استاذ محترم حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلیؒ

(۱۹۵۰ء-۲۰۲۱ء)

یادوں کے نقوش

بہ قلم:مولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            دارالعلوم دیوبند کو رب العالمین نے خوب نوازا ہے، یہاں شخصیات کا تنوع ہے، ان کے اندر پائے جانے والے اوصاف وکمالات دوسری جگہوں میں اتنی کثرت سے موجود نہیں، ان میں بھی بعض حضرات کا امتیاز پورے ماحول میں، شخصیات کی کثرت کے باوجود باقی رہا ہے، ان میں حضرت استاذ محترم مولانا عبدالخالق سنبھلی نائب مہتمم واستاذ حدیث دارالعلوم دیوبند بھی ہیں کہ ان کے اوصاف خاص میں کوئی دوسرا شریک نہ ملا، وہ فرد فرید اپنے اندر جو شبنمی صفات، ریشمی کمالات اور طاؤسی خصوصیات رکھتے تھے، اس حیثیت سے ان کو لاجواب اور بے نظیر شخصیت ہی کہا جاسکتا ہے۔

مرنجا مرنج شخصیت

            ”مرنجا مرنج“ کا مطلب لغت میں دیکھیے، ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جو نہ تو دوسروں کو رنجیدہ کرتی اور نہ دوسروں سے رنجیدہ ہوتی ہو اور پھر اس کی مطابقت حضرت استاذ سے کیجیے تو طَابَقَ النعلُ بالنعل بالکل موافق پائیں گے، انھو نے کسی کو کبھی ناراض نہ کیا ہوگا اورنہ خود کسی سے ناراض ہوتے، بات غصے کی بھی ہوتی تو اس کو بڑی خوبصورتی سے ادا فرماتے، نہایت عاجزی سے پیش کرتے، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ العالی نے تعزیتی مجلس میں اس وصف کو خوب نمایاں کرکے بیان فرمایا، شاید ہی ان سے کسی کی کبھی ”تو تو میں میں“ ہوئی ہو، ایک بار راقم حروف کو ان کے وطن جانے کا اتفاق ہوا، حضرت نے خود دعوت دی تھی، اپنے مکان میں ٹھہرایا تھا، وہاں حضرت کے ایک درسی ساتھی سے ملاقات ہوئی، انھوں نے بتایا: مولانا میرے درسی ساتھی ہیں، ہم نے مکتب ایک ساتھ پڑھا اور حفظ ایک ساتھ کیا ہے، ہمارے ساتھیوں کا ”عبدالخالق“ پر اتفاق رہتا تھا۔ وہ جو کہتے ہم سب مان لیتے تھے، کبھی کسی سے جھگڑا نہ ہوا، کبھی کسی سے سختی سے بات کرنے کی نوبت نہ آئی، شاید انھوں نے کبھی کسی جانور کو بھی نہ ڈانٹا ہو!

عزت افزائی

            دیوبند سے ٹیکسی پر سوار ہوے، لطائف وظرائف کے ساتھ سفر ہورہا تھا، راستے میں اپنے کسی عزیز غالباً ماموں کے یہاں رکے، چائے ناشتے کے بعد پھر روانہ ہوئے، جب سنبھل قریب آنے لگا تو فرمایا: مولانا اشتیاق! آپ جمعہ سے پہلے اگر بیان فرمادیتے تو اچھا رہتا، میں نے کہا: حضرت آپ کے بیان سے محظوظ ہونا چاہتا ہوں، فرمانے لگے یہ میرا وطن ہے اور گھر کے سامنے کی مسجد ہے، آپ کا بیان ہی اچھا رہے گا، میں تو بس ”گھر کی مرغی دال برابر“ کی مثال ہوں، غرض! حکم سرآنکھوں پر رکھا اور بیان کیا، مغرب بعد ایک مدرسہ میں جلسہ تھا، فرمانے لگے، وہ میری مادرعلمی ہے، وہاں بھی آپ کا بیان رکھا گیا ہے، میں شرمندہ تھا، معذرت قبول نہ ہوئی، بیان کرنا پڑا، بیان کے بعد حوصلہ افزائی فرمائی، سنبھل پہلی بار گیاتھا؛ اس لیے وہاں کی تاریخ بتائی اس میں ایک نئی بات یہ بتائی کہ قرآن مجید کا مطبوعہ اردو ترجمہ سب سے پہلے ۱۱۸۵ھ کو ہمارے سنبھل کے بزرگ شاہ مراد اللہ انصاری قادری نقشبندی نے کیا تھا؛ مگر وہ صرف آخری پارے کا تھا، اس کے ساتھ تفسیر بھی ہے، تین سو اٹھاسی (۳۸۸) صفحات پر مشتمل ہے، اس کا نام ”خدا کی نعمت“ (تفسیر مرادیہ) ہے، مطبع حیدری بمبئی سے ۱۲۸۴ھ میں چھپی ہے، الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے اس کے مطالعے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس کے دوسرے صفحے پر ایک فائدہ قرآنِ پاک کے ”ہندی ترجمے“ کا نقل کیاگیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہندی زبان میں قرآن کا ترجمہ اس سے پہلے ہوچکا تھا۔ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین بن شاہ ولی اللہ کا ترجمہ ۱۲۰۰ھ کا ہے، یہ اس لیے بھی مشہور ہوا کہ یہ پورے قرآن مجید کا ترجمہ تھا، اس سے میرے علم میں اضافہ ہوا۔ پھر تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ سنبھل ہی کے ایک بزرگ قاضی محمد معظم نے سب سے پہلے ۱۱۳۱ھ میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا تھا، جو ابھی تک غیرمطبوعہ ہے۔

            سنبھل کے تاریخی مقامات کی زیارت کے لیے بھی حضرت نے کسی کو مکلف بنا رکھا تھا، ان ساری جگہوں کو دیکھ کر معلومات میں اضافہ ہوا، حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی اور حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی شیخ التفسیر دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ کے مکانات بھی دیکھے، ”سرائے ترین“ کی جامع مسجد کے ہردلعزیز امام حضرت کے شاگرد مولانا محمد نسیم قاسمی تھے جو میرے گاؤں کے رہنے والے ہیں، غالباً ان کی تحریک پر ہی پروگرام بنا تھا، اس طرح صالحین کی بستی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، وہ اب ایک سرکاری مدرسہ میں نوکری کی وجہ سے اپنے وطن میں رہ رہے ہیں؛ لیکن اخیرتک استاذ وشاگرد کے تعلقات اور مراسم والہانہ رہے۔ وفات پر وہ بہت غم زدہ ہیں۔

مثالی طالب علمی

             حضرت نے اپنے وطن کے ”وحیدالمدارس“ سنبھل میں ابتدا سے شرح جامی تک یعنی مکتب سے چہارم عربی تک کی ساری کتابیں ایک ہی استاذ صاحب سے پڑھی تھیں، وہ تھے حضرت مولانا مفتی آفتاب علی صاحب حضرت کے ایک ساتھی حضرت مولانا عبدالمعید صاحب سنبھلی مدظلہ العالی نے بیان فرمایا: ہم دونوں نے قاعدہ بغدادی سے بخاری شریف تک ایک ساتھ پڑھا ہے، حضرت الاستاذ مفتی آفتاب علی فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ دنیا سے کون سی نیکی لائے ہو تو میں ”عبدالخالق کو پیش کردوں گا“ کہ بار الٰہ! اسے قبول فرماکر مجھے معاف فرمائیے! جب حضرت مفتی صاحب نے وحید المدارس چھوڑ کر مدرسہ شمس العلوم سنبھل میں تدریسی خدمات کا آغاز کیا تو شاگرد عزیز استاذ محترم کے ساتھ چلے گئے، وہاں حافظ فریدالدین صاحب سے حفظ قرآن مجید کی تکمیل فرمائی، پھر شرح جامی تک پڑھ کردارالعلوم دیوبند آئے پنجم عربی میں داخلہ لیا اور چوتھے سال دورئہ حدیث شریف سے فراغت حاصل ہوئی، پھر حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی کی تربیت میں رہ کر عربی زبان وادب کی تشنگی بجھائی۔

