اکابر واسلاف کی روایات کے امین استاذ العلماء

حضرت اقدس مولاناقاری سید محمد عثمان نوراللہ مرقدہ

از: مولانا قاری شفیق الرحمن بلند شہری

استاذ تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند

            میرے مشفق و مربی اورانتہاء محسن استاذ گرامی قدر حضرت مولاناقاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری نور اللہ مرقدہ امیر الہند وصدرجمعیة علماء ہند،قائم مقام مہتمم و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند، ہم سے جداہوکر جوار رحمت الٰہی میں تشریف لے گئے،استاذ گرامی ایسے نازک وقت میں ہم سے جدا ہوئے ہیں جب کہ آج ان کی دارالعلوم دیوبند اورپوری امت مسلمہ کو پہلے سے زیادہ ضرورت تھی۔حضرت قاری صاحب مرحوم انہتائی سادہ،متواضع اورمنکسرالمزاج مگر نہایت باوقار، مخلص،دیانتدار،خوش اخلاق،خوش گفتار،خوب سیرت اورخوبصورت،اعلیٰ درجہ کے منتظم اوردیگر بیشمار خصوصیات کے حامل تھے۔وہ اکابر کی پاکیزہ روایات کے امین اور اسلاف عظام اور صالحین کی یادگار تھے۔ خوش اخلاق اتنے تھے کہ جو ایک مرتبہ آپ سے مل لیتا وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا ہو کر رہ جاتا تھا۔آپ اپنے چھوٹوں کے ساتھ انتہائی شفقت اورمحبت کا معاملہ فرماتے،سفر میں ہوں یا حضر میں ہمیشہ آپ کا معاملہ یکساں رہتا تھا۔سفر میں بطور خاص اپنے ہمراہیوں کا خاص خیال فرماتے تھے،جو اپنے لیے پسند کرتے وہی دوسرے ساتھیوں کے لیے پسند فرماتے۔اگر سفر طویل ہے اورآرام کی ضرورت ہے تو آدھے وقت آپ آرام فرماتے اورآدھے راستے اپنے ساتھی کو آرام کے لیے حکماً فرماتے؛بلکہ کارکے سفر میں گاڑی روک کر اترجاتے اورفرماتے اب آپ جاؤ اورپیچھے والی سیٹ پر آرام کرو،اسی طرح درمیان سفر میں چائے اورخوردونوش میں بھی دوسروں کا اپنے سے پہلے خیال فرماتے۔

            میں جب ۱۹۹۱ئمیں دارالعلوم میں مدرس ہوکر آیا تو حضرت قاری صاحب کے ساتھ متعدد اسفار میں جانا ہوا ہمیشہ اسی شفقت اورمہربانی اورخوردنوازی کا مظاہرہ آپ کی طرف سے ہوا اورعمر کے آخرتک یہی معاملہ ہرایک کے ساتھ آپ کا رہا۔ان تمام خوبیوں کے ساتھ آپ بہت کامیاب اورنہایت ذی استعداد،عمدہ اوربے مثال مدرس اورمعلم بھی تھے،عمر کے نہائی حصہ میں درس حدیث سے خاص شغف رہا،دیگر اسباق کے علاوہ دورئہ حدیث شریف میں طحاوی شریف اور ہفتم میں مشکوٰة شریف اوّل کا درس آپ سے متعلق تھا،اس سے پہلے ہر علم و فن کی کتابیں آپ سے متعلق رہیں اورہر کتاب کا حق ادا کرتے ہوئے مکمل کامیابی کے ساتھ وقت سے پہلے آپ کی کتابیں مکمل ہوجاتی تھیں۔درس میں آپ کی تقریر ہمیشہ مسلسل اورمربوط رہتی،زبان بہت شستہ اورآسان استعمال فرماتے۔طویل تقریر سے ہمیشہ احتراز فرماتے؛البتہ ضروری مباحث ہر کتاب میں موضوع درس رہتے،کسی بھی بحث کو کبھی تشنہ نہیں چھوڑتے تھے۔

            ۱۹۸۲ئاور ۱۹۸۳ئکی بات ہے،بندہ نے آپ سے مقاماتِ حریری ،اس کے بعد البلاغة الواضحہ۔ نور الانوار اس کے بعد عقیدة الطحاوی پنجم عربی کے ساتھ پڑھی ہیں،آپ ہمیشہ گھنٹے سے پہلے درس گاہ کے باہر کھڑے ہوئے موجود ہوتے،گھنٹہ شروع ہوتے ہی آپ کا درس شروع ہوجاتا، آپ مکمل گھنٹہ پڑھاتے اورگھنٹے کی آواز سن کر سبق ختم فرماتے،ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ سبق میں کبھی غیر ضروری بات نہیں فرماتے،درس میں انداز تقریر ایسا دل کش اوردل نشیں ہوتا کہ گھنٹا منٹوں میں ختم ہوجاتا،آپ کی گفتگو درس میں ہوتی یا کسی نجی مجلس میں ہمیشہ اس طرح ہوتی گویا کہ آپ کے دہن مبارک سے پھول جھڑرہے ہوں۔

جلسوں میں آپ کی تقریر

            یہی حال آپ کی جلسوں کی تقریر کا بھی ہوتا،تمام تقریرمسکراتے ہوئے مکمل فرماتے عمومی تقاریر قرآن پاک کی آیات اوراحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہوتی تھیں،اِدھر اُدھر کی باتیں اورقصے کہانیوں سے ہمیشہ آپ گریز فرماتے،اگر خواص کا مجمع ہے تو انھیں کے مناسب خطاب فرماتے، قرآن پاک کی کسی آیت یا کسی حدیث سے گفتگوکا آغاز فرماتے اورپھر آیت کہاں مجمل ہے کہاں مفصل ہے بیان فرماتے۔نیز فرماتے کہ دیکھیے! قرآن پاک اوراس کے مضامین کتنے آسان ہیں، انھیں کے ذریعہ اہل علم کو تقاریر کرنی چاہیے ،یہ زیادہ موٴثر ہوتی ہیں،اسی طرح احادیث کے بھی مختلف گوشوں پر بحث فرماتے۔بسااوقات کسی ایک حدیث کو اپنی تقریر کا محوربناتے اوراس کی مختلف انداز سے تشریح کرتے،اس کے ضمن میں اہل علم و فن کے اقوال و آراء نقل فرماتے،غرض ہر طرح سے آپ کی عوامی اورخصوصی تقاریر قرآن وحدیث اوران سے متعلقہ مضامین پر مشتمل ہوتی تھیں ۔

            تقریر میں انداز گفتگوہمیشہ انتہائی سنجیدہ اورپر وقار ہوتا،عام مقررین کی طرح جوش وخروش آپ کی تقریر میں عموماً نہیں ہوتاتھا؛البتہ اگر ایمانیات و عقائد کا مسئلہ ہوتا تو پھر آپ کی آواز اورلہجہ کا مدوجزر قابلِ دید و شنید ہوتا،آپ اس وقت ایک مردمجاہد اورمیدان کا رزار کے سپاہی؛ بلکہ امیر المجاہدین کا کردار اداکرتے نظرآتے تھے؛تاہم اس جوش و خروش میں بھی کبھی گفتگوکے اعلیٰ معیار سے نیچے نہیں آتے تھے۔

قرأت کانفرنس کفلیتہ گجرات میں آپ کا شاندار خطاب

            جب کسی خاص موضوع پر یا خاص مجمع میں آپ کو مستقل کسی عنوان کے تحت تقریر کرنی ہوتی تو اس کی پہلے سے خوب تیاری فرماتے کتابوں سے مراجعت کرتے۔حوالے لکھتے نوٹس تیارفرماتے اگر ضرورت ہوتی موضوع سے متعلق دلچسپی رکھنے والے حضرات سے مشورہ فرماتے اورپھر مکمل تیاری کے ساتھ خطاب فرماتے چند سال پہلے کی بات ہے۔جامعة القراء ات کفلیتہ گجرات میں اس عظیم فنِ قرأت کی خدمات کے موضوع پر ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔قاری محمد اسماعیل صاحب بسملہ اس کانفرنس کے داعی تھے۔علماء اورقراء کی بڑی تعداد موجود تھی،خصوصا علم قرأت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی اتنی بڑی تعداد کہیں جمع نہیں ہوتی جو ا س کانفرنس میں موجود تھی ۔حضرت الاستاذ مولاناقاری محمد عثمان صاحب علیہ الرحمہ بھی مدعو تھے اورمغرب کے بعد والی نشست میں حضرت کو خطاب کرنا تھا؛چنانچہ حضرت قاری صاحب تشریف لائے اورتقریباً ایک گھنٹہ آپ کا اس فن شریف پر نہایت عمدہ اورزریں خطاب ہوا۔حاضرین و سامعین عش عش کرنے لگے۔حیرت زدہ تھے کہ آپ کا یہ شغف نہیں ہے، پھر بھی اتنی عمدہ اورلاجواب تقریر فرمائی۔میں خود بھی اس تقریر میں موجود تھا اس تقریر میں آپ نے علم تجوید،علم قرأت اس کی تعریف غرض و غایت قرأت متواترہ اورشاذہ اوران سب کا حکم اسی طرح قراء اتِ سبعہ اورعشرہ کا فرق اوران کے نزول کی کیفیت اوراحوال اورپھر اس فن میں اپنی سند اوراس کو درساً درساً پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ان سب موضوعات پر سیر حاصل بحث فرمائی ۔جو علماء اس فن سے ناواقف تھے، یا اس کی طرف سے بے اعتنائی برتنے والے تھے ان کی آنکھیں کھول دیں؛غرض یہ ہے کہ ہر تقریر اورخطاب ہمیشہ مکمل تیاری کے ساتھ ہوتا تھا۔اللہ تعالیٰ حضرت کو اپنی شان عالی کے مطابق جزائے خیر عطافرمائے!آمین

فن تجوید و قرأت سے خاص شغف اوراس فن میں آپ کے استاذ گرامی

            جیسا کہ اوپر کی سطور سے معلوم ہوچکا ہے کہ فن قرأت سے بھی آپ کو خصوصی دلچسپی تھی؛ بلکہ اس فن میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس فن کو من اولہ الیٰ آخرہ باقاعدہ درسیات کے ساتھ کئی سالوں تک اپنے محبوب استاذ گرامی حضرت مولاناقاری المقری حفظ الرحمن صاحب پرتابگڑھی علیہ الرحمہ سابق شیخ القراء دارالعلوم دیوبند سے پڑھاتا۔دارالعلوم دیوبند میں اس زمانے کے رجسٹروں میں آپ کی حاضری درج ہے۔حضرت قاری عثمان صاحب کو اپنے استاذ گرامی حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب مرحوم سے انتہائی تعلق تھا،ادھر استاذ صاحب کو بھی اپنے شاگرد سے گہرا تعلق اوران پر بڑا اعتماد تھا۔حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب نے جن شاگردوں کو خاص اس فن کے لیے تیار کیاتھا ان میں حضرت قاری عثمان صاحب کا نام بھی حضرت قاری صاحب شمار کراتے تھے۔

استاذ گرامی حضرت قاری المقری حفظ الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ

            استاذ الاساتذہ حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب علیہ الرحمہ فن قراء ات کے ساتھ مختلف عربی لہجوں کے بھی ماہر تھے اورآواز بھی اللہ تعالیٰ نے نہایت صاف و شیریں خوبصورت، بلند وبالا عطا فرمائی تھی،اس عظیم فن کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب اللہ تعالیٰ نے وافر درجہ میں قاری صاحب کو عطافرمائی تھیں؛ چنانچہ آپ کی ادائیگی حروف اورلب و لہجہ غضب کا تھا،اسی طرح پورا فن آپ کو ازبر تھا ،زبانی یاد تھا،کبھی کتاب دیکھنے کی آپ کو ضرورت پیش نہیں آتی تھی،خود فرماتے تھے کہ میرے پاس جو بھی ہے وہ سب استاذ محترم کا یاد کرایاہواہے۔قاری حفظ الرحمن صاحب نے مکمل فن قراء ت ملک القراء حضرت مولاناعلامہ المقری عبدالرحمن صاحب مکی علیہ الرحمہ سے پڑھاتھا۔تقریباً پانچ سال استاذمحتر م کی خدمت میں رہ کر آپ نے پڑھااورخدمت بھی کی۔ خدمت کے التزام کا یہ عالم تھا کہ پورے سال میں صرف ایک مرتبہ چند دنوں کی چھٹی ملتی تھی ،اوراس کی صورت یہ تھی کہ حضرت قاری عبدالرحمن صاحب سال میں ایک مرتبہ سرہند شریف تشریف لے جاتے تھے۔قاری حفظ الرحمن صاحب کی دیوٹی یہ تھی کہ استاذ صاحب کو لکھنوٴ سے ٹرین پر سوار کراتے اورواپسی میں پھر لکھنوٴ اسٹیشن پر موجود رہتے۔غالباً ایک ہفتہ اس سفر میں لگ جاتا بس انھیں ایام کی چھٹی پورے سال میں ملتی،اس التزام کے ساتھ قاری حفظ الرحمن صاحب نے اپنے استاذ صاحب سے پڑھا تھا،اور اسی التزام اور پاپندی کے ساتھ حضرت قاری عثمان صاحب قدس سرہ نے بھی اپنے استاذ محترم قاری حفظ الرحمن صاحب سے پڑھا تھا؛ اسی لیے درسی کتب میں جب بھی قرأت سے متعلق کوئی مسئلہ آتاتوقاری عثمان صاحب اس کو انتہائی بشاشت اور کمال دل چسپی کے ساتھ جھوم جھوم کر تفصیل سے بیان فرماتے تھے۔

ختم نبوت کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ اسفار

            تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر آپ نے دہلی اوراس کے اطراف میں بہت سے پروگرام منعقد کیے اوردہلی ہی کیا جہاں سے بھی اس فتنہ کے بارے میں کوئی اطلاع ملتی کہ وہاں قادیانیوں نے سراٹھایاہے اورلوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں،تو بس آپ بے چین اورفکرمند ہوجاتے۔ اس کے لیے پروگرام مرتب کرتے ،مشورہ کرتے،وہاں کے علماء کو جوڑتے ان کے سامنے مسئلہ کی اہمیت و نزاکت کو بیان کرتے۔وہاں جلسے کرتے،کتابچے مرتب کرکے اردو ہندی وغیرہ میں تقسیم کرتے اورایک ایسا ماحول تیار کرتے کہ قادیانیوں کے وہاں سے پیراکھڑجاتے اوروہ اپنے پروگرام میں ناکام ہوجاتے۔ایسا بہت سی جگہ ہوا اورقادیانی اپنے دجل و فریب میں ناکام ہوئے۔اس سلسلہ میں بندہ کو بھی بہت سی مرتبہ حضرت قاری صاحب کے ہمراہ جاناہوا۔اکثر جمعرات کی شام کو آپ ساتھ لے جاتے جمعہ کی نماز میں مختلف مقامات پر پروگرام ہوتے اورشام کی ٹرن سے دیوبند واپس آتے،کبھی کئی کئی روز کے اسفار بھی ہوتے،بندہ جن مقامات پر حضرت کے ہمراہ سفر میں رہا ان میں سے چند اس وقت ذہن میں ہیں۔مثلاً علی گڈھ،خورجہ، بلند شہر،دہلی اوراطراف دہلی (متعددمرتبہ) جے پور،نول گڑھ اورراجستھان کے بہت سے مقامات جو اس وقت ذہن میں نہیں ہیں۔

قادنیوں کے مرکز سادھن کا سفر

            ایک مرتبہ حضرت قاری صاحب کے حکم سے آگرہ اورضلع متھراکے وہ مقامات جہاں قادیانیوں کے مراکز اوراڈے تھے ان جگہوں کے سفر ہوئے اورتقریباًدس روز میں ہم لوگ سفر سے واپس دیوبند لوٹے اس سفر میں محترم جناب مولاناشاہ عالم استاذ تحفظ ختم نبوت بھی شامل تھے،اس زمانہ میں موبائل وغیرہ کی سہولت نہیں تھی؛اس لیے حضرت قاری صاحب دیوبند میں رہ کر اس سفر میں ہم لوگوں کی کامیابی کے لیے بہت انہماک سے دعا فرماتے رہے۔

            اسی سفر میں گاؤں سادھن ضلع متھراجہاں قادیانیوں کا مرکز تھا وہاں بھی جاناہوااوران کے مرکز میں بھی بیٹھ کر قادیانی مبلغ اوراس کے چپلوں سے نرم وگرم گفتگوبھی ہوئی جو گھنٹوں چلی اوراس میں وہ لاجواب ہوئے،وہاں ایک صاحب جو مبلغ بنے ہوئے تھے وہ خود کو قاسمی کہتے تھے ان کے دجل و فریب کا بھی پردہ چاک ہوا،وہ جھوٹ بول کر وہاں لوگوں کو گمراہ کررہے تھے۔بندہ کو بھی مدرسی کے ابتدائی دورمیں (یہ زمانہ ۱۹۹۵ء اوراس کے قریب کا زمانہ ہے)مسئلہ ختم نبوت اوراس کے متعلق جملہ موضوعات سے کافی دلچسپی تھی اوریہ سب حضرت الاستاذ قاری صاحب کی وجہ سے تھا؛اسی لیے اگر کہیں سے کوئی پروگرام کی اطلاع آتی تو حضرت والادیگر حضرات کے ساتھ بندہ کو بھی شامل فرمادیتے تھے۔

دارالعلوم دیوبند میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام

            ۱۹۸۲ئمیں جب دارالعلوم دیوبند میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کا انعقاد عمل میں آیاتو حضرت قاری صاحب ہی اس کے امیر اورمنتظم اعلیٰ تھے اسی موقع پر کل ہند مجلس تحفظ کا قیام عمل میں آیا اورآپ اس کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اورعمر کے آخر تک اس پر فائز رہے۔ آپ کی نگرانی میں اس ادارہ نے ملک اوربیرون ملک اس خبیث فتنہ کی سرکوبی کے لیے ایسی عظیم الشان خدمات انجام دیں جو دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کا ایک زریں اورحسین باب ہے،یہ تمام تر خدمات آپ کے ایمانی جذبے اورانتھک محنت اورتحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں انتہائی حساس جذبے کا نتیجہ ہیں۔ آپ نے مسئلہ ختم نبوت اورآبروئے تاج ختم نبوت کو اپنی زندگی بھر کا اروڑھنا بجھونا بنالیا تھا،آپ اس کے لیے انتھک محنتیں کرتے اوراس کو اپنی ابدی سعادت کا ذریعہ سمجھتے تھے،اللہ تعالیٰ ان خدمات کے بدلہ میں آپ کو اپنے قرب کا خاص مقام عطافرمائے!آمین!

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :10،    جلد:105‏،  صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق   اكتوبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts