حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ

(محدث دارالعلوم دیوبند)

(۱۹۴۲- ۲۰۲۱ء)

از: مولانا مفتی امانت علی قاسمی

 استاذ و مفتی دار العلوم وقف دیوبند

            کورونا کا جتنا رونا رویا جائے کم ہے؛ اس لیے کہ اس نے ہم سے ہمارے بہت سے قیمتی سرمایے چھین لیے،ہم اپنے عزیزوں سے بچھڑ گئے ، اپنی پسندیدہ شخصیتوں سے دور ہوگئے ، قدرت کی کرشمہ سازی ہے ، حق جل مجدہ کا فیصلہ ہے اس کے آگے کسی کو پر مارنے کی اجازت نہیں؛ لیکن رنج و الم اور غم و اندوہ کا جو سیلاب آیا ہے اس سے رہ رہ کر غم کے آنسوچھلک پڑتے ہیں ،آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں ، دل بے قرار ہوجاتاہے، طبیعت اداس ہوجاتی ہے،بسا اوقات ماحول کا یہ تکدر ناقابل برداشت ہوجاتاہے ۔کورونا کی اس دوسری لہر نے واقعی موت کو بہت قریب کردیا ،اپنے لوگوں کو جاتا دیکھ کر ہم موت کو قریب ترمحسوس کرنے لگے ہیں۔ اس دوسری لہر میں ہم جن عظیم شخصیتوں سے محروم ہوئے ہیں ان میں ایک اہم نام حضرت الاستاذ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی (محدث دارالعلوم دیوبند)کاہے۔

جانے کیا ہے موت کیا ہے زندگی

چلتے چلتے کیسے تھم جاتی ہیں تصویریں تمام

            آپ کی پیدائش ضلع اعظم گڈھ کے گاوٴں جگدیش پور میں ۱۹۴۲ء میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم گاوٴں میں حاصل کی ، اس کے بعددارالعلوم مئو کا رخ کیا ، پھر مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے دارالعلوم تشریف لائے اور اخیر میں ۱۹۶۲ء میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی ۔فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ بنارس میں بھی تدریسی خدمت انجام دی اور ۱۹۸۰ء میں ”موتمر فضلاء دیوبند“ کے زیر اہتمام نکلنے والے رسالہ” القاسم “ کی ادارت کے لیے دیوبند تشریف لائے اور ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات سے وابستہ ہوگیے اور قریب چالیس سال تک علم وفکر کی شمع روشن کرنے کے بعد علم حدیث کا یہ آفتاب درخشاں۳۰/رمضان ۱۴۴۲ھ مطابق۱۳/مئی ۲۰۲۱ئکو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔

بجھ چلے ہیں سارے یادوں کے چراغ

اب چراغوں کا دھواں ہے اور ہم

            آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے ، آپ بحر تحقیق کے عظیم شناوراور آسمان علم و فضل کے نیرتاباں تھے، مطالعہ آپ کی روح اور غذاتھی،تحقیق آپ کا ذوق تھا ،علم حدیث سے اشتغال آپ کاپسندیدہ موضوع تھا، عبادت و ریاضت آپ کی زندگی کا محبوت ترین حصہ تھا، قرطاس و قلم آپ کے بہترین رفیق تھے، تنہائی و گوشہ نشینی آپ کی ہم دم و ہم ساز تھی ۔آپ نے مسند حدیث پر جلوہ افروز ہوکر تشنگانِ حدیث کے کشت ویراں میں شادابی پیداکی ۔اپنی خامہ فرسائی کے ذریعہ افکار و خیالات کی آبیاری کی، تعلیم وتربیت کی بھٹی میں تپاکر افراد سازی کی عظیم ذمہ داری پوری کی۔

            حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی کی شخصیت علم و عمل ، فکر و تدبر ہر اعتبار سے ممتاز ہے ، آپ دارالعلوم کی مسند حدیث کی زینت تھے، درالعلوم کے بام و در میں آپ سے رونق تھی ،طلبہ میں آپ بہت مقبول تھے، آپ کے چلے جانے سے درالعلوم میں ایک خلا پیداہوگیا ، وابستگانِ قاسمی کے لیے آپ کے جانے کا غم ناقابل تحمل ہے، سچ یہ ہے کہ آپ کے جانے سے فکر دارالعلوم کو نقصان پہونچاہے، یہاں کے گل کدہ و چمن پژمردہ ہوگئے ،غنچے اور پھول مرجھاگئے ، درودیوار آپ کو تلاش رہی ہے، دارالحدیث کی مسند آہ و بکا کررہی ہے۔جب بھی اعظمی منزل کے پاس سے گزرتا ہوں اور آپ کے کمرے پر نظر پڑتی ہے تو نگاہیں آپ کو تلاش کرتی ہیں؛ لیکن وہاں خاموشی ، اداسی اور سناٹا دکھائی دیتا ہے ۔ہائے !

آج سارے چمن میں ماتم ہے

موت نے اس کا حسن لوٹاہے

اردو ادب کا تاجدار

            آپ کا قلم رواں دواں تھا، اور علمی جواہر پارے بکھیر رہا تھا ،جب آپ اپنے منفرد اسلوب میں کچھ لکھتے تو پڑھنے والا قاری عش عش کرتا رہ جاتا ، عام طورپر جن کی زندگی میں تدریسی رنگ غالب ہوتاہے ان کا تحریری رنگ پھیکا ہوتا ہے؛ اس لیے کہ تدریس اور تحریر دو الگ الگ وادی ہیں، جن دونوں کا ملاپ بہت کم ہوتاہے،عام طورپر دیکھا یہ جاتاہے کہ خالص مدرسین جن کا اوڑھنا اور بچھونا تدریس ہوتی ہے ان کو لکھنے سے دلچسپی بہت کم ہوتی ہے اور اگر وہ لکھتے ہیں تو ان کی تحریر میں جاذبیت و کشش ، ادبی چاشنی،تحریری روانی،تعبیرات کی ارزانی اور خیالات کی فراوانی مفقود ہوتی ہے؛ لیکن حضرت الاستاذ اس سے بالکل مستثنیٰ ہیں ، آپ کا مطالعہ عربی ادب ، حدیث ، فقہ تاریخ کے علاوہ اردو ادب میں بھی بہت وسیع اورگہرا تھا۔ ایک مرتبہ بہار کے مشہور شاعرڈاکٹر کلیم عاجز صاحب دارالعلوم تشریف لائے اور ہفتم اولی میں ان کا پروگرام تھا باوجودکہ حضرت الاستاذ پروگراموں میں بالکل نہیں جاتے تھے؛ لیکن اردو ادب اور شعرو شاعری کے شغف کا نتیجہ تھا کہ اس پروگرام میں جلوہ افروز تھے، مکمل پروگرام میں موجود رہے اور اخیر میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ: جب میں مطالعہ کرکے تھک جاتاہوں تو ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کی شاعری سے دل بہلاتا ہوں۔اس سے اردو ادب میں آپ کے مطالعہ کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ،یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں زبان کی چاشنی ،سلاست وروانی، ادبی شہ پارے ، فکرو خیال کی ہمہ گیری ، اسلوب بیان کی ندرت سب کچھ پائی جاتی ہے ، آپ کی تحریریں حشو و زوائد سے خالی اور تحقیق سے لبریز ہوتی تھیں ۔آپ کی اسی قلمی قابلیت اور ادبی کمال کو دیکھ کر دارالعلوم نے ماہ نامہ دارالعلوم کا آپ کو مدیر بنادیا تھا۔جس کے آپ ایک عرصے تک مدیر رہے، انھیں دنوں آپ کے قلم گہربار سے بہت سی بیش قیمت تحریریں وجود میں آئی ان میں سے بعض کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہیں۔آپ کے مقالات کا مجموعہ ”مقالاتِ حبیب“ جو اردو ادب کے ساتھ تاریخ ، سیرت اور خاکوں کا حسین مجموعہ ہے اس کی تقریظ میں دارالعلوم دیوبند کے عظیم انشا پرداز حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب  استاذ عربی ادب دارالعلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں :

دارالعلوم دیوبند، اس کے فکری اساس ، مسلکی اعتدال ، دین و دعوت کی اس کی پاسبانی اور اس کے فضلا کی دینی و دعوتی میدان میں خدمتوں کی بے پناہی پر اتنا اچھا لکھا ہے کہ کہنا چاہیے کہ قلم توڑ دیا ہے صحافیانہ سطحیت ، نامہ نگارانہ خشکی اور ہمہ وقت لکھنے والے شہرت کے رسیا قلم کاروں کی ناپختگی و ناہم واری سے ان کی زبان بالکل مبرا ہے کم نویس لوگ عموما طویل غور وفکر ، چھان پھٹک اور انتخاب عمل پر کار بند ہوتے اس لیے ان کی نگارشات صرف مغز اور گودے سے عبارت ہوتی ہیں، مولانا بھی انھی خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہیں ۔(مقالات حبیب ج ، اص:۱۸)

بحر تحقیق کے غواص

            آپ نے تنہائی اور گوشہ نشینی کی زندگی کو ترجیح دی تھی ، مجلس اور جلسے جلوس سے آپ احتراز کرتے، دارالعلوم اور دارالعلوم کے باہر عموماً پروگراموں میں نہیں جاتے تھے ، مطالعہ کے خوگروعادی تھے،جو آپ کے درس اور آپ کی تحریروں میں نمایاں طورپر دکھائی دیتا تھا ،آپ دارالعلوم میں عام طورپر تنہا رہتے تھے او رہر وقت مطالعہ میں منہمک نظر آتے تھے۔آپ کی تحریریں نہ صرف علم و ادب کے متوالوں کی پیاس بجھاتی تھیں ؛بلکہ یہ تحریریں علم و تحقیق کی بھی آئینہ دار ہوتی تھیں ، آپ کا مزاج تحقیقی تھا ، آپ کی تحریروں کے حوالے بتاتے ہیں کہ آپ جو کچھ بھی لکھتے تھے وسیع مطالعہ کے بعد لکھتے تھے،تحریر میں تحقیق کا رنگ غالب نظر آتاہے، آپ کے اداریے اور کتابیں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ آپ کے مطالعہ اور ذوقِ تحقیق کے تعلق سے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت اقدس مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں :

 وہ سرسری مطالعہ کے قائل نہیں تھے، جس موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہوتا اس سے متعلق قدیم و جدید مراجع کا گہرائی سے مطالعہ کرتے اور حاصل مطالعہ یاداشت کی شکل میں جمع کرتے جاتے اور جب اپنے طورپر مطمئن ہوجاتے تو تحریر کے لیے قلم اٹھاتے (حبیب ِمارفیقِ ما،ص:۵)

             حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کے ان کلمات سے اندازہ ہوتاہے کہ آ پ اصول تحقیق سے اچھی طرح واقف تھے اور اپنی تحریروں میں اصول تحقیق کو ملحوظ رکھتے تھے ،اسی وجہ سے آپ کی تحریروں میں پختگی اور شستگی کے ساتھ ساتھ استناد کی حیثیت پائی جاتی ہے۔

باکمال مدرس

            تدریس میں آپ کی شان بڑی نرالی تھی، آپ کا سبق بہت مقبول ہوا کرتا تھا،سبق میں مضامین کی روانی کا یہ عالم ہوتا کہ محسوس ہوتا کہ علم کا دریا ہے جو خاص انداز میں بہہ رہا ہے، آپ جب کسی موضوع پر شروع ہوتے تو بس شروع ہوجاتے اوربولتے کیا تھے کانوں میں رس گھولتے تھے، ایک ایک بات ذہن و دماغ میں محفوظ ہوجاتی ۔ ہفتم عربی میں پہلی مرتبہ آپ سے مشکوة شریف ، مقدمہ شیخ عبدالحق اور شرح نخبة الفکر پڑھنے کا موقع ملا ،واقعہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اس انداز سے حدیث کی تشریح و توضیح سننے کا موقع ملا ،پھر اس کے بعد دورہ حدیث میں ابوداوٴد پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ۔اپنا تاثر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس زمانے میں آپ کو پہلے زمانے کی مثال بنایا تھا ،آپ اپنے اسلاف کا ایک نمونہ تھے ، اگر کوئی سمجھنا چاہے کہ علامہ انور شاہ کشمیری کا درس کس طرح ہوتا ہوگا؟ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا انداز درس کیاتھا؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ حضرت الاستاذ کے سبق سے ان اساطین علم وفن کے قد و قامت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ، یہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔

علم حدیث کا آفتاب درخشاں

            آپ کی تحریری زندگی اگر چہ مختلف النوع جہات پر مشتمل ہے ، ان تحریروں میں تاریخی پہلو بھی ، سیرت وسوانح کا باب بھی ،فرق باطلہ کا تعاقب بھی ہے اور فقہی دقیقہ سنجی بھی ، مسائل کا بیان بھی اور سیرت صحابہ کی عظمت کا تذکرہ بھی ،افکار کی جولانی بھی اور نظریات و خیالات کا بانکپن بھی؛ لیکن آپ کی تدریسی زندگی کا بڑا حصہ صرف اور صرف علم حدیث کے لیے مختص رہاہے ، آپ کو حدیث سے حد درجہ شغف تھا، حدیث کی کتابوں کا مطالعہ آپ کا پسندیدہ موضوع تھا،یہی وجہ ہے کہ ارباب دارالعلوم نے آپ کوصرف حدیث کی کتابیں دی تھیں ، ہفتم میں مشکوة پڑھاتے تھے،دورہ حدیث میں ابوداوٴد پڑھاتے اور کچھ دنوں کے لیے تخصص فی الحدیث میں بھی گھنٹہ تھا ۔آپ بڑے اہتمام سے حدیث پڑھایا کرتے تھے، علم حدیث میں آپ کو متن حدیث ، سند حدیث اور اصول حدیث تینوں میں امتیاز حاصل تھا،روایت حدیث اور درایت حدیث دونوں میں ہی آپ کو ملکہ حاصل تھا۔مشکوة شریف میں تو آپ سند پرگفتگو نہیں کرتے تھے؛ لیکن حدیث کی دلنشیں تشریح کرتے تھے ، متقدمین و متاخرین کی تشریحات آپ کو ازبر تھیں ، دلائل کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ سننے و الے دلائل سنتے سنتے دم بخود ہوجاتے ایسا محسوس ہوتا کہ احناف کے مقابلہ میں جو دوسرا مسلک ہے وہ اس مسئلے میں بہت کمزور ہے، آپ کی فقہ حنفی کی زبردست ترجمانی دیکھ کر طلبہ آپ کو” ابن حجر ثانی “کے لقب سے یاد کرتے تھے اور ایسا نہیں تھا کہ صرف اختلافی مسائل پر ہی کلام کرتے جیسا کہ عموماً ہمارے درس کا حال ہے؛ بلکہ آپ غیر اختلافی احادیث پر بھی بہترین گفتگوفرماتے تھے، حدیث جبرئیل کی تشریح کئی دنوں تک ہوتی تھی ، اخلاقیات پر بھی عمدہ کلام کرتے تھے ۔

اصول حدیث میں آپ کا مقام

            اصول حدیث میں بھی آپ کی نگاہ بہت بلند تھی ، آپ کے اصول حدیث کے سبق میں مقدمہ ابن صلاح وغیرہ کا نام اس کثرت سے آتا تھاکہ ایسا محسوس ہوتا کہ آپ نے” مقدمہ ابن صلاح “کو حفظ کر رکھا ہے ۔ آپ نے مقدمہ شیخ عبد الحق کی شرح لکھی ہے اس میں بہت سے مقامات پرآپ نے کافی و شافی کلام کیا ہے اور جمہور کی رائے سے الگ اگر کوئی رائے شیخ دہلوی نے قائم کی ہے یا جمہور کی تعبیر میں او رشیخ دہلوی کی تعبیر میں کہیں کوئی فرق ہے تو آپ نے اس کی بھی نشاندہی کی ہے ، اس کتاب کے مقدمہ میں دارالعلوم دیوبند کے عظیم محدث، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی تحریرفرماتے ہیں :

سب سے پہلے مقدمہ کی تصحیح پر سعی بلیغ کی ہے ، لمعات التنقیح عربی اور اشعة اللمعات اور شرح سفر السعادة فارسی کے مقدموں سے مقابلہ کرکے اغلاط کی تصحیح کی ہے، لفظی ترجمہ اور محاورہ کی رعایت کرتے ہوئے ترجمہ کو آسان بنانے کی کوشش کی ہے اور اطناب سے پرہیز کرتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے ۔اگر کہیں محدث دہلوی نے جمہور کی تعریف سے ہٹ کر کوئی الگ تعریف کی تو اس کی نشاندہی کی ہے تاکہ طالب علم اگر فن کی دوسری کتاب پڑھے یا مطالعہ کرے تو ذہنی تشویش میں مبتلا نہ ہو (شرح مقدمہ شیخ عبدالحق،ص:۹)

            اصول حدیث میں شرح نخبة الفکر بھی آپ سے متعلق تھی ، اس کو بھی آپ بڑی محنت ولگن سے پڑھاتے تھے،اور اصول حدیث پر جو آپ کلام کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ آپ اس فن میں امامت کے منصب پر فائز ہیں ،شرح نخبة الفکر میں جہاں پر ابن حجر نے صحابی کی تعریف کی ہے ، من لقی النبی ﷺ و مات علی الاسلام وہاں پر ایسے شخص کے بارے میں اختلاف ہوگیا ہے جو حضور کے ہاتھ پر ایمان لائے ، پھر مرتد ہوجائے پھر دوبارہ اسلام قبول کرلے اس کو صحابی کہا جائے گا یا نہیں؟حافظ ابن حجر نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ارتداد کے بعد اگر انھوں نے اسلام قبول کرلیا ہے تو ان پر صحابی کا اطلاق ہوگاخواہ انھوں نے حضور کی زندگی میں اسلام قبول کیا ہو یا حضور کے بعد اسلام قبول کیا ہو، اسی لیے انھوں نے صحابی کی تعریف میں ولو تخللت ردة کا اضافہ کیا ہے ۔حضرات شوافع کا یہی مسلک ہے جب کہ ا حناف کا مسلک یہ ہے کہ ارتداد تمام اعمال کو ختم کردیتا ہے اس لیے صحبت ِنبی کی فضیلت کو بھی ختم کردے گا ۔اس مسئلے میں حضرت الاستاذ شوافع کے نظریے کی تائید کرتے تھے اوراس موقع پر آپ حضراتِ صحابہ کا تذکرہ بہت ہی وجد آمیز لہجے میں کرتے تھے اور حضرات صحابہ کے فضائل و مناقب پر بڑی جامع گفتگو فرماتے تھے۔

فن اسماء الرجال میں آپ کی مہارت

            حضرت الاستاذ کو فن حدیث میں علم الجرح و التعدیل اور فن اسماء الرجال سے خاص مناسبت تھی؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ ہندوستان میں وہ اس وقت اس فن میں منفرد تھے،اور اس فن میں امتیازی شان کے حامل تھے ، اس فن میں آپ کو بے پناہ مہارت تھی،فن اسماء الرجال بھی تاریخ کا ہی ایک حصہ ہے اور تاریخ سے شروع سے ہی آپ کو بہت زیادہ مناسبت تھی ،اسی وجہ سے اس فن میں آپ کو بے حد کمال حاصل تھا،راویوں کے حالات اور طبقات پر آپ کی نظر بہت گہری تھی، اس فن کی اہم کتابیں ہمیشہ آپ کے مطالعہ میں رہتی تھیں ، دوران طالب علمی اس فن کی بہت سی کتابوں کا نام پہلی مرتبہ آپ کی ہی زبان سے سننے کا موقع ملا،مِزی اور ذہبی کا نام بہت کثرت سے لیا کرتے تھے، مزی کی تحفة الاشراف،اور تہذیب الکمال ،علامہ ذہبی کی تاریخ الاسلام ، تذکرة الحفاظ ،او رسیر اعلام النبلاء ،ابن حجرکی تہذیب التہذیب ،اس طرح کی کتابوں کے نام ہر دن سننے کو ملتے تھے او راس فن کی امہات کا ہی آپ مطالعہ کرتے تھے بعد کے لوگوں کا آپ مطالعہ نہیں کرتے تھے۔راوی پر کلام کرتے ہوئے ان کی تاریخ پیدائش ، جائے پیدائش وغیرہ بیان کرتے اور خاص طورپر ناموں کے تلفظ پر بہت زور دیتے ، اگر کوئی نام ایسا ہوتا جس کے پڑھنے میں غلطی کا امکان ہوتاتو اس کی خاص نشان دہی فرماتے ، کہتے یاد رکھنا یہ زَبیر ہے زُبیر نہیں ۔دوران درس حدیث کی صحت و ضعف کے محدثین کے حکم پر بحث کرتے تھے اور اگر کوئی حدیث فقہ حنفی کے موافق ہے لیکن اصحاب صحاح نے اس پر کلام کرکے اس کو ضعیف قرار دیا ہے توآپ اس پر کلام کرتے اور دوسرے اصحاب الجرح و التعدیل کی آراء کو بیان کرکے اس حدیث کی صحت کا حکم لگاتے اس وقت درس کا منظر قابل دید ہوتا تھا، ہر کوئی انتہائی سکون و سنجیدگی سے ان کے درس کی ان دقیقہ سنجی اور فنی گفتگو سے لطف اندوز ہوتا اورسبق کے اختتام پر آپس میں ہم لوگ تذکرہ کرتے بھائی آج تو مزا آگیا ۔

 شیوخ الامام أبی داوٴد

            اس وادی (علم اسماء الرجال )کا آپ نے نہ صرف سیر کیا تھا؛ بلکہ اس بحر بے کراں میں آپ نے غواصی کی تھی اور اس کی تہوں سے بہت سے درنایاب چنے تھے اور انھیں لعل و گہر کا مجموعہ”شیوخ الامام أبی داوٴد السجستانی فی کتاب السنن“ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ یہ کتاب عربی زبان میں ۲۶۰ صفحات پر مشتمل ہے او رمکتبہ دارالعلوم سے شائع ہوئی ہے ، اس کتاب میں حضرت الاستاذ شیوخ ابو داوٴد کے تراجم او رحالات کو بیان کیا ہے ، اور ان کے ثقہ اور علم حدیث مقام و مرتبہ کو بیان کیا ہے ،کتاب کے ابتداء میں امام ابوداوٴد کے حالات کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ اس کتاب کے مصادر میں تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب ،سیر اعلام النبلاء ،میزان الاعتدال ، کاشف اور تقریب التہذیب وغیرہ شامل ہیں ۔ امام ابوداوٴد کے شیوخ کی تعداد کتنی ہے اس سلسلے میں علامہ ابن حجر کا قول نقل کیا ہے کہ ان کے شیوخ کی تعداد تین سو ہے پھرخود فرماتے ہیں کہ میرے تتبع او رتلاش میں شیوخ کی تعداد چار سو ہے؛ چنانچہ اس کتاب میں انھوں نے ابوداوٴد کے شیوخ میں سے ۳۹۲ کا تذکرہ کیا ہے ۔ترتیب میں حروف تہجی کو بنیاد بنایا ہے تاکہ تلاش و جستجو میں سہولت ہو ۔تذکرہ کا انداز یہ ہے کہ شیخ کا مختصر تعارف ، ان کے اساتذہ او رشاگردوں کا نام بیان کرنے کے ساتھ ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال کے حوالے سے علم حدیث میں ان کی حیثیت پر گفتگو کرتے ہیں اور افراط و تفریط اور حشوو زوائد سے گریز کرتے ہیں : چنانچہ پہلے شیخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

احمد بن ابراہیم بن خالد، ابوعلی الموصلی نزیل بغداد

روی عنہ أبوداوٴد : عن محمد بن ثابت العبدی فی السنن حدیثا واحدا

کتب عنہ أحمد بن حنبل، و یحیی بن معین و قال: لابأس بہ و قال فیہ ابوزکریا یزید بن محمد الأزدی صاحب، تاریخ الموصل: ظاھر الصلاح و الفضل کثیر الحدیث و ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات و قال الذہبی فی الکاشف: وثق، و قال ابن حجر فی التقریب: صدوق مات لیلة السبت لثمان مضین من ربیع الاول سنہ (۲۳۶)

            علم الجرح و التعدیل اور فن اسماء الرجال میں مہارت او رمطالعہ کی کثرت کا نتیجہ یہ بھی تھا کہ آپ نے رجال اور شخصیات پر جو تحریریں لکھیں وہ عام تحریروں سے بالکل مختلف ہیں، آپ کی تحریریں غلو ، افراط و تفریط او رحشو زائد سے خالی ہوتی ہیں ، آپ نے تاریخ علماء اعظم گڈھ لکھی ، اس میں آپ نے فن اسماء الرجال سے بھر پور مدد لی ہے، اسی طرح سیر سوانح کے عنوان سے آپ نے بہت سے مضامین لکھے ہیں او رمختلف شخصیات کا خاکہ تیار کیاہے ، آپ کے مجموعہ مقالات میں ایک باب ”تذکرہ ارباب فضل و کمال“ کا ہے جس میں آپ نے حضرت امام ابوحنیفہ ، امام ابوداوٴد ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، شیخ محمد جون پوری ،حضرت مولانا یعقوب نانوتوی ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ کے خاکے اور تذکروں کا حسین مرقع اور خوبصورت تصویری البم پیش کیا ہے اس میں بھی آپ کے اسی ذوق کو خا ص دخل ہے ۔

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :10،    جلد:105‏،  صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق   اكتوبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts