از:حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم
۲۰/رمضان المبارک کی صبح صادق اپنے ساتھ ایک انتہائی الم ناک خبر لے کر آئی، یعنی دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ، صاحب طرز ادیب، عربی زبان کے منفرد انداز بیان کے مالک، الداعی کے ایڈیٹر اور عربی ادب کے استاذ جناب مولانا نورعالم خلیل امینی ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے، دارالعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ، طلبہ، متعلقین، محبین، فضلاء اور خاص طور سے مولانا مرحوم کے تلامذہ اوراہل خانہ ومتعلقین سخت صدمہ اورالم کا شکار ہیں، گذشتہ سال ۲۵/رمضان المبارک کو دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین وشیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری ممبئی میں وفات پاکر دنیا سے رخصت ہوگئے، ابھی ایک سال مکمل نہیں ہوا تھاکہ دارالعلوم کے لیے یہ دوسرا عظیم حادثہ پیش آگیا۔
مختصر تعارف
مولانا نورعالم صاحب کے سلسلہ میں کسی تعارف کی ضرورت نہیں، وہ اپنی خصوصیات، اپنی صلاحیت اور اپنی خدمات کے اعتبار سے ایک معروف ومتعارف شخصیت کے مالک تھے۔
دارالعلوم دیوبند میں میرا تعلیم کا آخری سال تھا، ۱۳۸۷، ۱۳۸۸ھ میرا دارالافتاء کا سال تھا، اس سال استاذ محترم حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کے یہاں صف ابتدائی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جن طلبہ کی درخواستیں موصول ہوئیں ان کی تعداد اسّی تھی، حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب نور اللہ مرقدہ نے ذمہ داران کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد یہ ترتیب بنائی کہ صف ابتدائی کے طلبہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، چالیس چالیس طلباء کی دو جماعتیں بنادی جائیں، ایک جماعت کو حضرت مولانا خود پڑھائیں گے اور ایک کو حضرت کے تلامذہ میں سے کوئی ایک حضرت کی نگرانی میں پڑھائے گا۔
یہ سعادت اس ناکارہ کے حصہ میں آئی، حقیقی استاذ تو حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب نوراللہ مرقدہ تھے، ان کی نگرانی اور ان کی ہدایت کے مطابق انھیں کے انداز پر ایک سبق اس بندہ کے حوالہ ہوا اور چالیس طلبہ اس کے اندر شریک ہوئے، ان چالیس طلبہ میں مولانا نورعالم صاحب خلیل امینی بھی شامل تھے، جو نورعالم مظفرپوری کے نام سے داخل ہوئے تھے، مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ وہ ان کا عربی کا کون سا سال تھا۔
چوں کہ وہ میرا تعلیم کا آخری سال تھا، اس لیے مجھے ان کی آگے کی تعلیم کے مراحل کا بالمشافہ علم نہیں؛ لیکن اس ایک سال کے عرصہ میں ان کی دلچسپی، شوق، لگن اور صلاحیت کا جواندازہ ہوا اس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ آگے چل کر یہ نمایاں شخصیت بن کر ابھریں گے۔
مولانا اور ان کے رفقاء درس کا نمایاں مقام
صاف ستھرا انداز تحریر، عمدہ نستعلیق، انداز گفتگو اور بہت جلد اخذ اور نقل کی صلاحیت تھی، اس سال جو طلبہ اس جماعت میں شامل تھے ان میں مولانا نوراعلم صاحب خلیل امینی کے علاوہ مولانا نثار احمد بستوی جو چند مہینے پہلے دارالعلوم بستی کے اندر شیخ الحدیث وصدرمدرس تھے اورانتقال کرگئے، مولانا عبدالرحمن صاحب بلندشہری (سابق استاذ جامعہ طبیہ دارالعلوم دیوبند) مولانا نیاز احمد فاروقی دفتر جمعیت علماء ہند، یہ سارے اس جماعت کے طلبہ تھے جو سب ہی آگے چل کر ماشاء اللہ کسی نہ کسی اعتبار سے نمایاں ہوئے۔
اور اب ادھر دارالعلوم دیوبند میں میرے مستقل قیام کے بعد سے اساتذئہ کرام کے ساتھ اور خاص طور سے درجہ علیا کے اساتذہ کے ساتھ بار بار مشاورت کی نوبت آتی تھی، اس میں مولانا نورعالم صاحب بھی شریک ہوتے تھے، ان کی اصابت رائے اور تدبر اور دوراندیشی سے میں بہرحال متاثر تھا۔
مولانا کی خصوصیات
مولانا کی چند خصوصیات جن کو تمام اہل تعلق نمایاں طور پر محسوس کرتے ہیں ان میں سب سے بڑھ کر عربی زبان وادب کے ساتھ ان کی وابستگی اور اپنا منفرد انداز تحریر ہے جو ان کی ادارتی تحریر میں بھی نمایاں ہوتا تھا اور مستقل جو ان کی تصانیف ہیں یا اکابر کی سوانح عمری اوران کے مضامین کے عربی تراجم، اُن کے اندر ان کا انداز نمایاں ہوتا تھا، خاص طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی مضمون کو منتقل کرنے میں اگر یہ محسوس ہوکہ یہ ترجمہ ہے تو یہ ترجمہ کے عمل میں ایک طرح کا نقص سمجھا جاتا ہے، مولانا نے کئی اہم کتابوں کا بھی اور مضامین کا بھی ترجمہ کیا؛ لیکن وہ سارے تراجم ایسے انداز سے لکھے گئے محسوس نہیں ہوتاتھا کہ یہ اردو زبان سے عربی زبان کے اندر منتقل کی ہوئی تحریر ہے؛ بلکہ ارتجالاً جس طرح کی تحریر ہوتی ہے اس طرح کی تحریر محسوس ہوتی تھی۔
خاص طور پر الداعی میں مولانا نورعالم صاحب کا اداریہ اور اس کا آخری صفحہ اشراقہ عربی زبان وادب سے دلچسپی رکھنے والے ملکی اور غیرملکی قارئین کے اندر بڑے ذوق وشوق کے ساتھ پڑھا جاتا تھا۔
عربی اور اردو ادب کے اندر مہارت
مولانا آج ہمارے درمیان نہیں رہے، ان کی تحریریں، ان کی تصانیف بہرحال ان کی یاد دلاتی رہیں گی، یہ تو ان کی عربی زبان وادب سے وابستگی کا تذکرہ ہوا، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص دو زبان میں یکساں قادرالکلام ہو، تقریر و تحریر کا اس کو ملکہ حاصل ہو، مولانا کی عربی ادب میں جو خدمات ہیں، ان کا جو مقام ومرتبہ ہے وہ تو معروف ہے ہی، اس کے ساتھ اردو زبان کے بھی وہ اچھے خاصے ادیب تھے اور ادب کی تمام نزاکتوں سے واقف تھے، اسلوب تحریر، رموز املاء، جملوں کی ترتیب، کسی مضمون کو مرتب کرنے سے پہلے اس کی تیاری اور پھر اپنی معلومات کو سلیقہ سے مرتب کرنا، یہ ساری کی ساری چیزیں ان کے پیش نظر رہتی تھیں۔
دارالعلوم دیوبند میں قائم شعبہٴ تحقیق و تالیف اوراس سے وابستہ اساتذہ اور سرپرستوں کی چند مہینہ پہلے دارالعلوم کے مہمان خانہ میں ایک میٹنگ ہوئی، جس کا مقصد یہ تھا کہ کام سے لگنے والوں کے درمیان کچھ مذاکرہ ہوجائے، اس موقع پر مولانا نورعالم صاحب نے حضرت مولانا مفتی محمدامین صاحب پالن پوری کی گفتگو کی تکمیل کرتے ہوئے مضمون نگاری سے متعلق مطالعہ، یادداشت کو محفوظ رکھنا، پھر اس کو مرتب کرنا ان امور سے متعلق بہت بہترین ہدایتیں پیش فرمائیں۔
وقار وتمکنت
مولانا نورعالم صاحب کی خصوصیات میں ان کا وقار وتمکنت بہت ہی ضرب المثل قسم کا تھا، مولانا کو میں نے تقریباً دس سال کے عرصہ میں کبھی مکمل لباس کے بغیر نہیں دیکھا، شیروانی، چھڑی اور اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ مجلس میں ہمیشہ تشریف لاتے اور میں نے ان میں جو ایک بات محسوس کی وہ یہ کہ دارالاہتمام میں کسی مشورہ کے لیے جو وقت متعین کیا جاتا تھا بالکل وقت کی پابندی کے ساتھ تشریف لانے والوں میں مولانا نورعالم صاحب اور مولانا نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں، صرف ایک بار جب مولانا مجیب اللہ صاحب گونڈوی دامت برکاتہم کے صاحبزادے کا ناگپور میں انتقال ہوگیا اوران کی نعش وہاں سے لائی جارہی تھی، اساتذئہ دارالعلوم مولانا مجیب اللہ صاحب کے مکان افریقی منزل قدیم میں اکٹھا تھے، مولانا نورعالم صاحب کا مکان چوں کہ مولانا مجیب اللہ صاحب کے مکان سے بالکل ملا ہوا ہے، اس وقت وہ صرف کرتا پائجامہ اور ٹوپی کے ساتھ کمرہ میں تشریف لائے، وہ ایک تعزیت اور غم کی مجلس تھی، مجھے یاد نہیں ہے کہ اس کے علاوہ میں نے گرمی، سردی، برسات، سفر، حضر میں کبھی بھی ان کے اپنے مخصوص لباس کے بغیر ان کو دیکھا ہو، یہ ان کی وضع داری کی بات ہے۔
گفتگو کا سلیقہ
گفتگو میں ایک سلیقہ تھا، ٹھہرٹھہر کر بولتے تھے، سوچ سمجھ کر بات کرتے تھے، بلاضرورت گفتگو سے پرہیز کرتے تھے، اپنے تلامذہ کو انھوں نے جس انداز سے تیار کیا اور ماشاء اللہ ان میں اچھی خاصی تعداد ان فضلاء کی تیار ہوچکی ہے کہ جو عربی زبان وادب کے اندر مہارت رکھتے ہیں، اگرچہ استاذ کا مقام بہرحال استاذ کا ہوتا ہے اور جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ صاحب خصوصیات کے ساتھ رخصت ہوجاتی ہیں؛ لیکن جس طرح حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنے پیچھے اپنے تلامذہ کی ایک جماعت چھوڑی تھی، جن میں خود مولانا نورعالم صاحب خلیل امینی بھی شامل تھے، اسی طرح مولانا نورعالم صاحب نے بھی اپنے پیچھے اپنے تلامذہ کی ایک جماعت چھوڑی ہے، جو مختلف اداروں میں اور مدارس میں خدمات انجام دے رہے ہیں، تقریر و تحریر دونوں میدانوں میں کام کررہے ہیں۔
باقیات صالحات
مولانا نورعالم صاحب کی عربی تحریروں کے علاوہ ان کی اردو تصانیف بھی بعض بہت اہم عنوانات پر مشتمل ہیں، قضیہ فلسطین ہے، اسی طرح اردو مضمون نویسی اوررموز املاء پر ان کی کتابیں ہیں، عربی کے تمام خطوط کی تعلیم کے لیے جو کتاب مرتب کی ہے جس میں خط نستعلیق، خط رقعہ، خط دیوانی وغیرہ کے تمام نمونے دیے ہیں یہ سب ان کے باقیات صالحات ہیں جو ان کے بعد ان کی یاد کو باقی رکھیں گے اور ان شاء اللہ ان کے لیے صدقہٴ جاریہ بنیں گے۔
اللہ تعالیٰ دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، ان کے تمام اہل خانہ، پسماندگان، اہل خاندان، اہل تعلق، تلامذہ کو صبرجمیل عطا فرمائے، دنیا میں ہرشخص جانے کے لیے ہی آیا ہے؛ مگر کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن کے حادثہٴ وفات کو مدت تک بھلایا نہیں جاسکتا، اللہ تعالیٰ دارالعلوم دیوبند کی بھی حفاظت فرمائے!
————————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :6-7، جلد:105، شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق جون-جولائی 2021ء
٭ ٭ ٭