از:حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم

            حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ کاحادثہٴ وفات بہتوں کی طرح میرے لیے بھی ایک صدمہ جانکاہ ثابت ہوا، جس نے دل ودماغ پر سکتہ کی سی کیفیت طاری کردی۔ مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ اگرچہ عمر طبعی کی آٹھویں دہائی پوری کررہے تھے؛ لیکن خوردونوش اور حفظانِ صحت کے سلسلہ میں ان کے دیرینہ محتاط نظام العمل نے ان کی صحت کو قابل رشک بنارکھا تھا۔ سن رسیدہ ہونے کے باوجود صحت مند نظر آتے تھے؛ اس لیے بہ ظاہر ایسا کوئی اندیشہ نظر نہیں آتا تھا کہ مولانا اس طرح اچانک ہم سے جدا ہوجائیں گے۔

            لیکن بہرحال وقتِ آخر آپہونچا اور حضرت مولانا ہزاروں متعلقین، محبین اور منتسبین کو غمزدہ چھوڑ کر اس سفر پر روانہ ہوگئے جہاں سب کو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی خاص رحمت ومغفرت سے نوازے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی باقیات صالحات کی حفاظت فرمائے اور دارالعلوم دیوبند کو اساتذئہ کرام، خدام اور کارکنان کی جدائی سے جو علمی اور انتظامی نقصان پہونچا ہے، اس کی تلافی کی شکل پیدا فرمائے۔

            حادثہ کے کئی روز بعد تاثرات لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کس طرح شروع کروں۔

            بات دارصل یہ ہے کہ مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ کے ساتھ راقم الحروف کی رفاقت کے تین دور ہیں۔ اوردل ودماغ پر ہر دور کا الگ الگ نقش قائم ہے۔

دورِ اوّل کی داستان

            پہلا دور طالب علمی کا ہے۔ شوال ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲/ میں جب یہ طالب علم جذبات اور تمناؤں کا سرمایہ لیے ہوئے دارالعلوم میں داخلہ کا امیدوار بن کر دیوبند حاضر ہوا اور داخلہ کی ہنگامہ خیز کارروائی سے فرصت ملی تو نگاہیں ماحول سے مانوس ہونے لگیں۔

            یہ انسانی مزاج ہے کہ وطن سے جتنا فاصلہ پڑھتا رہتا ہے اسی حساب سے پڑوس کے فاصلے گھٹتے جاتے ہیں اور ہم وطنی کا رشتہ بڑھتا جاتا ہے۔ اپنی بستی کے باہر بستی کا ہرفرد ہم وطن محسوس ہوتا ہے اور شہر کے باہر اپنے شہر کا ہرباشندہ ہم وطن شمار ہوتا ہے۔ اسی حساب سے صوبہ، ملک اور براعظم سے باہر نکلنے کے بعد اپنے صوبہ، ملک اور براعظم کا باشندہ اپنا ہم وطن محسوس ہوتا ہے۔ اپنے وطن سے آٹھ، نوسوکلومیٹر کے فاصلہ پر مشرقی اترپردیش کا ہر طالب علم پڑوسی معلوم ہوتاتھا۔

            اعظم گڈھ بشمول مئو، مبارک پور وغیرہ بنارس سے قریب کا ضلع ہے۔ اس تعلق سے اعظم گڈھ، مئووغیرہ کے طلبہ سے دوسرے طلبہ کے مقابلہ میں کچھ شناسائی زیادہ تھی۔

            مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ بھی اسی دور میں دارالعلوم میں زیرتعلیم تھے اوراپنی مخصوص خوبیوں کی وجہ سے ہم وطن طلبہ میں بھی نمایاں تھے۔ ایک خاص بات جس کا تذکرہ شاید ان کے حالات میں کوئی نہ لکھے گا میں اس کا شاہد ہوں۔

مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ کا بڑا کارنامہ

            واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں مئو، مبارک پور، ولید پور، خیرآباد وغیرہ ضلع اعظم گڈھ کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ادھر طلبہ اعظم گڈھ میں اور مئووغیرہ کے طلبہ میں آپس میں مستقل چشمک رہتی تھی جو بسا اوقات چپقلش اور تنابزبالالقاب تک پہونچ جاتی تھی۔ ایک علاقہ سرائے میر، پھول پور، محمد پور، جگدیش پور اور شہراعظم گڈھ وغیرہ کا تھا، دوسرا مئو اوراس سے متصل قصبات کا تھا۔ دونوں حصوں کی انجمنیں بھی الگ الگ تھیں۔ مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ کا بڑاکارنامہ یہ ہوا کہ انھوں نے دونوں انجمنوں کو ختم کرکے ”انجمن نادیة الاتحاد“ ضلع اعظم گڈھ قائم کی اور تمام طلبہ کو اس میں شیروشکر کردیا۔ یاد پڑتا ہے کہ اس عمل میں ان کے ساتھ جناب قاری حمادالاعظمی صاحب (حال مقیم دفتر جمعیت علماء ہند) بھی شریک تھے۔

            اس دور میں مولانا کے ساتھ ہم عصری کے باوجود درجات کا تفاوت برقرار تھا؛ کیوں کہ وہ دورئہ حدیث میں شریک تھے اور بندہ کنزالدقائق کا طالب علم تھا؛ لیکن ان کی ان کامیاب مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے ان کا ایک اچھا نقش دل میں بیٹھ گیا۔

دورِ ثانی کی سرگزشت

            پھر مولانا فارغ ہوکر وطن آگئے اور تدریسی خدمات میں مشغول ہوگئے تاآنکہ بندہ ۱۳۸۸ھ میں دارالعلوم سے رسمی تکمیل کے بعد بنارس آگیا اور اسے اپنے قدیم مادرعلمی جامعہ اسلامیہ مدن پورہ بنارس میں تدریسی خدمت سپرد کردی گئی۔ جامعہ اسلامیہ بنارس کے صدر مدرس میرے استاذ گرامی حضرت مولانا محمدادریس صاحب سرائے میراعظم گڈھ کے رہنے والے اور جامعہ کے قدیم استاذ تھے، ان کے ذریعہ مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ مجھ سے پہلے جامعہ اسلامیہ میں مدرس عربی کی حیثیت سے تشریف لاچکے تھے۔ یہاں سے میری مولانا کے ساتھ رفاقت کا دوسرا دور شروع ہوا جو مولانا کے دیوبند آنے تک برقرار رہا۔ اس دور میں بندہ کو مولانا کے قریب رہنے اور ان کے تدریسی، تحقیقی اور تصنیفی کام کو دیکھنے کا موقع ملا۔

تصنیفی کارنامے

            چند ہی سال کے بعد جامعہ اسلامیہ کاعربی شعبہ مدن پورہ روڈ کی قدیم عمارت سے شعبہ عربیہ کی نوتعمیرعمارت جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب میں منتقل ہوگیا اور مولانا دیگراساتذہ کے ساتھ طلبہ کی تعلیم وتربیت میں ہمہ تن مشغول ہوگئے اور تدریس کے ساتھ مطالعہ، تحقیق اور تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی یہیں آکر شروع ہوا۔ مختلف مضامین کے علاوہ حضرت شاہ محمدطیب بنارسیؒ کے حالات پر مشتمل رسالہ ”شجرئہ طیبہ“ کی ترتیب اور ضلع اعظم گڈھ کے مرحوم علماء کے تذکرہ پر مشتمل کتاب ”تذکرہ علماء اعظم گڈھ“ کی تصنیف کا عمل اسی زمانے میں انجام پایا۔

            ان کا سارا وقت علمی کاموں میں صرف ہوتا، وہ سرسری اور رواں مطالعہ کے قائل نہیں تھے۔ جس موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہوتا اس سے متعلق قدیم وجدید مراجع کا گہرائی سے مطالعہ کرتے اور حاصل مطالعہ یادداشت کی شکل میں جمع کرتے جاتے اور جب اپنے طور پر مطمئن ہوجاتے تو تحریر کے لیے قلم اٹھاتے۔ مراجع کی تلاش میں بنارس کے ایک باذوق عالم دین حکیم محمدیوسف صاحب بنارسی کے کتب خانہ سے بھی خوب استفادہ کیا اور جون پور میں موجود بعض قدیم مخطوطات سے بھی بھرپور استفادہ کرتے رہے۔ اس زمانہ میں جامعہ اسلامیہ کی تعلیمی شہرت دور دراز تک پہونچ چکی تھی، ابھی جامعہ اسلامیہ میں دورئہ حدیث کا اغاز نہیں ہوا تھا۔ طلبہ مشکوٰة شریف سے فارغ ہوکر دارالعلوم دیوبند کا رخ کرتے اور تقریباً تمام طلبہ دارالعلوم میں قبول کرلیے جاتے۔

            اس زمانہ میں جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی بڑی تعداد باصلاحیت فضلاء کی شکل میں ملک کے مختلف علاقوں میں تدریسی خدمات میں مشغول ہیں اورمتعدد علماء اپنی خدمات مکمل کرکے راہی ملک بقا ہوچکے ہیں۔

فارسی زبان میں مہارت

            مولانا کو فارسی نثر ونظم کا بہت اچھاذوق حاصل تھا گلستاں، پندنامہ عطار، کریما، حمدِ باری کے فارسی اشعار مخصوص ترنم کے ساتھ پڑھتے تھے۔ طلبہ کی تربیت اور نگہداشت کے سلسلہ میں شعر بار بار پڑھتے تھے۔#

بابو بیک نقطہ یابو شود            لگامش بدہ تابقا بوشود

            یعنی بابو (چھوٹا بچہ) ایک نقطہ کے اضافہ سے یابو (گھوڑا) ہوجاتا ہے، اس کو لگام دو تاکہ وہ قابو میں رہے۔

            غیرضروری بحثوں میں حصہ لینے پر طلبہ کو تنبیہ کرتے:

نہ ہر جائے مرکب تواں تاختن           کہ جاہا سپرباید انداختن

            اسی زمانہ میں انھوں نے حافظ شیرازی رحمة اللہ علیہ کی مشہور نظم

ایں چہ شوریست کہ دردورِ قمرمی بینم

ہمہ آفاق پر از فتنہ وشر می بینم

اسپ تازی شدہ جروح بزیرپالاں

طوق زریں ہمہ درگردن خرمی بینم

            کا اردو ترجمہ بھی اشعار میں کیا تھا، جو ان کی ڈائری میں محفوظ ہے۔ وہ ڈائری بہت قیمتی ہے، مولانا کے ورثہ کو چاہیے کہ اس کی حفاظت کریں۔

            حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا یا نہیں؟ اس مسئلہ پر بھی مولانا نے ایک تحریر مرتب کی تھی، جس میں دو حدیثوں کے حوالہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا۔ دوسال قبل میں نے مولانا سے ان روایات کے بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے ڈائری سے نقل کرکے وہ روایتیں میرے پاس بھیج دی تھیں۔

ہم درس ہونے کا شرف

            جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس کے زمانہٴ قیام میں محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نوراللہ مرقدہ سے شیخ سعید بن سنبل کا رسالہ ”الوائل“ پڑھ کر اجازت حاصل کرنے کا ہم دونوں میں مشورہ ہوا۔ پھر حضرت مولانا بغرض علاج بنارس تشریف لائے اور محلہ پیلی کوٹھی بنارس میں حاجی عبدالعزیز صاحب مرحوم کے مکان پر کئی روز تک قیام فرمایا تو ہم دونوں حضرت سے اجازت لے کر ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے۔ بندہ نے رسالہ کی قراء ت کی اور حضرت مولانا نے ہم دونوں کو رسالہ الاوائل اور جملہ مرویات کی اجازت مرحمت فرمائی۔

            مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ نے اپنی کتاب پر دوسطری عبارت میں اس مجلس قراء ت کا تذکرہ مع تاریخ درج کردیا تھا، جو ان کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس طرح بندہ کو مولانا کے ہم درس ہونے کا موقع بھی مل گیا۔

            یادوں کے دریچے کھلے ہوئے ہیں اور ایک ایک کرکے باتیں یاد آتی جارہی ہیں؛ لیکن طولِ کلام سے بچنے کے لیے دورِ ثانی کی سرگزشت رفاقت کا سلسلہ یہیں موقوف کردیتاہوں۔

دورِثالث کاذکر

            اجلاس صدسالہ کے بعد دیوبند میں ”موٴتمر ابنائے قدیم“ کا قیام عمل میں آیا اور حضرت فدائے ملتؒ کی مردم شناس نگاہ نے موٴتمر کی نظامت اورموٴتمر سے شائع ہونے والے رسالہ ”القاسم“ کی ادارت کے لیے مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ کو دیوبند بلایا اور پھر چند سال بعد مولانا دارالعلوم کے اساتذئہ کرام میں شامل ہوگئے، جب کہ بندہ جامعہ اسلامیہ بنارس ہی میں مصروفِ خدمت رہا۔#

ما ومجنون ہم سبق بودیم دردیوانِ عشق   اوبہ صحراء رفت ومادر کوچہا رسوا شدیم

            جامعہ اسلامیہ بنارس کے طلبہ کو دارالعلوم میں داخلہ دلانے کی غرض سے یا حضرت اقدس مفتی محمودحسن صاحب نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں حاضری دینے کے لیے جب دیوبند کا سفرہوتا تو مولانا مرحوم کے کمرے میں بھی حاضری اور پان نوشی کی مجلس میں کچھ پرانی یادیں تازہ ہوجاتیں۔ ان کے علاوہ دارالعلوم کی رکنیتِ شوریٰ کے بعد مجلس شوریٰ وعاملہ کے موقع پر اور جمعیت علماء ہند کی مجلس عاملہ کے جلسوں میں بھی تجدید ملاقات کے مواقع ملتے۔

            پھر تقدیرالٰہی نے بندہ کو مستقل قیام کے لیے دیوبند پہونچادیا، جب کہ مولانا حبیب الرحمن صاحب دارالعلوم کے درجہٴ علیا اور طبقہٴ اولیٰ کے اساتذئہ کرام میں شمار کیے جانے لگے۔

موڈ بنارہے تھے

            حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ کے قیامِ دیوبند اور خاص طور سے آخری دور کے حالات، مشاغل، خدمات اور خصوصیات پر اہلِ قلم اور اہلِ تعلق زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالیں گے، اس لیے میں اسے نظرانداز کرتا ہوں۔ ہاں! ایک بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا مرحوم ان دنوں کسی خاص موضوع پر کچھ لکھنے کے لیے مطالعہ فرمارہے تھے اور بقول خود اس کے لیے موڈ بنارہے تھے اور اندازہ یہ ہے کہ اس کام کا آغاز فرماچکے تھے۔ یقینا ان کا جمع کردہ حاصل مطالعہ اور مرتب کردہ تحریر خاصے کی چیزیں ہوگی، ان کی حفاظت کرنی چاہیے اوراگرازقبیل اشاعت ہوں تو ان کی اشاعت ہونی چاہیے اور اس تازہ تحریر کے علاوہ بھی مولانا کی جو غیرمطبوعہ تحریریں اور مسودات موجود ہوں، ان کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :8،    جلد:105‏،  ذی الحجہ  1442ھ محرم الحرام 1443ھ  مطابق   اگست 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts