حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمیؒ محقق عالم اور مقبول مدرس

از:مولانا محمد ساجد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

            مورخہ ۳۰/رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ (۱۳/مئی ۲۰۲۱ء)کو حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کی وفات بھی ہم وابستگان دارالعلوم اور علمی حلقوں کے لیے غیرمعمولی حادثہ ہے۔

            موصوف دارالعلوم کی نشأةثانیہ کے اہم رکن، درجہٴ علیا کے استاذ، علم وتحقیق کی علامت، اصابتِ رائے اور جرأت وبیباکی کا نمونہ تھے۔ نیز ”جمعیة علماء ہند“ کی مجلس عاملہ کے رکن ، ایک ممتاز اہل قلم، ”ماہنامہ دارالعلوم دیوبند“ کے سابق مدیر، اور متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔

            ۱۳۶۵ھ/۱۹۴۵ئمیں جگدیش پور ضلع اعظم گڑھ یوپی میں پیدا ہوئے۔ عربی درجات کی تعلیم مطلع العلوم بنارس اور دارالعلوم مئو میں حاصل کی۔ ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ئمیں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوکر دورئہ حدیث سے فراغت حاصل کی۔

            ۱۹۶۵ئمیں ”جامعہ اسلامیہ“ بنارس میں مدرس مقرر ہوئے۔مئی ۱۹۸۰ئمیں ”موٴتمر فضلائے دارالعلوم“ کی طلب پر دیوبند آئے اور عالمی موٴتمر کی نظامت اور ماہنامہ ”القاسم“ کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔

            دارالعلوم میں نشأة ثانیہ کے بعد۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ئمیں مدرس ہوئے ، آپ نے مشکاة، ہدایہ، موطا امام مالک اور ابو داؤد وغیرہ کی تدریس کی خدمت انجام دی، آپ کا درس بہت مقبول تھا، آپ مکمل تیاری کے بعد سبق پڑھاتے تھے اورا سباق کے مباحث پر سیر حاصل بحث کرتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علم وتحقیق کے موتی لٹارہے ہوں؛ اس لیے طلبہ آپ کے سبق کو بہت پسند کرتے تھے۔

            مطالعہ وکتب بینی آپ کا خاص وصف تھا، مطالعہ اور تدریس کے علاوہ آپ کا کوئی اور شغل نہیں تھا، نہ آپ مجلسی آدمی تھے اور نہ آپ اسفار کرتے تھے، نہ لوگوں سے زیادہ اختلاط تھا، اسباق پڑھانے کے بعد جو وقت ملتا تھا، اسے کتابوں کے مطالعے میں صرف کرتے تھے؛ اس لیے آپ کی معلومات وسیع تھی اور علمی مسائل پر گہری نظر تھی۔آپ تدریس کی مقبولیت، وسعتِ مطالعہ اور اصابت رائے کی وجہ سے دارالعلوم کے ممتاز اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔

صفر۱۴۰۵ھ میں آپ کو ”ماہنامہ دارالعلوم“ کا مدیرمقرر کیا گیا ۔ آپ نے ماہنامہ کے ذریعہ قارئین میں دینی شعور بیدار کیا اور دارالعلوم دیوبند کے مسلک ومشرب کی بہترین ترجمانی کی، اس میں شائع ہونے والے آپ کے مقالات تین جلدوں میں ”مقالات حبیب“ کے نام سے شائع ہوئے۔

            آپ ایک پختہ قلم مصنف تھے، آپ نے تقریباً ۳۰کتابیں تالیف کیں ، جن میں ”شیوخ الامام ابی داؤد السجستانی“، ”شرح مقدمہٴ عبد الحق“، ”نور القمر شرح نزہة النظر“، ”تذکرہ علماء اعظم گڑھ“، ”اجودھیا کے تاریخی آثار“، حرمت مصاہرت“، ”سرسید احمد خان اور حجیت حدیث“ وغیرہ قابل ذکرہیں ۔

            آپ بڑے غیور، بے باک اور نڈر تھے، جس بات کو حق سمجھتے اسے برملا کہہ دیا کرتے تھے، کسی مسئلہ میں رائے پیش کرنے کے وقت آپ کا لہجہ قدرے سخت اور درشت ہوتا تھا؛ جب کہ دورانِ سبق مسائل پر کلام کرتے وقت ہونٹوں پر تبسم ہوتا تھا۔آپ فطری طور پر کم آمیز واقع ہوئے تھے ، نہ آپ کے پاس زیادہ لوگوں کی آمد ورفت تھی اور نہ ہی آپ کسی کے پاس جاتے تھے؛ البتہ حضرت مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کے پاس اٹھنا بیٹھنا تھا اور آپ سے بہت بے تکلفی تھی۔آپ طلبہ کے بہت ہمدرد تھے، ان کی بہت اچھی ترجمانی کرتے تھے، ان کی کسی طرح کی توہین قطعاً برداشت نہیں تھی، ان کے لیے آپ بہت پرجوش ہوجا تے تھے،دارالعلوم دیوبند اور اس کے دستور اور مسلک ومشرب کے لیے بھی آپ بہت غیور واقع ہوئے تھے۔ دارالعلوم کے معاملات میں آپ کی رائے بہت باوزن ہوتی تھی، آپ کو دارالعلوم کی روایات کا استحضار تھا، گفتگو میں اس کے دستور اور روایا ت کا حوالہ دیتے تھے۔

            آپ خوش پوشاک بھی تھے، صبح تفریح کا معمول تھا، ایک عصا ہا تھ میں رہتا تھا، تنہا ہی تفریح بھی کرتے تھے، اب بھی آپ صبح کے وقت آتے جاتے محسوس ہوتے ہیں۔

ع         پھر رہا ہے میری نظروں میں سراپا تیرا

            آپ کے یہاں نماز باجماعت کا بہت اہتمام تھا، جمعہ کے دین اذان ہوتے ہی مسجد پہنچ جاتے تھے اور صلاة التسبیح پڑھتے تھے، عشا کے بعد جلدی سوجاتے تھے ،اور سحر خیزی آپ کے معمولات میں شامل تھی۔

            ناچیز کودارالعلوم دیوبند میں ۹۴-۱۹۹۳ئمیں آپ سے ”ہدایہ ثالث“ اور ”موطا امام مالک“ پڑھنے کا موقع ملا، پھر جب میں ۲۰۰۱ئمیں مدرس ہوا، تو آپ نے مجھے اپنی کتاب ”شیوخ الامام ابی داؤد السجستانی“ پر لکھا ہوا اردو میں مقدمہ دیا؛ تاکہ میں اس کا عربی میں ترجمہ کردوں ، یہ کام انھوں نے مجھے شعبان میں چھٹی سے کچھ پہلے دیا ؛ چنانچہ میں نے اسے رمضان کی چھٹیوں میں اپنے وطن میں کیا اور شوال میں آپ کے حوالے کردیا، آپ بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔

            ”کرونا“ کی وبائے عام کی وجہ سے تمام تعلیم گاہوں کے بند ہونے کے بعد دارالعلوم میں بھی تعلیم کا سلسلہ موقوف ہوگیا تھا۔ ابھی جب رجب میں حکومت کی جانب سے اسکول اور مدارس کے کھولے جانے کے لیے ہدایات جاری ہوئیں اور کچھ تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا تو چہارم تک کے ہی طلبہ کو بلایا گیا ، آپ کی رائے تھی تمام طلبہ کو بلا لیا جائے اور رمضان میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ کران کا نصاب پورا کیا جائے؛ لیکن آپ کی رائے پر عمل نہ ہوسکا۔ آپ شعبان میں اپنے وطن جگدیش پور چلے گئے، رمضان کے آخری ہفتے میں طبیعت نا ساز ہوئی، ابتداءً گھر پر علاج ہوا ، افاقہ نہ ہونے کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئے ۔ اسپتال میں نماز اور دیگر معمولات کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے پریشان تھے اور گھر لے جانے کے لیے کہہ رہے تھے۔

            آپ بہت باحوصلہ وباہمت تھے، آپ کو تقریباً اندازہ ہوگیا تھا کہ اب آپ کاآخری وقت قریب آگیا ہے؛ چنانچہ آپ نے اپنے بیٹوں کو بلا کر ضروری وصیت کی ۔ پھر خدا کی بارگاہ میں دعاکی اور تھوڑی دیر بعد آپ خالی حقیقی سے جاملے۔

            اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عنایت کرے!

—————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :8،    جلد:105‏،  ذی الحجہ  1442ھ محرم الحرام 1443ھ  مطابق   اگست 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts