حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلیؒ

نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کا نمونہ

از:مولانا محمد ساجد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

            بروز جمعہ ۱۹/ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ (۳۰/جولائی ۲۰۲۱ء) ہم استاذ گرامیٴ مرتبت حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی استاذ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی شخصیت سے بھی محروم ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

            مولانا موصوف دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم، درجہٴ علیا اور حدیث کے استاذ، عربی واردو زبان کے ادیب، ”النادی الادبی“ کے نگراں تھے۔ نیز آپ وقار ومتانت کا کوہِ گراں، نرم خوئی وشیریں گفتاری کا نمونہ، دلآویز شخصیت کے حامل، اسلامی اخلاق کے پیکر، طلبہ و اساتذہ کے ہمدرد وبہی خواہ، مقبول مدرس، شیریں کلام مقرر اور تواضع وانکساری کا مجسمہ تھے۔

            آپ کا تعلق یوپی کے ضلع مراد آباد کے قصبہ سنبھل سے تھا، یہیں ۴/جنوری ۱۹۵۰ئکو آپ کی ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے قصبے میں ہی حاصل کی، پھر دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور ۱۹۷۲ء میں دورے سے فراغت حاصل کی، پھر ایک سال ”ادب عربی“ کی تعلیم حاصل کی۔ عربی زبان وادب میں مہارت پیدا کرنے کے لیے حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی سے خصوصی استفادہ کیا، مولانا نے آپ کو ”النادی الادبی“ کا معتمد بھی بنایا تھا، دارالعلوم دیوبند سے جانے کے بعد بھی مولانا سے خصوصی تعلق رہا۔

            فراغت کے بعدآپ نے مدرسہ ”خادم الاسلام“ ہاپوڑ اور مدرسہ ”جامع الہدی“ مراد آباد میں تدریسی خدمت انجام دی، پھر ۱۹۸۳ئمیں حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی نے آپ کا دارالعلوم دیوبند میں تقرر کرادیا۔ چنانچہ آپ دارالعلوم آئے اوریہاں عربی درجات میں مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھائیں۔ فی الحال دیوان متنبی ، مشکاة المصابیح اور سنن ابن ماجہ آپ کے زیر تدریس تھیں۔

            آپ کا درس مقبول تھا، آپ کے لہجے میں بڑی کشش تھی، دورانِ درس موقع بموقع اشعار بھی سناتے تھے، جن سے طلبہ خوب محظوظ ہوتے تھے۔ مجھے حضرت سے سال ہفتم میں ”ہدایہ رابع“ پڑھنے کا موقع ملا، کبھی طلبہ آپ سے عربی میں سبق پڑھانے کے لیے کہتے تو آپ عربی میں سبق پڑھا تے تھے۔ نیز افتاء کے سال ”ردِّ مودودیت“ کے موضوع پر آپ سے محاضرات کو سننے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔

            تدریس کے ساتھ آپ نے نیابتِ اہتمام کی ذمے داری بھی سنبھالی اور اس کے متعلقہ شعبوں کی نگرا نی کا کام بھی انجام دیا۔

            تدریس اور انتظامی امور کی ذمے داریوں کے ساتھ آپ تصنیف وتالیف کے لیے زیادہ وقت نکال نہیں سکے؛ تاہم آپ نے شیخ عبد المجید الزندانی کی ”کتاب التوحید“ کا اردو میں ترجمہ کیا جو مرکزالمعارف ہوجائی آسام نے شائع کیا۔ ”فتاوی عالمگیری“ کے ”کتاب الایمان“ کا ترجمہ کیا۔ نیز مولانا ابولاعلی مودوی کے منحرف افکار وخیالات کی رد میں آپ کے پانچ اجزاء پر مشتمل محاضرات بھی ہیں۔ نیز ماہنامہ ”الداعی“ میں بھی آپ کے مضامین شائع ہوئے۔

            آپ دراز قد، نحیف جسم تھے، تیزگامی سے اس طرح چلتے کہ دیکھنے والا محسوس کرتا کہ نشیبی جگہ میں اتر رہے ہیں، متواضع و منکسرالمزاج، باحیا، شیریں گفتار، خلیق وملنسار اورخوردوں پر شفیق ومہربانتھے، ہر کوئی اپنی بات بے تکلفی سے آپ سے بتلاتاتھا، اور آپ اس کی بات پوری توجہ سے سنتے بھی تھے اور اس کا حل بھی بتاتے تھے۔ آپ ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے، علاقے کے بہت سے لوگ آپ سے متعلق تھے۔ خیرخواہی اور نفع رسانی آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف تھا۔

            جہاں کوئی بلاتا تو آپ بے تکلفی سے چلے جاتے تھے۔ آپ نرم خوئی اور منکسر المزاجی کے باوجود جو حق بات ہوتی اسے کہہ دیا کرتے تھے۔ نیز آپ ایسے پروگراموں میں شریک نہیں ہوتے تھے جو کسی بڑے ادارے کی مخالفت میں ہورہے ہوں، اور نہ ہی ایسے اداروں کی مجلس شوری کی ممبری قبول کرتے تھے۔

            آپ گویا حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کے تربیتی اسکول سے فارغ تھے، آپ نے مولانا سے عربی ادب پڑھا، آپ نے حضرت کے زیر سایہ عربی تقریر وتحریر کی مشق کی اور اس میں قابلِ قدر استعداد حاصل کی۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد جب آپ مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں مدرس ہوئے تو آپ نے وہاں النادی الادبی قائم کی، اس کے تحت طلبہ کو عربی تقریر وتحریر کی مشق کرائی۔ اور ایک بار حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کو النادی کے پروگرام میں مدعو بھی کیا۔ آپ کو مولانا کیرانوی سے بہت تعلق تھا ، نیز مولانا کیرانوی کو بھی آپ پر بہت اعتماد تھا۔

            مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں تدریس کے دوران میرے ہم وطن بہت سے طلبہ آپ سے متعلق رہے۔ جب آپ دارالعلوم دیوبند میں تشریف لائے اور وہ طلبہ بھی دارالعلوم میں داخل ہوئے تو ان کا تعلق آپ سے بر قرار رہا؛ چنانچہ جب ان طلبہ نے ”نادیة الابرار“ کے نام سے اپنی ضلعی قائم کی، تو آپ کو ہی اس کا سر پر ست بنایا؛ چنانچہ آپ نے میرے یہا ں مدرس ہونے کے بعد بھی اس انجمن کی سرپرستی کی۔ ابھی چند سال پہلے آپ نے اس کی نگرانی کے لیے مجھے مقرر فرمایا۔

            جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ میں نے آپ سے سال ہفتم میں ہدایہ رابع پڑھی اور افتاء کے سال رد مودودیت کے موضو ع پر آپ کے محاضرہ میں شریک ہوا۔ نیز ضلعی انجمن کے سر پرست ہونے کی بنا پر آپ سے ہم لوگوں کا تعلق تھا؛ چنانچہ ایک بار میں نے آپ سے عربی کی مشق کے لیے وقت مانگا، اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ میں نے عربی میں ایک تحریر لکھی اور اس میں مشق کرانے کی درخواست کی ۔ آپ نے تحریر دیکھ کر حوصلہ افزائی اور مصروفیت کی وجہ سے وقت دینے سے معذرت کی۔

            آپ کے ساتھ بارہا سفر کا اتفاق ہوا، دورانِ سفر ہمیشہ بہت بے تکلف رہتے اور اپنے رفقا کا پورا خیال رکھتے تھے۔ جب کسی نئی جگہ جانا ہوتا تو آپ ملاقاتیو ں سے ہم لوگوں کا پورا تعارف کراتے تھے۔ آپ بوقت ضرورت اہتمام سے ہم لوگوں کے ذوق ومزاج کے مطابق کام سپرد فرماتے تھے۔

            غرض یہ کہ آپ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے، آپ جیسی صفات کی حامل شخصیت کا ملنا مشکل ہے۔

ملتے کہاں ہیں ایسے درخشندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر# کی صحبت نہیں ہوئی

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :10،    جلد:105‏،  صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق   اكتوبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts