حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            ماہ نامہ دارالعلوم کے گزشتہ شمارہ (اپریل، مئی۲۰۲۱ء) کی اشاعت کے بعد، جس تسلسل کے ساتھ دارالعلوم دیوبند اور ملت اسلامیہ کی قیمتی شخصیات رخصت ہوئیں، اُس نے ذہن ودماغ کو ہلاکر رکھ دیا اوراہل علم ونظر، تقدیر الٰہی کی اس کارفرمائی پر راضی برضا رہنے کے باوجود فکرمند ہوگئے کہ اتنی کثرت سے باکمال اساتذہ وعلماء کا رخصت ہونا، معلوم نہیں مشیت الٰہی کے کس منشا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

            اس عرصہ میں دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلماء اور دیگر دینی اداروں کے اہم اساتذہ وذمہ داران کے علاوہ دین وملت کے مختلف میدانوں میں کام کرنے والے حضرات، نیز پڑوس کے دونوں ملکوں پاکستان اور بنگلہ دیش کے بھی نہایت اہم اور موقر علماء کرام رخصت ہوئے، ان سب حضرات کا حق ہے کہ ہم ان کا ذکرخیر کریں؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ صرف ناموں کا ذکر بھی کئی صفحات کا متقاضی ہے اس لیے فی الحال صرف متعلقین دارالعلوم کے تذکرہ پراکتفاء کرتے ہیں اور تمام رخصت ہونے والے حضرات کے لیے دعاء کرتے ہیں اللہ رب العزت اُن سب کو اپنے قرب خاص سے نوازے اور ملت اور اداروں کو اُن کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین!

            دارالعلوم دیوبند میں رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ اوراس کے قریبی زمانے میں بعض دفتری کارکنان اور شعبہ فارسی کے جواں سال استاذ مولانا محمد قاسم میرٹھی رحمہ اللہ کے علاوہ تین ایسے حضرات کی وفات کے حوادث پیش آئے جن سے دارالعلوم دیوبند اور تمام علمی حلقے متاثر ہوئے، سب سے پہلے حضرت مولانا نورعالم خلیل الامینی نور اللہ مرقدہ، پھر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی نور اللہ مرقدہ اور پھر حضرت مولانا قاری محمدعثمان منصور پوری نوراللہ مرقدہ، یہ تینوں حضرات دارالعلوم دیوبند کے نہایت موقر اور کبار اساتذہ میں سے تھے، جن سے محرومی کا غم ہرطبقے اور ہر فرد نے محسوس کیا۔

            ان حضرات کا حق تھا کہ ماہ نامہ دارالعلوم کے صفحات پر اُن کا تفصیلی ذکرخیرآئے؛ چنانچہ مضامین جمع کرنے کا کام شروع ہوا، مضامین ملنے میں تاخیر کی وجہ سے یہ سوچا گیا کہ تمام حضرات پر کئی ماہ کا مشترکہ شمارہ شائع کیا جائے؛ چنانچہ اسی انداز پر تیاری شروع کردی گئی۔

            ابھی یہ کام جاری ہی تھا کہ ۱۹/ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۰/جولائی ۲۰۲۱ء کو حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی رحمہ اللہ کی وفات کا حادثہ پیش آگیا۔ اب یہ خیال ہوا کہ چاروں شخصیات سے متعلق مضامین پر مشتمل پانچ ماہ کاشمارہ شائع کیا جائے؛ لیکن محکمہ ڈاک سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس میں مصارف ڈاک کئی گنا زیادہ ہوجائیں گے، اس لیے اُس ترتیب کو بدلنا پڑا۔

            اب ترتیب اس طرح ہے کہ ماہ جون وجولائی کا شمارہ حضرت مولانا نورعالم صاحب رحمہ اللہ سے متعلق مضامین پر مشتمل ہے، اس کے بعداگست کا شمارہ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ سے متعلق ہے، پھر ماہ ستمبرکا شمارہ حضرت مولانا قاری محمدعثمان منصور پوری رحمہ اللہ سے منسوب ہے اور ماہ اکتوبر کا شمارہ حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی رحمہ اللہ سے متعلق مضامین پر مشتمل ہے؛ البتہ اُس میں چند مضامین دیگر تینوں حضرات سے متعلق بھی ہیں جو گنجائش نہ رہنے کی وجہ سے ان حضرات کے خصوصی شماروں میں شامل نہیں ہوسکے۔

            ان شخصیات سے متعلق بعض مضامین اب بھی باقی رہ گئے ہیں جو آئندہ اشاعتوں میں حسب سہولت شائع کیے جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

حضرت مولانا نورعالم خلیل الامینی

            زیرنظرشمارہ، حضرت مولانا نورعالم خلیل الامینی نور اللہ مرقدہ سے متعلق ہے اور مضامین کی کثرت کی وجہ سے راقم سطور حضرت کے بارے میں اپنے تفصیلی تاثرات پیش کرنے کی گنجائش نہیں پارہا ہے، ان شاء اللہ جلد ہی اس کی تلافی کی کوشش کرے گا۔

            سردست چند جملوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں اگر صرف اپنی انتھک محنت سے عظمت ورفعت کی بلندیوں پرپہنچنے کا کوئی نمونہ دیکھنا ہو تو حضرت مولانا کی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہے۔ وہ ساری زندگی جس طرح شمع علم وادب پر متاعِ جاں لُٹاتے رہے اور عربیت کے فن پاروں کی تیاری کے لیے اپنے جسم ناتواں کو گھُلاتے رہے، اس کی دوسری کوئی مثال کم ازکم ہمارے علم میں تو موجودہ وقت میں نہیں ہے۔ مجلہ ”الداعی“ اُن کے قلم کی ضیاباریوں سے جس طرح چمکتا رہا اور عالمی سطح پر اپنی پہچان بناتا رہا وہ دنیا کے سامنے ہے، انھوں نے اردو اور عربی میں جو تحریری سرمایہ عطا کیا وہ اُن کے لیے پسِ مرگ زندہ رہنے کی ضمانت وبشارت ہے، اپنے اسباق کے ذریعہ انھوں نے اپنے شاگردوں کے دلوں میں (جن میں یہ طالب علم بھی شامل ہے) علم وادب کی جُوت جس طرح جگائی اس کا اندازہ آنے والے مضامین سے آپ لگاسکتے ہیں، وہ دارالعلوم دیوبند کے عاشق زار تھے، دیوبند اور اکابر دیوبند کا تذکرہ آنے پر وہ جس طرح ”بلبل ہزار داستان“ کا نمونہ بن جاتے اُس کا نمونہ مشکل سے ملے گا۔

            راقم اپنے گریہ کناں قلم کو مجبوراً یہیں روکتا ہے، کوشش ہوگی کہ اس اجمال کی کچھ تفصیل اپنے مشاہدات کی روشنی میں آئندہ پیش کردی جائے۔

——————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :6-7،    جلد:105‏،  شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق   جون-جولائی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts