آہ! حضرت الاستاذ سنبھلی صاحب ؒ چل بسے

قلبی تأثرات

از:مولانا توحید عالم قاسمی بجنوری

استاذ دارالعلوم دیوبند

            خوش اطوار، خوش مزاج، خوش گفتار، تیزگام، نرم دل، رحم دل، نہایت متواضع، سادگی پسند، تصنع اور بناوٹ سے دور، دلچسپ اور دل آویز شخصیت، ذہین وفطین، بہت سے ہم عصروں میں نمایاں، مزاج میں ستھری ظرافت، دوستوں ہی نہیں؛ بلکہ اجنبیوں کے بھی کام آنے والے، اپنے، پرائے سب کو نفع پہنچانے والے، مہمان نواز، سیکڑوں طلبہ کے سرپرست ومربی، بے شمار مدارس وتنظیموں کے رکن رکین، مادرعلمی کی فضا میں موجود ان گنت ضلعی انجمنوں کے سرپرست ونگراں، چھوٹوں کے لیے محسن ومشفق، ہرحاجت مند کے غم خوار، بے ضرر وغیرہ بے شمار خوبیوں اور اوصاف سے آراستہ شخصیت کے مالک تھے، حضرت الاستاذ مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی قدس سرہ استاذ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند۔

            حضرت الاستاذ حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی استاذ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی رحلت اور وفات ملت اسلامی کے لیے بالعموم اور قاسمی برادری ومادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے لیے بالخصوص ایک ناقابلِ تلافی نقصان اور خسارہ ہے، حضرت الاستاذ عوام وخواص میں نہایت مقبول اور سبھی کے ہردل عزیز شخصیت کے مالک تھے، حضرت الاستاذ کا بڑا کمال یہ ہی تھا کہ آپ کے یہاں کلمہٴ نفی ”نہیں یا نہ“ مستعمل ہی نہیں تھا، ہر آنے والا اپنی ضرورت وحاجت بیان کرتا اور حضرت الاستاذ سے تعاون چاہتا، تو جو صورت بھی تعاون کی ممکن ہوتی اس کے لیے فوراً تیارہوجاتے اوراس کو پورا کرنے کے لیے بے چین سے ہوجاتے، طلبہ کے لیے ہر طرح کی سفارش کرنا، تمام علاقائی وغیرعلاقائی آنے والوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرنا، پھر چائے ناشتہ کا نظم کرنا، عوام کے لیے ان کی درخواست پر سفر کرنا خواہ وہ دور ہو، نزدیک ہو، بڑی جگہ ہو، چھوٹی جگہ ہو، دن کا پروگرام ہو، رات کا پروگرام ہو، دعائیہ پروگرام ہو، عوامی جلسہ ہو، ان چیزوں سے کوئی مطلب نہیں تھا۔

            الغرض ہرطرح سے آنے والے کی دل جوئی آپ کا وصفِ خاص تھا، دل توڑنا تو آپ کے مزاج کے یکسر خلاف تھا، اساتذئہ کرام میں نوے فی صد اساتذہ آپ کے شاگرد اور خوشہ چیں ہیں، سبھی آپ کے احسانات اور اخلاق کے مرہون احسان ہیں، نیز آپ کا بے ضرر ہونا تو بلا اختلاف چھوٹے وبڑے سب کی زبانوں پر یکساں طور پر رہا ہے۔

حالاتِ زندگی

پیدائش اور مقام پیدائش

            حضرت الاستاذ مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی استاذِ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ۴/جنوری ۱۹۵۰/ کو سنبھل ضلع مرادآباد کے محلہ سرائے ترین جھجران میں پیدا ہوئے، آپ رحمہ اللہ کے والد گرامی جناب نصیراحمد صاحب تھے، جن کے آپ تیسرے صاحبزادے تھے۔

آغاز تعلیم

            حضرت الاستاذ نے محلہ سرائے ترین کے مدرسہ وحیدالمدارس میں جناب مولانا مفتی آفتاب علی خان صاحب کے سامنے تعلیم کا آغاز فرمایا، جب مولاناموصوف وہاں سے چلے گئے تو مدرسہ شمس العلوم میں مفتی صاحب ہی کے ہمراہ حضرت الاستاذ بھی چلے گئے اور مدرسہ شمس العلوم میں حافظ فریدالدین خاں صاحب سے حفظ القرآن کی تکمیل فرمائی، اردو، ہندی اور حساب وغیرہ دینیات کی تعلیم بھی اسی مدرسہ میں دوسرے اساتذہ سے حاصل کی، پھر فارسی وچہارم عربی تک کی تمام کتابیں حضرت الاستاذ نے حضرت مولانا مفتی آفتاب علی خان صاحب سے پڑھیں۔

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

            ۱۹۶۸/ میں مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوکر درس نظامی کی تکمیل فرمائی، دورئہ حدیث شریف کے سالانہ امتحان میں تیسری پوزیشن سے کامیاب ہوئے، مادرعلمی میں اوّل دن سے علم ادب سے خاصی دلچسپی رہی اور تمام جوابات عربی زبان میں تحریر فرماتے تھے؛ لہٰذا فراغت کے بعد تکمیل ادب میں رہ کر حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانوی رحمہ اللہ سے خصوصی استفادہ کیا۔

حضرت الاستاذ کے اہم اساتذئہ کرام

            حضرت الاستاذ فخرالمحدثین حضرت مولانا شیخ فخرالدین علیہ الرحمہ صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے آخری سال (۱۳۹۲ھ مطابق ۱۹۷۲/) کے شاگرد تھے، اسی سال حضرت شیخ کا انتقال ہوا اور بخاری شریف حضرت حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ مہتمم دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا شریف الحسن صاحب دیوبندی نے پوری کرائی؛ جب کہ جلد ثانی فقیہ الامت حضرت مفتی محمودحسن صاحب گنگوہی قدس سرہ سے پڑھنے کی سعادت میسرآئی۔

مادرعلمی میں تقرر

            اجلاس صدسالہ کے بعد جب دارالعلوم کو اساتذہ کی ضرورت محسوس ہوئی تو متعدد اہل علم حضرات کا تقرر عمل میں آیا ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۹۸۲/ میں حضرت الاستاذ کا تقرر بھی مادرعلمی میں عربی مدرس کی حیثیت سے ہوا اور ترقی کرتے ہوئے حضرت الاستاذ حدیث شریف کے اساتذہ کے زمرہ میں شامل ہوئے؛ لہٰذا اخیر کے چند سالوں سے دورئہ حدیث شریف میں ابن ماجہ شریف کا درس آپ سے متعلق تھا، نیز انتظامی اعتبار سے ہمیشہ پیش پیش رہے، لمبے زمانے تک امتحان کی ذمہ داریاں (ناظمِ طباعت اور ناظمِ امتحان کی حیثیت سے) دارالاقامہ کی نگرانی اور اخیر میں تقریباً بارہ، تیرہ سال سے نیابتِ اہتمام کی اہم ذمہ داری سنبھال رہے تھے، کمال یہ کہ ان سب ذمہ داریوں کے باوجود سب کو خوش رکھنا اور کسی کو ناراض نہ کرنا یہ حضرت الاستاذ ہی کا اختصاص تھا۔

دیگر مدارس میں تدریس

            مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے علاوہ حضرت الاستاذ نے خادم الاسلام ہاپوڑ (از ۱۹۷۳/ تا ۱۹۷۹/) اور دارالعلوم جامع الہدیٰ مرادآباد میں بھی (از ۱۹۷۹/ تا ۱۹۸۲/) تین سال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیے ہیں (تاریخ سنبھل)، حضرت الاستاذ کے اخلاق کریمانہ ہی کا کمال تھا کہ خادم الاسلام ہاپوڑ کو چھوڑا ضرور؛ لیکن تازندگی وہاں کے رکنِ شوریٰ رہے اور جامع الہدیٰ مرادآباد کے مہتمم حضرت مولانا محمد اعلم صاحب سے مدرسہ چھوڑنے کے باوجود ایسا خاص تعلق رہا، جو بعد میں سمدھیانے میں بدل گیا؛ چنانچہ آپ کی سب سے بڑی صاحب زادی ان کے بڑے فرزند برادرم مولانا محمد طیب صاحب زیدمجدہ کے عقد میں ہیں۔

راقم الحروف کو حضرت الاستاذ سے قربت

            بندہ جب بجنور مدرسہ رحیمیہ مدینة العلوم جامع مسجد میں پڑھتا تھا، تو سال چہارم میں امتحان کے لیے دارالعلوم دیوبند سے چند اساتذئہ کرام تشریف لے گئے تھے، ہماری جماعت کا امتحان حضرت الاستاذ کے پاس تھا، اسی وقت کے حضرت الاستاذ کے شستہ، شگفتہ اور شائستہ جملوں نے قلب وذہن میں حضرت الاستاذ کی محبت والفت پیدا فرمادی، پھر جب پنجم عربی کے لیے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کے لیے راقم کو آنا ہوا، تو راقم کے استاذ حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب قاسمی مدظلہ نے تاکید فرمائی کہ میرے شفیق استاذ حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی سے ملتے ضرور رہنا، اسی زمانے سے تسلسل کے ساتھ ملنا جلنا شروع ہوا، پھر یہ سلسلہ وقتِ وفات تک جاری رہا، اسی طرح حضرت الاستاذ چونکہ بجنوریوں کی انجمن تہذیب الاخلاق کے مدت سے سرپرست چلے آرہے تھے؛ اس لیے بھی ہم تمام بجنوری طلبہ آپ کو اپنا سرپرست ہی مانتے تھے اور اسی کا اثر ہے کہ بجنور کے اکثر مدارس کے بھی آپ سرپرست تھے۔

            راقم الحروف کو حضرت الاستاذ سے تعلق اورمحبت تو مادرعلمی میں آنے کے قبل سے تھی؛ لیکن شرفِ تلمذ سال ششم میں پہنچ کر ہوا، بندہ نے حضرت الاستاذ سے الفوزالکبیر اور حسامی دونوں کتابیں پڑھی ہیں۔ فالحمدللہ علی ذلک۔

درسی خصوصیات

            حضرت الاستاذ رحمہ اللہ تعالیٰ کا درس نہایت وقیع، نکتہ رس، دلچسپ، ظریفانہ جملوں، ادیبانہ تحقیقات، برمحل عمدہ اشعار، وقت بہ وقت فرق باطلہ کا رد پر مشتمل ہوتا تھا، بالخصوص مودودیت کے لیے تو شمشیر برہنہ ہوتا تھا، طلبہ ذوق وشوق کے ساتھ درس میں حاضر ہوتے اور حضرت الاستاذ قدس سرہ کی ادبی زبان سے نکلنے والے ہر جملہ کا مکمل لطف لیتے تھے، حاصل یہ کہ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ تعالیٰ کا درس مقبول ہوا کرتا تھا، جیسے آپ کی شخصیت مقبول ومحبوب تھی، آپ کا درس بھی مقبول تھا۔

بیماری جو لے کر چلی گئی

            گذشتہ سال عید کے موقع پر پاؤں پھسلنے سے کولہے کی ہڈی کا فیکچر ہونا تھا کہ حضرت الاستاذ کی صحت جو اپنے معاصرین اور خوردوں میں بہت عمدہ اور اچھی سمجھی جاتی تھی، اس وقت سے ایسی متاثر ہوئی کہ مکمل طور پر صحت یابی نہیں ہوسکی، عصا مسلسل رفیق بن گیا، پھر اس سال رمضان کے بعد سے پیلیا کی بیماری ایسی پیچھے پڑی کہ جان لیوا ثابت ہوئی، مظفرنگر، امروہہ، میرٹھ، غازی آباد، دہلی وغیرہ کے متعدد ڈاکٹروں سے علاج ومعالجہ صاحب زادوں نے کرایا اور مقدور بھر خدمت کی، اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی؛ فجزاہم اللّٰہ تعالیٰ خیرالجزاء!

            لیکن تقدیر کا نوشتہ غالب آگیا اور حضرت الاستاذ ۱۹/ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۰/جولائی ۲۰۲۱ء بروزجمعہ شام چار بج کر پچاس منٹ پر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اولاد واحفاد

            الحمدللہ حضرت الاستاذ کثیرالاولاد تھے، آپ کو اللہ رب العزت نے تین صاحب زادے، بھائی سہیل احمد، مفتی عزیراحمد قاسمی اور عزیزم زبیراحمد سلّمہ عطا فرمائے تھے۔ اول الذکر دو شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہیں؛ جبکہ تیسرے فرزندکی نسبت مقرر ہوچکی ہے؛ البتہ عقد ہونا باقی ہے اور چار صاحب زادیاں عطا ہوئی تھیں، الحمدللہ چاروں شادی شدہ ہیں ما شاء اللہ تین کے یہاں اولاد ہیں اور ایک کا عقد چونکہ ماضی قریب ہی میں چند ماہ قبل ہی ہوا ہے، ان کے یہاں ابھی بچہ نہیں ہے۔ چاروں دامادوں میں ماشاء اللہ تین عالم وفاضل ہیں اور ایک حافظِ قرآن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی یو ایم ایس، ایم ڈی ہیں۔

سچا خراجِ عقیدت اور کرنے کے کام

            حضرت الاستاذ تو چلے گئے اور اپنے خالق ومالک اورمحسن ومربی کی رحمت میں پہنچ گئے ہیں اور سبھی کو آگے پیچھے جانا ہی ہے، اس سے کسی کو مفر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی رحیم وکریم ذات سے قوی امید اور دعا ہے کہ ہمارے تمام اکابر واساتذئہ کرام اور بالخصوص حضرت الاستاذ مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب قدس سرہ کے ساتھ نہایت غفاری وستاری کا معاملہ فرماکر اعلیٰ علیین میں مقام خاص عطا فرمائے، جانے والوں کے جانے سے قلبی رنج وغم اور تکلیف ہونا تو ناگزیر ہے؛ لیکن باہمت اور حوصلہ مند حضرات کا شیوہ یہی رہا ہے کہ وہ ایسے نازک حالات میں بھی خود کو مضبوط رکھتے ہوئے دوسروں کو سہارا دیتے ہیں، ٹوٹنے کے بجائے مزید پختگی کے ساتھ اپنی روزمرہ کی زندگی کے اعمال میں مشغول ومصروف ہوجاتے ہیں، نیز جانے والوں کی خوبیاں اور اوصاف تلاش کرکے ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی سعی وکوشش کرتے ہیں؛ لہٰذا حضرت الاستاذ قدس سرہ کی صلبی وروحانی اولاد کو بھی حضرت الاستاذ کے کمالات اور اوصافِ حسنہ کو اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب اوردعائے مغفرت کا اہتمام کرنا چاہیے!

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :10،    جلد:105‏،  صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق   اكتوبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts