نورِ درخشاں

مفکر ِعصر، ادیب ِزماں، استاذ ِ دوراں، اتالیقِ وقت، عندلیب ِدارالعلوم

حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ الله

استاذ ادب ِ عربی ورئیس تحریر ”الداعی“ دارالعلوم دیوبند

۱۳۷۲ھ ۱۹۵۲-۱۴۴۲ھ ۲۰۲۱ء

ذوقِ خامہ: مولانا محمد فہیم الدین بجنوری

خادمِ تدریس دارالعلوم دیوبند

سدارکھتا ہوں شوق اس کے سخن کا

ہمیشہ تشنہٴ آبِ بقا ہوں

(ولی)

            استاذِ گرامی، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ، تکمیل ادب میں، فقط ایک گھنٹہ روبہ رو ہوتے تھے؛ لیکن ذہنوں میں چوبیس گھنٹے رہتے تھے، ساعتِ ششم کا تصور اعصاب پر صبح سے حاوی ہوجاتا تھا، طبیعت میں سحرکاری وجادو گری جو تھی ! آپ عہد ِثانی کی ان چنیدہ اور کلیدی شخصیات میں ہیں، جنھوں نے دارالعلوم کی فضاوٴں کواپنا رنگ وآہنگ دیا ، جن کے طبع زاد اوراق نے، یہاں کے عندلیبوں، گلوں اور لالہ ہائے گل زار کو، نئے زاویے سے فیض یاب کیا، وہ مدرس نہیں نقاش تھے، اسیرانِ نو، دل کے ہارنے کا خوش گوار تجربہ، روز ِاول کرتے تھے، اولین صحبت میں قلوب کی جو تختیاں، ان کے اختیار میں آتی تھیں، ان پر تصرف میں وہ سال بھر، ہر طرح آزاد ہوتے تھے۔

             آپ کے تیار کردہ جام وسبو اور شیشہ وساغر کا ذکر نہ چھیڑ اے ہم نشیں! اُس بزم میں،زبان وسخن کی داستان تھی اور اس کی نت نئی انگڑائیاں بھی، ادب تھااور اس کی نزاکتیں بھی، فکر وشعور کے جلوے تھے اور تخلیق وفن کی رعنائیاں بھی، علم وآگہی کے حسین نظارے تھے اورطلب وجستجو کے ذوق کی ضمانتیں بھی، عشق ِاکابر کی آتش فروزاں کرنے والی انگیٹھی کے لیے بھی، وقت اور دن کی کوئی قید وبندش نہیں تھی، حکیم الامت حضرت تھانویؒ اور دیگر بزرگوں کا ،رس گھولنے والا ذکر، کسی بھی دن دراز ہو جاتا تھا، غرض! اُس ”دوکان“ میں آخر کیا نہیں تھا! لیکن آج صد حیف کہ:

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل

وہ دوکان اپنی بڑھا گئے

طیبہ کی مئے مرغوب اور ہندوستان کا سفال و ظرف

             فخر زبان وادب، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے کہا تھا :

            ” اس دنیامیں ہر شخص، کسی نہ کسی تصویر میں، اپنا خدا دریافت کر ہی لیتا ہے، بابائے اردو، مولوی عبد الحق کو، اردو زبان کی صورت میں خدا مل گیا ہے۔“

            مولوی عبد الحق کو اردو زبان کے ساتھ جو عشق وجنون تھا؛ یہ اس کی بھر پور تمثیل ہے، استاذِ ِگرامی حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ سے منسوب،” کارزارِ حیات“ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ انھوں نے بھی کسی حال ووجد میں، عربی زبان کی جاں نثاری وفدا کاری کا حلف اٹھا لیا تھا اور پھراپنے استاذِ خاص، حضرت مولانا وحید الزماں علیہ الرحمہ کے دست مبارک پر کیے گئے، اس عہد و پیمان کو، جہانِ آب وگل سے عالم ِجاوید تک نبھا یا ۔

            حضرت مولانا علیہ الرحمہ کو سفالِ ہندی پر حد درجہ اصرار تھا، اس اصرار کی بنیادیں دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا وحید الزماں کے ساتھ اتاہ عشق میں تھیں، آپ نے سعودی عرب میں، عربی زبان کا ایک مختصر المیعاد کورس کیا تھا، جب آپ کی عربیت کے کوکبہء جلال نے، عالم عرب کو خیرہ کیا ،تو نسبت کے تئیں فکر دامن گیر ہوئی، آپ اس تصور سے ملول ہوجاتے کہ ان کے فن پاروں کو، مذکورہ کورس کا احسان مند گردانا جائے گا، جو کہ ان کے نزدیک، دارالعلوم دیوبند اور مولانا وحید الزماں علیہ الرحمہ کے فیوض والطاف سے سخت بے رخی و ناسپاسی تھی، مجھے یاد نہیں ہے کہ اس باب کی صفائی، میں نے آپ سے کتنی بار سنی ہے، اس سیاق میں آپ پر جوش ہو جاتے تھے، رگیں پھول جاتی تھیں اور آواز بلند ہوجاتی تھی، پھر غیرت آپ کو یہ کہنے پر مجبور کرتی تھی کہ میرے پاس جو کچھ ہے، دارالعلوم کی دین ہے، مجھے جو کچھ ملا ہے، حضرت مولانا وحید الزماں سے ملا ہے اور بس!۔

خِرَد وآگہی کے مضر اثرات

خِرَد کا زہر، عدم! موت ہے جوانی کی

وہ خوش نصیب ہے جو مردِ ہوش مند نہیں

(عبد الحمیدعدم)

            علمی وفکری کا میابیوں کا خون بہا، ہمیشہ مہنگا رہا ہے؛ بل کہ بیشتر جان لیوا بھی؛ آپ اس شوق کو دھیمے زہر سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، تکمیل ادب کے شب وروز کی ہمہ ہمی کے بعد، سن ۲۰۰۰ء میں تخصص فی الادب کی تقریب سے، بندہ حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ کے نزدیک آیا، پچاس کے لپیٹ سے باہر نہیں تھے؛ لیکن عوارضِ صحت، آپ کے عزائم اور خاکوں میں مزاحم ہوچکے تھے، ہم نے پہلی بار شگرکے عارضے کو نزدیک سے دیکھا اور سمجھا، جو پہلے ہی آپ کی صحت وتوانائی کے ساتھ، ہلاکت خیز مفاہمت کر چکا تھی۔

             لسانِ نبوت سے کیا بات نکلی ہے کہ ”علم کا شیدائی سیراب نہیں ہوتا“( ترمذی، حاکم)!، متنبی نے عاشق کی نفسیات خوب سمجھا ہے:

العشق کالمعشوق یعذب قربہ

للمبتلی وینال من حوبائہ

            عشق واقع میں جاں گسل ہے، تو ہوا کرے! عاشق کے ذوق میں،وہ ہزار قند ہے، نیز دیسی محاورہ یوں ہے:

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے بیٹے سے دوا لیتے ہیں

            میں نے وہ آنکھیں دیکھیں، جن کی روشنی، علم کی راہ نوردی کے نام ہوچکی تھی، گہرے چشمے سے جھانکتی ہوئی آنکھوں میں، کتب بینی اور مطالعے کے بے رحم رد عمل کی شکایتیں عیاں تھیں، وہ اعصاب دیکھے، جن کو فکری معرکہ آرائی نے ماندہ کردیا تھا، بالیقین لرزتی ہوئی انگلیوں نے، رعشہ آشنا ہونے سے قبل، تخلیق وفن کا دراز تر سفر طے کیا تھا۔

            شمع علم کے پروانوں کی روایات کو آپ نے تسلسل دیا، لطف ِزندگی سے سمجھوتہ کیا اور خونِ جگر کو علم وفکر کے گلزاروں کی آب یاری کے لیے بچا کر رکھا، با مرادی کی اس کلید کا ادراک، آپ کو عنفوانِ شباب سے تھا؛ تازہ جواہر پاروں کی نسبت کچھ کہنا، تو یقینا مدحِ آفتاب ہے؛ تا ہم حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کے پچاس سالہ قدیم مضامین بھی میری نظر سے گذرے ہیں، وہی جلوہ، وہی رعنائی، وہی حسن، وہی داد ِزبان وسخن اور فکر وفن!

            حضرت مولانا علیہ الرحمہ کی دو ذاتی لائبریریاں تھیں، فارسی خانے سے متصل دار جدید کے گوشے والا حصہ کافی کشادہ تھا، کچن کے علاوہ بھی اس میں دو بڑے کمرے تھے، کتابوں سے مملو یہ کمرے آپ کے ذوق مطالعہ کے گواہ تھے؛ لیکن یہ وسیع رقبہ بھی آپ کے ذخیرئہ کتب کے لیے کوتاہ دامنی کا شاکی تھا؛ اس لیے آپ نے خصوصی گزارش کے ذریعے، دولت کدے کے اوپر ایک وسیع کمرہ تعمیر کرایا، جو کتابوں کی کان بنا ، مجھے ان دونوں لائبریریوں کی خدمت کا موقع ملا ، وہاں موجود کتابیں آپ کی شخصیت کے گوناگوں شاندار گوشوں کے تئیں چشم کشاں تھیں، ان کتب خانوں کے مشمولات میں، اس رائے عامہ کی پیہم تغلیط تھی کہ حضرت صرف ادیب اور زبان داں ہیں۔

            فن بلاغت میں دستر خوان کی صفائی، بخل کی عمدہ تمثیل مانی گئی ہے، بخیل کا دستر خوان میلا کیوں کر ہوسکتا ہے، جب استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی، بندے نے کتابوں کو بھی اسی زاویے سے دیکھا ہے، الماریوں میں قرینے سے سجی ہوئی کتابیں، بہتوں کے یہاں دیکھیں؛ لیکن ہم اس وقت تک سیرچشم نہیں ہوتے؛ جب تک کتابوں کا انبوہ، نشستِ مطالعہ پر بالیدہ وپراگندہ نہ ہو، ہمارا یہ ذہن حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کی مطالعہ گاہ نے بنایا ہے، آپ کے بیرونی کمرے میں،کتابوں کا بے ترتیب پھیلاوٴ، کسی وارد وصادر کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔

منفردطریقِ کشید اور اس کی افادیت پر ایمانِ راسخ

ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد

فیض# گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے

(فیض احمد فیض)

            آپ کے محبوب استاذ، وحید العصر،حضرت مولانا وحید الزماں علیہ الرحمہ ، بابِ تعلیم میں کیفیت کے قائل تھے، کمیت کا درجہ ان کے نزدیک ثانوی تھا، زبان ولغت کے گوناگوں روابط سے، انھوں نے یہ کشید کیا تھاکہ لفظ ہو یا تعبیر، اس کا مجرد مواجہہ کوئی شے نہیں ہے؛ ایسی شاہانہ سیر کے ساتھ، جملہ عربی دفاتر بھی آپ کو کچھ نہیں دے سکتے؛ اس کے بر خلاف آپ ایک لفظ سے ملیں؛ مگر اس پر خیمہ زن ہو جائیں، یہ ہزار قراء توں سے افضل، موٴثر، مفید اور نتیجہ خیزہے۔

            حضرت الاستاذ، مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ نے ہمیں بتایا کہ حضرت رحمة اللہ علیہ کے یہاں، اسباق کے انبار نہیں تھے، ان کے ذوق میں ”ماجد حضر في الفصل“ ایک یوم کے سبق کی طرف سے کفایت کرسکتا تھا، ان کے نزدیک یہ ایک جملہ مکمل عربی زبان کی تعلیم کا سفیر تھا، معلم کو یقیناً تفہیم سے فارغ ہونا ہے؛ لیکن متعلّم اس نوع کا کوئی خیال ہر گز نہ پالے، یہاں سے اسی کے حصے کا کردار شروع ہوتاہے ۔

            مثال کے طور پر ”ماجد“ کی تبدیلی میں، آپ اپنے حافظے سے کتنے اسما فراہم کرسکتے ہیں؟ ”حضر“کی جگہ افعال کی کتنی شکلیں، صیغیں اور گردانیں استعمال کرسکتے ہیں؟ ”الفصل“ کے متبادل کے طور پر، کائنات کی کتنی چیزوں کو آپ ظرف بناسکتے ہیں؟ پھر اس جملے سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے، آپ کے پاس توانائی کتنی ہے؟ نیز اس قواعد کے لیے، اپنی حیاتِ عزیز سے، کتنی ساعتیں، پہر اور ایام مستعار لے سکتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب طے کریں گے کہ عربی زبان سیکھنے کی راہ میں، کامیابی کے کتنے مدارج، آپ کا مقدر بن سکتے ہیں۔

            حضرت الاستاذ خود بھی نہج وطریق کے بادشاہ تھے، اس میں ان کے اپنے اضافے ہیں، دل چسپ بھی اور البیلے بھی، ان کے یہاں الفاظ اور تعبیرات سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے، ”پوسٹ مارٹم“ کا لفظ خوب آتا تھا، وہ کہتے تھے کہ ہماری گھڑیوں میں بارہ گھنٹے ہوتے ہیں، ریلوے میں چوبیس، تم اپنی مشق میں اڑتالیس گھنٹے بجاوٴ، لفظ و تعبیر میں تصرف کرتے جاوٴ؛ تاآں کہ وہ دست بستہ طالبِ پناہ ہو اور آپ کی کتاب کا جز بننے پر شرم ساروغم خوار ! اس مشغلے کو نشست وبرخواست اور آمد ورفت کا ایسا جز بناوٴ کہ دیکھنے والوں کو خلل ِداغ کا گمان ہو۔

             اپنے استاذ کے طریقِ تدریس کے حوالے سے، وہ مسلکِ توحید رکھتے تھے، اس کی افادیت ان کے یہاں ایمان کی طرح راسخ تھی، اس کے امتیاز کو ظاہر کرنے کے لیے فرماتے تھے کہ اگر وقت کا شیخ الحدیث بھی، عربی سیکھنے کے لیے آئے گا، تو اس کے لیے بھی یہی واحد راستہ ہے، اس کو بھی ”حضر ماجد في الفصل “سے اسی طرح الجھنا ہے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔

طبع زاد لطائف کا چشمہٴ شیریں

لبوں پر تبسم، تو آنکھوں میں آنسو، تھی دھوپ اک پل، تو اک پل میں بارش

ہمیں یاد ہے باتوں باتوں میں ان کا، ہنسانا رلانا، رلانا ہنسانا

(اکبر حیدر آبادی)

            بے شک تدریس ، ایک سنجیدہ پیشہ ہے؛ لیکن دراز نفس سنجیدگی ، گرانی کا موجب ہے، طبیعت پژمردہ ہوجاتی ہے اور اخذ واستفادے کے لیے در کار، انبساط وانشراح باقی نہیں رہتا؛ کام یاب تدریس کے لیے، صورتِ دل گیر اور شگفتہ تصویر؛ دونوں یکساں طور پر مطلوب ہیں، ہم نے یہ دو متضاد جوہر، اپنی کامل شکل میں، دو اساتذہ کے یہاں جلوہ گر دیکھے، امام التدریس حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری علیہ الرحمہ، ماحول کو ہمہ تن جستجو، سنجیدہ اور متفکر رکھتے تھے؛ پھراسی لمحہ خوراک تبدیل کرتے اور اپنے آزاد لطائف سے، فضا کو زعفران زار کردیتے تھے، اس فن کاری کے دوسرے بادشاہ، حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ تھے، اس سلسلے میں،حضرت ادیب ِزماں کو، اول الذکر سے یہ امتیاز حاصل تھا کہ آپ کے بیشتر لطائف خانہ زاد تھے،گویا اس باب میں بھی، ان کی تخلیق خو طبیعت کو، چراغِ دیگر،مستعار لینے میں ابا تھا۔

            امام ِادب وسخن کی درس گاہ، متانت وسنجیدگی کی مثال تھی، تلامذہ حد درجہ مرعوب وخائف رہتے تھے، پیاس کی مد میں، میز پر رکھا بھاری بھرکم گلاس ، تنبیہ الغافلین بننے کا امکان، ہمہ وقت رکھتا تھا، وقفے وقفے سے اس کی تصریح، خطرے کو یقینی بناتی تھی؛ گو کہ اس نے واقعے کی شکل اختیار کبھی نہیں کی، پھر یہ ماتم کدہ، اگلی ہی ساعت، بزم آرائی کا منظر بھی پیش کرتا تھا، کوئی خارجی لطیفہ فراہم نہ ہوتا، تو حاضرین میں سے کسی کے کوائف ، سامانِ شگفتگی پیدا کرتے۔

            کاہل اور بے ہنگم ساخت کے طلبہ کا مستقبل ان کو اہتمام میں نظر آتا تھا، ”لاعلاج مریضوں“ کی تشخیص میں فرماتے کہ انھوں نے کچھ نہ سیکھنے کا حلف اٹھایا ہے، ان کے احوال کی ترجمانی میں یہ دو عہد وپیمان دہرا تے تھے:”ہم کورے آئے تھے اور کورے ہی واپس ہوں گے“، نیز : ”ہے کوئی مائی کا لال جو ہمیں ایک حرف بھی سکھا دے؟“ ۔

            چھوٹی اور دبلی کاپیوں کے لیے، ان کے یہاں ”زیر جامہ لباس“ کی تعبیر تھی، خراب خط کا نام ”کیڑن مکوڑن“ رکھا تھا، کبھی نام کی ایجاد کا اختیار بھی دیتے تھے، فرماتے: جب اتنا بُرا لکھا ہے، تو اس کا نام بھی تجویز کرو، غیر معیاری مدارس ،” صفر سرمایہ کاری کارخانے“ کے زمرے میں تھے، جن میں ثمر آوری یقینی اور خسارہ ناممکن ، مزاح سے مغلوب ہوتے، تو اپنے علاقے کی تہذیب کو بھی لیتے، اپنے ہم وطن طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، مجھ سے گویا ہوئے کہ ان کے یہاں بھینس بھی ”آتے ہیں“، میرے وطن بجنور کو کوفہ قراردیا تھا، مجھے چھیڑنے کے لیے، دوسرے حاضرین کو میرے وطنی انتساب پر متنبہ کرتے، ایک علاقے کی نفسیات کے حوالے سے فرمایا کہ ان کو نوکری اور ملازمت چاہیے، خواہ جہنم کی ہو۔

            میں ایک سنجیدہ مزاج، ذی علم، دینی شخصیت کے ساتھ حاضر ہوا، جن کے علمی ودینی مقام کے حضرت خود بھی بہت قائل تھے، اتفاق کی بات کہ ان کا جسم بھی بھاری تھا اور ان کے دو دیگر تلامذہ بھی کھاتے پیتے تھے، اِدھرمیرا وزن بھی سِواہے، گویا حیات بخش موضوع ہم رشتہ تھا؛ چناں چہ ملاقات کا اصل موضوع جو کہ نہایت اہم تھا، پس منظر میں چلا گیا اور حضرت نے منظر نامے کے ساتھ دل بھر کر شوخی کی۔

            تلاوتِ قرآن کے بڑھے ہوئے شغف میں، جنت کے اُس پار نکلنے کا امکان، جو ان کو دریافت ہوا تھا، وہ احاطہء دارالعلوم کو ایک عرصے سے گل زار کیے ہوئے ہے، تیز رفتار بائک والے کی نسبت، ان کو دنیا کے آخر تک نکل جانے کا گمان ہوتا تھا، رجسٹر حاضری کی غیر معیاری تحریر میں، اردو شرح کے مواقع تلاش کرتے تھے، نورانی قاعدے میں اردو شرح کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے، نام بھی منتخب فرمایا تھا: ”روحانی فائدہ شرح اردو نورانی قاعدہ“ ، شرح نویسی کے محرک اعذار سے متعلق، جھوٹی داستان کی چٹکی لیتے ہوئے فرماتے کہ آں موصوف کی زحمتِ قلم نے، ایک خلق کو، نا حق مرنے سے بچا لیا۔

 شمع بزمِ متنبی

سنتا ہے جو تمھیں، نہ سنے ہے کسی کو وہ

کیا جانے کیا سکھاوٴ ہو،تم کیا پڑھاوٴ ہو

(کلیم عاجز)

             عربوں کے سب سے بڑے شاعر، ابو طیب متنبی کا دیوان، شعری ادب کا بے نظیر ذخیرہ اور منظوم آثار کا بیش قیمت اثاثہ ہے،جو صدیوں سے اہل ذووق کے دلوں پر حکمرانی کر رہا ہے، ابن جنی، واحدی اور عکبری جیسے ائمہٴ شعروسخن نے، اس دیوان کی خدمت کو اپنا سرمایہ افتخار سمجھا؛ بل کہ اول الذکر کو، خود متنبی نے اپنے اشعار کا عارف اور محرم اسرار قرار دیا، کوئی طالب رجوع ہوتا، تو متنبی، ابن جنی کا حوالہ دے کر کہتا کہ وہ میرے اشعار کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔

             کہنے کو بر صغیر کے بیشتر دینی مدارس نے، اپنے عربی نصاب میں متنبی کے لیے جگہ نکالی ہے؛ لیکن ازہر ہند میں اس کی تدریس کو نئے معانی ملے، ہماری طالب علمی میں سالِ ششم کی تین درس گاہیں تھیں، متنبی کا جام تین صحبتوں کو لطف و نشاط بخشتا تھا اوراس کے تینوں ساقی ومرشدنابغہٴ روزگار تھے؛ بل کہ ہنگامہٴ گیر ودار کے کیف وسرور میں، تینوں ہستیوں کو اندازہ نہیں ہوا کہ ان کی داستانِ حیات نے، وسطی با سے الف اور وسطی الف سے علیا کے مدارج طے کر لیے ہیں اور اب وہ امامِ ادب وسخن، مفکر عصر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی ، یااستاذ الاساتذہ، حضرت مولانا عبد الخالق مدراسی، نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ، یاجانشینِ اکابر،حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی، نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ہو چکے ہیں۔

            متنبی کے ساغر و پیمانے کا یہ سنہرا دور، دراز تر ثابت ہوا، جس کا دورانیہ چار دہائیوں پر مشتمل ہے، مادرِ علمی کے نظامِ تعلیم میں، وقفے وقفے سے ابھرنے والی، تبدیلیِ مذاق کی لہریں بھی، اس تسلسل میں مزاحم نہ ہو سکیں، اُس وقت تین بزم تھیں؛ درس کے بنیادی تقاضوں میں آسود گی کے تئیں وہ یک رنگ تھیں؛ لیکن اضافی خصوصیات، اس کہکشاں میں تنوع پیدا کرتی تھیں، عربیت میں تعمق وتدقیق کا رجحان، شاعرانہ ذوقِ لطیف کی تعمیر ، جمالیاتی مزاج وحس کی دریافت؛ یہ وہ سہ رخہ تنوع تھا، جو تینوں بزموں کو جدا گانہ خد وخال سے روشناس کرتا تھا۔

             تحدیث نعمت کے لیے میرے ترکش میں، اس سے بڑا کوئی تیر نہیں کہ ششم ثانیہ کی جس درس گاہ میں، حضرت علوم عربیت کے دریا بہاتے تھے، عین اسی وقت، اسی درس گاہ کے بالائی حصے میں، ششم رابعہ کے طلبہ کو مطمئن و خوش کرنے کے لیے، بندہ مختلف ترکیبیں آزماتا تھا، افسوس کہ اب یہ حسین منظر اور دل فریب احساس اپنے ماضی کو روئے گا :

وہی بزم ہے وہی دھوم ہے، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے

ہے کمی تو بس اسی چاند کی، جو تہہ ِمزار چلا گیا

(نصیر الدین نصیر#)

 میکدئہ زبان وادب، تکمیلِ ادب، ساعتِ ششم

اس سخن ور سے مجھے فیض سخن ہے اے حفیظ!

نامِ نامی ہے گرامی، جس جہاں استاد کا

(حفیظ جالندھری)

            درسِ نظامی کا سودا، کل وقتی عہد وپیمان ہے، دن تمام درس گاہ کی نذر، رات تکرار واعادے میں محبوس، ہمارے دور میں طالب علم کو بیرون کی کوئی خبر نہ تھی ، یہاں ”قدیم الایام“ کی قید دانستہ ہے؛ کیوں کہ جب سے ”فتنہٴ دست وجیب“ نے، کچے پکے گھر کو فتح کیا ہے، دانش گاہوں کی روایات بھی بدل گئی ہیں، حالیہ ربع صدی میں، قیامت کی فسوں گری دیکھنے میں آئی ہے، الغرض! اُس وقت کے احوال دیگر تھے، بیشتر طلبہ، درسی سرگرمیوں تک محدود تھے؛ اس میں خارجی مطالعہ کا بھی استثنا نہیں۔

             ضابطے میں تکمیل ادب کی تپائی پر” المختارات العربیة“ رکھی ہوتی تھی، جو عربی اخبارات کے اقتباسات کا مجموعہ ہے؛ لیکن بنیادی طور پر یہ نثر جدید کا گھنٹہ تھا، معلوم ہے کہ نئے دور میں زبان کا سفر نسبتاً زیادہ تیز گام ہے، صحافتی، معاشرتی اور تہذیبی تحریکوں کے علاوہ، ٹیکنالوجی کی جادوئی ترقی نے، اس کی رفتار کو بے قابوکردیا ہے، چشم ِزدن میں نسلوں کی خلیج کا مسئلہ منھ اٹھا لیتا ہے؛ پھر یہ مجموعہ خود کئی دہائیاں دیکھ چکا تھا؛ اس لیے پڑھاتے ہوئے کسک محوس کرتے تھے، نئے انتخاب کی آرزو کسی بھی دن الفاظ کا جامہ پہن لیتی تھی، حضرت الاستاذ اگر آمادئہ اقدام ہو جاتے، تو تکمیل ِادب کے نونہالوں کو زندہ، شاداب، رواں دواں اور سدا جواں چشمہ مل جاتا۔

            تا ہم کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے، مجھے یاد ہے کہ قفس کے بالکل ابتدائی ایام میں، اولین صفحے پر ”اجتماع طاریٴ للأوبک لبحث تھدیدات فورد“جیسے متون کی قرأت ہوتی، تو جماعتوں میں ممتاز آنے والے، ”مشاہیر“ کے چہروں پر ہوائیاں اڑتیں اور ان کی آنکھیں کبڈیاں کھیلتیں، تعبیرات کے توحش اور اجنبیت سے، اس کلام کی یادیں تازہ ہو جاتیں،جس کوبلاغت کے صفحات نے، جنات کے کلام کے طور پر محفوظ کیا ہے، ان نو نہالوں کی نفسیاتی کہتری اور زبان کی نئی انگڑائیوں سے بے خبری کو دیکھیں، تو میکدے کو قدیم روایات پر رکھنا بھی خیر سے خالی نہیں؛ چناں چہ حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ نے، متذکرہ بالاخاکے میں رنگ بھرنے سے گریز ہی کیا۔

 عربی زبان وادب کا گل زار ِوحیدی اوراس میں بہار ِامینی

صدقے اس اَبر ِفیض کے جس کی بہار نے

پُر خار وادیوں کا خیاباں بنادیا

            بر صغیر کے دینی مدارس، اپنے ناموں کے ساتھ ”عربیہ“ کا لاحقہ لازماً لگاتے ہیں، ہمارے مدارس کی عرفی شناخت میں بھی، اس جز کی نمائندگی ہے، اس نظام کو عرف ِ عام میں”عربی تعلیم“ سے بھی یاد کیا جاتا ہے؛ نام کو درکنار کریں، کام کا جائزہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہماری تعلیم کا انحصار عربی زبان پر ہے، قرآ ن وحدیث ہماری تعلیم کا مرکز ہیں؛ یہ دونوں مصادر اور ان سے پھوٹنے والے جملہ علوم کا پیرہن یہی زبان ہے، ابتدائی درجات کی ایک دو کتابوں کے استثنا کے ساتھ، نصاب بھی عربی ہے؛ لیکن اس ”داستان ِامتیاز“ کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا یہ عربی نصاب ، کبھی عربی نظام میں تبدیل نہیں ہوا، مدارس کا ماحول ، زبان اور تحریر دونوں میں، عربی قالب سے محرومی وعاجزی کا شاکی رہا۔

             دوسری رائے والوں کی یہ توجیہ بے شک اپنے معانی رکھتی ہے کہ عربی بول چال، ہمارے مدارس کا ہدف نہیں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نصب العین کی نسبت، ہمارے مدارس کی تاریخ، علوم دینیہ کے سلسلہ کا، سب سے درخشاں باب ہے، قرآن وسنت کے گہرے ادراک میں، وہ اپنی نظیر خودہیں، ان کے نکالے ہوئے آب دار موتیوں نے، اِس نبوی پیشین گوئی کو پورا کیا ہے کہ دور افتادہ علاقوں میں،احادیث کا خیر مقدم کرنے والے، ان کے اصل ناقلین وحاملین سے، زیادہ فقیہ وسمجھ دار ہوں گے:” رُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ“ (بخاری:۱۷۴۱)۔

            لیکن یہاں دیگر پہلو بھی ہیں، جن کو متواتر نظر انداز نہیں کرسکتے، ہم نے عرب مصادر پڑھنے پر اکتفا کیا، خداداد فہم کا جادو چلا اور اکابرنے گہرائی میں جاکر نگینوں کو دریافت کیا؛ پھر ان نگینوں کو درس گاہوں میں لٹایا، تلامذہ نہال ہوئے، افادات سینہ بہ سینہ منتقل ہوئے، اردو تعلیقات کے ہم دوش برصغیر میں عام بھی ہوئے؛ لیکن علم کی داد کے جو مراکز ہیں: حجاز، شام، مصر ․․․․․․ وہاں خبر تک نہ ہوئی، چند یواقیت جو پہنچے، وہ ”مشتے نمونہ از خروارے“ سے زیادہ نہ تھے؛ عربی اظہار سے نابلدی ہی، اس خسارے کی ذمے دار ہے، جس طرح فہم کا سلیقہ، پیہم فہم سے آتا ہے، اسی طرح تحریری اظہار بھی، قلمی ممارست ہی سے آتا ہے، جس کو عہد بہ عہد نظر انداز کیا گیا۔

             اس پس منظر میں ہماری تاریخی تہی دامنی کو دور کرنے، گلشنِ درس نظامی کو نئی بہار سے روشناس کرانے، تازہ کرنوں کا چراغ روشن کرنے، خوش گوار انقلاب برپا کرنے، گل زار میں باد ِبہار داخل کرنے اور اس کے گلوں کو عشرت منزل بنانے، مردہ گوشے میں صور پھونکنے ؛ غرض! دستور میخانہ میں، بنیادی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے، جس غیر معمولی ، تاریخ ساز، عہد آفریں شخصیت کی ضرورت تھی، وہ دارالعلوم کو، جدید عربی کے ارسطو، وحید العصر،حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی علیہ الرحمہ کی شکل میں ہاتھ آگئی۔

نیا طرز جنوں

خیرہ کیے دیتا ہے نگاہوں کو چمک کر

ہر ذرہ ہے خور شید کا شاگرد رشید آج

            حضرت مولانا وحید الزماں علیہ الرحمہ کا شمار ان ہستیوں میں ہے، جنھوں نے تاریخ کو وجود بخشا، جدید عربی کے گلشن میں، بہارِ نو کی تاریخ، ان کی جد وجہد سے منسوب ہوئی، مادر علمی کے ارباب ِ انتظام کی قیافہ شناسی کو سلام! ان کے یُمنِ قدم نے چمن کو نہال کردیا، ان کا جستجو آشنا رسا ذہن، ایک دو خاکوں پر قانع نہیں ہو سکتا تھا، منصوبوں اور خاکوں کا سیل رواں جاری ہوا، درس وتدریس کے لیے عربی صفوف کا اجرا، تحریر کے لیے دیواری پرچے، تقریر کے لے انجمن ، غرض! ہر صبح نئی نسیم و صبا اور ہر شام نیا دامن ِباد ، دیکھتے ہی دیکھتے، مادر علمی کی فضا، عربی رنگوں سے جگمگا اٹھی، زمین پہلے ہی زر خیز تھی، آب یاری ہوئی تو خزانے نکل آئے۔

            رجال سازی ان کا خاص جوہر تھا، اس باب میں آپ کی کامیابی، تاریخ دیوبندکا درخشاں باب ہے، ہم ۱۹۹۷ء میں دارالعلوم آئے، تو مادر علمی کے در ودیوار پر چسپاں ”وہ کوہ کن کی بات“کے اشتہار کو پڑھنے اور سمجھنے کی، جد وجہد کر نے والوں میں شامل ہوئے، آپ کی رحلت کو دو سال ہو چکے تھے؛ لیکن ”فرہاد“ نے رخت سفر باندھا، تو وہ ”کوہ کنی“ کے مقصد میں سرخ رو ہو چکا تھا، ان سے شرف تلمذ رکھنے والی عنادل، ہر چہار سو چہچہا رہی تھیں، اندرونِ احاطہ بھی اور بیرونِ احاطہ بھی، اس مختصر وقفے نے، منظر نامہ تبدیل کردیا تھا، جو حلقے ہمیں جدید عربی کے عنوان سے طعنہ دیتے تھے، وہ ہمارے خوشہ چیں بن گئے، وحیدی داستان ایسی ہمہ گیر وہمہ جہت تھی کہ معاصر چمن کی قُمریاں بھی، ان کے اوراق چرانے اور ان کے گلوں سے، گل چینی کیے بغیر نہ رہ سکیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بازی بالکلیہ بدل گئی، لینے والے سینے، دینے والے بن گئے، دفاع کی روایات والے، اقدام کی تاریخ رقم کرنے لگے۔

 تحریک زبان وادب کا آخری نقیب

عود ِ ہندی بن کے پھیلی تیرے نغموں کی صدا

تو ہے شاگردِ رشید بلبلِ ہندوستاں

            کیرانوی الطاف گو کہ عام تھے؛ لیکن بادہ خواروں کے ظرف ، وجہ ِفرق کا کردار ادا کرتے ہیں، ابر ِکرم ہر جگہ یکساں برستا ہے؛ لیکن اجزائے ارض کا فطری تفاوت اپنا کا م کرتا ہے، آپ کی صلائے عام پر لبیک کہنے والوں میں، نکتہ دانوں کا منتخب ہجوم تھا؛ لیکن اس مے خانے کی جانشینی کا قرعہٴ فال، استاذِ گرامی، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ کے نام نکلا، علم وادب کا جو انقلاب، حضرت کیرانوی علیہ الرحمہ نے متعارف کرایا تھا، اس کی آب یاری کے لیے، مالک ِنون والقلم نے آپ کو منتخب کیا تھا، تخم ریزی استاذ کر گئے تھے، بارآوری کے لیے آپ چنے گئے، کشتیِ سبک رفتار کو، تیز گامی کے لیے، جو موافق ہوا درکار تھی، وہ آپ کے دم ِگرم سے فراہم ہوئی، نئے گل کھلے، زمزمہ خواں بلبلیں تیار ہوئیں، ہر دو نگاہ فیض نے ، نسلوں کی کشت ِحرف چمکائی اور پھر انھیں افتادہ زمینوں سے خزانے برآمد ہوئے۔

            ہمارے متعدد اکابر اساتذہ، حضرت کیرانوی علیہ الرحمہ کا ذکر آنے پر، گرمی ِجذبات، درون تک محسوس کرتے تھے؛ لیکن ایک شخصیت ایسی تھی ، جس میں ان کا عکس جمیل بہ چشم ِ سر دیکھاجاسکتا تھا، استاذ وشاگرد کے مابین انتقالِ نسبت کا وہ بے نظیر حوالہ تھے، انھوں نے ”وہ کوہ کن کی بات“ میں اپنے محسن ومربی کی تصویر اتاری تھی؛ لیکن وہ خود اس تصویر کے زیر وبم میں اترے ہوئے تھے، وہ معرکہٴ ِاستاذ کے وارث ہوئے، عین وہی شعلہ ان کے آتش دان میں بھی گرم تھا، اس لیے ”رَن“ شباب آشنا ہوا۔

              مرکزی ساقی کو قریہ قریہ جانے کی ضرورت نہیں ہوتی،حق شناس بادہ خوار، ترجمانی میں کفایت کرتے ہیں، گل چیں، کمالات ِ چمن کے بہترین سفیر ہوتے ہیں، تکمیل ادب کی درس گاہ میں، آپ درس نہیں دیتے تھے، کلیجہ نکال کر رکھ دیتے تھے، یہاں آپ نے نسلوں کی آب یاری کی ہے، آج مدارس میں جدید عربی کی جو بہار ہے، ادب کے شعبے قائم ہیں، اردو انجمنوں کے جلو میں، عربی بزم بھی سجی ہیں، تحریر وتقریر کی مشق وقواعد کا ماحول گرم ہے، عربی انجمنوں کے کلیدی پروگراموں کی سرپرستی کے لیے، مادر علمی سے اساتذہ کو مدعو کیا جارہا ہے، معتبر اداروں میں، تکمیل ادب کے فضلاء کی طلب کا، غیر معمولی رجحان ہے، غرض! عربی زبان وادب کی جو لہر بیشتر مدارس میں آچکی ہے ، اس صدقہٴ جاریہ کا بڑا حصہ، استاذ گرامی حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ کے، روشن نامہٴِ مبارک کی بہترین یاد گار ہے۔

 الداعی․․․․ ․․․․ مآثر دیوبند کا با توفیق نامہ بر

من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی

تا کس نگوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

(امیر خسرو)       

            صحافت، شاہ ِجہاں ہے، انسانی انبوہ ، یومیہ فکری وذہنی خوراک کے لیے، صحافتی آستانوں کا نیاز مند ہوتا ہے، ذرائع ابلاغ کے تنوع نے، خواندگی کی شرط بھی اٹھادی ہے؛ بل کہ مرئی صحافت نے خواندوں کو بھی فتح کرلیا ہے، فارسی واردو کے برعکس، عربی زبان ہمارے معاشرے میں ،روز مرہ کی گفتگو کا حصہ کبھی نہیں تھی؛ اس لیے عربی صحافت حاشیے پر رہی؛ بر صغیر میں عربی صحافت ، اپنے سرگرم سفر میں ، دیگر اغراض ومقاصد کی احسان مند پائی گئی۔

            دعوت وارشاد، علم وتحقیق ، زبان وادب، عالم عربی سے رابطہ کاری؛ جیسے مقاصد کے تحت دینی مدارس سے نکلنے والے رسائل نے ، بلاد ہند میں عربی صحافت کو زندہ رکھا، مرکزی اداروں نے اپنے عربی ترجمان بہت اہتمام سے شائع کیے، درس وتدریس کی طرح ، اس باب میں بھی ازہر ہند، سالار ِ قافلہ تھا، مادر علمی میں عربی زبان کا پر چم، وحید العصر، حضرت مولانا وحید الزمان رحمہ الله نے بلند کیا تھا، ایک زندہ اور اظہار خیال کی تازہ زبان کے طور پر، ہمارے احاطے میں، اس کا تعارف کرانے والے آپ ہی ہیں؛ اپنی محبوب زبان کی ترویج کے لیے، حضرت والا نے متعدد ومتنوع خاکے مرتب کیے، اس حوالے سے آپ کا ترکش تیروں سے معمور تھا، اس سنہرے سلسلے کو تحریر کی بیش قیمت کڑیوں نے زینت دی، اندرون احاطہ نکلنے والے دیواری پرچوں کی داستان دراز ہے، بیرونی دنیا سے ہم کلامی کا آغاز ۱۹۶۵ئمیں رسالہ” دعوة الحق“ سے کیا، جس نے اپنی عمر کی دس بہاریں دیکھیں اور ۱۹۷۵ئمیں موقوف ہوگیا۔

             پھر ایک مختصر وقفے کے بعد، اس کی جگہ، ایک ایسے نئے رسالے نے لی؛ جس کے لیے سعادت وتوفیق کی نئی داستان مقدر تھی، جس کی شہرت کائنات کی وسعتوں کو طے کرنے والی تھی، جس کا فیض عرب وعجم؛ دونوں کو اپنے دائرے میں لینے والا تھا، جو دارالعلوم دیوبند کے متاعِ فخر میں، بیش قیمت اضافہ کرنے والا تھا، جو مادر علمی کا مستند وثقہ ترجمان بننے والا تھا۔

             اس گل شن کے برگ وبار ، حضرت مولانا وحید الزماں علیہ الرحمہ سے بھی منسوب ہو سکتے ہیں؛ کیوں کہ وہ اس کے بانی تھے؛ اس کے حسن کا کچھ حصہ،مدیر دوم، حضرت مولانا بدرالحسن قاسمی دامت برکاتہم کی بھی یاد تازہ کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے استاذ کے نقشِ قدم پر تھے؛ لیکن ۱۹۷۵ئکی نو زائدگی سے ، ۲۰۲۱ء کے شباب تک کا سفر، جس جاں کاہی کی داستان سے عبارت ہے،وہ اس کے عاشقِ شیدا، عربی زبان کے محب صادق، مادر علمی کے سب سے مضبوط ترجمان، استاذ ِگرامی، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ کا نذرانہٴ حیات ہے۔

            اسی کی دہائی کے شروع میں، عام کاغذ پر، سادہ ہیئت اور معمولی پیرہن کے ساتھ شائع ہونے والا یہ پندرہ روزہ مجلہ، زبان، ادب، فکر، تخلیق اور صحافت کے حوالوں سے بھی خاص امتیاز کا حامل نہیں تھا، اس کو معاصر عربی رسائل کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے، استاذ ِگرامی نے ، خون جگر سے سمجھوتہ کیا، اس کی ترقی کے سفر میں حضرت کا شباب اور اس کی رعنائیاں، صحت اور اس کے راحتیں، توانائی اور اس کی طالع آزمائیاں، بہار حیات اور اس کے نسیم وصبا، حرکت وعمل اور ان کا شور وفغاں، امتحان زندگی اور اس کے نشیب وفراز، متاع وقت اور مشاغل علم وعمل؛ غرض! خرمن زیست بلا کم وکاست کام آیا ؛ تا آں کہ وہ وقت بھی آیا، جب الداعی اور وہ ایک دوسرے کا تعارف اور شناخت بن گئے ، الداعی ان کے بغیر اور وہ الداعی کے بغیر متصور نہیں تھے۔

            اپنی افتاد میں وہ سفر سے متوحش تھے، ملک بھر سے مرکزی اداروں کے موقر دعوت نامے آستانے پر ہجوم کرتے تھے؛ لیکن اسی عذر طبع کی وجہ سے شرف قبولیت سے محروم رہتے تھے؛ مگر ایک سفر اس عذر سے مستثنیٰ رہا، مجلہ الداعی کے حسن ومعیار کی راہ کے بڑے بڑے خواب، ا ن کو ہر ماہ پرانی دہلی کی تنگ وتاریک گلیوں میں پہنچا دیتے تھے، عناوین کے کاتبوں، سرناموں کے تزئین کاروں، جلدسازوں، پریس کے مالکوں، کاغذ کے تاجروں وغیرہ سے، عہدہ برآ ہونے کے لیے، وہ خود قدم رنجہ فرماتے تھے، الداعی کی زینت کے لیے، انھوں نے اپنے اس اصول کو خود پر سختی سے نافذ کیا کہ اگر کسی کام کو عمدگی سے کرنا چاہتے ہو، تو اسے خود کرو۔

 حرف ِ شیریں

مر بھی جاوٴں تو کیا لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے، میرے ہونے کی گواہی دیں گے

            درس ، ہزار خوبیوں کا سر رشتہ ہے، علمی ترقیاں ہمارے فاضل کو، ہشت پہلو شخصیت میں تبدیل کردیتی ہیں، فیض کا تنوع مختلف میدانوں کا فاتح بنا دیتا ہے؛ لیکن شخصیت کا نزدیکی تجزیہ واضح کرتا ہے کہ بیشتر کمالات کی تخلیق ، مشغلہٴ تدریس کے بطن سے ہوئی ہے، واقعی درس وتدریس کی برکات بے پناہ ہیں، دروس کے نکات کا جوش واُبال، یکا یک شارح بنا دیتا ہے، نقول کا فرق اور وجہ ِفرق کی جستجو، ایک محقق کی دریافت پر منتہی ہوتی ہے، اختلافی مباحث ، ہمیں اجتہاد کے راہ نورد دیتے ہیں، فرق باطلہ کی کج حجتی کی کوکھ سے، مناظرین جنم لیتے ہیں، رقاق وزہد کے اسباق ، مبلغین اور واعظین چھانٹ لیتے ہیں، غرض! ایک رشتہٴ تدریس ہے اور ہزار عناوین رہینِاحسان ہیں۔

             حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ کا یہ فیصلہ حیات بخش اور با برکت ثابت ہوا کہ وہ مدرسہ شاہی مراد آباد کے پروگرام کی، مبسوط تقریر کو کتابی شکل دیں، حرفِ شیریں، انھیں شذرات کی جھلک ہے، جو آپ تکمیل ادب میں دہائیوں سے بکھیرتے آئے ہیں، مدارس میں گذشتہ دو دہائیوں میں جو خوش گوار تبدیلیاں آئی ہیں، وہ حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ سے بہ وجوہ منسوب ہیں: ۱- مختارات میں تو وہ انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہی تھے، ۲-دوم ، فیض یافتہ فضلا کی جدید کھیپ نے، اس مشن کو آگے بڑھایا، ۳-تیسرا حوالہ ، نگینوں سے مزین یہ مرقع ہے، جسے حرف شیریں سے یاد کیا گیا۔

            تحریر میں آپ کے یہاں وہی طرز وادا جلوہ افروز ہے، جو آپ کی تدریس کی شناخت رہا، تحریری تدقیق وتعمق، جس کا ایک جہاں مدح سرا ہے، اسی جذبے کا پرتو ہے، جو دوران تدریس نمایاں رہتا تھا، افادات کی ترسیل کا سودا،ہر نوع کی قنوطیت کے لیے پیغام موت تھا، تہی دامنی کا عہد رکھنے والوں کو بھی، آپ حیات بخش تلخ نسخے، گھوٹ گھوٹ کر پلاتے تھے، صحت کے عوارض کے ساتھ، تدریس کی توانائی، کرامت سے کم نہ تھی؛ گویا ہر ذرے کو ستارہ بنانے کا حلف اٹھایا ہوا تھا ، کسی کی بے دلی، آپ کے ولولے کو سرد نہیں کرسکتی تھی، آپ کے سوز وساز کی ترجمانی کسی نے خوب کی ہے:

فغان جاں گسل رکھتا ہوں لیکن

نہیں سنتا میرا صیاد میری

             اس ہدایت نامے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مبتدی کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اسے محرم اسرار بناکر چھوڑتا ہے، اس میں زبان وادب کی بسم الله بھی ہے اور سند ِفضیلت بھی، جملہ سازی سے شروع ہونے والا سفر، مضمون اور رسالے پر ختم ہوا ہے، ضروریات کے ساتھ آداب بھی سکھائے ہیں، محرمات کے ساتھ مکروہات سے بھی بچایا ہے، کتاب کا مطالعہ، تکمیل ادب کی درس گاہ میں پہنچا دیتا ہے؛ یہ کتاب آپ کے نصاب ِاتالیقی کا بہترین نمونہ ہے۔

 ”پس ِ مرگ زندہ“ ․․․․․․․․․․․․․․ ترجمان التراجم

اشرار کے انبوہ میں یہ خالد وحیدر

ابرار کی محفل میں غلام شہِ ابرار

(مائل ملیح آبادی)  

            خاکہ نویسی ،سوانح نگاری، تاثراتی نگارشات، شخصیات کی تصویر کشی؛ یہ فن استاذ گرامی، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ کی علمی وفکری شخصیت کابنیادی عنصر ہے، ”وہ کوہ کن کی بات“ سے، اردو زبان وادب کے گل شن میں، آپ کی سحر انگیز آمد نے سب کو چونکا دیا تھا، پھر آپ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، یکے بعد دیگرے،سوانحی نقوش کے انبار لگا دیے، اس میں شک نہیں کہ آپ کے قلم نے، جتنے کردار منتخب کیے، وہ یکتائے روز گار تھے؛ لیکن آپ کی سلیقہ مند نقاشی نے، ان کے حسن کو مزید نکھارا ، ”پس مرگ زندہ“ کتاب نہیں، آب حیات ہے، وہ بھی دو مختلف سمتوں میں بہنے والا: ایک جانب کاروانِ رفتہ کو حیات بخشتا ہے، تو دوسری جانب آئندگان کو فیض کا ابدی چشمہ فراہم کرتا ہے۔

              زندہ دلی، آزاد ذہانت اورمتجسس دماغ نے، آپ کو غیر معمولی سوانح نگار بنایا، تدقیق وتحقیق آپ کے تراجم کا امتیاز ہے، یہی وجہ ہے کہ اہم ترین شخصیات پر آپ کی تحریریں، تاخیر سے سامنے آتی تھیں، تحقیق ومراجعت کا سلسلہ دراز ہوتا تھا، متوفی کے اہل خانہ، خدام، متعلقین اور متوسلین سے، بہ تکرار رجوع فرماتے تھے، تنقیح طلب جزئیات کو بھر پور وقت دیتے تھے، استاذ ِگرامی، حضرت مولانا ریاست علی بجنوری علیہ الرحمہ پر لکھنے سے قبل، مجھ سے کئی باتیں دریافت کیں ، ایضاح البخاری کے کام میں، میری معاونت سے متعلق تفصیلی استفسار فرمایا، اسی طرح ”خلاصة التفاسیر“ کے کام کی نوعیت بھی تحریری شکل میں طلب فرمائی اور ان تفصیلات کو اپنے مقالے میں جگہ بھی دی۔

              آپ سوانح نگاری کے اس امتحان میں سرخ روہیں، ”پس مرگ زندہ“، شخصیات کی تصویر کشی میں افراط وتفریط سے منزہ ہے، اکابر کی کہکشاں میں ہر ستارہ اسی جگہ ہے، جہاں میزان عمل کی پرواز نے اجازت دی ہے، معلوم ہے کہ بیشتر کمالات؛ بڑوں کی سیرت کا قدر مشترک ہے؛ تخلیق کار کا کمال یہ ہے کہ وہ وجوہ ِامتیاز کو سامنے لائے۔

             حضرت کے تراجم اس جوہر کی نمود سے آراستہ ومزین ہیں؛چناں چہ حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی ، ان کے یہاں ممتاز موٴرخ وسوانح نگار ہیں، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب ،وقت کے رازی وغزالی ہیں، حضرت مولانا سید منت الله رحمانی ، میر کارواں ہیں، حضرت مولانا وحید الزماں ، عبقری معلم ہیں، حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہی ، کو وہ فقہ وفتاوی کی آخری کڑی کہتے ہیں، حضرت مولانا منظورنعمانی  ،ان کے نزدیک ہمہ جہت خادم دین ہیں، حضرت قاری صدیق باندوی  ،مجسم مقبولیت ومحبوبیت ہیں، حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ، کو وہ خاص فقہ قضا کے لیے ڈھلے ہوئے ذہن کے طور پر یاد کرتے ہیں، حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئی ، ان کے نزدیک داعیان حق کی زنجیر کاآخری حلقہ ہیں، حضرت مولانا سید اسعد مدنی کو، انھوں نے مرد آہن کے طور پر یاد کیا ہے؛ غرض! شخصیت کے تمام گوشوں کا جائزہ لینے کے بعد، خاص اس عنصر کو دریافت کرتے ہیں، جو شخصیت سازی کا بنیادی جزو ہو؛ اس طرح وہ نچوڑ وعطر نکالنے میں بھی، قاری کے منت کش نہیں ہوتے۔

             حضرت الاستاذ کے تراجم کی کثرت وتنوع، گہرائی وگیرائی، مختلف الجہات تجزیے، خارجی شخصیت پر منطبق ہوتی سچی تصویر کشی، نوع بہ نوع شخصیات کا انتخاب اور ان کے مختلف پہلوٴوں کا بھر پور احاطہ؛ جیسی درجنوں خوبیاں آپ کو اس عہد کے عظیم ترجمہ نگار کا رتبہ دلاتی ہیں، اس ضمن میں آپ نے جو اثاثہ چھوڑا ہے، وہ نسلوں کی تربیت اور ان کی علمی وفکری آب یاری کا شان دار عنوان ہے۔

فلسطین ․․․․․․․․ غمزئہ ِجذب وکشش، عشوئہ غیرت وناموس، وجہ ِگریہٴ خونیں

اتنا سادہ نہ بن تجھ کو معلوم ہے

کون گھیرے ہوئے ہے فلسطین کو

(حبیب جالب)

            ادب وانشا اور زبان وسخن کے جلووں میں، استاذِ گرامی، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ کی، ہمہ جہت شخصیت کے کئی پہلو نمایاں ہوتے ہیں، وہ اسلامی اور ملی مسائل میں، حد درجہ حساس طبیعت کے مالک تھے، سقوط ِطالبان کے بعد انھوں نے فرمایا تھا کہ میری تخلیقی صلاحیت کند اور پژمردہ ہو گئی، ملت کے داخلی وخارجی مصالح کا ان کو گہرا ادراک تھا، ”جانِ پر سوز“ ملی نشیب وفراز سے ہلکان تھی، صحافتی مصروفیت نے بھی، اس آتش کی شدت وحدت میں اپنا حصہ شامل کیا تھا۔

            مسئلہٴ فلسطین ، ملت اسلامیہ کے لیے، جدید دور کا سب سے بڑا زخم ہے، گذشتہ ستر سال کا طویل دورانیہ، اس کو بھرنے میں ناکام رہا ہے، آیندہ ستر سال کا وقت بھی اس کا مرہم نہیں ہو سکتا، وہ مجرد خطہٴ ارض نہیں ؛ بل کہ قبلہٴ اول ہے، خود صاحب ِنبوت نے، اس ارض پر جبہہ سائی کی ہے، قدم ِمحمدی نے، اس کی عزت کو عروج بخشا ہے، وہ ہمارے لیے تیسرا حرم ہے، قرآن اس کی برکتوں کے حوالے دیتا ہے، وہ اہل ایماں کا مرکز ِجذب وکشش اور محور ِغیرت وناموس ہے۔

             ارض مبارک کے مسئلے پر آپ کی تحریریں،جامعیت، فنی کمال، موضوع کی سیرابی، دور افتادہ گوشوں کی آسودگی، جزئیات کی تنقیح وتفصیل وغیرہ میں اپنی نظیر خود ہیں؛ بہت مشکل ہے کہ کسی نے قدس پر، اتنا جامع ومکمل تحریری سرمایہ چھوڑا ہو، وہ سرزمین مقدس کے جغرافیے کو بیان کرتے ہیں، تو اس کی واقعی حدود کی نشاند ہی میں، تعمق وتدقیق کی تعبیرات کو پھیکا کردیتے ہیں، اس کے مادی وسائل کو کھولتے ہیں، تو وہ قدرتی چشموں وذخائر میں رشکِ عالم نظر آتی ہے، تاریخی اوراق الٹتے ہیں تو بہت دور نکل جاتے ہیں، ظلم کی تازہ داستان چھیڑتے ہیں ،تو کلیم عاجز کے اشعار، شرم سار نظر آتے ہیں، ان کے تحریریں، ۱۹۴۷ء، ۱۹۹۶ء، ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۴ء کے قتل عام کی مستند ومفصل دستاویز ہیں۔

             فلسطین میں مغربی ڈرامے کو، انھوں نے سبق اور درس کی طرح پڑھاتھا، وہ متون کی لکیروں کے فقیر نہیں تھے؛ بل کہ حواشی اور بین السطور کے محرم تھے، مذاکرات کی خوب صورت میزیں، شرم الشیخ کی دل ربا ئیاں ، کیمپ ڈیوڈ کے اعزازات، ان کی نگاہ ِحق بیں میں، کبھی وقعت نہیں پاسکے، فتح اور حماس کی جدا گانہ راہوں میں سے، ایک کاانتخاب ،ان کے لیے کبھی مسئلہ نہیں بنا، ۲۰۰۶ئمیں حماس کی انتخابی فتح کا جشن منانے والوں میں، آپ کا قلم حق پرست پیش پیش تھا، وہ اس اصول کے ترجمان تھے کہ جو حق بہ زور بازو غصب ہوا ہے، اس کی واپسی قوت بازو کے بغیر ممکن نہیں، راہِ پُر خطر کے سوا، تمام راہیں کھڈوں میں گراتی ہیں اور ان کھڈوں کو دلدل میں تبدیل بھی کرتی ہیں۔

 خاتمہ

            ”مہلت ِکم“-جس کو ہم نے عمر کا نام دیا ہے- کی نیرنگی ملاحظہ ہو کہ باغِ قدس کی ویرانی کا تاریخ ساز نوحہ خواں اور اس کی باز یابی کی تحریک کا سب سے بڑا نواسرا؛ جب عمر عزیز کے آخری سانس لے رہا تھا، تو اس مقدس سرزمین پر ،ایک نئی صبح طلوع ہونے والی تھی، جس کو دیکھنے کے لیے ان کی انمول زندگی نے، خواب سجائے تھے اورعمربھرآہ ِسحر گاہی کو آباد کیا تھا، حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کی وفات ۳/مئی کو ہوئی؛جب کہ فلسطین کی حالیہ رزم کا دورانیہ، ۱۰/مئی سے، ۲۱/مئی کے درمیان ہے؛ گویا رب کائنات نے، ان کی نوائے زیست کو، شرف قبولیت سے نوازنے کے لیے اپنے پاس بلایا؛ اہل ِنظر کا تجزیہ یہی ہے کہ غزہ کی مذکورہ، مزاحمت و ثابت قدمی میں، آیندہ کل کی مکمل فتح بھی جھانک رہی ہے۔

            القصہ !حضرت والااب ہمارے درمیان نہیں رہے؛ لیکن ان کے نقوش ِسینہ وسفینہ، ہمیشہ درخشاں وتابندہ رہیں گے، وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوئے ہیں؛ لیکن ہمارے احساس میں، ان کا سراپا، زندہ وروشن رہے گا:

 ادائے خاص سے غالب# ہوا ہے نکتہ سرا

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

            یہ سطور ِپراگندہ، سوانح کی تعبیر سے فرو تر ہیں، ان کو تاثرات سے زائد سمجھنا بے محل ہوگا؛ میرے لیے یہی تصور، اثاثہ ہے کہ ان مشاہدات کی ترتیب نے، حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کی یادوں میں، کچھ وقت گزارنے کا بہانہ فراہم کیا۔

            الله تعالی حضرت علیہ الرحمہ کی باقیات کو بہترین صدقہٴ جاریہ بنائے، آپ کوجنت الفردوس کے مکینوں میں شامل فرمائے، قرب ِخاص عطا فرمائے، انبیاء کرام، صدقین، صالحین ، شہدا اور جملہ خدام دین کے مابین سرخ رو فرمائے، آمین، وصلی الله تعالی، وسلم، علی خیر خلقہ، محمد وعلی آلہ، وصحبہ أجمعین۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :6-7،    جلد:105‏،  شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق   جون-جولائی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts