حضرت مولانا نورعالم خلیل امینیؒ
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ
دارالعلوم دیوبند کے موٴقر استاد، اس کے عربی ترجمان الداعی کے باوقار مدیر، دسیوں کتابوں کے مصنف، موٴلف، مرتب، اور مترجم، قصر علم و ادب کے آفتاب و ماہتاب، خوش مزاج، خوش وضع، خوش کردار، عالم اسلام کی زبوں حالی پر اشک بار، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی ابو اسامہ نور (ولادت ۱۸/دسمبر ۱۹۵۲ئمطابق یکم ربیع الآخر ۱۳۷۲ھ)بن حافظ خلیل احمد (مارچ ۱۹۵۳ء )بن رشید احمد بن محمد فاضل بن کرامت علی صدیقی کا ۲۰/رمضان ۱۴۴۲ھ مطابق ۳/مئی ۲۰۲۱ء ایک بجے رات میرٹھ کے آننداسپتال میں انتقال ہوگیا انا للہ و انا الیہ راجعون، جنازہ دیوبند لایا گیا، احاطہ مولسری میں بعد نما ز ظہرمولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور مزار قاسمی میں جہاں اولیاء کرام، صلحاء عظام اور اساتذہ دارالعلوم کی ایک بڑی تعداد مدفون ہے، جگہ پائی،رمضان کا مہینہ، وبائی مرض میں موت کو مغفرت اور بخشش کے پروانے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے پس ماندگان میں تین لڑکے، چار لڑکیاں اور ایک اہلیہ کو چھوڑا۔سدا رہے نام اللہ کا۔
حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی کا آبائی وطن رائے پور موجودہ ضلع سیتامڑھی ہے؛ لیکن آپ کی ولادت آپ کے نانا بابو جان بن محمدنتھو بن محمد یار علی صدیقی کے گھر ہرپور بیشی ضلع مظفرپور میں ہوئی، یہ جگہ اورا کے قریب ہے، شمالی بہار میں ماضی قریب تک یہ روایت رہی ہے کہ خاص کر پہلے بچے کی ولادت کے موقع پر لڑکی کو میکے بلا لیا جاتاتھا؛ چنانچہ مولانا کی والدہ سلیمہ خاتون کو بھی میکے بلا لیا گیا تھا، ولادت کے صرف تین ماہ کے بعد مارچ ۱۹۵۳ء میں والد اللہ کو پیارے ہوگئے، دادا پردادا کی زندگی ہی میں گذر گئے تھے؛ اس لیے والد محجوب تھے جس کی وجہ سے زمین جائداد بھی نہیں ملی، یتیمی اور بے سروسامانی میں دادی مقیمہ خاتون نے مدت رضاعت کے بعد پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، والدہ صرف انیس سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں، اس لیے ان کی دوسری شادی مولانا کے چچیرے ماموں محی الدین بن محمد نتھو سے ہوگئی؛ لیکن وہ بھی ۱۹۶۷ء میں داغ مفارقت دے گئے اور چونتیس سال کی عمر میں مولانا کی والدہ کودوبار ہ بیوگی کے صدمہ نے نڈھال کردیا، اسی غمناک ماحول میں مولانا کی پرورش و پرداخت ہوتی رہی۔
رسم بسم اللہ مولانا کے نانا بابو جان نے ادا کی، پھر مولوی ابراہیم عرف مولوی ٹھگن کے سامنے رائے پور میں زانوئے تلمذ تہہ کیا، رائے پور کے بعد مدرسہ نورالہدی پوکھریرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں داخل ہوئے، وہاں سے ۱۳۸۰ھ مطابق جون ۱۹۶۰ء میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ چلے آئے، درجہ حفظ میں داخلہ لیا؛لیکن سات پارے حفظ کرنے کے بعد درجہ ششم اردو میں منتقل ہو گئے، یہ ۱۹۶۱ء کا سال تھا، کم و بیش تین سال یہاں قیام پذیر رہے اور مولانا محمد اویس صاحب رائے پوری اور مولانا محمد تسلیم صاحب سیدھولوی کی تربیت میں رہے، یہیں حضرت مولانا ہارون الرشید جمال پوری (سابق پرنسپل مدرسہ رحمانیہ سوپول، دربھنگہ) سے معلّم القرآن وغیرہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد دارالعلوم مئوکا رخ کیا، ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۹۶۴ء میں یہاں عربی اول میں داخلہ ہوا، مولانا ریاست علی بحری آبادی، مولانا امین صاحب ادروی عرف دادا، مولانا شیخ محمد مئوی ، مولانا نذیر احمد مئوی (م۲۰۲۰ء )مولانا نیاز احمد جہان آبادی، مولانا سلطان احمد مئو ی،مولانا ریاض الحق مئوی، مولانا عبدالحق اعظمی، قاری محمد یٰسین اور مولانا محمد اسلام الدین مئوی سے کسب فیض کیا، ۱۶/شوال ۱۳۸۷ھ مطابق ۲۰/دسمبر ۱۹۶۷ء کو آپ کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہوگیا،یہاں خاص طور سے عربی زبان وادب کی تعلیم مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانوی سے پائی اور مہارت تامہ پیدا کی، یہاں کے دیگر اساتذہ میں حضرت مولانا معراج الحق، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا نصیر احمد خاں، مولانا فخر الحسن مرادآبادی، مولانا شریف الحسن، مولانا قمرالدین، مولانا خورشید احمد، مولانا حامد میاں اور مولانا بہاء الحسن صاحبان کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ابھی فراغت نہیں ہوئی تھی کہ دارالعلوم کے طلبہ نے بعض معاملات کو لے کر اسٹرائک کردیا، کئی نامور طلبہ کے ساتھ مولانا کا نام بھی اس سے جڑ گیا، اور اس پاداش میں جن طلبہ کا اخراج ہوا، ان میں ایک نام مولانا مرحوم کا بھی تھا، یہ بڑا جاں گسل موقع تھا، ایسے میں حضرت مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی، مفتی دارالعلوم دیوبند نے دست گیری فرمائی اور مولانا سید محمد میاں صاحب کے پاس لے گئے اور انھوں نے اس ہونہار طالب علم کو ضائع ہونے سے بچا لیا پھر مولانا مدرسہ امینیہ دہلی میں داخل ہوئے اور یہیں سے سند فراغت حاص فرمائی، اس پریشان کن وقت میں مدرسہ امینیہ نے دست تعاون دراز کیا اور سنبھالا تھا؛ اس لیے مولانا نے اعتراف کے طور پر اپنے نسبی باپ کے نام کے ساتھ اس روحانی باپ کے نام کو بھی اپنے نام کا جز بنا لیا اور”امینی“ لکھنے لگے۔
تدریسی زندگی کا آغاز دارالعلوم ندوة العلماء سے کیا، ۱۹۷۲ء سے بقول مولا عبدالمتین منیری بھٹکلی۱۹۷۷ء تک یہاں تدریس کے فرائض انجام دیے، یہاں کا ماحول مولانا کی عربی زبان دانی اور حاصل شدہ مہارت کو صیقل کرنے کے لیے انتہائی خوش گوار تھا، حضرت مولانا علی میاں ندویاور مولانا محمد ثانی حسنی ندوی کی نگارشات کا مولانا نے مطالعہ ڈوب کر کیا، وہاں سے نکلنے والے عربی اخبارات ورسائل اور خود حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی کی ادارت میں نکلنے والے جمعیت علماء کے ترجمان ”الکفاح“ سے عربی صحافت کے اسرار و رموز سیکھے اور واقفیت بہم پہنچائی، انھوں نے عربی کے قدیم وجدید ادباء کی کتابیں کھنگال ڈالیں،جاحظ کے اسلوب وتعبیرات سے وہ بہت متأثر ہوئے؛ چنانچہ ان کی عربی تحریروں میں یہ رنگ غالب آگیا۔بقول مولانا منیری ندوة العلماء کے بعد مولانا مدرسہ کاشف العلوم اورنگ آباد چلے گئے اور ۱۹۸۲ء تک وہیں خدمت انجام دیتے رہے۔
۱۹۸۳ء میں دارالعلوم دیوبند میں انقلاب آیا، اہتمام و انتظام بدلا، الداعی کے ایڈیٹر مولانا بدر الحسن قاسمی دارالعلوم اور الداعی سے قطع تعلق کرکے کچھ دن برزخی زندگی گذار کرکویت تشریف لے گئے، ایسے میں مولانا وحیدالزماں کیرانوی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے ضرورت محسوس کی کہ مولانا کوالداعی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے دارالعلوم بلا لیا جائے؛ چنانچہ مولانا نے اپنی علمی عبقریت و عظمت کی وجہ سے مادر علمی میں اپنی جگہ بنا لی اور الداعی کی ایڈیٹر کی حیثیت سے دارالعلوم چلے آئے، یہاں بحال ہونے کے بعد مولانا تدریب کے لیے سعودی عرب تشریف لے گئے اور کئی ماہ وہاں مقیم رہے، اس دوران میرا قیام دارالعلوم دیوبند میں تھا اور دارالافتاء میں بحیثیت طالب علم داخل تھا، مولانا وحیدالزماں کیرانوی سے قربت بھی تھی، اس لیے مولانا کے غائبانہ میں الداعی کا کام میرے درسی ساتھی مولانا عتیق اللہ قاسمی سہرساوی دیکھنے لگے اور نظر نہائی کا کام حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی خود کیا کرتے تھے، مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کی واپسی کے بعد مولانا عتیق اللہ قاسمی صاحب شیخ الہند اکیڈمی منتقل ہوگئے اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی زیر نگرانی ”الدراسات العلیا“ کے نام سے عربی رسالہ نکالنے لگے، بعد میں مولانا عتیق اللہ قاسمی کی خدمت امارت شرعیہ کو حاصل ہوگئی اور چندسال کے بعد عارضہ قلب میں پٹنہ میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
مولانا تدریب سے لوٹنے کے بعد الداعی کے ساتھ دارالعلوم میں بحیثیت مدرس بھی خدمت انجام دینے لگے اور عربی زبان وادب خصوصاً تکمیلِ ادب کے اسباق ان سے متعلق ہوگئے، مولانا نے پوری دلجمعی کے ساتھ دونوں کام کو سنبھالا اور عالم عرب کے لیے علماء دیوبند کی کتابوں کو ترجمہ کرکے شائع کیا، علماء دیوبند کے افکار و خیالات کی ترویج و اشاعت کے لیے اداریئے اور مضامین لکھے، بعض اہم موضوع پر عربی میں کتابیں تصنیف کیں، فلسطین کے مسائل پر توجہ مبذول کرانے کے لیے ”فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں“ لکھ کر اسے شائع کرایا، یہ کتاب عربی و اردو دونوں میں شائع ہوئی، کتاب کے افکار و خیالات کی روشنی میں آسام یونیورسٹی سے اس پر اسکالر نے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
مولانا عربی صحافی اور ادیب کی حیثیت سے عالم عرب تک متعارف ہوئے اور ہندوستان والوں نے بھی ان کی عربی نثر کو اعلیٰ ادبی نمونہ قرار دیا۔
اس وقت مولانا کی اردو ادیب کی حیثیت سے کوئی چیز نہیں آئی تھی؛ اس لیے اردو کے ادباء اور فقہ و حدیث کے ماہرین کا حلقہ بقول ان کے ”اِن کو عربی آوے ہے“ سے ہی جانتا تھا؛لیکن مولانا وحیدالزماں کیرانوی کے انتقال کے بعد ان کی پہلی اردو کتاب ”وہ کوہ کن کی بات“ آئی، مولانا سے عقیدت و محبت، حق شاگردی اور جدائی کے غم نے اردو ادب میں ایسی کتاب ان سے تصنیف کروادی جو سوانحی ادب کا بہترین مرقع بن گئی، جس کو دل کی آنکھوں سے پڑھاگیا، واقعات و خیالات، جذبات و احساسات کی اتنی صحیح عکاسی کسی دوسری کتاب میں دیکھنے کو نہیں ملی، حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی نے اس کتاب کے اسلوب اور حقیقت بیانی سے متأثر ہوکر فرمایا کہ اگر نور عالم جیسا شاگرد ہوتو مرجانے میں ہی فائدہ ہے۔
اس کے بعد مولانا نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا، حرف شیریں، پس مرگ زندہ ، رفتگان نا رفتہ، فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، صحابہ رسول اسلام کی نظر میں، کیا اسلام پسپا ہورہاہے، عالم اسلام کے خلاف صلیبی اور صہیونی جنگ۔حقائق و دلائل، خط رقعہ کیسے لکھیں جیسی اہم کتابیں دنیائے علم و ادب کو دیں، ان کتابوں میں تاریخ بھی ہے، ادب بھی ہے، خاکے بھی ہیں، عالم اسلام کا درد و کرب بھی ہے، اسلام کی حقانیت کو عصری زبان میں ثابت کرنے کی لائقِ تحسین کوشش بھی ہے، سب کتابوں میں اعلیٰ ادبی تعبیرات اور پرکشش جملے دامن دل کو کھینچتے ہیں اور آدمی اس کے مطالعہ پر خود کو مجبور پاتا ہے، کہنا چاہیے کہ مولانا نے تاریخی ذوق مولانا سیدمحمد میاں صاحب سے حاصل کیا تھا اور ادبی ذوق نیز نستعلیقی رہن سہن کا طریقہ مولانا وحیدالزماں کیرانوی سے سیکھا تھا، عربی تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھی، اس زبان میں ان کی تصنیفات کی تعداد سات بتائی جاتی ہے؛جب کہ انہوں نے پچیس کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کیا، جن میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مفتی محمد تقی عثمانی، قاری محمد طیب ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا منظور احمد نعمانی، مولانااشرف علی تھانوی، مولانا سعید الرحمن اعظمی، ڈاکٹر خورشید احمد صاحبان وغیرہ کی تصانیف شامل ہیں، ان کے علاوہ بر صغیر ہندوپاک کے رسائل اور عالم عرب کے عربی مجلات میں پانچ سو سے زائد علمی و ادبی مقالے شائع ہوکر مقبول ہو چکے ہیں۔مولانا کی عربی زبان وادب کی خدمات کا حکومتی سطح پر اعتراف کیا گیا؛چنانچہ ۲۰۱۸ء میں موجودہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کوند نے ”صدارتی توصیفی سند“ سے نوازا۔
مولانا سے میرے تعلقات کی نوعیت استاذی و شاگردی کی نہیں تھی؛ اس لیے ان کی درسی خصوصیات پر میرے لیے کچھ لکھنا ممکن نہیں ہے، وہ جب دارالعلوم تشریف لائے تو میں افتاء میں تھا اور افتاء کی تکمیل کے بعد میں وطن واپس ہوگیا، مولانا سے فون پر رابطہ رہا،بیش تر کسی کام سے ان کا ہی فون آتا، میں ایسے ہی فون کرنے میں کوتاہ واقع ہوا ہوں، حضرت امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی فرمایا کرتے تھے کہ آپ تو پہلے استخارہ کریں گے، پھر دورکعت نماز پڑھیں گے تب مجھ کو فون کرنے کی سوچیں گے؛ ایسا ہی کچھ مولانا سے رابطہ میں ہوا کرتا تھا؛لیکن مولانا نہیں بھولتے تھے، میرے مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد کہیں کوئی تاریخی سقم سمجھ میں آتا تو فوراً فون کرتے، حوصلہ افزائی فرماتے پھر اس غلطی کی نشان دہی کرتے، میں جب کبھی دیوبند جاتا تو ملاقات کا وقت دیتے، ناشتہ کراتے، اندازہ ہوتا کہ یہ وقت بھی انہوں نے میری دل جوئی کے لیے نکالا ہے، ورنہ ان کے نظام الاوقات میں ملنے ملانے کی گنجائش کم ہی ہوتی تھی۔مولانا سے میری آخری ملاقات امارت شرعیہ پٹنہ میں ہوئی تھی، وہ وفاق المدارس الاسلامیہ کے تدریب المعلمین کے پروگرام میں میری دعوت پر تشریف لائے تھے،یہ تین روزہ پروگرام تھا اور المعھد العالی کے ہال میں منعقد ہوا تھا، مولانا نے عربی درس و تدریس اور انشاء کے حوالہ سے کئی محاضرے دئیے،پہلا محاضرہ ان کا ”استحضار نیت“ پر تھا، پھر ”عربی بولنے لکھنے کے طریقے“ پر بھی روشنی ڈالی، فرمایا: اگر عربی اور اردو میں مضمون لکھنا چاہتے ہوتو ڈائری پابندی سے لکھو،اور اس کے لکھنے کا طریقہ مولوی ثناء الہدیٰ سے سیکھو، میں نے ”وہ کوہ کن کی بات“ میں ان کی ڈائری سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کے دوسرے ایڈیشن میں بہت کچھ ان کے مضمون کیمپ ڈائری کے چند اوراق سے حوالہ کے ساتھ نقل کیا ہے، مولانا کا اتنا کہہ دینا میرے لیے باعثِ سعادت بھی ہے اور سند بھی۔مولانا نے اس موقع پر جو محاضرے دئیے، اسے کیسٹ سے نقل کراکر میں نے ان کی خدمت میں نظر ثانی کے لیے بھیجا تھا؛ مگر مولانا اس کے لیے وقت نہیں نکال سکے مجبوراً میں نے تقریر کو اسلوب تحریر دے کراپنی کتاب ”مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس“میں شامل کردیا تھا، جو مطبوعہ شکل میں موجود ہے، یہ آخری ملاقات تھی جو آمنے سامنے مولانا سے ہوئی، اس کے بعد پھر کوئی ملاقات یاد نہیں؛ حالانکہ ابھی کوئی چار ماہ قبل وہ بہار آئے تھے جو ان کا آخری سفربن گیا ۔
میرا فون پر آخری بار رابطہ ان سے ۲۰۱۹ء میں ہوا تھا، ان کی لڑکی کا رشتہ چکنوٹہ ویشالی کے ایک خاندان میں لگا تھا، وہ لوگ مقیم تو دہلی میں تھے؛لیکن رہنے والے ویشالی کے تھے، مولانا نے بغرض تحقیق مجھے فون کیا، اور فرمایاکہ جب بھی آپ کو فون کرتا ہوں، کوئی نہ کوئی غرض اپنی شامل ہوجاتی ہے، پھر انہوں نے میرے ذمہ تحقیق کا کام کیا، میں نے تحقیق کے بعد حضرت کو خبر دی؛چنانچہ یہ رشتہ پایہٴ تکمیل کو پہونچا، مولانا نے اس کے لیے شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ جب بھی ادھر آیا ، آپ کے گھر ضرورآؤں گا، مولانا کا ادھر کا سفر نہیں ہوا، محرومی میرا مقدر ر ہی اور مولانا نے رخت سفر باندھ لیا، اب ملاقات قیامت ہی میں ممکن ہے، اللہ مولانا مرحوم کو بہتر بدلہ عطا فرمائے!سیئات سے درگذر فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے!جہاں تک جدائی کے صدمہ کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
—————————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :6-7، جلد:105، شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق جون-جولائی 2021ء
٭ ٭ ٭