تدریس

            ۱۹۷۳/ میں مادرعلمی سے عربی زبان وادب کی تکمیل کے بعد خادم الاسلام ہاپوڑ غازی آباد سے تدریس کا آغاز فرمایا، پانچ سال وہاں رہے، پھر ۱۹۷۹// میں جامع الہدیٰ مرادآباد میں تدریس وتعلیم کا آغاز فرمایا، تین سال بعد دارالعلوم دیوبند کو استاذ کی ضرورت پیش آئی تو اپنے اساتذہ کے مشورے سے ۱۹۸۲/ میں یہاں آئے اور اخیر دم تک تقریباً چالیس سال اپنی خدمات سے دارالعلوم کو نوازا۔ اللہ تعالیٰ ان خدمات کو شرف قبول عطا فرمائیں!

دورِ اہتمام

            ۲۰۰۸/ کو مادر علمی میں ”نیابت اہتمام“ کے منصب پر فائز ہوئے اور تقریباً چودہ سال اس مسند ذی وقار پر رونق افروز رہے، اس درمیان آپ کی ذات والا صفات سے شاید ہی کسی کو شکایت ہوئی ہو، آپ کی شفقت ونرمی سے ہر ایک محظوظ ہوتا رہا، ہر اعلیٰ اور ادنیٰ طالب علم اورملازم اپنی باتیں بے تکلفی سے حضرت کے سامنے رکھتا، ان سب کو یقین رہتا کہ حضرت ضرور ہمارے درد کو سنیں گے، اس کا درماں تلاش دیں گے، پریشانی کو حل فرمائیں گے، کبھی کسی کی توقع کے خلاف نہ ہوا۔

طلبہ پر شفقت

            وفات کی صبح ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی جو سہارن پور سے جنازے میں شرکت کے لیے آیا ہوا تھا، وہ غمگین تھا، اس نے کہا حضرت مولاناسنبھلی صاحب رحمة اللہ علیہ کا میرے اوپر بڑا احسان ہے، ایک بار میں بہت پریشان تھا، کھانا بند ہوگیا تھا، اس کی وجہ تعطیل کے موقع سے وظیفہٴ پارچہ و پاپوش وصول کرلینا تھا، میں پریشان پھر رہا تھا؛ اس لیے کہ میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے، میں چاہتا تھا کہ مطبخ سے کھانا کھل جائے؛ مگر ضابطے کے خلاف کھل نہیں سکتا تھا، میں نے اپنی بات حضرت مولانا کو بتائی، مولانا نے معلوم کیا کہ قیمتاً کھانا کھلوانے میں کتنا خرچ ہوگا؟ پھر فرمایا کہ چوں کہ ضابطے میں آپ کا کھانا کھل نہیں سکتا ہے؛ اس لیے اس رقم سے آپ قیمتاً کھلوالیں، وہ طالب علم ایسا تھا کہ والد صاحب نے اس کی والدہ کو طلاق دے کر، دوسری شادی کرلی تھی اور والدہ کی بھی دوسری شادی ہوگئی تھی، اس طرح وہ نہ تو باپ کے ساتھ رہ پاتا تھا اور نہ ماں کے ساتھ، اس کی مجبوری میں حضرت نے ساتھ دیا۔

            کبھی کسی طالب علم کی سیٹ کٹ جاتی تو اس کے لیے بھی حضرت بنفس نفیس کوشش کرتے اوراس کی سیٹ بحال کرواتے یا کوئی مناسب حل تلاش کرمطمئن ہوتے، مجھے یقین ہے کہ حضرت کی روح جب قفس عنصری سے پرواز کی ہوگی تو وہ بلاکسی رکاوٹ کے فردوس اعلیٰ میں چلی گئی ہوگی، بھلا جس بندے نے اللہ تعالیٰ کی رحیمی، کریمی، اور حلیمی کو عملاً اتنا پھیلایا ہوتو اس کا اس ذات کے پاس کیا مقام ہوگا؟ کوئی نہیں جان سکتا، آواز آئی ہوگی یا أیتہا النفسُ المطمئنة اِرجعی الیٰ ربک راضیةً مرضیة فادخلي في عبادي وادخلي جنتي!

آثار وباقیات

            آثار وباقیات سے مراد مرحوم کا ترکہ ہے، انھوں نے مال کیا چھوڑا وہ مجھے معلوم نہیں، اہلیہ محترمہ کے علاوہ نسبی اولاد میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، روحانی اولاد لاکھوں ہیں اور اولاد دراولاد کی تو گنتی بھی نہیں۔

            حضرت استاذ محترم کی قلمی باقیات میں ان کے لکھے ہوے محاضرات ”رد مودودیت“ کے پانچ حصے ہیں، جن کے ذریعے حضرت کا تلمذ ناچیز کو حاصل ہے، اسی طرح علامہ عبدالمجید زندانی کی ”کتاب التوحید“ کا اردو ترجمہ جو تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے، حضرت نے چھوڑا ہے اور فتاویٰ عالم گیری کے ایک باب ”کتاب الایمان“ کا ترجمہ بھی آپ نے کیاتھا، وہ بھی آپ کا ترکہ ہے، کہا جاتا ہے کہ مختصرالمعانی کی شرح تحسین المبانی میں ایک ضمیمہ آپ نے لکھا ہے، ان سب کے علاوہ حضرت کی لکھی ہوئی تائیدات، تقاریظ، مقدمات اور پیش لفظ کی کمی نہیں، کبھی کسی طالب کومحروم تمنا ہونے نہ دیا۔ ہر ایک کی حوصلہ افزائی ان کی طبیعت تھی۔

علالت سے وفات تک

            ۱۴۴۱ھ کے رمضان المبارک کا مہینہ جو کرونا کے ”لاک ڈاؤن“ کا تھا، خیریت وعافیت سے گزرا، اس وقت چیک اَپ میں کرونا بھی منفی آیا تھا، اتفاق سے شوال کی دوسری تاریخ کو اپنے سابق پڑوسی حضرت مولانا محمدنسیم بارہ بنکوی مدظلہ العالی نائب ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند کے مکان پر تشریف لے گئے، حضرت مولانا سیّدارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کے مکان کے سامنے محلہ خانقاہ میں داخل ہونے والا راستہ لاک ڈاؤن میں بانس کے ذریعے بند کیا ہوا تھا، واپسی میں اس کو داہنی طرف سے عبور کررہے تھے کہ پھسل کر گرگئے، کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی، پھر علاج معالجہ کے بعد بقرعید تک بالکل ٹھیک ہوگئے اور ”دارالاہتمام“ آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا کہ اتفاق سے شوال ۱۴۴۲ھ کی ابتداء میں ”یرقان“ کا حملہ ہوا اور وہی بالآخر مرض الموت ثابت ہوا؛ یہاں تک کہ اُنیس ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ مطابق تیس جولائی ۲۰۲۱/ کو ساڑھے چار بجے شام آپ نے جان جانِ آفریں کو سپرد کردیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وفات کی خبر کے ساتھ ہی مکان پر بھیڑ لگ گئی؛ مظفرنگر سے تقریباً ایک گھنٹہ بعد واپسی ہوئی، دیکھا تو آنگن میں چارپائی پر لیٹے ہوے ہیں، پیلیا کا اثر پورے جسم پر نمایاں ہے، جیسے اُبٹن لگا کر دولہا تیار کیا جاتا ہے، ویسے ہی غسل کے لیے تیار تھے، ہاں صحیح ہے! حوروں نے استقبال کیا ہوگا اور ان سے نکاح کی تقریب میں ابٹن لگائے ہوئے تھے، اللہ مغفرت فرمائیں، دارالعلوم دیوبند نے ایک ایسی شخصیت کو کھودیا جس کا بدل نہ ان کی زندگی میں تھا اور نہ بعد میں نظر آرہاہے۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :10،    جلد:105‏،  صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق   اكتوبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts