از: مولانا عبید اللہ شمیم قاسمی
حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرب قیامت علم کو اٹھا لیا جائے گا؛ لیکن اللہ تعالی علم کو یکبارگی نہیں اٹھائے گا؛ بلکہ جو اہل علم ہیں اللہ تعالی انھیں اٹھالے گا اور جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا وپیشوا بنالیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، بخاری شریف کی روایت ہے: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض بقبض العلماء، حتی إذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوسا جہالا، فأفتوا بغیر علم فضلوا واضلوا“(صحیح البخاری، باب کیف یقبض العلم، حدیث نمبر:۱۰۰)
اس حدیث کا آج کل کثرت سے ظہور ہو رہا ہے، گذشتہ دو سال کے عرصہ میں جس کثرت سے بڑے بڑے علماء اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب قیامت بالکل قریب ہے۔
جو بھی جارہا ہے اس کا کوئی بدل بھی نظر نہیں آتا، ابھی گذشتہ سال۲۵/رمضان المبارک دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ انتقال ہوا، اور چند روز پہلے حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ کا انتقال ہوا اور آج ۳۰/رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۳/مئی ۲۰۲۱ء اچانک حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی جنہیں ابھی تک ”دامت برکاتہم“ کہا کرتے تھے؛ مگر اب انھیں ”رحمہ اللہ“لکھنا پڑ رہا ہے، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مختصر عرصہ بیمار رہنے کے بعد ۳۰/رمضان المبارک(متحدہ عرب امارات میں عید کا دن) مطابق ۱۳/مئی ۲۰۲۱ء کو ظہر کے وقت خالق حقیقی سے جا ملے، اور اپنے آبائی وطن جگدیش پور اعظم گڑھ میں بعد نماز عشاء آپ کے پوتے مولانا محمدعفان قاسمی کی اقتدا میں ایک کثیر تعداد نے نماز جنازہ پڑھ کر اس گنجینہٴ علم کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کر دیا۔
ان میں سے ہر ایک ایسا عالم تھا جس کا کوئی بدل بھی نظر نہیں آتا۔
حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی چند روز پہلے بیمار ہوئے تھے، بخار کی شدت تھی اور اس کے بعد پھیپھڑوں میں انفیکشن کی شکایت تھی جس کی وجہ سے کچھ دن گھر پر علاج جاری رہا، پھر ڈاکٹروں کے مشورے سے دو تین روز قبل ہاسپٹل میں داخل کیا گیا، جہاں آپ نے زندگی کی آخری سانس لی۔
اس سے پہلے حضرت مولانا اس طرح کبھی بیمار نہیں ہوتے تھے اور اگر کبھی بیمار بھی ہوتے تھے تو دل کو یک گونہ اطمینان رہتا تھا کہ ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گے؛ مگر جب وقت موعود آجاتا ہے تو اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہو سکتی، ارشاد باری تعالی ہے: ”فإذا جاء أجلہم لا یستاخرون ساعة ولا یستقدمون“․
جب سے حضرت مولانا کے انتقال کی خبر پہنچی ہے بہت کوشش کررہا ہوں کہ دو چار سطریں کچھ لکھوں؛ مگر قلم ساتھ نہیں دے رہا ہے، دل مغموم ہے، آنکھیں نم ہیں، بہت ضبط اور کوشش کے بعد چند سطریں لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔
حضرت مولانا ان نابغہ روزگار شخصیات میں سے تھے جنہوں نے کتاب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا، کثرت مطالعہ کی وجہ سے متعدد علوم میں مہارت پیدا کرلی تھی؛ مگر خاص طور پر علم حدیث اور فن اسماء رجال میں آپ کو ید طولی حاصل تھا۔ آپ ایک عظیم موٴرخ بھی تھے، تاریخ پر گہری نظر تھی، آپ کی کتابیں اس فن میں آپ کی مہارت کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔
موجودہ وقت میں آپ کو طلبہ دارالعلوم دیوبند میں سب سے زیادہ مقبولیت تھی، وجہ یہ تھی آپ کا درس جب شروع ہوتا تو اس میں علم کے موتی بکھیرتے اور جب رجال پر بحث شروع فرمادیتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے علم کا دریا بہ رہا ہو۔ درس میں گہرائی وگیرائی بہت تھی، جو بھی کتاب آپ پڑھاتے اس کا حق ادا کردیتے۔
دار العلوم دیوبند میں تقریبا ۴۰ سال آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں، اس عرصہ میں ہزارہا طالبان علوم نبوت کو آپ کے علوم سے سیراب ہونے کا موقع ملا۔
اللہ رب العزت نے حضرت مولانا کو محبوبیت عطا فرمائی تھی، ہمیں حضرت مولانا سے ۲۳-۱۴۲۲ھ میں ابو داود شریف جلد اول پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
اللہ تعالی نے حضرت مولانا کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا، تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بہت صاف ستھرا ذوق عطا فرمایا تھا، آپ کے اندر افہام و تفہیم کا ملکہ قدرت نے ودیعت فرمایا تھا، اسی وجہ سے آپ کے درس کے ساتھ ساتھ آپ کی کتابیں بھی بہت مقبول تھیں، آپ کا نورانی چہرہ، آپ کے درس کا انداز، آپ کا علمی رعب ودبدبہ اسی کے ساتھ متانت وسنجیدگی، آپ کا رہن سہن یہ سب باتیں بہت یاد آرہی ہیں؛ مگر اس وقت کچھ بھی لکھنا مشکل ہو رہا ہے۔
حضرت مولانا کا نام بچپن ہی میں سن رکھا تھا، ۱۹۹۲ء میں جب میرے بڑے بھائی دارالعلوم دیوبند داخلے کے لیے گئے تو والد صاحب اس سے پہلے حضرت مولانا کے دولت خانہ پر حاضر ہوکر بتلایا کہ آئندہ سال یہ دیوبند جارہے ہیں۔ اس کے بعد بھی وقتا فوقتا ماہنامہ دارالعلوم دیوبند پر آپ کا نام ایڈیٹر کی جگہ لکھا تھا اور بہت سے مضامین بھی پڑھنے کی نوبت آئی۔
مگر آپ کا دیدار اس وقت ہوا جب۲۰۰۱ء میں عربی ہفتم میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کا موقع ملا۔
اس سال ہمارا کوئی بھی سبق حضرت مولانا کے یہاں نہیں تھا کیونکہ آپ ہفتم ثالثہ میں پڑھاتے تھے اور میں ہفتم ثانیہ میں تھا۔ اگلے سال دورئہ حدیث میں ابو داود شریف پڑھنے کی سعادت ملی۔
آپ کی مجلس میں کبھی کبھی حاضری ہوتی تھی؛ مگر کوئی خاص تعارف نہیں تھا۔ اس کے دو سال بعد جب ”تخصص فی الحدیث“ میں داخلہ ہوا تو ایک مرتبہ پھر آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی سعادت ملی، امام سیوطی کی مشہور کتاب ”تدریب الراوی“ آپ سے متعلق تھی۔
۲۰۰۷ء کے بعد سے میرا کثرت سے دیوبند جانا ہوتا تھا تو آپ کی خدمت میں بھی حاضری ہو جاتی تھی، اس وقت آپ اچھی طرح پہچان گئے تھے کہ یہ حضرت مولانا عبد الحق اعظمی نور اللہ مرقدہ کے داماد ہیں۔
پھر تو ہر حاضری کے موقع پر کوئی نئی کتاب آئی ہو یا نادر کتاب ہو تو اس کے بارے میں حضرت دریافت فرماتے کہ دیکھو یہ کتاب اگر ملے تو لے لینا، اسی طرح ایک موقع پر فرمایا کہ علامہ کتانی کی کتاب ”التراتیب الاداریہ“ یہ بہت اچھی کتاب ہے اور لائق مطالعہ ہے اسے تلاش کرو، میں نے نیٹ سے نکال کر پوری کتاب آپ کو دی تو بہت خوش ہوئے اور فوٹو کاپی کی قیمت عنایت فرمائی، کتابوں کے حصول کے لیے آپ ہمیشہ کوشاں رہتے کوئی بھی نئی کتاب آتی تو اسے ضرور منگواتے اور اس کی قیمت ادا کرتے۔
ایک مرتبہ میں نے عرض کیا کہ ہمارے یہاں جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ سے علامہ عابد سندھی کی کتاب ”المواھب اللطیفہ شرح مسند الامام أبي حنیفہ“ سات جلدوں میں شائع ہوئی ہے تو فرمایا کہ کتاب لے لینا میں اس کی قیمت ادا کردوں گا، اتفاق سے کتاب آپ تک نہیں پہنچا سکا تو مولانا عبد البر صاحب سے کہا کہ عبید اللہ کتاب لانے والا تھا، ابھی تک لایا نہیں، جب مجھے اطلاع ملی تو اگلے روز فجر کی نماز کے وقت جامعہ اسلامیہ سے کتاب لے کر جگدیش پور حاضر ہوا، اسی دن آپ کا سفر تھا۔ اس وقت آپ کی خوشی دیدنی تھی کتاب کو فوراً کھولا اور کہا کہ احناف کی کتاب عالم عرب سے چھپ گئی یہ بڑی خدمت ہے۔
حضرت مولانا کو کثرت مطالعہ کی وجہ سے بہت سے علوم مستحضر تھے، کتابوں کے مطالعہ کے سلسلے میں بہترین رہنمائی فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ امام ذہبی کی کتاب ”زغل العلم“اچھی کتاب ہے اس میں علوم کا تعارف کرایا ہے اس کا مطالعہ کرو۔
اسی طرح ایک مرتبہ دریافت کرنے پر فرمایا کہ امام راغب اصفہانی کی کتاب ”الذریعہ الی مکارم الشریعہ“ بہت اچھی کتاب ہے اس کا مطالعہ کرو۔
کبھی کبھی دیوبند حاضری کے موقع پر پوچھتا کہ حضرت آج کل کو نسا کام چل رہا ہے تو اس کی تفصیل بتلاتے، ایک مرتبہ فرمایا کہ تفسیر مظہری پر کچھ کام کررہا ہوں اگر وہ ہوگیا تو بڑا کام ہوگا، معلوم نہیں وہ کام ہوا یا نہیں۔
ایک مرتبہ دیوبند حاضری کے موقع پر تفسیر سے متعلق آپ کے ایک مضمون کے بارے میں میں نے بتلایا کہ اس کا مطالعہ کیا ہوں تو پوچھا کہ کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ حضرت آپ کا نام ہی کافی ہے۔ ایک مرتبہ دیوبند حاضری کے موقع پر بتلایا کہ سر سید کے نظریات جو حدیث کے متعلق ہیں، اس پر لکھ رہا ہوں، بعد میں وہ مضمون کتابی شکل میں دارالعلوم دیوبند کی طرف سے شائع بھی ہوا۔
حضرت مولانا بہت سی خصوصیات کے حامل تھے ان کی جملہ خصوصیات کو بیان کیا جانا مشکل ہے۔
آپ کی وفات سے جو علمی، ملی اور جماعتی خلا ہوا ہے اس کا پر ہونا بظاہر مشکل ہے۔
عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو شخصیت جس درجہ کی ہوتی ہے اس کے اثرات بھی اسی درجے کے ہوتے ہیں، زندگی میں روشن کارناموں کے ذریعے معاشرہ پر قد آور شخصیات جس طرح اپنا خوشگوار اثر مرتب کرتی ہیں اسی طرح اپنی رحلت سے بھی ملک وملت کو رنج وغم کے المناک احساس سے دو چار کرتی ہیں۔
حضرت مولانا اعظم گڑھ کے مردم خیز قصبہ پھول پور کے پاس جگدیش پور کے رہنے والے تھے، اس گاوں کی خوش قسمتی کہ یہاں بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے، دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق اعظمی نور اللہ مرقدہ، مولانا افتخار احمد قاسمی اور حضرت قاری ابو الحسن دامت برکاتہم اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں، حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمہ اللہ کا کثرت سے اس طرف سے گزر ہوتا تھا؛ اس لیے جگدیش پور بھی حاضر ہوتے، اور اسی کے اثر سے دینداری کا مزاج بھی پایا جاتا ہے۔
آپ کی پیدائش ۱۹۴۲ء/۱۳۶۲ھ میں ہوئی، مختصر تاریخ دارالعلوم دیوبند میں ۱۹۴۵ء/ ۱۳۶۵ھ لکھا ہوا ہے۔ آپ کے والد صاحب کا نام حافظ انوارالحق تھا۔
ابتدائی تعلیم گاوں کے مکتب مدرسہ امداد العلوم میں حاصل کی، پرائمری کی تعلیم کے بعد آپ کے والد صاحب آگے تعلیم موقوف کرانا چاہتے تھے؛ مگر اس موقع پر آپ کے مشفق استاذ حضرت مولانا عبدالحق نور اللہ مرقدہ نے آپ کے والد کو آگے کی تعلیم کے لیے راضی کیا اور خود جاکر مدرسہ بیت العلوم سرائے میرمیں داخلہ کرایا، جہاں آپ نے عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی، آپ کو حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمہ اللہ سے شرف تلمذ تھا، آپ نے حضرت سے فارسی کی مشہور کتاب گلستاں روضة العلوم جگدیش پور میں پڑھی تھی۔
ابتدائی عربی تعلیم کے بعد آپ مدرسہ مطلع العلوم بنارس چلے گئے اور حضرت مولانا عبد الحق اعظمی نور اللہ مرقدہ سے درس نظامی کی اکثر کتابیں پڑھیں اور ساتھ ساتھ اپنے استاذ کی خدمت بھی کرتے تھے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق اعظمی نور اللہ مرقدہ آپ کے مشفق اساتذہ میں سے تھے، عام طور پر اس کا احساس نہیں ہوتا تھا؛ مگر جب شیخ صاحب کے انتقال کے بعد دارالعلوم دیوبند کی دارالحدیث میں تعزیتی جلسہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت مجھے بہت صدمہ ہے اور کچھ نہیں کہہ سکتا، بس اتنا کہوں گا کہ آج جو کچھ میں ہوں، وہ مولانا مرحوم کی وجہ سے ہوں اور فرمایا کہ پرائمری کی تعلیم کے بعد والد صاحب کا آگے پڑھانے کا ارادہ نہیں تھا؛ مگر حضرت شیخ نے والد صاحب کو آگے کی تعلیم کے لیے راضی کیا۔ مطلع العلوم کے زمانے میں شیخ صاحب کا پیٹ کا آپریشن ہوا، جس میں تقریبا پچیس روز تک اسپتال میں رہنا پڑا، اس زمانے میں حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمہ اللہ شرح جامی وغیرہ پڑھتے تھے، آپ نے بیس بائیس روز تک شیخ صاحب کی بہت خدمت کی، حضرت شیخ نے اپنی خود نوشت سوانح میں تحریر فرمایا ہے:”عزیزی مولوی حبیب الرحمن سلّمہ نے پوری خدمت کی“۔
مطلع العلوم بنارس کے بعد آپ دارالعلوم مئو گئے اور پھر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ء میں فارغ ہوئے، آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا فخر الدین مرادآبای، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اور حضرت مولانا اسلام الحق اعظمی کوپاگنجی وغیرہ تھے۔
فراغت کے بعد آپ نے مدرسہ ”قاسم العلوم“ منگراواں اور جامعہ اسلامیہ بنارس میں تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ مدرسہ روضة العلوم پھول پور کے شعبہٴ دعوت وتبلیغ سے بھی منسلک رہے۔
۱۹۸۰ء میں فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنیکی دعوت پر دیوبند گئے اور موتمر فضلائے دارالعلوم دیوبند کی طرف سے ماہنامہ ”القاسم“ کی ادارت سنبھالی۔
اس کے بعد۱۹۸۲ء/۱۴۰۲ھ میں دارالعلوم دیوبند تدریس سے منسلک ہوئے، ۱۴۰۵ھ سے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کی ادارت آپ کو سپرد کی گئی اور ایک لمبے عرصہ تک اس خدمت کو انجام دیا، ۱۴۱۴ھ میں آپ کی ترقی ہوئی اور درجہٴ علیا کے استاذ ہوئے، دارالعلوم دیوبند آپ کی مدت تدریس تقریبا چالیس سال ہے، اس عرصہ میں مختلف کتابوں کا آپ نے درس دیا، اخیر میں مسلم شریف اور مشکاة المصابیح آپ سے متعلق تھی۔
درس کے ساتھ ساتھ آپ تصنیف وتالیف بھی کرتے تھے، آپ کی کتابیں مقبول تھیں، لیکن کچھ کتابوں نے آپ کو شہرتِ دوام بخش دیا، جن میں ”تذکرہ علماء اعظم گڑھ“ اور ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ شامل ہیں، آپ کے مختلف مضامین کا مجموعہ ”مقالاتِ حبیب“ کے نام سے تین جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ آپ تیس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔
حضرت مولانا معمولات کے بہت پابند تھے، آپ رات کو جلدی سوجاتے اور صبح صادق سے پہلے اٹھ کر تہجد، ذکر وتلاوت سے فارغ ہوکر مطالعہ میں مشغول ہوجاتے، آپ کا اصلاحی تعلق اولا شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ سے تھا، ان کی وفات کے بعد حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ سے متعلق ہوئے، حضرت مولانا محمود سہارن پوری خلیفہ حضرت شیخ الاسلام حضرت مدنی نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔
حضرت مولانا جلسہ وغیرہ میں نہیں جاتے تھے؛ مگر چونکہ جمعیت علماء ہند کی مجلس عاملہ کے ممبر تھے؛ اس لیے اس کی میٹنگ میں شرکت کرتے اور اور آپ کی رائے کو اہمیت دی جاتی، مولانا اسعد مدنی صاحب کی وفات کے بعد حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم بھی آپ کی رائے کو اسی طرح اہمیت دیتے۔
مدرسہ بیت العلوم سرائے میر چونکہ آپ کا مادر علمی تھا؛ اس لیے وہاں کے جلسوں میں شریک ہوتے، ایک مرتبہ۲۰۰۶ء میں جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے جمعیت کے جلسے میں بہت ہی مفصل تقریر فرمائی اور جمعیت کی پوری تاریخ بیان کی۔
حضرت مولانا کی صحت عمر کے اعتبار سے اچھی تھی، بظاہر کوئی بیماری نہیں تھی، کچھ دنوں پہلے دارالعلوم دیوبند سے وطن تشریف لائے تھے اور رمضان المبارک کے مہینہ میں آپ کو بخار آیا اور اس کے بعد افاقہ بھی ہوا ؛مگر پھیپھڑوں میں انفیکشن کی شکایت تھی جس کے بعد اسپتال میں داخل کیا گیا اور آپ نے رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ کے آخری دن اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
آپ نے اپنے پیچھے ہزاروں تلامذہ کو چھوڑا ہے جو آپ کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہیں۔
اللہ تعالی حضرت مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے اور دارالعلوم دیوبند کو آپ کا بدل عطا فرمائے اور آپ کے لواحقین و پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے۔
———————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :8، جلد:105، ذی الحجہ 1442ھ محرم الحرام 1443ھ مطابق اگست 2021ء
٭ ٭ ٭