از: مولانا اسجد عقابی قاسمی
استاذ دارالعلوم وقف دیوبند
محنت، جفا کشی، عزم و استقلال اور جہد مسلسل انسان کو بلندی کے اس معیار پر لے جاتے ہیں جہاں ہر کس و ناکس کی رسائی ممکن نہیں ہوتی ہے۔ انسان میں ودیعت رکھی گئی خوبیاں، صلاحیتیں، اور اعلیٰ کمالات کا استعمال معدودے چند افراد کے کوئی نہیں کرتا ہے یا بیشتر ان خوبیوں کے ادراک سے غافل رہ جاتے ہیں؛ لیکن اگر صدق دل سے محنت کی جائے تو توجہات قدسیہ کے طفیل وہ کامیابیاں نصیب ہوا کرتی ہیں جنہیں صدیوں تک یاد رکھا جاتا ہے۔ کسب اور فیض الٰہی نے ایک معمولی اور غیر معروف علاقہ کے فرد (مولانا نور عالم خلیل امینی)کو ایسی خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا جن کی جانب انتساب اہل علم وادب کے نزدیک باعث فخر و مباہات سمجھا جاتا تھا۔ جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا طالب علم کے لیے علمی معراج تصور کیا جاتا تھا۔ جن کی کتابوں کا مطالعہ زبان و ادب اور رموزاوقاف میں مہارت پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ جن کے لکھے گئے مضامین و مقالات کو باعتبار زبان درجہ سند حاصل تھا۔ جن کی لکھی ہوئی کتاب پر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی گئی ہے۔ ایسی باکمال، بافیض، صاحب علم و فکر، با بصیرت، فہم وفراست سے منور ہستی اور ادراک و احساس کے اعلیٰ ترین مقام پر قائم شخصیت مولانا نور عالم خلیل امینی۳/مئی۲۰۲۱ئکو دار بقا کی جانب کوچ کرگئی۔
آ! عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
مولانا نور عالم خلیل امینی ایک فرد یا شخص کا نام نہیں تھا بلکہ آپ اپنی ذات میں انجمن اور قافلہ تھے۔ آپ تحقیق و تدقیق کی اس خوبصورت وادی کے راہی تھے جن کے سوتے اسلاف تک پہنچتے ہیں۔ خط وکتابت اور انشا پردازی کے منفرد اسلوب کے خالق ہیں۔
آپ کی پیدائش۱۹۵۲ئمیں سیتا مڑھی میں ہوئی اور آپ کی ابتدائی تعلیم علاقہ کی مشہور و معروف درس گاہ (مدرسہ امدادیہ دربھنگہ) میں ہوئی۔ بعد ازاں آپ نے دارالعلوم مئو، دارالعلوم دیوبند اورمدرسہ امینیہ دہلی سے بھرپور علمی استفادہ کیا تھا۔ آپ کی زندگی پر ان جبال العلوم اور آفتاب و ماہتاب کے گہرے نقوش پائے جاتے تھے، جن کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ پابندی وقت میں آپ ضرب المثل تھے۔ وقت کے نظام الاوقات میں آپ متاخرین علماء کی چھاپ رکھتے تھے۔ غیر ضروری ملاقات سے اجتناب فرماتے اور وقت کو خوب سوچ سمجھ کر مفید کاموں میں استعمال کیا کرتے تھے۔
۱۹۸۲ء میں آپ کو دارالعلوم دیوبند نے باضابطہ دارالعلوم ندوة العلماء سے بلایا تھا۔ ان دنوں آپ دارالعلوم ندوہ العلماء میں درس وتدریس سے متعلق تھے۔ دارالعلوم ندوة العلماء میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی رفاقت اور معیت نے مولانا نور عالم خلیل امینی کی صلاحیتوں میں چار چاند لگا دیے۔ مولانا علی میاں ندوی کے اعتماد نے آپ کے ادبی ذوق و شوق کو مزید مہمیز لگایا تھا۔ مولانا علی میاں ندوی کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنے مضامین و مقالات نظر ثانی کے لیے مولانا نور عالم خلیل امینی کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ ۱۹۷۲سے ۱۹۸۲ئتک تقریباً دس سال کے طویل وقفہ کے دوران مولانا نور عالم خلیل امینی نے عربی زبان و ادب کے حوالے سے وہ شہرت حاصل کی تھی جس کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند کی جانب سے خصوصاً عربی زبان و ادب کی خدمت کے لیے آپ کو پیش کش کی گئی تھی۔ مولانا علی میاں ندوی کے مشورہ سے آپ دارالعلوم ندوة العلماء سے دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے۔
مولانا نور عالم خلیل امینی کو سب سے زیادہ مولانا وحید الزمان کیرانوی کی شخصیت نے متاثر کیا تھا۔ آپ کے رہن سہن، وضع قطع، گفتار و رفتار ہر چیز میں مولانا کیرانوی کی چھاپ نظر آتی تھی۔ درس و تدریس میں آپ نہایت پر زور انداز میں اس طرزِ تدریس کے داعی تھے جسے مولانا کیرانوی نے وضع کیا تھا۔ آپ وقفہ وقفہ سے ان باتوں کو اور ان طریقوں کو طلباء کے درمیان دہراتے رہا کرتے تھے۔ آپ طلباء میں تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کے داعی تھے، رٹے ہوئے ترجمہ اور تشریح سے حد درجہ گریز کیا کرتے تھے۔ آپ کے فیض یافتگان اس انداز درس وتدریس کے حد درجہ مدح خواں ہیں۔
مولانا نور عالم خلیل امینی بے باک، نڈر اور بے خوف قلم کار تھے۔ آپ کے مضامین وقت کی سفاک اور ظالمانہ حکومت کی قلعی کھول دیا کرتے تھے۔ آپ کے مضامین تحقیقی ہوا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی ادارت میں شائع ہونے والا مجلہ (الداعی) خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ آپ نے مظلومین کے حق میں اپنے قلم کے ذریعہ آواز بلند کیا تھا اور ظالمین کے سفاک چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ جن چہروں پر ملکوتی چادریں تنی ہوئی تھیں، انھیں آپ نے سر عام تحقیق و تدقیق کی میز پر سجا کر عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ملک کی موجودہ پالیسی پر کھل کر تنقید کی تھی، اور ارباب اقتدار کی ان غلطیوں کی نشاندھی کی تھی جو مستقبل کے لیے مضر ثابت ہوتی۔ آپ کا شمار ان قلم کاروں میں ہوتا تھا جو ہر حال میں حقیقت حال کو عوام الناس تک پہنچاتے تھے۔
وقت کی پابندی اور بے جا محافل و مجالس میں شرکت سے دوری نے مولانا نور عالم خلیل امینی کو بہترین قلم کار ہی نہیں بلکہ زود قلم بھی بنا دیا تھا۔ آپ بہت زیادہ لکھنے کے عادی تھے۔ آپ نے تقریباً دس کتابیں اردو زبان میں اور اتنی ہی کتابیں عربی زبان میں تحریر فرمائی ہیں۔ جن میں تین کتابیں سوانحی مضامین کا مجموعہ ہیں؛ بلکہ ایک کتاب (وہ کوہ کن کی بات) منفرد انداز میں لکھی گئی مکمل سوانح ہے، جسے مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب نے اپنے استاذ محترم مولانا وحید الزمان کیرانوی کی شخصیت کو متعارف کرانے کے لیے مرتب کیا تھا۔ دوسری اہم کتاب پسِ مرگ زندہ ہے۔ اس کتاب میں آپ نے ان شخصیات پر خامہ فرسائی کی ہے جنہیں آپ نے دیکھا تھا اور جن سے آپ کے دیرینہ تعلقات تھے، اسی موضوع پر تیسری کتاب (رفتگان نارفتہ)ہے۔ کیا معلوم تھا کہ اتنی جلدی آپ بھی انھیں مسافرانِ آخرت میں شامل ہوجائیں گے۔ آپ کی کتاب (فلسطین صلاح الدین کے انتظار میں)کافی مقبول ہوئی۔ مولانا نور عالم خلیل امینی ان خوش نصیب اصحاب علم میں سے ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ زبان و قلم دونوں سے مالا مال فرماتے ہیں۔ مولانا نور عالم خلیل امینی کی مختصر تقریر جسے آپ نے (حرفِ شیریں) کے نام سے مرتب کیا ہے، اب تک اس کتاب کے تقریباً چالیس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ یہ عند اللہ مقبولیت کی دلیل ہے۔
عربی زبان میں آپ کی مرتب کردہ کتاب (مفتاح العربیہ)مدارس میں داخل نصاب ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے تقریباً پچیس اہم اور بنیادی کتابوں کا عربی ترجمہ کیا تھا۔ جن میں (علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج)ہے۔
الداعی کے لیے لکھے گئے اشراقہ کا مجموعہ بنام (من وحی الخاطر) پانچ جلدوں میں ہے۔ سیمینار، کانفرنس اور دیگر پروگراموں کے لیے لکھے گئے مضامین و مقالات الگ ہیں۔ عالم عرب کے علمی وادبی سیمیناروں میں آپ نے شرکت کی ہے اور آپ کے علم و فضل کے قائل وہ اصحاب فکر و نظر بھی رہے ہیں جو اپنی ذات میں انجمن تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ (دیوبندیت) اور اکابر دیوبند کو آپ نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے عالم عرب میں متعارف کرایا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی کی عربی سوانح (الشیخ المقری محمد طیب)لکھ کر حکیم الاسلام کی عبقری شخصیت سے عرب دنیا کو متعارف کرایا۔ حضرت تھانوی کی کتابوں کی تعریب کرکے ان کے علوم وفنون سے عربی زبان والوں کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ آپ نے بے شمار ایسے علمی کارنامے انجام دیئے ہیں جو صدیوں تک یاد رکھے جائیں گے اور جن کے فیوض وبرکات نسلوں تک باقی رہیں گے۔
آپ کی ادیبانہ شخصیت کہیں نہ کہیں آپ کی علمی پہچان پر حاوی ہوگئی تھی؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کو ان سے زیادہ پڑھنے والا اور ان کے اصول و ضوابط کو اپنی زندگی میں ان سے زیادہ پرکھنے والا شاید کوئی موجود ہو۔
مفتی سعید احمد پالن پوری (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)کی مرتب کردہ (حجة اللہ البالغہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی) پر آپ کا مقدمہ آپ کی جلالت علمی کو بتانے کے لیے کافی ہے۔
مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کو۲۰۱۷ئمیں عربی زبان کی خدمات کے اعتراف میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اردو اور عربی زبان و ادب میں آپ فقید المثال تھے۔ موجودہ دور میں اکثر و بیشتر لکھنے والوں پر آپ کی چھاپ نظر آتی ہے۔ مدارس اور یونیورسٹی میں عربی زبان وادب سے وابستہ افراد عموماً آپ سے شرف تلمذ رکھتے ہیں۔ آپ کے لکھے گئے مضامین مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں دیکھ کر اور پڑھ کر زبان کے رموز و اوقاف اور اشارات و کنایات کو سیکھا جاتا ہے۔ تقریباً نصف صدی پر محیط آپ کا علمی سفر۳/مئی۲۰۲۱ئکو اختتام پذیر ہوا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :10، جلد:105، صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق اكتوبر 2021ء
٭ ٭ ٭