حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ (۱۹۴۲-۲۰۲۱ء) یادوں کے نقوش

بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

دارالعلوم دیوبند

            گرامی قدر استاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی سے کسبِ فیض کا موقع قسامِ ازل نے میرے لیے مقدر فرمارکھا تھا، دارالعلوم دیوبند کی پرشکوہ درس گاہ میں حضرت سے ”موطا امام مالک“ پڑھنے کا حسین موقع ملا، درس کیا ہوتا تھا؟ بس معلومات کا خزانہ، تحقیقات کا مرقع،احادیث کے متن پر بھی کلام ہوتا، سندوں کی چھان بین ہوتی، رجال پر سیر حاصل گفتگو فرماتے، مسائل کا استنباط فقیہ بے مثال کی طرح کرتے، احناف کے دلائل اور اس پر وارد ہونے والے اعتراضات کا تشفی بخش جواب دیتے، درس گاہ میں شخصیت کی عبقریت کا ہر طالب علم معترف ہوے بغیر نہیں رہتا، میرے لیے عقیدت ومناسبت کی ایک وجہ حضرت کا ”اعظمی“ ہونا بھی تھی، اس خطے کا احسان مجھ پر ہے، مدرسہ قاسم العلوم منگراواں، اعظم گڑھ میں ناچیز نے تین سال تک علم حاصل کیا ہے، یہ وہی مدرسہ ہے جہاں حضرت نے بھی فراغت کے بعد چند دنوں پڑھایا تھا اور علم دین کا جام بھربھر کر لٹایا تھا؛ چنانچہ کبھی کبھی خدمت میں حاضری ہونے لگی اور جب افتاء اور تدریب افتاء کے شعبہ میں داخل ہوا اور دیواری پرچوں کے چھوٹے چھٹے مضامین لکھنے کے بعد قدرے طویل مضمون اور مقالہ لکھنے لگا، تو کبھی کبھی کچھ لکھ کر خدمت میں پیش کرتا تو بہت خوش ہوتے، ماہ نامہ دارالعلوم میں مضمون شائع فرماکر حوصلہ افزائی فرماتے، فرماتے تھے کہ میں طلبہ کے مضامین کو بھی ماہ نامہ میں شامل اِشاعت کرتا ہوں، اس کی وجہ طلبہ کی حوصلہ افزائی ہے، اس سے قلم کار مہمیز پاتا ہے، اس میدان میں حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائیں!

            مجھے نہیں لگتا تھا کہ اس معمولی بیماری میں وفات ہوجائے گی؛ اس لیے کہ وفات سے چار دن پہلے بات ہوئی تھی، فرمارہے تھے کہ بخار ہوگیا تھا، اب الحمدللہ بخار نہیں ہے، بالکل ٹھیک ہوں؛ البتہ کمزوری باقی ہے، میں نے کہا: حضرت! اس بخار میں اکثر لوگوں کو کمزوری ہوہی جاتی ہے، ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائیں گے! ہم لوگ آپ کی صحت وسلامتی اور درازیِ حیات کی دعائیں کرتے ہیں! اس پر خوش ہوے اور بات پوری ہوئی؛ وہی آخری گفتگو ثابت ہوئی، چوں کہ اکابر اساتذئہ دارالعلوم میں حضرت مولانا صحت مند تھے، روزانہ صبح کو چہل قدمی کرتے، زیتون کا تیل، شہد اور دیگر مقویات کا اہتمام کرتے تھے، چاق و چوبند رہتے تھے، اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ طاقت وقوت رکھتے تھے؛ لیکن موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں، جب موت آتی ہے تو ایک لمحہ آگے یا ایک لمحہ پیچھے نہیں ہوتی، خدائی فیصلہ اٹل ہے اوراس پر ہمارا ایمان بھی! ہاں! یہ بات بڑی اچھی سنی گئی کہ اخیر تک ہوش وحواس بالکل بحال تھے، روح پرواز ہونے سے عین قبل بھی اچھی طرح گفتگو کی، کچھ ضروری وصیتیں بھی کیں اور علم حدیث شریف کی برکت کہ موت کا خوف وہراس بالکل نہیں تھا، گویا مالکِ حقیقی سے ملنے کا وقت جب آگیا تو چل پڑے، کلمہ کے ساتھ، تسبیحات واستغفار کے ساتھ، یقینا غیب سے صدا آئی ہوگی: یا أیتہا النفس المطمئنة ارجعي الی ربک راضیةً مرضیة فادخلي في عبادی وادخلي جنتی!

خندہ پیشانی و سرخ ہونٹوں سے مسکراہٹ

            جب بھی خدمت میں حاضری ہوئی، بڑی خندہ پیشانی سے ملے، اگر کوئی علمی بات پوچھی، اپنے خلجان کو پیش کیا تواس کو بتایا اور رہنمائی فرمائی، یہ منظر بہت یاد آتا ہے اور رونا آنے لگتا ہے۔

حوصلہ افزائی

            (الف) جب بھی کچھ لکھ کر پیش کرتا، خوش ہوجاتے اور مختلف موقعوں کی تحریریں مثلاً جمعیت علمائے ہند کی تجاویز، تعزیت وغیرہ تیار کرنے کا حکم فرماتے، اپنا لکھا ہوا مسودہ تصحیح کے علاوہ طالب علمانہ شبہات پیش کرنے کے لیے عنایت فرماتے!

            (ب) کتابوں پر تبصرہ اور تعارف لکھنے کا موقع دیتے خود اپنی کتاب بھی دیتے کہ اس پر تبصرہ کرکے لے آؤ اور دوسرے اہلِ قلم کی نگارشات پر بھی خامہ فرسائی کا حکم فرماتے، ایک بار ارشاد فرمایا کہ بے لاگ تبصرہ اپنے حلقوں میں لوگوں کو پسند نہیں آتا، لوگ ثناخوانی اور مدح سرائی کے خواہاں ہوتے ہیں؛ اس لیے ماہ نامہ میں ”تبصرے“ کا عنوان بدل دینا چاہیے، پھر فرمایا: ماہ نامہ ”معارف“ اعظم گڑھ میں بھی یہ مشکل پیش آئی تھی توانھوں نے تبصرہ کے بجائے ”تعارفِ کتبِ جدیدہ“ کا عنوان بنایا تھا، میری رائے میں یہی عنوان ماہ نامہ میں بھی رکھنا چاہیے تو میں نے عرض کیا: حضرت! یہ فارسی ترکیب ہے اردو میں مضاف محذوف مان کر ”نئی کتابیں“ کا عنوان کیسا رہے گا؟ فرمایا: ٹھیک ہے،اگلے شمارے میں یہی عنوان لگاؤ!

            (ج) دارالعلوم میں میرے تقرر سے بہت خوش تھے، چند دنوں کے بعد ہی ”پروف ریڈنگ“ کا کام سپرد فرمادیا، پھر مضامین میں حذف واضافے کی اجازت بھی دی اور بعض مضامین کو شامل کرنے اور نہ کرنے میں میری مدلل رائے کو شرفِ قبول عطا فرمایا۔ اخیر میں ”اداریہ نگاری“ کا حسین موقع بھی عنایت فرمایا۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

            (د) جب دارالعلوم حیدرآباد میں جلالین شریف کا سبق مجھ سے متعلق ہوا تو بہت خوش ہوئے، بقرعید کے موقع سے دیوبند آکر خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آپ نے دارالعلوم دیوبند میں جلالین شریف زمانے تک پڑھائی ہے؛ اس لیے کچھ مفید مشورے عنایت فرمائیے؛ تاکہ میں بھی کامیاب مدرس ہوجاؤں، تو آپ نے حواشی جمل اور صاوی کے علاوہ چند عربی اور اکابر کی تفسیروں کے مطالعے کا مشورہ دیا، جس سے میرا فائدہ ہوا، مسلسل چھ سال جلالین پڑھانے کا موقع ملا اور کافی حد تک تفسیری کتابوں سے مناسبت ہوگئی، الحمدللہ علی ذلک۔

جنگ شاملی کے سلسلے میں خلجان اور اس کا جواب

            ”پی ایچ، ڈی“ کا مقالہ لکھ رہا تھا، ”تذکرة الرشید“ کا تجزیہ کرتے وقت ایک جگہ پھنس گیا، ”جنگ شاملی“ کے سلسلے میں حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ وہ ایک ”اتفاقی مڈبھیڑ“ تھی، باضابطہ جنگ نہیں تھی؛ حالاں کہ اس سے پہلے شاملی کی جنگ کو باضابطہ جنگ ہی سمجھتا تھا، اکابر بزرگوں سے دسیوں بار اس کی تفصیل سن چکا تھا، متعدد کتابوں میں اس کی تفصیل دیکھی تھی؛ مگر ”تذکرة الرشید“ کے اس مقام پر آکر تائید یا تردید کی مضبوط دلیل تلاش کررہا تھا؛ کہیں اس کا جواب تشفی بخش نہیں ملا، تو اپنے معمول کے مطابق تاریخی چیزوں کے لیے حضرت مولانا کے پاس پہنچا توانھوں نے فرمایا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت مولانا سیدمحمدمیاں رحمة اللہ علیہ نے ”علمائے ہند کا شاندار ماضی“ میں اس پر بحث کی ہے، اس کو دیکھو! اور میں بھی مطالعہ کرتا ہوں، کچھ ملے گا تو بتاؤں گا؛ چنانچہ حسبِ ارشاد کتاب دیکھی تو انھوں نے اس کو موضوع بناکر تفصیل سے اس موقف کی تردید کی تھی اور لکھا تھا کہ شاملی کی جنگ باضابطہ تھی؛ مگر ”تذکرة الرشید“ کی تصنیف کا زمانہ انگریزی حکومت کے تسلط اور دبدبہ کا تھا، حضرت مولانا عاشق الٰہی نے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے مجاملت سے کام لیا ہے اور بات کو کھول کر نہیں لکھی ہے؛ اس لیے کہ ان کو اس وقت انگریزوں سے اذیت پہنچ چکی تھی، ”چھاپہ خانہ“ مظالم کا شکار ہوچکا تھا، جب اس کو پڑھا تو طبیعت مطمئن ہوئی اور اسی کے حوالے سے اپنے مقالے میں اس کی تاویل درج کردی، پھر خدمت میں پہنچ کر شکریہ ادا کیا۔

تاریخ پر گہری نظر

            حضرت مولانا کو تاریخ پر گہری نظر تھی، بابری مسجد کی تاریخ اوراعظم گڑھ کے علماء کی تاریخ پر ضخیم کتاب تصنیف فرمائی تھی، متعدد بار حضرت الاستاذ مفتی سعیداحمد پالن پوری نے تاریخ کے سلسلے میں حضرت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا،اس سے شخصیت کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

زبان وبیان کی عمدگی

            حضرت مولانا کی زبان بڑی شستہ اور شگفتہ تھی، جملے نہایت ہی عمدہ، محاورات کی برجستگی، استعارات کی عمدگی، برمحل اشعار کی چاشنی سے مضمون بہت اونچا ہوجاتا تھا، اردو کی طرح فارسی کے اشعار سے بھی خوب استشہاد فرماتے تھے۔ پڑھنے والا اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

            حضرت مولانا اور حضرت مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوریؒ کے درمیان معاصرانہ چشمک خوب تھی، میراتعلق دونوں حضرات سے تھا، میں اپنے کام سے کام رکھتا تھا، کسی مجلس میں کسی کے خلاف زبان درازی نہیں کرتا۔ حضرت مفتی صاحب تو کسی موافق یا مخالف کے بارے میں مجلس میں کچھ بولتے ہی نہ تھے؛ لیکن ایک بار جب ”تعزیتی اجلاس“ کی کراہت اور عدم کراہت یابدعت اور عدم بدعت پر بحث چل پڑی توحضرت مفتی صاحبؒ نے فرمایا:

            دیکھو! مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا رسالہ چھپا ہے، ما شاء اللہ زبان وبیان بہت عمدہ ہے۔ برجستہ اشعار اورمحاورات کی عمدگی اورامثال و تشبیہات کی نفاست متاثرکن ہے، موضوع اور مواد سے متفق ہونا اور نہ ہونا الگ بات ہے؛ مگر موصوف کی زبان اتنی اچھی ہے کہ یہ شخص گالی بھی دے تواچھی لگے۔

ہرحساس موقع پر خامہ فرسائی

            ”مقالات حبیب“ اور ”ماہ نامہ دارالعلوم“ کا اداریہ پڑھنے والا ہر قاری اس بات کی گواہی دے گا کہ حضرت استاذ محترم ہر موقع پر حالات کے لحاظ سے عمدہ اداریہ اور مضمون ومقالہ تحریر فرماتے تھے، حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، عالمی مسائل پر بھی برجستہ کھل کر لکھنے کے عادی تھے۔

میرا تعلق

            میں حضرت سے تعلق رکھتاتھا، اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے، لکھنے پڑھنے کا ذوق پانے کے لیے؛ کیوں کہ دارالعلوم دیوبند میں چار پانچ اساتذہ کو دیکھتا تھا کہ ان کو کتاب کے علاوہ کسی کام سے دلچسپی نہیں ہے، ان میں حضرت سرفہرست تھے، حضرت مفتی صاحب، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب، مفتی محمد امین صاحب اور حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی ان سب سے متاثر رہا اور اپنی پیاس بجھانے کے لیے ان کے پاس جایا کرتا تھا؛ جب حضرت الاستاذ پالن پوری سے مولانا کا علمی اختلاف زوروں پر تھا تو اس وقت سیاسی نقطئہ نظر سے سوچنے والے طلبہ اوراساتذہ کو حیرت تھی کہ عجیب آدمی ہے، دونوں کے درمیان قدرے مشترک بنا ہوا ہے؛ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اختلافات سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی، دونوں حضرات سے اختلافی موضوع سے ہٹ کر ہی باتیں کرتا اور اپنے مقصد میں لگا رہتا اور طالب علم کو ہمیشہ طالب علم ہی رہنا چاہیے، دوسرے موضوعات سے دلچسپی نہیں رکھنی چاہیے۔

حیدرآباد جانے کی تیاری پھر سفر کا التوا

            دارالعلوم حیدرآباد کے ناظم ومعتمد جناب رحیم الدین انصاری مدظلہ کا فون آیاکہ سالانہ اجلاس اور ختم بخاری شریف کے لیے اکابر اساتذہ میں سے کسی شخصیت کو دعوت دو! میں حضرت کی خدمت میں پہنچا تو فرمایا: میں اکیلا نہیں جاؤں گا، اگر تم ساتھ رہوگے تو ہامی بھردو، میں نے کہا: ٹھیک ہے، میں خادمانہ حیثیت سے ساتھ رہوں گا؛ چنانچہ ٹکٹ بن گیا؛ مگر مارچ کے آخری عشرے میں کرونا وائرس (کوڈ۱۹) کی وجہ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگ گیا اور سفر ملتوی کرنا پڑا اور کیا پتہ دنیا کا سفر اسی لیے ملتوی ہورہا ہے کہ آخرت کے سفر کی تیاری ہے، اللہ تعالیٰ استاذ محترم کی بال بال مغفرت فرمائیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں اور ان کے نقش پر چلنے کی توفیق بخشیں!

آمین یا رب العالمین

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :8،    جلد:105‏،  ذی الحجہ  1442ھ محرم الحرام 1443ھ  مطابق   اگست 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts