از: مولانا اشرف عباس قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
گزشتہ دوماہ کے عرصے میں ملت اسلامیہ اور خصوصاً دارالعلوم دیوبند کو یکے بعد دیگرے جن باکمال شخصیات سے محروم ہونا پڑا، ان میں ایک نمایاں شخصیت مخدوم گرامی قدر، استاذ العلماء حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی اعظمی کی ہے۔ حضرت کی وفات سے ملت نے ایک قلم کار محقق مفکر، مدبر، موٴرخ، محدث اوررجال ساز، جمعیت علماء ہند کے پالیسی ساز قائد، چھ دہائیوں تک اپنے قلم سے مسلک حق کو غذا فراہم کرنے اور باطل پر ضرب کاری لگانے والے باحوصلہ، جرأت مند اور متبحرعالم دین کو کھودیا ہے، ایک قیمتی متاع ہم سے چھن گئی، بَہار کے دن روٹھ گئے، طلبہ ومتعلقین کی آرزؤں کا خون ہوگیا، سیکڑوں آنکھوں نے آنسو بہائے، ہزاروں دل روئے، اشکوں کی سوغات کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے؛ تاہم رب قدیر کے فیصلے پر رضا اور تسلیم وانقیاد ہی بندئہ مومن کے لیے بڑا سہارا اور سامان تسکین ہے۔ انّ للّٰہ ما أخذ ولہ ما اعطٰی․
آئندہ صفحات میں حضرت مولانا کی حیات وخدمات اورآثار وتصنیفات پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جارہی ہے۔
پیدائش
علم وادب میں شیراز سے اور حدیث وسلوک میں یمن میمون سے مماثلت رکھنے والے خطہٴ شیراز ہند (اعظم گڈھ) کی مردم خیز بستی جگدیش پور میں ۱۹۴۲ء کو آپ نے آنکھیں کھولیں، جگدیش پور کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی تین بڑی شخصیات نے بہ یک وقت دارالعلوم دیوبند سے علم وفضل کے جام لٹائے (۱) حضرت مولانا شیخ عبدالحق اعظمی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند (۲)حضرت مولانا قاری ابوالحسن اعظمی حفظہ اللہ سابق شیخ القراء دارالعلوم دیوبند (۳)حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی۔ آپ کے والد گرامی حافظ انوارالحق صاحب تھے، دادا کا نام محمد تقی تھا۔
تعلیم
گاؤں کے مکتب میں حاجی محمد شبلی صاحب کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھائے گئے۔ اس کے بعد والد گرامی نے باضابطہ ابتدائی تعلیم کے لیے آپ کو حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری کے مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں داخل کردیا، جہاں آپ نے بڑی محنت اور توجہ سے ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ گاؤں سے مدرسہ تک کا فاصلہ پیدل ہی طے کرتے تھے۔ عربی کی تعلیم مدرسہ مطلع العلوم بنارس اور دارالعلوم مئو میں حاصل کی، مدرسہ روضة العلوم جگدیش پور میں گلستاں حضرت پھولپوری سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
حضرت شیخ عبدالحق صاحب اعظمی کی وفات (۳۰/دسمبر۲۰۱۶ء) کے دن دارالحدیث میں جو تعزیتی جلسہ ہوا تھا، اس کو خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب نے خود اس کا بھی تذکرہ کیا تھا کہ میری پرائمری کی تعلیم کے بعد والد صاحب آگے کی تعلیم کے سلسلے میں پس وپیش میں تھے؛ یہ حضرت مولانا عبدالحق صاحب ہی تھے جن کی ترغیب اور فہمائش پر والد صاحب نے مجھے عربی کی تعلیم کے لیے ان کے ہمراہ بھیج دیا۔ میں حضرت مولانا کے اس احسان سے بھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔
شوال ۱۳۸۲ھ میں دورئہ حدیث شریف کے لیے آپ نے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، اس وقت فخرالمحدثین، تلمیذ شیخ الہند حضرت مولانا سیدفخرالدین مرادآبادی دارالعلوم کی مسند مشیخیت کوزینت بخشے ہوئے تھے اوربڑی تحقیق وتعمق کے ساتھ صحیح بخاری کا درس دیا کرتے تھے؛ چنانچہ آپ نے حضرت مولانا سے صحیح بخاری، حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی سے سنن ترمذی، مولانا بشیراحمد خاں سے مسلم شریف، مولانا سیدفخرالحسن سے ابوداؤد شریف، مولاناشریف حسن صاحب سے نسائی شریف اور قاری محمد طیب صاحب سے سنن ابن ماجہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی اور امتحان سالانہ میں اعلیٰ نمبرات حاصل کرکے شعبان ۱۳۸۳ھ میں سند فراغت حاصل کی۔ دارالعلوم میں آپ کا قیام ایک ہی سال رہا، تاہم اسباق میں حاضری اور علمی وادبی سرگرمیوں میں شرکت کے سبب طلبہ میں نمایاں رہے اور آپ ہی نے کوشش کرکے رفقا کی مدد سے، دو حصوں میں بٹی ہوئی علاقائی انجمن کو ختم کرکے ”نادیة الاتحاد“ ضلع اعظم گڈھ کے نام سے متحدہ انجمن قائم کی اور تمام طلبہ کو اس میں شیروشکر کردیا۔
تدریس
فراغت کے بعد تدریسی خدمات سے وابستہ ہوئے، اشرف المدارس گھوسی مئو، مدرسہ قاسم العلوم منگراواں اورمدرسہ جامع مسجد اٹالہ جون پور میں اپنی خدمات پیش کیں۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری کی ہدایت اور ترتیب کے مطابق تبلیغی مہم میں بھی لگے اور دیوبند آمد سے قبل کئی سال تک جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی حفظہ اللہ یہاں کے آپ کے رفقاء تدریس میں سے ہیں۔
موٴتمر کی ذمہ داری
۱۹۸۰ء میں فدائے ملت حضرت مولانا سیداسعد مدنی نے دیوبند میں موٴتمرفضلائے دارالعلوم قائم کی اوراس کے علمی وتنظیمی کاموں کو آگے بڑھانے اوراس کے زیراہتمام شائع ہونے والے ماہ نامہ ”القاسم“ کی ادارت کے لیے محدث کبیر ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی سے رابطہ کیا، محدث اعظمی نے اس کے لیے مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی کی نشاندہی کی اور اس طرح آپ دیوبند آگئے۔ دیوبند آمد کے بعد آپ کا قیام مسلم فنڈ دیوبند کی بالائی منزل میں رہا، پھر موتمر کے دفتر والی بلڈنگ میں قیام منتقل ہوا جہاں آج کل ”مدنی آئی ہسپتال“ اور ”شیخ الہند ہال“ قائم ہے، قابلِ ذکر ہے کہ دارالعلوم میں مدرسی کے بعد بھی آپ عرصے تک وہیں مقیم رہے اور وہاں سے منتقل ہونا بھی نہیں چاہتے تھے؛ تاکہ موٴتمر کی بلڈنگ ہونے کی شناخت باقی رہے؛ لیکن اس کے بعد ایسے حالات پیدا کیے گئے اور سازشوں کے جال بُنے گئے کہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نے آپ کو بہ اصرار وہاں سے منتقل ہونے کا حکم فرمادیا۔ اس طرح موٴتمر کی بلڈنگ اور اس کا مرحوم دفتر اپنی اصلی شناخت کھوبیٹھے۔ موٴتمر کے لیے آپ کے کام اور لگن کو دیکھ کر حضرت مولانا سیداسعد مدنی بڑے متاثر ہوئے، آپ پر حد درجہ اعتماد کرنا شروع کردیا اور یہ بھی کہا کہ روزانہ دونوں وقت آپ کھانا میرے گھر کھایا کریں؛ لیکن مولانا کا مزاج اس سلسلے میں مختلف تھا؛ اس لیے صاف معذرت کرلی، خود ہی کھانا بناتے اور کھاتے تھے؛ البتہ جب مولانا اسعدمدنی دیوبند میں ہوتے اور آپ کو طلب کرتے تو ساتھ میں کھانا تناول فرمالیتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند میں خدمت تدریس کے لیے انتخاب
آپ کی تدریسی وقلمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کی نئی انتظامیہ کی طرف سے شوال ۱۴۰۲ھ میں درجہٴ وسطیٰ عربی میں مدرس کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا۔ ماہ شعبان ۱۴۱۴ھ میں مجلس شوریٰ نے درجہٴ علیا میں آپ کی ترقی منظور کی۔ مختلف اوقات میں ہدایہ، مشکاة المصابیح، جلالین، نزہة النظر فی توضیح نخبة الفکر، مقدمہٴ ابن الصلاح، تدریب الراوی، سنن ابی داؤد اور صحیح مسلم جیسی اہم کتابیں آپ سے متعلق رہیں۔ آپ بڑی محنت اور توجہ واہتمام سے مفوضہ اسباق پڑھاتے تھے، گھنٹوں کتابوں کے مطالعے میں مستغرق رہتے اور شروح ومتلعقات کو ایک طرح سے پی لیتے تھے؛ اس لیے طلبہ میں آپ کے اسباق حد درجہ مقبول ہوتے اور روز بہ روز ان اسباق کی نافعیت وافادیت بڑھتی ہی گئی۔ ہمیں آپ سے سنن ابوداؤد پڑھنے کی سعادت ملی ہے۔ فقہ الحدیث کے علاوہ روایت کے رجال واسناد پر محققانہ اور مفصل کلام کرتے تھے اور ساری بحث آپ مستحضر کرکے آتے تھے، کسی پرچی یا حاشیے پر کچھ نہیں لکھتے؛ بلکہ طالب علم جو نسخہ سامنے رکھ دیتا اسی میں شروع ہوجاتے اور روایت ودرایت کے اعتبار سے جو دریا بہاتے، علم کے متلاشی اس کے دریائے علم وتحقیق سے دامن مراد کو خوب بھرنے کی کوشش کرتے۔ آپ کا درس عموماً لطیفے، واقعات اور غیرضروری مشمولات سے پاک ہوتا، شروع سے اخیرتک مغزہی مغز ہوتا۔ علم حدیث سے آپ کی مناسبت اور مہارت کو دیکھتے ہوئے صحیح بخاری کے بعض اجزا بھی آپ سے متعلق کردیے گئے تھے؛ لیکن تعلیمی تعطل کے سبب درس صحیح بخاری کے آغاز سے قبل ہی آپ اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔
رسالہ ”دارالعلوم“ کی ادارت
آپ کے قلم سے کئی کتابیں اور تحقیقی مضامین منصہ شہود پر آچکے تھے اوراس سے قبل موٴتمر کے ترجمان ماہ نامہ ”القاسم“ کی بھی کامیاب ادارت فرماچکے تھے؛ اس لیے مدرسی کے صرف تین سال بعد معزز اراکین شوریٰ نے ۱۴۰۵ھ میں دارالعلوم کے ترجمان ماہ نامہ ”دارالعلوم“ کا مدیر نامزد کیا۔ مسلسل ۳۲ سال تک کامیابی کے ساتھ آپ نے ادارت کے فرائض انجام دیے اوراس دوران فکر انگیز اداریے اور علمی وتحقیقی مضامین رسالے کے صفحات کو زینت بخشتے رہے۔ حضرت مولانا کی ادارت میں متعدد خاص نمبر بھی شائع ہوئے، جن میں ”ختم نبوت نمبر“ اور ”الاحسان نمبر“ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
احسان و سلوک
آپ نے جن خانوادے میں آنکھیں دکھولیں اور جس ماحول میں پروان چڑھے؛ وہاں اہل اللہ کی آمد اور صالحین کے فیض صحبت کی برکات عام تھیں، حکیم الامت حضرت تھانوی کے خلیفہٴ اجل حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری کی زیرتربیت کم عمری میں رہنے کا موقع مل گیا تھا اور فراغت کے بعد باضابطہ حضرت کی نگرانی میں کام کیا اور ا صلاح باطن کی طرف متوجہ رہے۔ باضابطہ اصلاحی تعلق آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی سے قائم کیا ہوا تھا، حضرت سے بیعت بھی تھے اور سہارنپور خانقاہ میں حاضری بھی دیا کرتے تھے۔ حضرت کی وفات کے بعد کبھی کبھار خانقاہ تشریف لیجاتے اور حضرت مولانا طلحہ صاحب کی مجلس میں شرکت کرتے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدمدنی کے خلیفہ وخادم خاص حضرت مولانا محمود صاحب نے جو زندگی بھر دیوبند میں ہی مقیم رہے، آپ کو اجازت وخلافت سے بھی نوازا تھا؛ لیکن آپ کی طبیعت ہی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اخفاء حال کے ساتھ تعلیم وتدریس میں ہی لگے رہے؛ البتہ آخر شب میں بیدار ہوکر خوب ذوق وشوق سے عبادت اور معمولات کے مکمل کرنے کا حددرجہ اہتمام تھا۔ وفات سے چند ساعات پیشتر بھی لیٹے ہوئے ذکر میں مشغول تھے اور ہوش رہنے تک انگلیوں کے پوروں پر تسبیح پڑھتے رہے۔
ذوق مطالعہ وجمع کتب
عمر کی آٹھویں دہائی میں پہنچ جانے کے باوجود آپ کے ذوق مطالعہ میں کوئی کمی نہیں آئی؛ بلکہ مکمل انہماک اوریکسوئی کے ساتھ گھنٹوں مطالعے کا معمول تھا، خالص علمی اور فنی کتابوں کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرتے؛ چنانچہ سال گزشتہ آپ نے بالاستیعاب اولاً امام بیہقی (۴۵۸ھ) کی ”الاسماء والصفات“ کا اور ثانیاً کمال احمد بیاضی ترکی (۱۰۹۷ھ) کی مشہور کتاب ”اشارات المرام من عبارات الامام“ کا مطالعہ کیا۔ ہر روز عصر کے بعد حضرت والا کی خدمت میں حاضری کا معمول تھا، حضرت والا کبھی کبھار اس دن کے مطالعے کے اہم عناوین ذکر فرمادیتے اور کبھی کسی بات کی وضاحت کے لیے خاص حوالے اور مرجع کی تلاش کابھی حکم دیتے۔ آخر الذکر کتاب سے حد درجہ متاثر تھے اوراس کے علمی مباحث اور خوبیوں کے خوب گن گاتے تھے۔ علامہ کوثری کے مقدمے کی بھی تعریف کرتے تھے۔ شروع سے ہی آپ کو مطالعے کا چسکا لگا تھا اور زیادہ تر وقت اس کی نذر کردیتے تھے۔ آپ کے رفیق قدیم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی حفظہ اللہ جامعہ اسلامیہ بنارس کے قیام کا اپنا مشاہدہ ذکر کرتے ہیں:
”ان کا سارا وقت علمی کاموں میں صرف ہوتا، وہ سرسری اور رواں مطالعہ کے قائل نہیں تھے، جس موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہوتا اس سے متعلق قدیم وجدید مراجع کا گہرائی سے مطالعہ کرتے اور حاصل مطالعہ یاد داشت کی شکل میں جمع کرتے جاتے اور جب اپنے طور پر مطمئن ہوجاتے تو تحریر کے لیے قلم اٹھاتے“
اس ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے اپنی ذاتی لائبریری میں قیمتی کتابوں کا ذخیرہ کیا ہوا تھا، کتابوں کی کثرت اور تنوع کا یہ عالم تھا کہ قیامگاہ کے اندرونی ہال میں پہنچنے والا نووارد یہ خیال کرتا کہ میں کسی مکتبہ علم میں پہنچ گیا ہوں، کوئی شاگرد اہل تعلق میں سے کوئی کسی تحقیقی یا نادر کتاب کا ہدیہ لے آتا تو سرشار ہوجاتے، عام معمول کتاب خرید کر پڑھنے کا تھا اور کتابوں کی خریداری پر بڑی رقم صرف کرتے تھے، سہارن پور کے مشہور تاجر کتب جناب مولاناجنید صاحب قاسمی، جن کے پاس بیرونی مطبوعات کا ذخیرہ ہوتا تھا، دیوبند آتے تو بیروت ودیار عرب سے شائع نئی کتابوں کی فہرست ضرور حضرت کی خدمت میں پیش کرتے اور حضرت مولانا ان سے بہ یک وقت کئی کئی ہزار کی کتابیں خریدتے تھے۔ کتابوں کے اس درجہ شوق اور اہتمام کے باوجود عام قسم کی سطحی کتابوں سے بڑا بیر تھا۔ مفت میں آنے والے اس طرح کے ذخائر کو کبھی اپنی ذاتی لائبریری کا حصہ بنانے پر راضی نہ ہوتے تھے۔ اس طرح آپ کی ذاتی لائبریری منتخب علمی، ادبی اور فنی کتابوں پر مشتمل ہونے کے اعتبار سے ایک گراں قدر تراث ہے۔
علمی استحضار
خوب پڑھنے اور مطالعہ کرتے رہنے سے قوت حافظہ مضبوط اور علم تازہ ومستحضر رہتا ہے؛ چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں: ”لا اعلمُ انفع للحفظ من مہمة الرجل ومداومة النظر“ (سیراعلام النبلاء ۱۲/۴۰۸) ”میرے نزدیک یاد رکھنے کے لیے انسان کے انہماک اور مسلسل مطالعہ وکتب بینی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔“
چنانچہ حضرت مولانا کا بھی کثرت مطالعہ کی وجہ سے علمی استحضار غضب کا تھا، کوئی علمی نشست ہو یا نجی مجلس، کسی خاص موضوع پر بولتے ہوئے علم ومعرفت کے خوب موتی لٹاتے تھے۔ جامعہ مظہرسعادت ہانسوٹ میں ایک بار گجرات کے اہل علم کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان میں مدارس اور علماء کے کردار کے حوالے سے ایسی مدلل تاریخی حقائق اور حوالہ جات پر مشتمل گفتگو فرمائی کہ مجمع عش عش کراٹھا اور بہت دنوں تک گجرات میں اس خطاب کا چرچا رہا۔ ایک دن عصر بعد کی مجلس میں ایک صاحب نے مرنے والوں کے آخری احوال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک محدث کو کلمہ کی تلقین کے لیے ان کے شاگردوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کلمہ والی حدیث کا مذاکرہ کرنے لگے، حضرت مولانا نے فوراً فرمایا کہ یہ واقعہ ابوزرعہ رازی کا ہے۔ ان کے دوشاگرد ابوحاتم رازی اور محمد بن مسلم ان کی وفات کے وقت موجود تھے اور اپنے استاذ کی عظمت شان کے پیش نظر بہ راہ راست کلمہ تلقین کرنے کے بجائے پہلے محمد بن مسلم نے کلمہ والی روایت کی سند صالح بن ابی غریب تک ذکر کی اور خاموش ہوگئے، ابوحاتم رازی نے بھی یہی کیا، یہ سن کر ابوزرعہ سہارے سے بیٹھ گئے اور آگے کی سند ذکر کرتے ہوئے فرمایا: عن کثیر بن مرة الحضرمی عن معاذ بن جبل قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان آخر کلامہ لا الٰہ الا اللّٰہ، اتنا کہنا تھا کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ مفتی خالد حسین نیموی قاسمی سابق معین المدرسین دارالعلوم دیوبند نے اپنے مشاہدے میں لکھا ہے کہ حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری رحمة اللہ علیہ نے ایک بار خطاب میں اس واقعے کا ذکر کیا جس میں یہ ہے کہ دشمن کی فوج نے مسلمانوں کے لشکر کو مسواک کرتے دیکھ کر پسپائی اختیار کرلی تھی اور حضرت مفتی صاحب نے فرمایا: میں نہیں جانتاکہ یہ واقعہ کب کا ہے اوراس کی کیا حقیقت ہے؟ لیکن اس میں شاندار پیغام ہے“ یہ سن کر مجلس میں موجود حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے برجستہ کہا: یہ واقعہ بنی امیہ کے زمانے کا ہے اور فلاں کے ساتھ پیش آیا، ایسا علامہ ابن خلدون کی تاریخ العبر (مکمل نام ”العِبر ودیوان المبتدأ والخبر في أیام العرب والعجم والبربر، ومن عاصرہم من ذوي السلطان الأکبر“) اور فلاں فلاں کتاب میں مذکور ہے۔ اس پر حضرت مفتی صاحب نے مولانا کا شکریہ ادا کیا اور خوب داد دی اور فرمایا کہ دارالعلوم دیوبند کے سب سے بڑے تاریخ داں نے تصدیق کردی ہے واقعے کی صداقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
اخلاق و صفات
انتہائی راست باز اور صاف گو واقع ہوئے تھے۔ ظاہر وباطن کے تضاد اور تملق وجاپلوسی کے عیوب سے پاک تھے، کسی کے منصب، عرفی وجاہت یا دولت وثروت سے کبھی مرعوب نہیں ہوتے تھے، نستعلیقی مزاج کے حامل، نفاست پسند اور خوش پوشاک تھے، اخیر وقت تک صحت مند اور صباحی تفریح کے عادی رہے، بہ ظاہر کوئی بیماری نہیں تھی، اپنے کام خود کرتے تھے، دیوبند میں آخری دن تک اپنے ہاتھ سے کھانا بناتے رہے، طرح طرح کے لذیذ کھانے بنالیتے اور گاہے گاہے اپنے چند احباب ومتعلقین اور نیازمندشاگردوں کو بھی مدعو کرلیتے۔ حضرت الاستاذ مولانا سیدارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم سے آپ کے دیرینہ روابط وتعلقات تھے اور دونوں اکابر ایک دوسرے کا بڑا لحاظ فرماتے تھے، کبھی مولانا کی دعوت کرتے تو بڑے اہتمام سے دیسی گھی میں بکرے کا گوشت پکاتے اور حضرت مولانا مدنی کے ساتھ حضرت الاستاذ مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی اور حضرت مولانا سیداسجد مدنی بھی زینے طے کرکے آپ کی قیام گاہ پر تشریف لاتے اور پرلطف ماحول میں کھانا تناول فرماتے۔ اس طرح کی دعوت شیرازی سے ایک دن قبل ہی حضرت مولانا اعظمی، مولانا مصلح الدین صاحب، مولانا افضل صاحب بستوی اور احقر کو حکم فرمادیتے کہ تم تینوں پہلے ہی پہنچ جانا، چنانچہ ہم لوگ پہلے پہنچ کر اپنے حصے کا کام انجام دیتے، حسب حکم کوئی مسالہ پیستا، کوئی لہسن کوٹتا اور لذت کام ودہن سے بھی قسط وافر پاکر اپنی قسمت پر نازاں وشادکام لوٹتے۔
طلبہ کے لیے شفیق اور ہمیشہ ان کے مسائل کے حل اور کامیابی وبہتری کے لیے کوشاں رہتے، آپ کے رعب اور انقطاع الی العلم کی کیفیت کی وجہ سے بہت سے طلبہ قریب جانے کی ہمت نہیں جٹاپاتے؛ لیکن جو قریب سے آپ کا مشاہدہ کرتا وہ اخلاق وشفقت کا گرویدہ ہوجاتا۔ سال گزشتہ دورے کے ایک طالب علم لقمان سلّمہ امتحان دینے اور سند لینے کی غرض سے دارالعلوم آئے تو ہمت جٹاکر اور کچھ ہدیہ لے کر حضرت خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور عرض کیا حضرت! آپ کے رعب کی وجہ سے ملاقات کی ہمت نہیں ہوتی تھی؛ لیکن اب چوں کہ میں دارالعلوم سے جارہا ہوں اس لیے ہمت کرکے یہ حقیر تحفہ لے کر حاضر ہوا ہوں، حضرت والا مسکرائے طالب علم کو بٹھایا اور بڑی شفقت سے پیش آئے۔ وہ طالب علم بڑے متاثر ہوئے اور بعد میں کہنے لگے: ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک عام طالب علم کے ساتھ بھی اس قدر محبت اور اپنائیت سے پیش آتے ہیں۔ حضرت والا نے بھی اس دن عصر بعد کی مجلس میں اس واقعے کا تذکرہ کیا۔ صفائی معاملات کا بڑا اہتمام تھا: حساب کرکے اپنے اوپر کسی کا ایک پیسہ نہیں رہنے دیتے؛ البتہ دوسرے سے وصول کرنے میں نرمی ومصالحت سے کام لیتے تھے۔ دارالعلوم کے ہی ایک استاذ نے صغیرکالونی دیوبند میں واقع آپ کا پلاٹ آپ سے خریدا، آپ نے ایک تو مارکیٹ کے اعتبار سے مناسب قیمت طے کی دوسرے یہ کہ جب وہ استاذ ادائیگی کے لیے رقم لے کر آئے تو اس وقت بھی آپ نے پوری رقم وصول کرنے کے بجائے ایک حصہ یوں ہی معاف کردیا۔ تعلقات کو نباہنا اور چھوٹوں کے کام آنا خوب جانتے تھے، مولانا فضیل صاحب کارکن شعبہٴ خریدوفروخت دارالعلوم دیوبند، آپ کے انتہائی معتمد اور خادم خاص رہے۔ ایک بار ان کو کچھ پریشانی لاحق ہوگئی تھی، تو ہم نے دیکھا حضرت مولانا انتہائی بے چین ہیں اور کرب محسوس کررہے ہیں اور کئی بار مجلس میں بھی اس کا تذکرہ کیا تا آں کہ آپ کی کوشش اور دعا سے اللہ پاک نے مولانا فضیل صاحب کو راحت عطا کردی تب جاکر آپ کو قرار آیا اور پرسکون نظر آئے۔ حضرت مولانا اسجد مدنی صاحب حفظہ اللہ سے بھی آپ کو تعلق خاطر تھا، رمضان سے قبل مولانا مدنی آپ سے ملاقات کے لیے اعظم گڈھ پہنچے تو آپ نے حد درجہ اکرام ومحبت کا معاملہ کیا اور روانہ کرنے کے لیے گھر سے باہر تک آئے، اس وقت طبیعت میں کچھ گراوٹ محسوس ہورہی تھی۔ مولانا اسجد صاحب نے عرض کیا کہ آپ واپس تشریف لے جائیں یا بیٹھ جائیں، آپ نے فرمایا: نہیں، جہاں تک آپ کی گاڑی نظر آئے گی دیکھتا رہوں گا؛ چنانچہ کسی کا سہارا لے کر آپ اس وقت تک کھڑے رہے جب تک گاڑی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔
خود بندے کے اوپر حضرت والا کی اس قدر شفقتیں اور عنایتیں رہی ہیں جن کے تذکرے کے لیے طویل مضمون درکار ہے۔ اللہ پاک حضرت والا کو ہم چھوٹوں کی طرف سے اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائیں۔
حضرت والا عابد شب زندہ دار اور تہجد ومعمولات کے انتہائی پابند تھے۔ رات کو جلد سونے اور آخری شب میں اٹھ کر بارگاہ الٰہی میں راز ونیاز اور مناجات کا عام معمول تھا۔ فجر کی نماز کے بعد اذکار میں مشغول رہتے اور طلوع آفتاب کے بعد ہی کسی اور کام میں لگتے۔ ہر جمعہ کو جلد تیار ہوکر زوال سے قبل ہی مسجد پہنچ جانے اور نماز و تلاوت کا اپنا معمول پورا کرتے۔
بڑے خوددار، مستغنی اور سیرچشم واقع ہوئے تھے۔ آپ کی کئی کتابیں دارالعلوم دیوبند سے شائع ہوئیں اور ضابطے کے اعتبار سے اکرامیہ کی پیش کش کی گئی؛ لیکن کبھی کسی کتاب پر ایک پیسہ بھی دارالعلوم سے لینا گوارا نہیں کیا اور فرمایا: دارالعلوم کو کتاب دے دی تو دے دی۔ اس سے آگے نہیں چاہیے۔ واقف کار جانتے ہیں کہ دارالعلوم کے لیے آپ نے غیرمعمولی قربانیاں دی ہیں، اپنی جان تک کو داؤ پر لگادیا تھا؛ اس لیے اپنے اس چمن سے محبت اوراس کی فکر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دارالعلوم کی تعمیروترقی اور اس کی علمی وروحانی پیش رفت سے جہاں آپ کو قلبی مسرت ہوتی وہیں دارالعلوم کے مفاد اور اس کے فکر ومشن کے خلاف کوئی چیز نظر آتی تو سخت کڑھن محسوس کرتے اورکبھی باقاعدہ اس کے خلاف اپنی ناراضگی درج کرواتے۔ دارالعلوم کے معزز ارباب انتظام بھی آپ کا بڑا لحاظ رکھتے اور آپ کی مخلصانہ آرا کا احترام کرتے تھے۔
ذوق شعروادب
شعروادب کا بھی صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے، قدیم وجدید شعراء کے سیکڑوں اشعار نوک زبان تھے اور موقع محل کی مناسبت سے عموماً کوئی ایسا شعر پڑھ دیتے تھے جس سے مجلس میں جان پڑ جاتی تھی۔ معتبر شعراء کے دواوین آپ کے زیر مطالعہ رہتے۔ یا دپڑتا ہے کہ لاک ڈاؤن سے پہلے ایک دن آپ نے فرمایا تھا کہ آج کل احمد فراز اور خلیل الرحمن اعظمی کو پڑھ رہا ہوں۔ کسی زمانے میں آپ نے خود شاعری بھی کررکھی ہے۔ حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی حفظہ اللہ اپنے تاثراتی مضمون میں فرماتے ہیں:
”مولانا کو فارسی نثر ونظم کا بہت اچھا ذوق حاصل تھا، اسی زمانے میں انھوں نے حافظ شیرازی کی مشہور نظم:
ایں چہ شوریست کہ در دورِ قمرمی بینم
ہمہ آفاق براز فتنہ وشرمی بینم
اسپ تازی شدہ مجروح بزیر بالاں
طوق زریں ہمہ درگردن خر می بینم
کا اردو ترجمہ بھی اشعار میں کیا، جو ان کی ڈائری میں محفوظ ہے، وہ ڈائری بہت قیمتی ہے، مولانا کے ورثہ کو چاہیے کہ اس کی حفاظت کریں۔“
جمعیت سے وابستگی
امت کے درد وکڑھن اور ملی مسائل سے دلچسپی کی وجہ سے جمعیة علماء ہند سے گہری وابستگی رہی، جمعیت کے پالیسی ساز قائد اور اس کے فکر ومشن کے امین تھے، آپ جس خطے سے تعلق رکھتے تھے وہاں مسلم لیگ کے اثرات زیادہ تھے، اس کے باوجود ایام شباب میں اپنے علاقے میں جمعیت کی بنیاد کے استحکام اوراس کے فکر کی اشاعت کے لیے آپ نے قابل قدر موٴثر کارنامے انجام دیے؛ اس لیے آپ شروع ہی سے اکابر جمعیت کے منظور نظر اور ان کے دست وبازو بنے رہے۔ صدرجمعیت حضرت مولانا سیدارشد مدنی جمعیت سے آپ کے تعلق اوراس کے لیے آپ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”مولانا حبیب الرحمن اعظمی قاسمی ایک مدت سے جمعیة علماء ہند کی مجلس عاملہ کے رکن رکین چلے آرہے تھے، میٹنگ کی کارروائیوں میں پوری دلچسپی لیتے اور مضبوط وٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتے، مصلحت پسندی سے ان کی باتیں بہت دور ہوتی تھیں، میٹنگ کی اکثر و بیشتر تجاویز انھیں کے قلم کی مرہون منت ہیں۔“
تصنیفات و تالیفات
عنفوانِ شباب سے ہی آپ کا اشہب قلم رواں رہا ہے اور آپ نے مختلف علمی وتاریخی موضوعات پر گراں قدر تصنیفات کا قابلِ قدر سرمایہ چھوڑا ہے۔ اس طرح کی چھوٹی بڑی تصنیفات کی تعداد تیس سے متجاوز ہے، جن میں ”تذکرئہ علماء اعظم گڈھ ، اجودھیا کے اسلامی آثار، شرح مقدمہ شیخ عبدالحق فی بیان بعض مصطلحات الحدیث، نورالقمر فی توضیح نزہة النظر، شیوخ الامام ابی داؤد السجستانی فی سننہ، سرسید احمد خاں کا نظریہٴ حجیت حدیث، مقالات حبیب، حرمت مصاہرت، علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کا مقام ومرتبہ، میت پر اظہار غم کے مسائل ودلائل، مسئلہ امارت وامامت“ وغیرہ شامل ہیں۔ ذیل میں اہل علم کی خدمت میں اہم علمی یادگار کا قدرے تفصیلی تعارف پیش ہے۔
شیوخ الامام ابی داؤد السجستانی فی سننہ
یہ آپ کی محققانہ اور علمِ رجال میں تبحرپر شاہد عدل تصنیف ہے، سنن ابی داؤد کا درس عرصے تک آپ سے متعلق رہا ہے، اس تصنیف میں آپ نے نہایت تحقیق سے امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث السجستانی کے اساتذہ وشیوخ نیز شیوخ الشیوخ کو جمع کردیا ہے اور احمد بن ابراہیم الموصلی سے آغاز کرکے یوسف بن موسی القطان تک الف بائی ترتیب پر تین سو بانوے شیوخ کے تراجم واحوال ذکر کردیے ہیں۔ شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند سے پہلی مرتبہ ۲۰۰۶ء میں اس کی معیاری طباعت عمل میں آئی، دو سو ساٹھ صفحات پر مشتمل یہ کتاب علم حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے ایک گراں قدر علمی تحفہ ہے۔
انتقاء اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم وآدابہ
”اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم وآدابہ“ حافظ ابوالشیخ عبداللہ بن محمد اصفہانی (۲۷۴-۳۶۹ھ) کی مشہور تصنیف ہے جو دو سو اڑتالیس ابواب پر مشتمل ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وشمائل کو جامع ہے۔ چار ضخیم جلدوں میں ریاض سے صالح بن محمد کی تحقیق سے اور اس سے پہلے بیروت سے شائع ہوچکی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر مشہور مغربی محدث ابوبکر طرطوشی (۵۲۰ھ) نے اس کی تقریب وتلخیص کا کام انجام دیا۔ شیخ ناصرالدین البانی نے بھی اس کا اختصار کیا ہے۔ حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی کو اس کتاب سے غیرمعمولی تعلق رہا ہے؛ البتہ اس کا بھی شدیداحساس تھا کہ مصنف نے اگرچہ ہر روایت کو انھیں اسانید سے ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے، تاہم اس میں ضعفاء ومتروکین کے درجے کے رواة بھی آگئے ہیں جس سے کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا قاری کے لیے مشکل تھا اور یہ ابوالشیخ کی تمام تصنیفات کا حال ہے؛ کیوں کہ ان کی توجہ جمع روایات پر زیادہ تھی خود حافظ ذہبی نے بھی اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابوالشیخ متبع سنت اور باعمل عالم ہیں؛ البتہ ان کی تصنیفات میں بے اصل روایات بھی درآئی ہیں۔ ”قد کان أابو الشیخ من العلماء العاملین صاحب سنة واتباع؛ لولا یملأ تصانیفہ بالواہیات“ (سیراعلام النبلاء ۱۶/۲۷۹)؛ اس لیے حضرت مولانا اس کے انتقا اور صحیح و سقیم میں امتیاز کی ضرورت عرصے سے محسوس کررہے تھے اور سال گزشتہ لاک ڈاؤن کے سبب تدریسی سرگرمیوں سے انقطاع کے ایام میں آپ نے اس کام کو سرانجام دیا اور سو صفحات میں اس کتاب کی صحیح روایات پر مشتمل منتخب مجموعہ مرتب کردیا اور احقر کو مسودہ حوالہ کرتے ہوئے اس کی طباعت کا حکم فرمایا۔ بندے کی درخواست پر استاذ گرامی حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی نے عام طباعت سے قبل قسطوار مجلہ ”الداعی“ میں اس کو شائع کرنا منظور فرمالیا، اب تک اس کی چار قسطیں شائع ہوچکی ہیں جن میں مجموعی اعتبار سے ۲۳۷ روایات تنقیح کے ساتھ آچکی ہیں۔ مزید ایک دو قسطوں میں سلسلہ مکمل ہونے کی امید ہے؛ لیکن افسوس چوتھی قسط کے ساتھ ہی صاحب افادہ حضرت مولانا اعظمی اور مجلے کے ایڈیٹر حضرت مولانا امینی دونوں دس دن کے وقفے سے داغ مفارقت دے گئے، دیوبند نے علم وادب کو اپنی تہہ میں چھپالیا۔ رحمہما اللّٰہ تعالیٰ رحمةً واسعةً․ اس کتاب میں حضرت الاستاذ نے صرف صحیح روایات کا انتخاب کیا ہے اور ہر روایت کی معتبر ومتداول کتب حدیث سے تخریج کے ساتھ سندی حیثیت بھی متعین کردی ہے۔ کہیں اگر مصنف کے ذکر کردہ رُواة قابل اعتبار ہیں اور کسی خاص راوی پر نقد شدید نہیں ہے تو اس روایت کو بھی لینے سے دریخ نہیں کیا ہے؛ چنانچہ ”یأکل بثلاثة اصابع“ والی روایت پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”رجال المصنف ثقات، سوی علي بن حرب الطائي وہو صدوق“ (الداعی شوال ۱۴۴۲ھ، ص۴۹) اوراگر مصنف ابوالشیخ کی ذکر کردہ سند ضعیف ہے؛ لیکن وہ روایت دوسرے صحیح طرق سے بھی وارد ہوئی ہے تو آپ نے اس روایت کو بھی باقی رکھا ہے؛ البتہ صورت حال کی وضاحت کردی ہے؛ چنانچہ ۲۲۴ نمبر پر درج روایت کے سلسلے میں فرماتے ہیں: فی سند المصنف عبدالحمید بن عبدالعزیز بن ابی روّاد وہو ضعیف․ والحدیث صحیح أخرجہ مسلم فی الأشربة من طرق أخریٰ عن حذیفة“ (حوالہ بالا)
بہ ہرحال یہ انتقاء بھی اہم علمی وحدیثی کارنامہ ہے اور اس لائق ہے کہ بڑے پیمانے پر اس کی اشاعت کرکے اس کے افادے کو عام کیا جائے۔
تذکرہٴ علماء اعظم گڈھ
اس کتاب میں آپ نے علم وفن کی سرزمین اعظم گڈھ سے تعلق رکھنے والے علماء ومشاہیر کے حالات نہایت تحقیق اور جامعیت سے یکجا کردیے ہیں۔ اس کے لیے آپ نے صرف مطبوعہ کتابوں پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ مختلف مقامات کی خاک چھانی، کتبات پڑھے، متعلقہ اشخاص سے مسلسل رابطے کیے ؛ اس لیے کتاب کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اسے دستاویزی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا تھا۔ ۲۰۱۲ء میں مرکز دعوت وتحقیق دیوبند سے شائع دوسرے ایڈیشن میں مزید پچاس علماء کے حالات کا اضافہ کیا۔ ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا منظور نعمانی، قاضی اطہرمبارک پوری، ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی اور پروفیسر محمدایوب قادری جیسی شخصیات نے کتاب کے بارے میں بڑی وقیع رائے کا اظہار کیا ہے۔
اجودھیا کے اسلامی آثار
یہ بھی حضرت مولانا کی مشہور تصنیف ہے جس میں اجودھیا کے علماء، مشائخ، مشہور مساجد اور مقابر کی تاریخ مستند ومعتبرحوالوں کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ حضرت مولانا نے پچاس سے زائد مآخذ کی مدد سے اس موضوع سے متعلق منتشرہ مواد کو جمع کرکے دل صدپارہ کو یکجا کردیا ہے۔ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ میں تقریباً ۲۷ مشاہیر اہل علم اور مشائخ تصوف کا ذکر ہے جنھوں نے اجودھیا کی سرزمین میں توحید کا چراغ روشن کیا ہے، انھیں حضرات کی متعدد خانقاہوں کا ذکر جمیل ہے، جہاں ذکر الٰہی کی مجلسیں قائم رہی ہیں، کتنے ہی ایسے مقابر ومزارات کی تفصیلات ہیں جن میں علم و معرفت اور شریعت وطریقت کے خزانے مدفون ہیں اور متعدد اہم ترین مسجدوں کے تفصیلی تذکرے ہیں جن سے اسلامی تاریخ وابستہ ہے اور انھیں مسجدوں میں ایک بابری مسجد بھی ہے جس کے سلسلے میں یوم تاسیس سے لے کر آج تک کی صحیح مفصل اور مستند سرگزشت سپرد قلم کی گئی ہے“ (کتاب مذکور کا ص۶) ان بکھری ہوئی داستانوں کو سمیٹنے اور تاریخ کے اوراقِ پریشاں کو یکجا کرنے میں حضرت مولانا نے جو آبلہ پائی کی ہے اور صبرآزما حالات سے گزرے ہیں، اس کا اندازہ اسی کو ہوسکتا ہے جس کو اس طرح کے کاموں سے سابقہ پڑاہو۔ حضرت مولانا بھی کبھی کبھار مجلس میں اس کی کچھ روداد سنایا کرتے تھے۔۱۹۹۰ء میں شیخ الہند اکیڈمی نے اس کو بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔
مکانة الامام فی الفقہ والحدیث والکلام
یہ حضرت مولانا کی آخری اور نہایت قابل قدر تصنیف ہے۔ تعلیمی تعطل کے ایام میں آپ شبانہ روز اس میں لگے رہے اور بڑی محنت وجانفشانی سے یہ دستاویزی کتاب تیار کی۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب پر یوں تو قابل قدر تصنیفی سرمایہ موجود ہے؛ لیکن اس کتاب میں حضرت مولانا نے بڑی قوت کے ساتھ فقہ کے علاوہ علم عقائد وعلم حدیث میں حضرت امام کی انفرادیت وامامت اور جلالت شان کو اجاگر کیاہے، اردو میں شاید ہی حضرت امام اور علم کلام کے موضوع پر کسی نے اس قدر تفصیل سے گفتگو کی ہو، کتاب کی تکمیل کے لیے آپ نے سیکڑوں مآخذ و مصادر کی طرف مراجعت کی۔ اپنے پاس موجود ذخائر کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً بعض اہم کتابوں اور تحقیقی مقالات کے متعلق بندے کو حکم فرماتے اور بندہ نٹ سے تلاش کرپرنٹ نکلواکر اور بائنڈنگ کرواکر حضرت کی خدمت میں پیش کرتا جس پر حضرت بڑی مسرت کا اظہار کرتے اور دعاؤں سے نوازتے۔ اس کتاب کا کچھ حصہ آپ نے وطن میں لکھا ہے؛ اس لیے اس کی آخری شکل ہم لوگ اب تک نہیں دیکھ سکے ہیں اور پورا مسودہ حضرت کے ورثاء کی تحویل میں ہے۔ بعض اہلِ تعلق اہلِ علم کو چوں کہ آپ کی اس تصنیف کا کسی درجے میں علم ہوگیا تھا؛ اس لیے وہ بھی فکر میں ہیں کہ کسی طرح یہ علمی سرمایہ طبع ہوجائے۔ حضرت مولانا سیداسجد مدنی صاحب نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر ورثہ وہ مسودہ حوالے کردیں تو وہ اس کی طباعت کی ساری ذمہ داری لینے کو تیار ہیں۔ حضرت اقدس مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند نے بھی اپنے تاثراتی مضمون میں اس علمی سرمایے کی حفاظت پر متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ”مولانا مرحوم ان دونوں کسی خاص موضوع پر کچھ لکھنے کے لیے مطالعہ فرمارہے تھے اور بہ قول خود اس کے لیے موڈ بنارہے تھے اوراندازہ یہ ہے کہ اس کام کا آغاز فرماچکے تھے۔ یقینا ان کا جمع کردہ حاصل مطالعہ اور مرتب کردہ تحریر خاصے کی چیز ہوگی، اس کی حفاظت کرنی چاہیے اوراگر قابلِ اشاعت ہوں تو ان کی اشاعت ہونی چاہیے۔“امید ہے کہ حضرت مولانا کے لائق ورثاء ان بزرگوں کی توجیہات کو سامنے رکھتے ہوئے جلد اس سرمایے کی اشاعت کے لیے عملی اقدام کریں گے۔
مقالاتِ حبیب
یہ مختلف اوقات میں حضرت مولانا کے قلم گہربار سے نکلنے والے علمی، تاریخی اور تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے، کتاب کے مشمولات چھ ابواب پر منقسم ہیں: باب اوّل: ہندوستان میں احیاء علم وفکر، باب دوم: صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی منفردانہ عظمت شان، باب سوم: فرقِ باطلہ کا تعاقب، باب چہارم: مسائل ودلائل، باب پنجم: گوشہٴ سیرت وتاریخ، باب ششم: تذکرئہ ارباب فضل وکمال کے مرکزی عناوین پر مشتمل ہے۔ مقالات کا یہ گراں قدر مجموعہ گیارہ سو ستاون صفحات پر تین جلدوں میں شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند سے شائع ہوا ہے۔ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری نے مقدمے میں کتاب کے مضامین کا تعارف کرانے کے بعد لکھا ہے: ”آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ان (حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی) کی سحربیانی منفردانہ شان کی حامل ہے، مولانا کا علم پختہ، ذہن استوار اور معلومات وافر ہیں؛ اس لیے ان کی تحریروں میں قاری کو بڑے کام کے نقطے اورنکتے مل جاتے ہیں۔“ (۱/۱۵)
سلطان القلم حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی نے کتاب کے تعارف میں لکھا ہے: ”اسلامی موضوعات کے تنوع اور جامعیت کے تعلق سے گویا یہ ”دائرة المعارف“ اور ”قاموس العلوم“ ہے۔ یہ ہمہ گیر مجموعہٴ مقالات قاری کو جہاں علم وفکر، دین ودعوت اور سیرت وتاریخ کا بھرپور درس دیتا ہے وہیں زبان و بیان کی سوغات بھی دیتا ہے۔ جوانوں کے لیے یہ کتاب بہ طور خاص ہمت و حوصلہ اور فکر ونظر کو انتہائی حد تک حرکت دینے اور جمود وکسل مندی سے ہٹاکر نشاطِ کار سے سرشار کرنے والی ہے۔“ (۱/۱۷)۔
سفر آخرت
ماہ رمضان سے قبل چند مہینوں کے دوران آپ جس تیزی کے ساتھ اپنے کام سمیٹ رہے تھے اور بعض اوقات ایسا کچھ کہہ جاتے تھے جس سے اشارے مل رہے تھے کہ دشت علم کی سیاحی کرنے والا زندگی کی راہوں کا یہ مسافر اپنی زندگی کے آخری پڑاؤ پر ہے؛ لیکن ہم اپنی غفلت کی وجہ سے یہ اشارات نہیں سمجھ سکے؛ چنانچہ چند ماہ قبل آپ کا نیا پاسپورٹ بن کرآیا تو حضرت نے مجلس میں فرمایا: یہ میری زندگی کا آخری پاسپورٹ ہے۔ مولانا افضل حسین بستوی نے عرض کیا: حضرت! یہ آپ کیا فرمارہے ہیں؟ کہنے لگے: میں عمر کے جس مرحلے میں ہوں مجھے نہیں لگتا کہ اس کی مدت مکمل ہونے تک زندہ رہ سکوں گا۔ آپ کو اپنے اساتذئہ کرام سے بڑی عظمت وعقیدت تھی، بالخصوص حصرت مولانا سیدفخرالدین صاحب مرادآبادی کا تذکرہ کرتے تو آب دیدہ ہوجاتے۔ کچھ عرصہ قبل ہی آپ نے خواب میں حضرت مولانا کو دیکھا کہ حضرة الاستاذ کسی اونچی فصیل پر کھڑے ہیں اور آپ اس سے نسبتاً نیچی جگہ پر ہیں؛ لیکن حضرت الاستاذ فرمارہے ہیں: حبیب الرحمن! اب تم میرے پاس آجاؤ، آپ نے اپنا یہ خواب حضرت مولانا سیداسجدمدنی صاحب سے ذکر کیا تھا اور تیاری میں لگ گئے تھے، اسی دوران مراد العاشقین رحمت العالمین سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی خواب میں زیارت سے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور حاصل ہوا؛ لیکن آپ کی موجودہ صحت کو دیکھتے ہوئے بہ ظاہر ہمارے لیے تشویش کی کوئی بات نہیں تھی۔ امراضِ قلب کے ماہر ایک ڈاکٹر کے پاس مظفرنگر گئے تھے اس نے بھی کئی طرح کے چیک اپ کے بعداطمینان کا ہی اظہار کیا تھا۔ ماہ مبارک سے قبل آپ دیوبند سے وطن تشریف لے گئے تھے۔ وہیں سے ماہِ مبارک میں علالت کی خبریں آنی شروع ہوئیں۔ مولانا کے پوتوں سے رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ طبیعت میں اتار چڑھاؤ کی کیفیت ہے اور گھر پر ہی ڈاکٹر کی نگرانی میں علاج چل رہا ہے۔ ۲۹/رمضان المبارک کو اطلاع آئی کہ طاہرمیموریل ہسپتال میں داخل ہیں۔ میں نے مولانا فضیل صاحب اور حضرت کے پوتے سے خیریت دریافت کی ان حضرات نے بتلایا کہ روبہ صحت ہیں؛ لیکن انفیکشن بڑھ رہا تھا اورآپ آخرت کی اپنی منزل سے قریب ہورہے تھے۔ اس دن کے بعد آنے والی شب آپ کی زندگی کی آخری شب تھی۔ بہ وقت سحر صاحبزادئہ محترم مولانا عبیدالرحمن صاحب نے خواب دیکھا کہ دو سفید پوش آئے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ مولانا کو لینے آئے ہیں۔ ۳۰/رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ کو طبیعت میں غیرمعمولی تبدیلی اور گراوٹ سے آپ نیخود محسوس کیا کہ اب شاید وقت موعود آپہنچا ہے؛ اس لیے آپ نے اپنے ورثہ کو کچھ مالی معاملات اور ضروری امور کی وصیت کی، تسبیح اور کلمہ پڑھتے رہے اور تقریباً ایک بجے روح قفس عنصری سے پرواز کرکے اپنے رب کریم کے حضور پہنچ گئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون․ لیلة الجائزہ میں ۹/بجے جنازہ باہر لایاگیا، مولانا کے پوتے مولانا عفان قاسمی نے نماز جنازہ پڑھائی، لاک ڈاؤن کے باوجود قابل رشک تعداد نے جنازے میں شرکت کی اور جگدیش پور نہر کے متصل دکھنی قبرستان میں اپنے والد گرامی حافظ انوارالحق صاحب کے بازو میں دفن کردیے گئے۔ بار الٰہ! دین متین کے خادم اور حدیث نبوی کے شارح تیری بارگاہ رحمت میں حاضر ہیں، خاص لطف وکرم کا معاملہ فرما، جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرما، تو بڑا رحیم ہے، بڑا کریم ہے، آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الامین وآلہ وصحبہ اجمعین۔
———————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :8، جلد:105، ذی الحجہ 1442ھ محرم الحرام 1443ھ مطابق اگست 2021ء
٭ ٭ ٭