از: مولانا سید فضیل احمد ناصری

            کل یعنی تیسویں رمضان۱۴۴۲ھ کو جو سانحہ پیش آیا، اس نے علمائے دیوبند کی صفوں میں صفِ ماتم بچھا دیا ہے۔ محدثِ جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب اچانک ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ وہ کیا تھے، کیا نہ تھے، ذیل کی سطروں میں یہی کچھ بیان کیا جا رہا ہے۔

            مولانا کا وطنی تعلق جگدیش پور سے تھا، یہ مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری کے وطن پھول پور سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہی گاؤں ہے جسے دارالعلوم دیوبند کے شیخِ ثانی حضرت مولانا عبدالحق اعظمی، مولانا افتخار صاحب اور مشہور مصنف و مجود قاری ابوالحسن اعظمی صاحب کا وطن ہونے کا شرف حاصل ہے۔

            مولانا کے والد کا نام حافظ انوارالحق تھا اور دادا کا اسمِ گرامی محمد تقی۱۳۶۲ھ مطابق۱۹۴۲ئمیں پیدا ہوئے۔ نانیہال کُکری پور تھا۔

            یہاں یہ عرض کر دینا مناسب ہے کہ مولانا کے والد صاحب کی دو شادیاں تھیں، پہلی سے دو لڑکے اور اتنی ہی لڑکیاں ہوئیں۔ حفیظ الرحمن مرحوم مولانا کے حقیقی بھائی تھے، جو صاحبِ اولاد ہو کر جوانی میں ہی چلے گئے۔ اہلیہ کی وفات ہوئی تو دوسرا نکاح کیا، اس سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔

تعلیم

            پانچ سال کے ہوئے تو مدرسہ امداد العلوم جگدیش پور کا رخ کیا۔ ناظرہ قرآن کریم کے بعد اردو اور فارسی کی کتابیں شروع فرمائیں، مکتبی تعلیم درجہ پنجم تک چلی۔ اب یہاں سے نکلے اور مدرسہ روضة العلوم جگدیش پور میں مزید فارسی کی کتابیں پڑھیں، وہیں حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری سے گلستاں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، پھر اپنے علاقے کی مشہور دینی درس گاہ بیت العلوم سرائے میر پہونچ گئے۔ وہاں سے نکلے تو دارالعلوم مئوناتھ بھنجن میں داخلہ لیا۔ ۱۳۸۲ھ میں دارالعلوم دیوبند پہونچے اور اپنے وقت کے عظیم اساتذہ سے دورئہ حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ سنِ فراغت ۱۹۶۴ئہے۔ بخاری شریف حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی سے پڑھی۔ دارالعلوم میں صرف ایک سال گزارا۔

تدریس

            فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ اشرف المدارس گھوسی ان کی پہلی جولان گاہ بنا۔ وہاں صدر المدرسین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مدرسہقاسم العلوم منگراواں میں بھی پڑھایا۔ کچھ دن جون پور کی مسجدِ قرآنیہ اٹالہ میں اپنی خدمات پیش کیں۔ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری سے وابستہ ہو کر تبلیغی مہم میں لگے۔ جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس بھی تشریف لے گئے اور مسندِ تدریس کو وقار و اعتبار بخشا۔ ۱۹۸۰ئمیں حضرت مولانا اسعد مدنی نے انھیں دیوبند طلب کر لیا اور عالمی موٴتمر فضلائے دارالعلوم دیوبند کا ناظم بنایا۔ اسی تنظیم سے رسالہ ”القاسم“ بھی نکلتا تھا، جس کی ادارت بھی انھیں کے سر تھی۔ یہ دارالعلوم دیوبند کے انتشار کا دور تھا۔ ۱۹۸۱ئمیں جب دارالعلوم کی نئی انتظامیہ کا عہد شروع ہوا تو وہ اس کے مدرسِ وسطیٰ منتخب کیے گئے۔ ۱۴۱۴ھ میں وسطیٰ سے علیا میں ترقی ہوئی۔ قیامِ دارالعلوم کے دوران نخبة الفکر، مقدمہ ابنِ صلاح، مشکوة شریف، ابوداؤد شریف اور مسلم شریف جیسی بلند پایہ کتابیں پڑھائیں۔ اخیر میں بخاری شریف کے چند پارے بھی ان سے متعلق کیے گئے؛ لیکن لاک ڈاؤن کے سبب نہ دارالعلوم جاری ہوا، نہ ان کے اسباقِ بخاری۔

تدریس کا انداز

            حضرت سے میں نے مشکوة اور ابوداؤد شریف پڑھی ہے۔ان کے دروس بڑے ہی پُر وقار اور پُر شکوہ ہوتے تھے۔ خوب تحقیق اور اہتمام سے پڑھاتے۔ ٹھہر ٹھہر کر حدیث کے ایک ایک جز پر بحث کرتے۔ حدیث کے درایتی پہلو کو اجاگر کرتے۔ سندوں پر خاص زور تھا۔ کس راوی کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ کھل کر تبصرہ کرتے۔ بحث و تحقیق کے دوران جب کسی فریق کا پہلو دلائل کی رو سے کمزور نکلتا تو خاص انداز سے مسکرا کر فرماتے:گئی بھینس پانی میں۔

            فنِ اسماء الرجال میں انھوں نے اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ یہی ان کی شناخت بن گئی۔ اوراسی لیے ان کے شاگرد ابنِ حجر ثانی کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔

رسالہ دارالعلوم کی ادارت

            مولانا صرف تدریس کے آدمی نہیں تھے۔ ان کی تحریر بھی بڑی پختہ اور مستحکم تھی۔ جچے تلے اور متین و متوازن الفاظ کا انتخاب کرتے۔ جملے بڑے شائستہ اور شان و شکوہ لیے ہوتے۔ کوئی بات کچی اور تحقیق سے عاری نہیں ہوتی تھی۔ اسی کمال نے انھیں ۱۴۰۵ھ میں رسالہ دارالعلوم کا مدیر بنایا اور کم و بیش ۳۵برسوں تک یہ رسالہ ان کی ادارت میں نکلتا رہا۔ اس سے پہلے رسالہ ”القاسم“ بھی نکال چکے تھے، جس کی تفصیل آپ اوپر پڑھ آئے ہیں۔

تصنیفات

            مولانا نے اپنے قلمی جوہر سے بڑے کام نکالے۔ بیش قیمت کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی مصنفات کی تعداد ۳۰سے متجاوز ہے۔ جن میں ”شجرہ طیبہ، مقالاتِ حبیب، تذکرہ علمائے اعظم گڑھ، شرح اردو مقدمہ شیخ عبدالحق، شیوخ ابی داؤد فی سننہ اور انتقاء کتاب الاخلاق“ بہت معروف ہیں۔

فنا فی المطالعہ

            حضرت مولانا نے فضل و کمال کی معراج یوں ہی نہیں سمیٹی؛ بلکہ اس کے پیچھے تگاپوئے دما دم اور جہدِ مسلسل کا عمل دخل رہا ہے۔ وہ کتابوں کے اس قدر شوقین تھے کہ ان سے باہر نکلنا ان کی قدرت میں نہیں رہا تھا۔ وہ صحیح معنوں میں فنا فی المطالعہ تھے۔ تدریس سے فارغ اوقات اسی شغل میں گزرتے۔ ان کا کوئی شناسا، کوئی عزیز یا شاگرد ایسی ریاست یا ملک سے آنے والا ہوتا اور ان سے رابطہ کرتا تو ان کی یہی فرمائش ہوتی کہ فلاں فلاں کتابیں لیتے آنا۔ سراج المحدثین حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی مدظلہ کے بعد دارالعلوم کی اگر کسی اور شخصیت کو کرمِ کتابی کہا جا سکتا تھا تو بلا شبہ مولانا ہی تھے۔ حالیہ لاک ڈاؤن میں مولانا شعبان میں ہی اپنے وطن آ گئے تھے۔ یہاں بھی اوراد و وظائف، شب بیداری، تہجد گزاری اور مطالعہ و حاصلِ مطالعہ لکھنے کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔

ان کے پوتے کا لطیفہ

            ایک بار عجیب لطیفہ پیش آ گیا۔ مولانا کا چھ سالہ پوتا محمد عفان دیوبند میں قرآنِ کریم حفظ کر رہا تھا اور قیام مولانا کے پاس ہی تھا۔ مولانا کی ہمہ وقت کتب بینی اور ورق گردانی سے حیران ہو کر کہنے لگا: دادا جان! آپ کا حافظہ ٹھیک نہیں ہے، چوبیس گھنٹے کتاب یاد کرتے ہیں اور یاد نہیں ہوتی۔ مجھے دیکھیے، فرفر یاد کر لیتا ہوں۔ پوتے کی بات پر مولانا بہت ہنسے اور دیر تک محظوظ ہوتے رہے۔

مولانا فخرالدین مراد آبادی سے محبت

            انھیں اپنے اساتذہ میں دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی سے بڑی محبت تھی۔ وہ جب بھی ان کا ذکرِ خیر کرتے، آنکھیں بھیگ جاتیں۔ استاذ کے تئیں ایسی جذباتیت اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔

اسفار سے گریز

            شوقِ علم و فنائیت فی المطالعہ نے انھیں پا بہ زنجیر کر دیا تھا۔ وہ اسفار کے قائل نہیں تھے۔ سفر کے نام سے ہی انھیں بڑی گھبراہٹ ہوتی۔ حج کے عنوان سے تین سفر ہوئے اور بس۔ بین الاقوامی اسفار بھی دو چار ہی ہوئے ہیں۔ چند سال قبل ازبکستان کا تاریخی دورہ بھی کیا تھا۔

            جلسے جلوس سے بھی انھیں بڑی وحشت تھی۔ فرماتے کہ میں اس مصرف کا آدمی نہیں ہوں۔ مجھے تقریر وقریر نہیں آتی۔ ہندوستان میں اگر کوئی ادارہ اپنے جلسے میں انھیں بلانے میں کامیاب ہوا ہے تو وہ صرف جامعہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر ہے۔ وہاں سے انھیں لگاؤ تھا؛ اس لیے تقریباً ہرسال اس کے جلسوں میں شرکت کرتے۔

جمعیة علمائے ہند سے تعلق

            مولانا یوں تو خالص درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے آدمی تھے؛ مگر جمعیة علمائے ہند سے بھی ایک عرصے تک مربوط رہے۔ وہ اس کی مجلسِ عاملہ کے رکن اور نہایت فعال ممبر تھے۔ نہایت صالح الفکر اور صائب الرائے تھے۔ جمعیة کی تجاویز اکثر وہی لکھتے تھے۔ حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے اپنے تعزیتی بیان میں لکھا ہے کہ:

            ”مولانا قاسمی ایک مدت سے جمعیة علمائے ہند کی مجلسِ عاملہ کے رکن رکین چلے آ رہے تھے۔ میٹنگ کی کار روائیوں میں پوری دلچسپی لیتے اور مضبوط و ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتے۔ مصلحت پسندی سے ان کی باتیں بہت دور ہوتی تھیں۔ میٹنگ کی اکثر و بیش تر تجاویز انھیں کی مرہونِ منت ہیں“۔

سی اے اے کے خلاف تاریخی تقریر

            ایک سال قبل حکومت نے وحشیانہ اور جابرانہ قانون بنام ”سی اے بی“ پاس کیا اور وہی ”سی اے بی“ آناً فاناً ”سی اے اے“ میں تبدیل ہوا، تو ملک بھر میں احتجاجات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ ایسا ہی ایک احتجاج دیوبند کی عیدگاہ میدان میں بھی ہوا۔ احتجاج میں جن علما کی تقریریں ہوئیں، ان میں مولانا بھی تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز جس ولولہ انگیز انداز میں کیا، لوگ عش عش کر اٹھے۔ خطبہ کے بعد انھوں نے یہ شعر پڑھا:

ترے ستم پہ زمانہ دہائی دیتا ہے

کبھی یہ شور تجھے بھی سنائی دیتا ہے؟

            پھر حکومت کو للکارتے ہوتے انھوں نے کہا:

            ”حکومت نے شہری ترمیمی ایکٹ کے نام سے جو سیاہ قانون صدر جمہوریہ کے دستخط سے پاس کیا ہے، وہ قانون نہیں ہے، ملک کے ساتھ دھوکہ ہے۔ عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔ دستورِ ہند کے ساتھ دھوکہ ہے۔ بین الاقوامی معاہدے کے ساتھ دھوکہ ہے۔ جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا، ہم اپنی تحریک جاری رکھیں گے“۔ مولانا کی اس تقریر سے مجمع اور بھی پر جوش ہو گیا۔

پہلی بار مواعظِ حسنہ کا سلسلہ

            جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مولانا تقریر و خطابت سے بڑے متوحش تھے؛ لیکن اس بار انھوں نے ازخود وعظ گوئی کا سلسلہ جاری کیا۔ اپنے گاؤں جگدیش پور کی مسجد میں رمضان کے پہلے جمعہ سے ہی جمعہ وار بیانات کرنے لگے۔ ان کے اس اقدام سے اہلِ وطن بڑے مسرور تھے کہ دیر آید درست آید۔ علم کے موتی سے دامن بھرنے کا موقع تو ملا!!

سیر و تفریح

            مولانا کو اپنے ایمان اور علم کی طرح اپنی صحت کا بھی بڑا خیال تھا۔ وہ بلا ناغہ نسیمِ سحر سے ہم بغل ہونے کے عادی تھے۔ میں نے خود کئی بار انھیں صبح گاہی سیر و تفریح میں مصروفِ خرام دیکھا ہے۔ عصا بدست اور خمیدہ نگاہ اپنی منزل کی طرف سبک گام۔

مرض الموت

            صحت کا اس درجہ خیال انھیں ہمیشہ صحت مند رکھتا۔ وہ اپنی عمر کی آٹھویں دہائی کی تکمیل میں تھے؛ مگر اپنے جسم و جثہ اور صحت و توانائی سے اس عمر کے نہیں لگتے تھے۔ مولانا جب بیمار پڑے تو پھر اٹھ ہی نہ سکے۔ مرض کھانسی، بخار سے شروع ہوا اور سانس پھولنے تک پہونچا۔ پھول پور کا ہسپتال ان کی مکمل دیکھ ریکھ کر رہا تھا۔ طبیعت نشیب و فراز سے گزر رہی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہسپتال سے چھٹی مل جائے گی، لیکن کل یعنی تیسویں رمضان کی فجر کے بعد طبیعت بگڑی اور بگڑتی چلی گئی۔ اس مسلسل گرتی صحت سے انھیں اندازہ ہو گیا کہ اب بچنا مشکل ہے۔ اپنے فرزند کو بلایا۔ مالی معاملات سمجھائے۔ کتابوں کے سلسلے میں وصیت کی کہ تمہیں اس کا اختیار ہے، دارالعلوم کو ہدیہ دو یا کسی اور ادارے کو۔

میں اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟

            وصیت کے بعد بار بار جو جملہ ان کی زبان سے نکلتا تھا کہ:میری اتنی نمازیں چھوٹ گئیں۔ اتنے روزے رہ گئے۔ میں اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟

            باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک ان پر ہارٹ اٹیک ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ سنبھل گئے اور تسبیح و تہلیل میں لگ گئے۔ پھر چند ہی ساعتوں میں یہ جا، وہ جا۔

            وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کسی کو یقین ہی نہیں آیا۔ نمازِ جنازہ عشاء کے بعد انھیں کے کھیت میں ادا کی گئی۔ نمازیوں کی تعداد لاک ڈاؤن کے باوجود قابلِ رشک تھی۔ امامت کی سعادت پوتے کے حصے میں آئی۔ پھر معاً بعد ہی علم و عمل، بحث و تحقیق، درایت و روایت، حدیث اور علمِ حدیث، نیز اسماء الرجال کا ایک گنجِ گراں مایہ اسی زمین میں دفن کر دیا گیا، جہاں کی خاک نے اسے اچھالا تھا۔

خدا رحمت کند

            پس ماندگان میں اہلیہ سمیت دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ایک فرزند کا نام مولانا عبیدالرحمن قاسمی ہے اور دوسرے کا نام عبدالرحمن۔ یہ سعودی میں رہتے ہیں۔ نامور والد کی وفات کے بعد اب انھیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا، جب کہ مجھ جیسے تلامذہ بھی مرغِ بسمل بنے ہوئے ہیں:

آ عندلیب ! مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل

————————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :8،  جلد:105‏،  ذی الحجہ  1442ھ محرم الحرام 1443ھ  مطابق  اگست 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts