ہوتا تو لہجہ اورالفاظ کا استعمال ایسا ہوتا کہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ مولانا کسی بات پر اپنی ناگواری کا اظہار کررہے ہیں۔

حضرت مولاناؒ سے رابطہ

            ایک بات جو خاص دیکھی، جو ابھی تھوڑی دیر پہلے مولانا عبداللہ صاحب نے گفتگو میں کہی ہے کہ تلامذہ اور فضلاء کے ساتھ مولانا کا رابطہ ہمیشہ رہا، دارالعلوم میں جن حضرات کو کسی شعبہ میں مزدور کی ضرورت ہوتی تھی، تو وہ مولانا سنبھلی سے رابطہ کرتا تھا، چاہے تجوید کے لیے استاذ کی ضرورت ہو، چاہے آدمی پڑھانے کے لیے ضرورت ہو، تو مولانا کا رابطہ رہتا تھا اپنے فضلاء سے، اپنے تلامذہ سے، ان کو یہ پتہ رہتا تھا کہ کون فارغ کہاں پر ہے، مناسب اثرات کی وہ نشان دہی کرتے تھے، اسی لیے دو طرح کے رابطے مولانا کے پاس مسلسل رہتے تھے اور جن لوگوں کو کام کرنے کے لیے اساتذہ کی ضرورت ہوتی تھی وہ بھی رابطہ میں رہتے تھے، اکثر دونوں کو اپنے دونوں مقصد کے اندر کامیابی ملتی تھی۔

حضرت مولاناؒ کی خصوصیات

            اسی طرح مولانا کی دوخصوصیتیں میں نے دیکھی تھیں، ایک تویہ کہ ملک کے اندر اطراف میں اور دور دراز کے مدرسوں کے مولانا سرپرست تھے، یہ ان کی رکنیت دلچسپی کے ساتھ تھی، سرپرستی دلچسپی کے ساتھ تھی، بہت سی جگہ میٹنگوں میں تشریف لے جاتے تھے، بڑے مدرسوں میں، مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ، اسی طریقہ سے مولانا سے لوگ اپنے ذاتی معاملات کے اندر بھی مشورہ لیتے رہتے تھے۔

            دوسری خصوصیت یہ دیکھی کہ اپنے مدرسوں میں جلسوں کے لیے، کسی پروگرام کے لیے جو لوگ آتے تھے بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ وہ خالی ہاتھ جاتے تھے، مولانا ترتیب بناکر ان کے یہاں جانے کا نظام بناتے، بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی میرے پاس آیا میں نے اپنی طبیعت کی وجہ سے معذرت کردی اور میں نے کہامولانا سے بات کرلو، وہ وہاں پہنچا اس نے بات چیت کی اور مولانا نے اس کو کئی تاریخ دے دی، یعنی دل توڑنا نہیں جانتے تھے، حتی الامکان دوسروں کا دل رکھ لینا، ان کی مدد کردینا، ان کی مراد پوری کردینا یہ مولانا کا مزاج تھا، بذلہ سنجی، ظرافت مزاجی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

            یہاں کے درجہ ابتدائی کے اکثر اساتذہ ان کے تلامذہ ہیں؛ لیکن اب جب کہ وہ مدرس ہیں، ان کے ساتھ بے تکلفی کا معاملہ فرماتے تھے، لطائف بھی سناتے تھے، واقعات بھی سناتے تھے اور دوسروں کے ساتھ بھی شریک ہوتے تھے، علمی اعتبار سے مولانا کا جو مقام تھا، بہرحال وہ اہل علم جانتے ہیں۔

            مولانا عبدالمعید صاحب نے جو سنبھل کے رہنے والے ہیں انھوں نے جو سنبھل کی تاریخ لکھی، اس میں مولانا کے تعلیمی حالات لکھے ہیں، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طالب علمی ہی کے زمانہ میں مولانا یہاں انتہائی ممتاز تھے دورئہ حدیث کے سال تیسری پوزیشن لائے تھے، فراغت کے بعد دسویں سال دارالعلوم کے اندر مدرس کی حیثیت سے تشریف لے آئے اور ہمیشہ نمایاں اساتذہ میں شامل رہے۔

            اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے اور دارالعلوم کو اُن کا نعم البدل عطا فرمائے!

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :10،    جلد:105‏،  صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق   اكتوبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts