پیکرعلم وعمل، اسلاف کی پاکیزہ روایات کے امین

حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی نوراللہ مرقدہ

استاذ فقہ وحدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند

از:قاری شفیق الرحمن بلندشہری

مدرس تجوید وقراء ت دارالعلوم دیوبند

            ۱۹/ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۰/جولائی ۲۰۲۱ء بروز جمعہ شام پونے پانچ بجے استاذ گرامی قدر حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی نوراللہ مرقدہ وبرد اللہ مضجعہ کئی ماہ کی مسلسل علالت کے بعد مظفرنگر کے ”احمد ہوسپیٹل“ میں اللہ کو پیارے ہوگئے، رات تقریباً بارہ بجے حضرت کی نماز حضرت اقدس مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم شیخ الحدیث ومہتمم دارالعلوم دیوبند نے پڑھائی، موسم کی خرابی کے باوجوداساتذہ، طلبائے دارالعلوم اور دیگر اہل علم اوراہل عقیدت، عمائدین شہر اور دور دراز سے آنے والے مہمان بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور نہایت غم ناک ماحول میں حضرت مولانا کی تدفین عمل میں آئی۔

            اس وقت حال یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کئی سالوں سے متعدد صدمات سے دوچار ہے، بڑے بڑے کئی اساتذہ ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی استاذ تفسیر وحدیث، حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری استاذ حدیث و سابق ناظم تعلیمات، حضرت مولانا عبدالحق صاحب شیخ ثانی، حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری سابق شیخ الحدیث وصدرالمدرسین، حضرت مولانا نورعالم صاحب خلیل الامینی استاذ ادب وایڈیٹر ماہنامہ ”الداعی“ عربی، حضرت مولانا قاری سیّدمحمد عثمان صاحب منصور پوری استاذ حدیث وقائم مقام مہتمم دارالعلوم دیوبند رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے جبال علم وعمل رخصت ہوگئے۔ ابھی ان حضرات کے صدموں سے قلوب مضطر پریشان تھا اور ان حضرات کی یادوں ا ور نقوش کو بھلایا نہیں جاسکا تھا کہ ایسے حالات میں استاذگرامی حضرت مولانا سنبھلی صاحب بھی رخصت ہوگئے اور جوار رحمت الٰہی میں تشریف لے گئے۔ حضرت کے فراق اور جدائی نے پہلے صدمات کو تازہ کردیا۔ یہ سب حضرات وہ ہیں جن سے متعلق احادیث کے اسباق تھے خصوصاً دورئہ حدیث شریف کے اور ان اکابر میں سے کئی حضرات کا تعلق انتظام وانصرام سے بھی تھا، اس لیے ان حضرات کا یکے بعد دیگرے چلے جانا علمی اور انتظامی دونوں قسم کا نقصان ہے، جس کی بھرپائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کی بال بال مغفرت فرمائے اور انھیں اپنے قرب کا خاص مقام عطا فرمائے۔ ان حضرات کا دارالعلوم اور امت کو نعم البدل عطا فرمائے،آمین! اس طرح کے لوگ نایاب نہ سہی؛ مگر کمیاب ضرور ہیں۔

            حضرت مولانا سنبھلی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا حسن اخلاق، شفقت ومروت، حلم وبردباری، خورد نوازی بندہ پروری آپ کے خصوصی اوصاف تھے۔ آپ دارالعلوم کے مقبول ترین اساتذہ میں سے تھے آپ انتہائی کامیاب مدرس اور عمدہ مربی تھے، ہر علم وفن کی کتابیں آپ سے متعلق رہیں اور سب کو آپ ہمیشہ انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے اپنے وقت پر مکمل فرماتے تھے، تاہم عربی ادب سے آپ کو خاص ذوق ملا تھا۔ آپ اردو زبان کی طرح عربی زبان و ادب پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے، آپ نے عربی ادب کا خوبصورت فن اپنے محبوب ترین استاذ حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی علیہ الرحمہ سابق شیخ الادب دارالعلوم دیوبند سے سالہا سال کی مشقت کے بعد حاصل کیا تھا؛ اسی لیے اکثر وبیشتر کتب ادب کے اسباق آپ سے متعلق رہے اور ہمیشہ بڑی کامیابی کے ساتھ حضرت نے ان کو پڑھایا۔ میں نے ۱۹۸۲/ میں حضرت مولانا سے ہدایہ اوّل پڑھی ہے، اسی سال آپ کا تقرر ہوا تھا، دراصل ہماری جماعت کی یہ کتاب حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب سنبھلی علیہ الرحمہ کے یہاں تھی، بقرعید کے بعد حضرت کا انتقال ہوگیا تھا پھر یہ کتاب حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی علیہ الرحمہ کے تقرر کے بعد ان کے یہاں منتقل ہوگئی تھی؛ اس لیے مجھے اور پوری جماعت پنجم کو حضرت والا سے ہدایہ اوّل پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی فالحمدللہ علی ذلک۔

            حضرت کے مزاج میں چوں کہ شروع ہی سے ظرافت، خوش اخلاقی اور خوش کلامی تھی؛ اس لیے حضرت کا سبق بڑا دلچسپ رہتا تھا، طلبہ کبھی بور نہیں ہوتے تھے، ہمیشہ خوش رہتے تھے اور یہ ظرافت طبع آخرتک باقی رہی، موقع اورمناسبت سے دلچسپ واقعات بھی سناتے رہتے تھے، جس سے طلبہ کی دلچسپیاں مزید بڑھ جاتی تھیں، حضرت کی یہ خوش مزاجی سفر اور حضر دونوں حالتوں میں باقی رہتی تھی، اس لیے اساتذہ جانتے ہیں کہ آپ کے ساتھ سفر کتنے دلچسپ ہوتے تھے، بندہ کو بارہا اس کا تجربہ اور مشاہدہ رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب گرویدگی اور شیفتگی آپ کی ذاتِ والا صفات میں رکھی تھی، جس کی وجہ سے جو ایک بار آپ سے مل لیتا، وہ آپ کو بھول نہیں پاتا تھا۔ سادگی اور تواضع میں بھی آپ انتہائی کمال رکھتے تھے، آپ اس سلسلہ میں اپنے اکابر واسلاف کا مکمل نمونہ اور ان کی مقدس وپاکیزہ روایات کے امین تھے۔

آپ کی پیدائش

            ۴/جنوری ۱۹۵۰/ قصبہ سنبھل ضلع مرادآباد میں ہوئی (اس وقت سنبھل قصبہ کی حیثیت سے مرادآباد ضلع میں شامل تھا اب مستقل ضلع بن گیا ہے) آپ کے والد محترم کا نام نامی اسم گرامی نصیراحمد ہے جو ایک خوش اخلاق، نیک اطوار، متواضع اور سادگی پسند انسان تھے، اشعار آپ کو بہت یاد تھے جب دیوبند تشریف لاتے تو طلبہ ان سے اشعار سننے کے لیے عصر کے بعد مولانا کے مکان کے باہر جمع ہوجاتے اور آپ طلبہ کو اشعار سناکر خوب محظوظ کرتے تھے، بعض مرتبہ اشعار سننے کے لیے طلبہ کی بھیڑ جمع ہوجاتی تھی۔

تعلیم کا آغاز

            آپ کے محلہ میں گھر کے قریب مدرسہ وحیدالمدارس تھا جس میں حضرت مولانا مفتی آفتاب علی خاں صاحب مدرس تھے، اسی مدرسہ میں آپ اپنی تعلیم کا آغاز کیا، کچھ عرصہ کے بعد مفتی آفتاب علی خاں صاحب یہاں سے مدرسہ شمس العلوم سنبھل منتقل ہوگئے تو آپ بھی ان کے ساتھ وہیں چلے گئے۔ یہاں شمس العلوم میں آپ نے حافظ فریدالدین صاحب سے حفظ قرآن پاک مکمل کیا، فارسی اور ابتدائی عربی سے شرح جامی تک تمام کتب مفتی آفتاب علی خاں صاحب ہی سے پڑھیں، مفتی صاحب مولانا سے بہت محبت کرتے تھے، اپنے بچوں کی طرح پالا اور پڑھایا تھا اور مولانا پر بہت اعتماد بھی کرتے تھے۔ مفتی صاحب فرماتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت میں مجھ سے پوچھے گا کہ کیا لے کر آئے، تو میں عبدالخالق کو پیش کردوں گا، اُدھر حضرت مولانا کو بھی اپنے خصوصی استاذ اور مربی سے اسی طرح محبت تھی جب بھی سنبھل جاتے حضرت الاستاذ مفتی صاحب سے ضرور ملاقات کرتے۔ ایک مرتبہ بندہ بھی مولانا کے ہمراہ مفتی صاحب کی زیارت کرنے گیا تھا، بڑے بارعب، وجیہہ اور پورنور عالم تھے، اللہ تعالیٰ ان کی معفرت فرمائے، آمین!

دارالعلوم میں داخلہ

            ۱۹۶۸/ میں مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں آپ داخل ہوئے، آپ ابتدائی عمر سے ہی نہایت ذہین وفطین اور عمدہ صلاحیتوں کے مالک تھے؛ اس لیے دارالعلوم آتے ہی آپ کے علمی گوہر کھلنے لگے جس کی وجہ سے آپ ہمیشہ اپنے ہم درس ساتھیوں میں فائق اور ممتاز رہتے تھے، دوران تعلیم آپ تقریباً پانچ سال دارالعلوم میں رہے، اس دوران آپ نے اپنے اوقات کو تعلیمی مشاغل ہی میں صرف کیا، ہمیشہ اسباق کی پابندی کا اہتمام کیا، مطالعہ میں انہماک، اساتذہ اور اسباب علم کا مکمل احترام کیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے علم میں برکت عطا فرمائی۔

دارالعلوم میں آ پ کے اساتذہ حضرات حسب ذیل ہیں

            دارالعلوم میں جن اساطین علم وفن سے آپ نے استفادہ کیا وہ یہ شخصیات ہیں، حضرت مولانا سیّدفخرالدین احمد صاحب مرادآبادی، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا مفتی محمودالحسن صاحب گنگوہی اور حضرت مولانا شریف الحسن صاب دیوبندی علیہم الرحمہ ان چاروں حضرات سے آپ نے بخاری شریف پڑھی، مولانا نصیراحمد خاں صاحب بلندشہری علیہ الرحمہ سے طحاوی شریف اور علم ہیئت میں التصریح پڑھی، ۱۳۹۳ھ مطابق ۱۹۷۲/ میں دورئہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی اور دورہ میں تیسری پوزیشن حاصل کی، عربی زبان سے شروع ہی سے دلچسپی تھی؛ اس لیے امتحان میں پرچوں کے جوابات عربی ہی میں لکھتے تھے۔ فراغت کے ایک سال بعد تکمیل ادب میں رہ کر حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی علیہ الرحمہ سے خصوصی استفادہ کیا۔

تدریسی دور

            مولانا نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز مشرقی یوپی کے مشہور ومعروف ادارہ جامعہ خادم الاسلام ہاپوڑ سے کیا، یہاں آپ نے چھ سال مختلف علوم وفنون کی کتابیں بشمول علم حدیث انتہائی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پڑھائیں جس کی وجہ سے آپ کی تدریسی صلاحیت، عمدہ استعداد اور آپ کے تبحرعلمی کے چرچے دور دور تک ہونے لگے، خادم الاسلام کی علمی سرگرمیوں میں آپ کی وجہ سے قابل قدر اضافہ ہوا، اس کے بعد ۱۹۷۹/ میں مدرسہ جامع الہدیٰ مرادآباد تشریف لے آئے، یہاں صرف تین سال تدریسی خدمات انجام دیں، بعد ازیں ۱۹۸۲/ میں دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ہوا، اس تقرر میں آپ کے استاذ گرامی حضرت مولانا وحیدالزماں علیہ الرحمہ کا بڑا دخل رہا۔ ۱۹۸۲/ سے عمر کے آخر حصہ تک الحمدللہ نہایت نیک نامی اور کامیابی کے ساتھ آپ کا درسی سلسلہ جاری رہا۔ آپ کا شمار دارالعلوم دیوبند کے ان جلیل القدر اساتذہ میں تھا جو اپنی علمی لیاقت، حاضرجوابی، علمی گہرائی اور گیرائی، وسعت قلبی اور خورد نوازی میں فائق رہے ہیں۔ درس میں افہام و تفہیم کا انداز بہت عمدہ اور نرالہ تھا، مولانا کامیاب مدرس، بہترین قلم کار ہونے کے ساتھ ایک اچھے اور عمدہ مقرر بھی تھے، آپ کی تقریریں صاف، شستہ اور بڑی موثر ہوتی تھیں، اسی کے ساتھ آپ کے رشحات قلم سے کئی چیزیں بھی معرض وجود میں آئیں، جن میں سے ایک ”فتاویٰ عالمگیری“ جز۱۵، ”کتاب الایمان“ کا اردو ترجمہ، اسی طرح تحسین المبانی فی علم المعانی میں ضمیمہ کا اضافہ اور علامہ عبدالمجید عزیز الزندانی الیمنی کی کتاب التوحید کا اردو ترجمہ جو پانچ سو صفحات اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ رد مودودیت پر علمی محاضرات جو دارالعلوم دیوبند کی جانب سے شائع کیے گئے ہیں، یہ چیزیں آپ کے علمی گراں قدر اور قلمی شاہکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو قبول فرمائے، آمین! (نقوش حیات خلیل الرحمن برنی، ص۲۱۸)

دارالعلوم دیوبند میں حسب ذیل کتب کا درس آپ سے متعلق رہا

            روضة الادب، الفیة الحدیث، مقامات حریری، البلاغة الواضحہ، تفسیر مظہری، ہدایہ اوّلین، اصول الشاشی،القراء ت الواضحہ، دیوان متنبی، مختصرالمعانی، الصف العربی، تلخیص المفتاح، سلم العلوم، ہدیہ سعیدیہ، ترجمہ القرآن الکریم، قواعد الفقہ، تاریخ الادب العربی، الانشاء العربی، ہدایہ رابع، ہدایہ ثالث، حماسہ، سبعہ معلقہ، مقدمہ ابن صلاح، حسامی،الفوز الکبیراور ۱۴۳۱ھ سے مشکوٰة شریف، ۱۴۳۴ھ سے ابن ماجہ شریف کا درس بھی آپ سے متعلق ہوگیا، ۲۰۰۸/ میں آپ دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم بنائے گئے اور یہ ذمہ داری بھی بحسن وخوبی آپ نبھاتے رہے آخر میں نیابت اہتمام کی ذمہ داری، مشکوٰة شریف، ابن ماجہ شریف اور دیوان متنبی کے اسباق آپ کے یہاں ہوتے تھے جن کو عمر کے آخرتک عمدہ طریقہ سے آپ نے انجام دیا۔

آپ کی علالت

            سال گذشتہ عید کے بعد آپ گرگئے تھے جس سے آپ کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اس کا آپریشن ہوا وار اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفا ہوگئی تھی اورامور مفوضہ آپ نے سنبھال لیے تھے؛ لیکن پھر آپ کو پیلیا ہوگیا اور ادھر پت کی تھیلی میں سنگریزے ہوگئے تھے جسم میں کینسر کے آثار بھی رونما ہوئے اور آخر تک پیلیا ٹھیک نہ ہوسکا اور وقت موعود آگیا اور آپ اہل علم، متعلقین ومعتقدین، تلامذہ اور بے شمار رشتہ داروں اور چاہنے والوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلے گئے؛ تاہم آپ کے حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کی خوشبو ابھی مہک رہی ہے اور ان شاء اللہ مہکتی رہے گی۔ آپ کے ہزاروں شاگرد اور آپ کی دیگر علمی باقیات ان شاء اللہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، آپ کئی مدرسوں کے سرپرست اور متعدد تنظیموں کے مشیر اور نگراں تھے، یہ سب آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور آپ کے اہلِ خانہ اور متعلقین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ انّ للّٰہ ما اعطٰی ولہ ما اخذ وکل شيء عندہ لاجل مسمّٰی، انا للّٰہ وانّا الیہ راجعون․

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :10،    جلد:105‏،  صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق   اكتوبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts