امیرالہند ”حضرت مولانا قاری محمد عثمان نور اللہ مرقدہ“ خدمات اور ممتاز خاندانی پس منظر

از:مولانا خورشید حسن قاسمی

دارالعلوم دیوبند

            مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کے جن ممتاز حضرات اساتذئہ کرام سے راقم الحروف کا خصوصی ربط و تعلق رہا، اُن میں حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب نوراللہ مرقدہ کا اسم گرامی سرِفہرست ہے۔ اس کی زیادہ تو وجہ جناب قاری صاحب کے ساتھ ”شعبہٴ فارسی وریاضی کی طویل، تعلیمی ودرسی رفاقت رہی جس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔

            ایک زمانہ تھا کہ مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند میں فارسی وریاضی کا پانچ سالہ جامع نصاب تھا۔ جس میں آمدنامہ، رسالہ نادر، بوستاں، انشاء فارغ اورمفیدنامہ جیسی کتابیں شامل نصاب تھیں اور درجہٴ متوسط میں گلستاں، احسن القواعد، انوارِ سہیلی، سرورالمحزون (ازحضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی) رقعاتِ عالمگیری اور درجہ ایک جو کہ آخری درجہ تھا، اس میں مثنوی مولانا روم، سکندرنامہ، اُقلیدس اور چکرورتی حساب وغیرہ شاملِ نصاب تھیں؛ الغرض فارسی کی مذکورہ کتابوں میں سے بعض غیرمعمولی مشکل تصور کی جاتی تھی؛ لیکن حضرت قاری صاحب ہر ایک درجہ اور ہر ایک کتاب میں امتیازی اور اعلیٰ نمبرات حاصل فرماتے اور ہر ایک کتاب میں اکثر وبیشتر پچاس نمبر جوکہ درجہ کا امتیازی اور اعلیٰ نمبر تھا وہ حاصل فرماتے اور تعلیمی دور کے شب وروز کی محنت اور لگن کی بدولت موصوف کا شمارذی استعداد اور صلاحیت مند طلباء میں ہوتا تھا اور جملہ حضرات اساتذئہ کرام کی قاری صاحب پر خاص شفست رہتی تھی، حضرت قاری صاحب نے مادرِعلمی دارالعلوم دیوبند میں دورئہ حدیث شریف کی تکمیل ایسے حضرات اکابر اساتذئہ کرام سے فرمائی کہ جن کی نظیراقصائے عالم میں ملنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔

            آپ کے مخصوص حضرات اساتذئہ کرام میں حضرت مولانا شیخ فخرالدین صاحب اور حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم، حضرت مولانا سیّدفخرالحسن صاحب، حضرت مولانا بشیراحمد خاں صاحب جیسے اکابر اساتذہ ہیں۔

            حضرت قاری صاحب نے ۱۳۸۵ھ میں دارالعلوم سے دورئہ حدیث سے فراغت کے بعد جامعہ قاسمیہ ”گیا“ (بہار)، مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ اور دارالعلوم دیوبند اور اس طرح مجموعاً مذکورہ تینوں مرکزی مدارس میں تقریباً نصف صدی تک تدریسی خدمات انجام دیں، آپ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں پر مشتمل ہے جو کہ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک کے علاقوں میں تدریسی اور علمی خدمات میں مشغول ہیں۔

            حضرت موصوف کی مذکورہ تدریسی وعلمی خدمات کے علاوہ انتظامی، ملّی اور سماجی خدمات کا بھی ایک طویل سلسلہ ہے۔ انتظامی خدمات میں دارالعلوم دیوبند کی نیابتِ اہتمام، شعبہٴ ختم نبوت، شعبہ محاضرات و شعبہ مکاتب اسلامیہ اور حال ہی میں قائم شدہ شعبہٴ تنصیف وتالیف وشعبہ ترجمہ وتحقیق کی نگرانی اور سربراہی ہے اور ملّی وسماجی خدمات میں طویل عرصہ تک جمعیة علماء کے صدر کی حیثیت سے ملّی وسماجی خدمات ہیں اور تحریک ملک وملّت بچاؤ میں بھی آپ کی مرکزی قیادت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

            خداوند قدوس نے حضرت قاری صاحب کو فراستِ مومنانہ خوب خوب عطا فرمائی تھی جس کو بلاشبہ اکابر حضرات، اساتذئہ کرام اور خاندانی بزرگوں کی دعا اور فیض توجہ کا نتیجہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک آپ کے خاندانی بزرگوں کا تعلق ہے اس کا مختصر تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ آپ کے والد ماجد حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدمدنی صاحب کے منتسبین و متعلقین خصوصی میں سے تھے، آپ کے نانا حضرت مولانا محمدنبیہ حسن صاحب نوراللہ مرقدہ مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کے طویل عرصہ تک مجلس شوریٰ کے رکن رہے، اس کے علاوہ موصوف کی حضرت شیخ الہند کی تحریک ریشمی رومال میں مرکزی خدمات رہیں اور آپ کا شمار حضرت شیخ الہند کے معتمدین خصوصی میں تھا جس کا تذکرہ جدّالمکرم حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب نے ماہنامہ ”البلاغ“ کی اشاعتِ خصوصی ”مفتی اعظم نمبر“ میں (مرتبہ: مولانا مفتی تقی عثمانی زیدمجدہم) تفصیلاً فرمایا ہے۔ اس میں حضرت شیخ الہند کی گرفتاری اور اُن کی طرف سے کاغذات کی خفیہ طور پر روانگی وغیرہ کی تفصیل لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:

            ”دوسری طرف حکومتِ ہند کو کسی طرح اتنا پتہ لگ گیا کہ خان جہاں پور میں ایک صندوق کے اندر کچھ کاغذات بھیجے گئے ہیں، پولیس نے اسی وقت مکان کا محاصرہ کرکے چھاپہ مارا۔ مکان کے اندر مولانا محمد نبیہہ صاحب ان کاغذات کو کھولے ہوئے نقل کررہے تھے کہ پولیس کے اچانک چھاپہ کی اطلاع ملی تو فوراً لپیٹ کر اس کو اپنی صدری کی جیب میں رکھ لیا اور صدری ایک کھونٹی پر لٹکادی۔ اتنا ہونے پایا تھا کہ پولیس نے عورتوں کو ایک کمرہ میں الگ بند کردیا اور پورے مکان کی سخت تلاشی صبح دس بجے سے چار بجے تک جاری رہی۔ کپڑوں کے صندوق کا ایک ایک تختہ الگ کرکے دیکھا گیا؛ مگر کوئی چیز برآمد نہ ہوئی؛ کیونکہ یہ وہ صندوق ہی نہ تھا، جس میں یہ کاغذات رازدارانہ انداز میں آئے تھے۔ پولیس نے گھر کی ہر چیز کی تلاشی لی؛ مگر وہ صدری جس کی جیب میں یہ کاغدات تھے، ان کے سامنے کھونٹی پر لٹکی رہی۔ اس کی طرف کسی کی توجہ نہ ہوئی۔ پھر ان کاغذات کو حاجی نوربخش صاحب ایک فوٹوگرافر کے یہاں لے گئے تو پولیس کو پھر اطلاع ملی۔ پولیس نے فوٹوگرافر کے مکان پر چھاپہ مارا۔ کاغذات وہاں موجود تھے ، پروہاں بھی اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی، پولیس کو ہاتھ نہ آئے۔“

            خلاصہ یہ ہے کہ حضرت قاری صاحب کے مقدس خانوادہ کی اور خود قاری صاحب کی تاریخی اور علمی وملّی طویل خدمات ہیں جن کی ایک تفصیلی فہرست ہے اور آپ کی وفات حسرت آیات سے جو عظیم خلا واقع ہوا ہے، اس کی تلافی بظاہر مشکل محسوس ہوتی ہے۔ آپ کے پس ماندگان میں دو لائق فرزند عزیزم مولانا مفتی محمد سلمان صاحب مفتی واستاذِ حدیث مدرسہ شاہی مرادآباد وعزیزم مولانا مفتی محمد عفان صاحب سلّمہ صدرمدرس مدرسہ جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ ہیں۔ جن کا شمارملک کے مشاہیر مفتیان کرام و ممتاز علماء کرام میں ہوتا ہے۔

            خداوندقدوس حضرت قاری صاحب کے درجات بلند فرمائے اور جملہ پس ماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے اور آپ کی وفات کی وجہ سے جو عظیم خلا واقع ہوا ہے اس کی تلافی فرماویں، آمین!

وما ذلک علی اللہ بعزیز

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts