استاذ محترم مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ

استاذ حدیث وسابق مدیرماہنامہ دارالعلوم دیوبند

از: مولانا محمداجمل قاسمی

استاذ تفسیروادب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

            آدم خورعالمی وبا کروناکی جنونی آندھیوں نے زندگی کے بے شمار چراغ گل کردیے،کوئی طبقہ نہیں جواس ہلاکت خیزطوفان کی زد سے بری طرح متاثر نہ ہواہو،باد سموم کی یہ تیزوتند لہریں دارالعلوم دیوبند کی طرف بھی بڑھیں،اوراس کی روح پروربہاروں کوخزاں میں تبدیل کیے بغیرنہ رہیں؛ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے چوٹی کی کئی محترم اورمعززہستیاں راہی ملک بقا ہوگئیں،یہ سب کچھ بہت تھوڑے وقفے میں بہت ہی غیر متوقع طورپر ہوا؛اس لیے ان اکابر کی رحلت سے علمی ودینی حلقوں پر رنج وغم کا جوپہاڑ ٹوٹا وہ ناقابل بیان ہے۔

            استاذمحترم حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی استاذادب عربی وچیف ایڈیٹر عربی ماہنامہ ”الداعی“ دارالعلوم دیوبند کی وفات کے صدمے سے طبیعت ابھی نکلنے بھی نہ پائی تھی کہ۳۰/رمضان ۱۴۴۲ھ کو استاذمحترم حضرت مولاناحبیب الرحمن اعظمی استاذ حدیث وسابق مدیر اعلی ماہنامہ داراالعلوم کی رحلت کا حادثہ بھی پیش آگیا، مت پوچھیے کہ دل پر کیاکچھ گذرگئی،بقول شاعر: ”حالتِ دل کہ تھی خراب اورخراب ہوگئی“: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، ان للّٰہ ما أخذ، ولہ ما أعطی، وکل شیء عندہ باجل مسمی۔

            دنیا رہ گزرہے، آدمی یہاں کا باسی نہیں ؛بلکہ مسافراور رہ نورد ہے،یہ ایک منزل ہے قافلے جہاں پڑاؤکرکے آگے بڑھ جاتے ہیں،نہ کوئی رہا ہے نہ رہے گا،بس اللہ سداقائم اورزندہ ہے اسی کا نام باقی رہے گا، ”کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام“

مولانا کے جس کمال نے سب سے پہلے متاثر کیا

            دارالعلوم دیوبند میں بہت سے اساتذئہ کرام سے پڑھنے اوراستفادہ کرنے کا موقع ملا، دل سب کا ممنون ہے اورسب کے لیے عقیدت واحترام کے جذبات رکھتاہے؛ مگر کچھ اساتذئہ کرام ایسے تھے کہ ان کے لیے عقیدت واحترام کے جذبات سواتھے، میرادل ان کی شخصیت اوران کے درس سے بے پناہ متاثرتھا،انھیں میں ایک محترم نام حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمة اللہ علیہ کا بھی ہے، شخصیات میں کمال کی جہتیں جداجدا ہوتی ہیں؛اس لیے قدرتی طورپر ان سے تاثر کی جہتیں بھی الگ الگ ہوجاتی ہیں،حضرت مولانا اعظمی یوں توگوناں گوں خصوصیات وکمالات کے مالک تھے؛ مگر سب سے پہلے ان کا جوکمال اس کوتاہ ذہن کے سامنے آیاوہ ان کا بلند پایہ تحقیقی مزاج، علمی رسوخ، نظر کی تہ داری،وسیع متنوع ہمہ گیر اورگہرامطالعہ تھا، مولانا کی شخصیت کے اس قابل قدر اورقابل تقلید پہلو نے مجھے پہلے دن سے متاثرکیااوررفتہ رفتہ یہ تاثر گہرا ہی ہوتاگیا۔

مولانا فنا فی العلم تھے

            مولانا فنا فی العلم،کتابوں کے عاشق اورمطالعہ کے رسیا تھے،صحت اچھی اورجسمانی قوی مضبوط تھے،طبیعتاً کم آمیز،اورعزلت پسندواقع ہویے تھے،جلسے جلوس سے کوئی مناسبت نہ تھی،ادھر بیوی بچے بھی ہمیشہ اعظم گڑھ وطن ہی میں رہے؛اس لیے ہرطرح کے گھریلوبکھیڑوں سے بھی آزاد تھے؛ لہٰذا اب وہ تھے، فراغت کے دن تھے،فرصت کی راتیں تھیں، کتابیں تھیں، مطالعہ تھا، قرطاس وقلم تھے اورصریرخامہ کی دل نوازنغمہ سرائی تھی،یکسوئی اوردلجمعی کے ساتھ اپنے محبوب مشغلے میں لگے رہتے، ایسے ہوتے ہیں علم کے متوالے، اورمطالعے کے تشنہ کام وشیدائی۔

مولانا کے مطالعہ کی اہم خصوصیات

            مولانا جس خوبوکے آدمی تھے،طلبہ عام طورپران کے پاس جانے سے گھبراتے تھے،پھر میرے جیسے لجیلے شرمیلے اورکسی اقدام سے پہلے دس بار سوچنے والے کے لیے کہاں ممکن تھا کہ حضرت مولانا سے قرب پیدا کرتا،غالباً دوایک بار ہی عصر بعدحاضری کی سعادت حاصل ہوسکی؛اس لیے آپ کے مطالعہ کے اوقات،طرزورفتاراورکیفیت کے بارے میں کچھ عرض کرنا ممکن نہیں ؛ البتہ ان کی تدریس وتحریرسے ان کے مطالعہ کی جوخصوصیات سامنے آئیں وہ پیش خدمت ہیں:

          (۱) وسعت اورتنوع: مولانا کامطالعہ متنوع اورہمہ گیرتھا،وہ درسیات کی تنگنائے محدود ہونے کے بجائے علم کے وسیع تر سمندرکی سیاحت اورغواصی کے خوگرتھے،تفسیر وحدیث وفقہ اوردیگر متداول اسلامی وعربی علوم، تاریخ اسلام،تاریخ فرق اسلامیہ، تاریخ ہند،،ہندستان میں عہد بعہد احیاء وعلم وفکر کی تحریکیں اوروابستہ شخصیات،دارالعلوم دیوبنداورجمعیة علماء کے قیام کا پس منظر، ان کے دستور،علماء دیوبند کا مسلک ومشرب، ان کی متنوع خدمات ․․․ یہ اوران جیسے دوسرے موضوعات ان کے مطالعہ کی جولان گاہ تھے؛ البتہ متون حدیث، رجال حدیث،اصول حدیث،فقہ الحدیث،خلافیات اورمنحرف افکاراورمکاتب فکرکے مطالعہ سے ان کوخاص شغف تھا۔آدمی کی تحریں اس کے مطالعہ کا عکس ہوتی ہیں،استاذمحترم حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی نے مولانا مرحوم کے مجموعہ مقالات ”مقالات حبیب“ پرتقریظ تحریرکرتے ہوئے یہ بات بالکل بجا لکھی ہے:

            ”حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی کی کتاب ”مقالات حبیب“ میں نے جستہ جستہ دیکھی، اسلامی موضوعات کے تنوع اورجامعیت کے تعلق سے گویا یہ ”دائرة المعارف“ اور”قاموس العلم“ ہے․․․“(مقالات حبیب ص:۱۶)

          (۲) گیرائی وتہ داری: مولانا کا مطالعہ سرسری اور رواروی والا نہ تھا؛ بلکہ اس میں گہرائی اورتہ داری ہوتی تھی،وہ جس مضمون کوپڑھتے تدبر کے ساتھ پڑھتے،پوری طرح جذب کرتے اورہر پہلوسے اس پر غوروفکرکرتے،جس کی وجہ سے مضمون پر ان کی گرفت بہت اچھی ہوتی تھی، اللہ نے ذوق مطالعہ کے ساتھ سلامتیِ عقل اورذکاوت فہم سے بھی نوازاتھا؛ چنانچہ وہ مطالعہ کی کسی گھاٹی کو جب سرکرتے توان کا دامنِ طلب انشراح اوراطمینانِ قلب سوغات سے مالامال ہوتاتھا،اِن ہی وجوہات کے سبب ان کے علمی موقف میں بڑی پختگی ہوتی تھی، تحریریں اوردرسی تقریریں پرمغز ہوتی تھیں،جن نازک اورمزلة الاقدام سمجھے جانے والے مسائل سے بڑے بڑے مدعیان علم وآگہی دامن بچاتے ہیں مولانا ایسے خارزاروں میں بے تکلف گھس جاتے اور اپنے قارئین کو فکر ونظر کی سلامتی کے ساتھ باہر لے آتے، یہ دعوی نرا دعوی ہی نہ رہ جائے،لیجیے مولانا کے نامورمعاصرمحقق عالم دین کی شہادت سنیے، استاذمحترم حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری مقالاتِ حبیب پر اپنی تقریظ میں لکھتے ہیں:

            ”چوتھے باب میں مسائل ودلائل ہیں․․․ یہ سب مسائل معرکة الآراء ہیں، ان میں بھانت بھانت کے نظریے پائے جاتے ہیں،مصنف زیدمجدہم اس خارداروادی سے فائزالمرام نکل گئے ہیں․․․ صاحب کتاب․․․․ سیال قلم کے مالک ہیں،جب لکھنے پر آتے ہیں تولکھتے ہی چلے جاتے ہیں،اورپُرمغزلکھتے ہیں،․․․ مولانا کا علم پختہ،ذہن استواراورمعلومات وافرہیں“ (مقالات حبیب ص:۱۴-۱۵)

            بہت سے اہل علم ذہین وفہیم ہوتے ہیں؛لیکن مطالعہ سے جی چراتے ہیں،ایسے لوگ اپنی گفتگو میں دلائل وشواہد پیش کرنے کے بجائے عقلی گھوڑے دوڑاتے ہیں اورتخمین وظن سے کام لیتے ہیں،اورکچھ لوگ مطالعہ کے خوگرہوتے ہیں؛ مگر ان کی فہم ناقص اورعقل خام ہوتی ہیں،ایسے لوگ بھانت بھانت کے نظریات اورشواہدودلائل پڑھ کر خود تذبذب کا شکارہوجاتے ہیں اورکسی مسئلے میں کوئی ٹھوس موقف اپنانے سے عاجزہوتے ہیں،مولانا ان دونوں کمزوریوں سے پاک تھے۔

          (۳) ائمہٴ فن اورامہات الکتب پر نظر: مولانا کے ذوقِ جستجو کا طائر بلندپروازدوسرے یاتیسرے درجے کے مراجع پر قانع ہونے کے بجائے ہرفن کے اولیں اوربنیادی مراجع پر کمندیں ڈالتا تھا اور متاخرین کی تحقیقات وترجیحات سے گذرکر براہ راست ائمہ فن کی تحقیقات اورعلمی آ راء سے مستفید ہوتاتھااوریہ وہ بنیادی شرط ہے جس کے بعد ہی کسی طالب کوفن پر عبور،علم میں رسوخ، اورنظر کی بلندی حاصل ہوتی ہے،اوروہ حقیقی معنی میں کسی تحقیقی کام کا اہل بنتاہے،مولاناکے دروس میں متاخرین اورثانوی درجے کے حوالے شاید وباید ہی آتے تھے،وہاں ذکر ہوتاتوتوائمہ فن کا، متقدمین اہل علم کا،اورعلوم وفنون کی امہات الکتب کا،تحریروں میں بھی یہ چیزآپ کوبکثرت دیکھنے کوملے گی۔

          (۴) کتاب کے بجائے فن کا مطالعہ: مولانا کے دروس سے صاف اندازہ ہوتاتھاکہ وہ زیرتدریس کتاب اوراس کے ضروری متعلقات پر اکتفا کرنے کے بجائے کتاب کے اصل موضوع اور فن کوپڑھنے پرتوجہ دیتے تھے، اصول حدیث کی معروف کتاب مقدمہ شیخ الحق اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی شرح نخبة الفکرکے سبق میں فن کی دیگر کتاب مقدمہ ابن صلاح وغیرہ کا ذکر بکثرت کرتے، یہاں کے اجمال کی توضیح اورتشنہ گوشوں کی تکمیل میں وہاں کی تفصیل سے کرتے، اصطلاحات کی تعیین وتحدید میں اہل فن کے اختلاف اورفرق کوواضح کرتے،جس کی وجہ سے سبق میں وہ تشفی حاصل ہوتی تھی جومحض حل کتاب سے کبھی حاصل نہ ہوسکتی تھی ۔

تفریح کا ایک اندازیہ بھی

            مولانا کا دائمی شغل پڑھنا اورلکھناتھا؛چنانچہ وہ جب کسی گہرے تحقیقی مطالعے سے تھک جاتے توسیروتفریح یا بستراستراحت پر دارز ہونے کے بجائے مطالعہ کا ذائقہ بدل دیتے،اورکوئی ہلکی پھلکی دلچسپ اورفرحت بخش چیزپڑھنا شروع کردیتے،مولانا یوں توطلبہ کے پرواگرموں میں کبھی دیکھے نہیں گئے؛مگرایک بار معروف شاعر ڈاکٹر کلیم عاجزتشریف لائے،توطلبہ نے ان کے استقبال میں پروگرام منعقد کیا، حضرت مولانا بھی مدعوکیے گئے،ذوق وشوق سے تشریف لائے اوردلچسپ خطاب کیا،کہنے لگے نوجوانی کے زمانے میں شبلی کالج اعظم گڑھ میں مشاعرہ تھا جس میں پہلی بار عاجز صاحب کوسننے کا موقع ملا،اس وقت یہ تندرست اورتوانا تھے،انھوں نے اپنی عمدہ غزلوں اور منفرد اورپرسوز ترتم سے مشاعرے کولوٹ لیا، لوگوں نے خوب دادتحسین بلند کی؛لیکن جولوگ عاجزصاحب کی شاعری،اس کے پس منظر سے واقف اورغزل کے پردے میں چھپے ہوئے ان کے درد سے واقف تھے ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔

            پھرفرمایا : ”مجھے شعروشاعری ذوق ہے،اشعار کا ایک ذخیرہ میرے حافظے میں محفوظ ہے، میں جب علمی کتابوں کامطالعہ کرتے کرتے تھک جاتاہوں،توپھر ذائقہ بدلنے کے لیے کسی شاعر کا دیوان اٹھالیتاہوں،جس سے مطالعہ کا مطالعہ بھی ہوتاہے اورتفریح کی تفریح“۔

            مولانا کی یہ بات میرے لیے نئی تھی،باعث حیرت ہونے کے ساتھ باعث دلچسپی بھی رہی، بعد میں جب کچھ کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا تومعلوم ہوا کہ اس طرح کی علمی تفریح متقدمین اہل علم کے معمول میں شامل رہی ہے؛چنانچہ علامہ ابن الجوزی نے بے وقوفوں اورسادہ لوحوں کے دلچسپ واقعات پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ”اخبار الحمقی والمغفلین“ اس کتاب کے سبب تالیف کے بیان میں علامہ موصوف نے تین باتیں تحریرکی ہیں، آخری وجہ بیان کرتے ہوئے جوبات لکھی ہے وہ درج ذیل ہے:

            ”والثالث: أن یُروِّح الإنسانُ قلبَہ بالنظر فی سِیَر ہؤلاء المخبوسین حظوظاً یومَ القسمةِ، فإن النفسَ قد تَمَلُّ من الدؤوب فی الجِدِّ، و تَرتَاح إلی بعضِ المباحِ من اللَّہوِ․․․ ومازال العلماء والأفاضل یُعْجِبُہم المُلَحُ، ویہُشُّون لہا، لأنہا تَجُمُّ النفسَ وتُریحُ القلبَ من کَدِّ الفکرِ“․(ص:۱۴)

            ”اس کتاب کے لکھنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ انسان جب ایسے لوگوں کے حالات پڑھتاہے جو قسمت بٹنے کے دن پیچھے رہ گئے تھے،توان کے (دلچسپ حالات و واقعات )سے اس کا دل بہلتاہے،آدمی کی طبیعت کسی ٹھوس اورسنجیدہ مشغلے میں لگے لگے اکتاجاتی ہے اورایسے میں مباح تفریح سے اسے خوشی ہوتی ہے،علماء وفضلاء کا مزاج رہا ہے کہ وہ لطیفوں اورچٹکلوں کوپسند کرتے رہے ہیں، لطیفوں کے نام پر ان کی طبیعت کھل اٹھتی ہے؛اس لیے کہ یہ لطیفے ذہن ودماغ کی تکان کے بعد طبیعت کے لیے تفریح کا سامان بن جاتے ہیں جس دل کوفرحت ہوتی ہے۔

            اس سے معلوم ہوتاہے کہ جب علمی مشاغل سے جی اکتانے لگے توشعروشاعری اور دل بہلانے والے مضامین کا مطالعہ علماء کے لیے سحرحلال ہوجاتاہے،اس طرح کے مطالعے سے تفریح کے علاوہ دوسرے بھی بہت سے فائدہ حاصل ہوتے ہیں،زبان وبیان میں عمدگی پیدا ہوتی ہے،زندگی کے حقائق سے آگہی ہوتی ہے،عبرت ونصیحت کے موتی ملتے ہیں اورتقریروتحریر میں برمحل دلچسپ قصے اورواقعات مضمون کی اثرآفرینی میں اضافہ کرتے ہیں؛ البتہ ہرچیزکی اپنی حدودہیں اورکوئی بھی چیزاپنے دائرے میں ہی اچھی ہوتی ہے۔

تفرد پسندی سے بیزار

            حضرت مولانا بحث وتحقیق کے شناورہونے کے باوجودمسئلہ میں اپنی رائے قائم کرنے سے بچتے تھے،اورتفرد پسندی کے ذوق سے توبالکل ہی بیزارتھے،کہتے تھے: ”مولوی صاحب! آدمی خواہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہوجائے اسے جمہورکے ساتھ ہی رہناچاہیے،جمہورکی رائے ہی صحیح اورراجح ہوتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تواسے جمہورکی تائید حاصل نہ ہوتی“ فرمایا: ”ابن الہمام بہت بڑے آدمی ہیں، بہت سے مسائل میں انھوں نے مذہب حنفی کے مشہورمفتی بہ قول سے اختلاف کیاہے؛ مگر ایسے جلیل القدر آدمی کے تفردات کے بارے میں بھی ان کے شاگرد علامہ قاسم بن قطلوبغانے کہاہے کہ ہمارے شیخ کی جوتحقیقات مذہب کے خلاف ہیں ان پر عمل نہیں کیا جائے گا(۱)، مولوی صاحب! جب ابن ہمام جیسے بلند پایہ محقق کے تفرادات ناقابل قبول ٹھہرے توہما شما کس شمار میں ہیں؛اس لیے تفرد اختیارکرنے سے بچنا چاہیے،اورجمہورکے موقف کی نصرت وتائید کرنی چاہیے“ ۔

            مولانا کا یہ ذوق اوران کی یہ بات مجھے بے حد پسند آئی،ہمارایہ دور بھی بڑاعجیب ہے، خود رائی اورخود پسندی لوگوں میں کوٹ کوٹ کربھر دی گئی ہے،آدمی کسی بھی موضوع پراردوکے اڑھائی تین رسالے پڑھنے کے بعد مسئلہ میں اپنی ایک الگ رائے دینا ضروری سمجھتاہے۔جواس کا اہل ہواسے اپنی رائے قائم کرنے میں مضائقہ نہیں؛مگر ہرکس وناکس کا دین وشریعت کے تئیں یہ رویہ جسارت بے جاہے:

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوئہ اہل نظر گئی

تحریری ملکہ اورتحریریں

            تحریر،تدریس اورتقریرعلم کی نشرواشاعت کے یہ بنیادی تین ذرائع ہیں،جہاں تک تحریرکا تعلق ہے تومولانا قلم کے بادشاہ تھے، الفاظ شستہ،اسلوب شگفتہ،تعبیرمیں ادبی چاشنی،طرزادا میں سلاست وروانی،جملے چھوٹے چھوٹے،پیراگراف باہم مربوط،عبارت ٹھوس اور پختہ اورتحریرحشووزوائد سے خالی۔ مولانانے ہرطرح کے دینی وعلمی اورتاریخی موضوع پر لکھاہے اورخوب لکھاہے، زمانے کے حالات پر نظر رکھتے اوروقت کے تقاضے کے مطابق خامہ فرسائی کرتے،مولانا کی ہرتحریرعلمی مواد، شواہد ودلائل اورمنطقی ترتیب کے اعتبارسے مکمل،نتائج کے اعتبار سے نہایت اطمینان بخش اور ادبی بانکپن کے اعتبار سے حسن بیان کاشاہ کارہوتی ہے،مولانا امینی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:

            ”اس ضخیم مجموعہٴ مقالات (مقالات حبیب )کودیکھ کراندازہ ہوا کہ وہ لعل وگہرکے انتخاب میں خاصا وقت صرف کرتے ہیں اورتحریرکی معنویت اوراس کے مواد اورعلمی مشمولات کی باطنی قیمت کے ساتھ ساتھ،اس کی ساختیات، لفظیات، تعبیرات، اورطریقہٴ ترسیل پر بھی زوردیتے ہیں“۔ (مقالات حبیب ص:۱۸)

            باطل نظریات کا تعاقب اورمنحرف افکار کا احتساب مولانا کی قلمی دلچسپی کا خاص موضوع تھا، ایسے موضوعات پر لکھتے ہوئے ان کے فکرکی جولانی،قلم کی روانی اوراسلوب کی شوخی وشگفتگی سواہوتی ہے، برموقع اشعاراورجابجا مہذب لطیف طنزسے وہ اپنے حریف کوایسی کامیاب شہ مات دیتے ہیں کہ قاری عش عش کراٹھتاہے۔

            اقتباس باعث طوالت ہے، تاہم مولانا کے تحقیقی مقالات کے تشفی بخش نتائج بحث کا ایک نمونہ ملاحظہ کرتے چلئے،مولانا نے صحابہ کے بارے میں ایک نامورمحقق کے غیر تحقیقی رویے کا طویل اورعمدہ احتساب کیاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیرمتوقع حادثہٴ وفات پر صحابہ میں خلافت کے مسئلے کو لے کر جوصورت حال پیدا ہوگئی تھی اورمختلف افرادکی طرف سے جومختلف آراء اوررویے سامنے آئے تھے اس کو لے کرمستشرقین اسلام اورپیغمبر اسلام کے تئیں صحابہٴ کرام کی وفاداری پر سوال کرتے رہے ہیں، محقق موصوف نے بھی یہی طرزاختیارکیاہے اوربعض صحابہ کی آراء کولے کران پر سنگین الزام عائد کیے ہیں،مولانانے اپنے تفصیلی مقالے میں محقق موصوف کے خیالات کابہترین احتساب کیاہے، اور آخرمیں صحابہ کے دفاع میں جوسطریں تحریریں کی ہیں وہ نہایت تشفی بخش اورآب زرسے لکھے جانے کے لائق ہیں،لکھتے ہیں:

            ”درحقیقت اس(انتخاب خلیفہ کے) موقع پر نہ کسی کے اندرخاندانی عصبیت کارفرماہے اورنہ کوئی کسی کوکسی کے خلاف اکسارہاہے؛ بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ حضرات صحابہ کے سامنے نبی کریم (…)کی وفات کے بعدایک ایسامسئلہ کھڑاہوگیا جس پر انھوں نے پہلے سے پورے طور پر غور وفکر نہیں کیا تھا؛اس لیے اوّل وہلہ میں استحقاق خلافت کے سلسلے میں ان کی رائیں مختلف ہوگئیں،قریش کی وہ شاخ جوعبدمناف سے تعلق رکھتی تھی اس کے دونوں بزرگ یعنی حضرت عباس  اورحضرت ابوسفیان کی رائے یہ تھی کہ چونکہ آنحضرت کا نسبی تعلق بنوہاشم سے ہے اوراس وقت بنوہاشم میں اپنے فضائل ومحاسن کے لحاظ سے حضرت علی  سب پر فوقیت رکھتے ہیں؛ اس لیے وہی خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں،جس کا اظہار ان دونوں نے حسب موقع حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردیا،اس کے برخلاف حضرات انصارکاایک طبقہ اپنی نصرت وتائید کے پیش نظر یہ سمجھ رہاتھا کہ مہاجرین کے مقابلہ میں خلافت کے زیادہ حقدار یہی ہیں اپنی اسی رائے کے تحت وہ سقیفہٴ بنی ساعدہ میں اکٹھاہوئے تھے؛ لیکن بعد میں حضرت صدیق اکبراورفاروق اعظم رضی اللہ عنہما کے بیانات سے دلائل منقح ہوکرسب کے سامنے آگئے توبغیرکسی ترددکے سب نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کوخلیفہٴ رسول تسلیم کرلیا اورمکمل بشاشت قلبی کے ساتھ خلیفہٴ وقت کی سمع وطاعت قبول کرلی“۔ (مقالات ص:۲۴۲)

            مولانا کی تحریروں میں مقالات حبیب کے تینوں مجموعے نہایت شاندار ہیں،ان مقالات کے مطالعہ سے علمی بصیرت پیدا ہوتی ہے،معرکة الآراء مسائل میں تشفی حاصل ہوتی ہے،اس مجموعے کے علاوہ مولاناکی مختلف موضوعات پر چھوٹی بڑی کتابیں ہیں جن کی تعداد تیس سے زائد ہے، چند کے نام یہ ہیں:تذکرہ علماء اعظم گڑھ،شجرہ طیبہ، اجودھیا کے اسلامی آثار، بابری مسجد حقائق اور افسانے، اسلام کانظام عبادت، اسلام میں تصور امارت، اسلام اور نفقہ مطلقہ، ہندوستان میں امارت شرعیہ کا نظام اور جمعیت علماء ہند کی جد وجہد، متحدہ قومیت علماء اسلام کی نظر میں، خلیفہ مہدی صحیح احادیث کی روشنی میں، طلاق ثلاثہ صحیح ماخذ کی روشنی میں، خواتین اسلام کی بہترین مسجد،امام کے پیچھے مقتدی کی قرات کا حکم،تحقیق مسئلہ رفع یدین، مسائل نماز،امام ابوحنیفہ کا علم حدیث مین مقام و مرتبہ، شرح مقدمہ شیخ عبدالحق دھلوی، شرح نخبة الفکر، شیوخ ابی داود فی السنن عربی میں، حرمت مصاہرت، کیا حدیث حجت نہیں، حدیث و سنت پر نقد ونظر وغیرہ، یہ کتاہیں اپنے اپنے موضوع پر وقیع اوراہم ہیں۔

مسندتدریس کی آبرو

            جہاں تک تعلق تدریس کا ہے تویہ کہناقطعاً مبالغہ نہ ہوگا کہ مولانامسندتدریس کی آبرو، اس میدان کے کامیاب شہسوار؛بلکہ بے تاج بادشاہ تھے، ہمیشہ تازہ مطالعہ کرکے پوری تیاری سے آتے،جم کر پڑھاتے اورسبق کا حق اداکردیتے،۱۴۲۲ھ مطابق ۲۰۰۱/میں سال ہفتم میں دارالعلوم میں داخلہ ہوا،ہفتم کی تین ترتیبیں تھیں، میری خواہش تھی کہ ہفتم اولیٰ یا ثانیہ میں نام آئے؛ مگر اس کے برخلاف ثالثہ میں آیا، کسی قدرمایوس ہوا؛ مگر جب مولانا کے اسباق شروع ہوئے تومجھے ثالثہ میں نام آنے سے بے پناہ خوشی ہوئی،یوں تواسباق میں حاضری کا اہتمام الحمد اللہ سبھی گھنٹوں میں تھا؛مگر بعض اساتذہ ایسے تھے جن کے سبق میں کبھی بھی غیرحاضری نہیں ہوئی،مولانا انھیں میں سے ایک تھے۔ مولانا درسگاہ میں تشریف لائے، پہلے کبھی دیدارنہ ہوا تھا،وجیہ شخصیت، دلآویز سراپا، با رعب وپُرجلال چہرہ، عالمانہ وقار،نشست وبرخاست میں رزانت و متانت، کپڑے نفیس اورعمدہ، بالوں میں سفیدی؛مگر جوانوں کی طرح تندرست وتوانا،آواز میں قدرے رعشہ،مگر لہجہ پُرزور۔مولانا کے سراپا کودیکھ کرہی دل ودماغ نے ایک خوش گوار تاثر قبول کیا،سبق شروع کرنے سے پہلے فرمانے لگے، درس گاہ میں آپ لوگ حاضری کا اہتمام کریں،سبق توجہ سے سنیں،میں دس پندرہ منٹ لیٹ آیا کروں گا، اس سے پہلے ہی آپ کولوگ اپنی اپنی جگہ لے لیں، طلبہ جب دلچسپی لیتے ہیں تومیری طبیعت خوب کھلتی ہے،اس سے آپ کولطف آئے گااوراگر میرا موڈ خراب کیاگیا توایک تومجھے غصہ بہت سخت آئے گااوردوسرے ایسی حالت میں چاہ کربھی اچھی طرح پڑھانہیں سکوں گا۔ الحمداللہ سال خیرسے گذرا اورایک بار کے علاوہ حضرت کبھی غصہ نہیں ہوئے۔

            اسباق شروع ہوئے توعلم وتحقیق کا دریا بہہ پڑا،نئے نئے نام کانوں سے ٹکراکرسماعت کومحظوظ کرنے لگے،ابن صلاح،ابن حجر،ابن حزم،ابن عبدالبر،ابن رحب،ابن ابی حاتم، ابن دقیق العید، مِزّی،ذہبی،قاضی عیاض،شُمُنِّی، تورپشتی،طیبی، بدرالدین عینی،ملاعلی قاری،اوراس کے طرح کے دسیوں بیسیوں نام روزآنہ ہی سبق میں آنے لگے،علامہ ابن عبدالبرکانام بڑے احترام سے لیتے، ابن حزم کی ظاہریت،لہجے کی سختی اورسیف لسانی کے باوجودان کے علم وذہانت کے قائل تھے،فن اصول حدیث میں ابن صلاح کے مداح تھے،رجال حدیث سے مولانا کوخاص شغف تھا؛اس لیے جمال الدین مِزی کی تہذیب الکمال کے تذکرے بکثرت آتے، حافظ ذہبی کے نہایت گرویدہ تھے، رجال حدیث سے ان کی غیر معمولی آگہی اوربصیرت سے متاثر تھے،ایک مرتبہ فرمانے لگے: رجال پر ذہبی کی نظربڑی عجیب وغریب ہے،ان کے شاگرد تاج الدین سبکی نے فرمایا: ”ایسا محسوس ہوتاہے کہ رجال حدیث ہمارے شیخ کے سامنے ایک میدان میں کھڑے ہیں،وہ ہرایک کواچھی طرح پہچانتے ہیں،اورایک نہایت باخبراورواقف کار کی طرح ایک ایک کے بارے میں بتاتے جاتے ہیں“(۲) حافظ ابن حجر عسقلانی اوران کے تصانیف کے حوالے شاید سب سے زیادہ آتے تھے،حافظ سے بھی والہانہ لگاؤتھا؛مگربعض دفعہ مسکرا کر ان پر تنقید بھی کرتے، ایک بارسبق میں فرمانے لگے: مولوی صاحب! حافظ بہت بڑے آدمی ہیں ؛مگر ان کی وجہ سے حنفیت کوبڑا نقصان پہنچاہے۔(۳)

            مقدمہ شیخ عبدالحق کتنی آسان کتاب،آدمی پڑھتا جائے سمجھتاجائے،بحث کا کوئی خاص پہلو نہیں نکلتا؛مگر مولانا توکتاب کے بجائے فن پڑھانے کے عادی تھے،وہ عمدہ بحثیں کرتے اورنفیس تحقیقات پیش کرتے کہ طبیعت جھوم اٹھتی،مقدمہ کے بعد شرح نخبة الفکرپڑھاتے وہاں بھی یہی انداز ہوتا، پھراس کے بعد مشکاة شروع سے کتاب الصلاة کے آخرتک پڑھاتے۔

            مشہورمعرکة الآراء مسائل زیادہ ترمشکاة کے اسی شروع و الے حصے میں،مولانا ایسے مسائل پر مفصل کلام فرماتے،فقہاء کے مذاہب بیان ہوتے،ان کے مستدلات پیش کیے جاتے اوران کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا،دلائل کے درمیان محاکمہ کیا تھا،احناف کے موقف کی گہرائی اورقوت کو ازروئے دلائل طشت ازبام کیاجاتا،خاص طورپرجن مسائل میں غیرمقلدین نے احناف کے خلاف محاذ کھول رکھے تھے،مولانا ایسے مسائل پر بہت ہی مفصل اورتحقیقی اورتشفی بخش کلام فرماتے،کئی بارگفتگواتنی لمبی اورطویل الذیل ہوگئی کہ طلبہ کے لیے ان کا سمیٹنا دشوار ہوگیا،قلم تھک گئے،ذہن ضبط سے عاجزآگئے،مولانا نے طلبہ کی حیرانی محسوس کی اوراضطراب کی وجہ دریافت کی،عرض کیا گیا،حضرت اتنی طویل گفتگوہم نہ لکھ سکتے ہیں اورنہ یاد کرسکتے ہیں،فرمایا:یہ تو مجھے بھی معلوم ہے،تم بس ضروری باتوں کولکھواوریاد کرو،میں اتنی لمبی گفتگواس لیے کرتاہوں تاکہ تمہیں اپنے مسلک پرخوب اطمینان ہوجائے، لوگوں کواپنے دلائل سے واقفیت نہیں ہوتی؛ اس لیے وہ غیرمقلدین کے یکطرفہ دلائل کوسن کربہت جلدی اپنے مذہب کے بارے میں غلط فہمی کا شکارہوجاتے ہیں۔مولانا کی اس وضاحت کے بعد ہماری پریشانی دورہوئی،اوردلچسپی مزید بڑھ گئی،مشکاة میں جب ہم معرکة الآراء مباحث سے گذرگئے تومولانانے پھر نہایت مختصرکلام کرنا شروع کردیااورکتاب مکمل کی۔اگلے سال دورئہ حدیث میں حضرت سے ابوداؤد جلدثانی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔

            مولانا بہت ٹھہرکربولتے تھے،قلم کی طرح زبان میں سلالت وروانی نہیں تھی؛مگر پڑھاتے بہت اچھاتھے؛اس لیے ان کی یہ کمزوی بھی گراں گذرنے کے بجائے بھلی لگتی ہے، بقول کسے ”وعَینُ الرِّضَا عَن کُلِّ عَیْبٍ کَلِیْلَةٌ“ (محبت کی آنکھ ہرعیب سے اندھی ہوتی ہے)وہ جب کسی چیز کو یاد کرنے کے لیے اپنے حافظے پرزورڈالتے توخاص ادا سے پیشانی کوکھجاتے اورفوراًہی وہ بات یادآجاتی۔

             تحریر وتدریس کا حال توبیان ہوچکا،جہاں تک تعلق ہے تقریروخطابت کا تومولانا اس میدان کے آدمی نہ تھے،خود بھی یہ بات کہاکرتے تھے،جب کبھی مجمعے سے خطاب کرتے توآوازمیں رعشہ اوربولنے میں روانی کے فقدان کے سبب گفتگومیں وہ رنگ پیدانہیں ہوپاتاتھاجوان کے قلم میں تھا، پھر بات بھی ایسے علمی اندازمیں کہتے جوعوام کی سطح سے بلند ہوجاتی۔

شخصیت کے کچھ اورپہلو

            مولانااپنی ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ شب بیدار،عبادت گذاراوراورادوظائف کے پابند تھے، نمازباجماعت کا اہتمام قابل رشک تھا،پہلے پہنچتے اورصف اول میں نمازاداکرتے،سفرمیں بھی حضرت کودیکھنے کا موقع ملا،ٹرین میں بھی تہجد ادا فرمائی۔عادات ومعمولات کے پختہ تھے،فجربعد دیرتک پیدل چلنے کا معمول ہمیشہ رہا،سریع الغضب تھے،جوکہنا ہوتابرملاکہہ دیتے۔

مہدسے لحدتک

            آپ کی پیدائش ضلع اعظم گڑھ کے معروف گاؤں جگدیش پورمیں ۱۹۴۲ء ہوئی،ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی،اس کے بعد دارالعلوم مئوناتھ بھنجن کا رخ کیا،پھرمزید تحصیل علم کے لیے دارالعلوم دیوبند گئے اور۱۹۶۲ئمیں فضیلت کی تکمیل کی،فراغت کے بعد مختلف مدارس میں پڑھایا، ان میں نمایاں ادارہ جامعہ اسلامیہ بنارس بھی ہے۔ ۱۹۸۰ئمیں موتمرفضلاء دیوبند کے زیراہتمام شائع ہونے والے رسالہ ”القاسم “کی ادارت کے لیے دیوبند تشریف لائے اور۱۹۸۲ئمیں دارالعلوم دیوبند میں تدریسی وتحریری خدمات سے وابستہ ہوگئے اورقریب چالیس سال تک علمی خدمات انجام دینے کے بعد۳۰/رمضان۱۴۴۲ھ مطابق۱۳/مئی۲۰۲۱ئکواللہ کوپیارے ہوگئے۔ آپ کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ کے علاوہ دوبیٹیاں اوردوبیٹے مولانا عبید الرحمن قاسمی اورجناب عبدالرحمن صاحب ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی خدمات کا انھیں بہترین صلہ عطا فرمائے،حسنات کوقبول کرے،سیئات کو درگذر فرمائے اوراپنی جواررحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔آمین!

حواشی:

(۱)       وقد أفاد العلامة القاسم فی فتاوہ أنہ لایعمل بأبحاث شیخہ ابن الہمام المخالفة للمذہب․ البحرالرائق، کتاب السیر، فصل الجزیة ص:۱۹۵․

(۲)       ومعرفتہ ہذہ الواسعة بعلم الجرح والتعدیل حدت بالتاج السبکی الذی انتقد شیخہ الذہبی فی مواضع عدة إلی القول بأنہ: کان شیخ الجرح والتعدیل، ورجل الرجال، وکأنما جمعت الأمة فی صعید واحد، ثم أخبریعبرعنہا إخبارمن حضرہا (مقدمة میزان الاعتدال ص:۶۶)․

(۳)      مولانانے حنفیت کے تعلق سے حافظ کے بارے میں جوبات کہی وہ بہت بڑی ہے؛اس لیے مولاناکی بات کی تائید میں علامہ کشمیری کے کچھ اقول نقل کردینا مناسب معلوم ہوتاہے، علامہ کشمیری نے فرمایا: حافظ ابن حجر نے رجال میں حنفیہ کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے، حتیٰ کہ امام طحاوی کے عیوب بھی نکالے ہیں، حالانکہ امام طحاوی جب تک مصر میں رہے، کوئی محدث نہیں پہنچتا تھا جو ان سے حدیث کی اجازت نہ لیتا ہو اور وہ حدیث کے مسلّم امام ہیں۔ امام طحاوی کا سوواں حصہ رکھنے والوں کی بھی حافظ نے تعریف کی ہے۔فرمایا:حافظ ابن حجر عسقلانی کا مستقل شیوہ ہے کہ وہ حنفیہ کے عیوب نکالتے ہیں اور مناقب چھپاتے ہیں اور شوافع کے ساتھ معاملہ برعکس کرتے ہیں۔ ایک دفعہ فرمایا:حافظ کی عادت ہے کہ جہاں رجال پر بحث کرتے ہیں کہیں حنفیہ کی منقبت نکلتی ہوتو وہاں سے کتراجاتے ہیں، دسیوں بیسیوں جگہ پر یہی دیکھا۔(ملفوظات محدث کشمیری ص۱۲۴-۱۲۵)

—————————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :8،    جلد:105‏،  ذی الحجہ  1442ھ محرم الحرام 1443ھ  مطابق   اگست 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts