از: مولانا نایاب حسن قاسمی
آہ! یہ انسانیت خور وبا ہمیں کیا کیا دن دکھائے گی اور کیسے کیسے لعل و گہر ہم سے چھینتی رہے گی۔ یوں تو ان دنوں کسی لڑی سے چھٹکے ہوئے موتیوں کی طرح ہر آن انسانی سانسیں ٹوٹتی بکھرتی اور اس عالمِ ہست و بود سے دور چھٹکتی جارہی ہیں،مگر استاذ محترم مولانا نور عالم خلیل امینی کی رحلت کا سانحہ نہایت ہی جگر خراش اور دل کو چھلنی کرنے والا ہے۔ کیسی زندہ دل شخصیت تھی اور کیسی رفعتوں کا حامل انسان۔ شایستگی ان کا خاصہ تھی اور شگفتگی ان کی فطرتِ ثانیہ۔ جیسی آبدار تحریریں لکھتے، ویسی ہی شاندار گفتگو کرتے،وہ حقیقی معنوں میں یکہ تاز ادیب تھے اور دل و دماغ میں سحر پھونکنے والے گفتگو طراز۔ مولانا سے جب بھی بات ہوتی ذہن شاداب ہوجاتا اور علم و نظر کے قیمتی موتی ہاتھ آتے۔ ابھی مولانا کئی اہم علمی و ادبی منصوبوں پر کام کررہے تھے،ان کا ایسے چلا جانا ان کے اہلِ خانہ و پسماندگان کے لیے ہی نہیں،دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے شاگردوں،ان کے مستفیدین و متعلقین اور پورے جہانِ علم و ادب کے لیے ایک جاں کاہ حادثہ ہے۔ دوسرے ہزاروں لوگوں کی طرح وہ میرے بھی استاذ تھے،ان سے کتابی علم حاصل کرنے کے علاوہ ان کی بافیض اور پر مغز باتوں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ابھی دکھ توایسا ہے کہ دل آنکھ سے کٹ کٹ کے بہے اور ذہن شدید اضطراب و انتشار سے دوچار ہے؛مگر یادوں کو سمیٹنا بھی ضروری ہے،مولانا سے وابستہ وہ یادیں، جوبڑی پر لطف ہیں اور اب ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا، سو کچھ غیر مرتب سطریں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
مولانا کا نام بچپن سے ہی سنا ہوا اور جانا پہچانا تھا،کہ ابتدائی عربی سکھانے والی ان کی کتاب ”مفتاح العربیہ“(دوجلدیں)پڑھ رکھی تھی اور ”خاصی محنت“ سے پڑھی تھی؛البتہ ان سے پہلی ملاقات ۲۰۰۸/میں ہوئی، تب میں دارالعلوم دیوبند میں نیا نیا داخل ہوا تھا۔ دارالعلوم بالاساتھ (سیتامڑھی) میں ہمارے استاذ گرامی مولانا قاضی محمد عمران قاسمی دیوبند تشریف لائے ہوئے تھے،وہ مولانا کے قدیم شناسا اور رشتے دار ہیں،انھوں نے کہا کہ چلو حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے ملواکر تعارف کروادیتا ہوں،آیندہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے رہنا اور استفادہ کرنا۔ عصر کے بعد ان کی معیت میں ملاقات اور تعارف کے بعد کچھ رسمی گفتگو ہوئی ، دیوبند میں نووارد تھا اور ابھی اساتذہ تو دور،اپنے ساتھی طلبہ سے بھی مانوس نہیں تھا،سوانھوں نے جو کچھ پوچھا، اس کا جواب دیا اور بقیہ وقت خاموش ہی رہا،بس قاضی صاحب گفتگو کرتے رہے۔ باضابطہ تعارف اور افادہ و استفادہ کا سلسلہ ۲۰۱۰ء میں شروع ہوا جب ہم تکمیلِ ادبِ عربی کی کلاس میں داخل ہوئے ۔ درس گاہ میں کسبِ فیض کے ساتھ کبھی کبھی مولانا کے دولت کدے پر بھی جایا کرتے اور ان کی علمی و ادبی گفتگو سے مستفید ہوتے۔ میں خاص طورپر ان کی باتیں بڑی دلچسپی سے سنتا تھا،مختلف حالات وواقعات اور شخصیات پر ان کی رائیں اور تبصرے بڑے چست اور پر لطف ہوتے، معلومات میں اضافہ ہوتا سو الگ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی بڑی اور اہم شخصیات کو دیکھا اور برتا تھا،سو ان کے تعلق سے ان کے خیالات میں قطعیت و ایقان ہوتا اور ان کی باتوں سے متعلقہ شخصیات کی زندگی و کردار کی کئی پرتیں کھل کر سامنے آجاتیں۔ درس گاہ میں بعض طلبہ کے منفرد قسم کے ناموں پر چٹکی لیتے اور وقتاً فوقتاً چھیڑ چھاڑ رہتی،خود سبق کے پہلے دن دیگر کئی رفقا کے ساتھ میں بھی ان کے رڈار پر آگیا تھا،حاضری لیتے ہوئے مولانا نے میرا نام پکارا اور کہا”نایاب حُسن“،سن کر ساری درس گاہ قہقہہ بار ہوگئی اور میں عجیب و غریب سہمی ہوئی شکل بنائے کھڑا رہا،پھر کہنے لگے تمھارا یہ نام کس نے رکھا ہے؟حُسن بھی کہیں نایاب ہوتا ہے؟ انھیں پتا تھا کہ نام کا حصہ ”حُسن“ نہیں،”حَسَن“ ہے،مگر ان کا طلبہ کو خود سے مانوس و بے تکلف بنانے کا اپنا سٹائل تھا۔ کوئی طالب علم موٹا ہوتا،تو کہتے کہ یہ یہاں سے نکل کر مہتمم بنے گا اور ہم سب ان کی اس قسم کی برجستہ گوئیوں سے لطف اندوز ہوتے۔ جب سبق پڑھانا شروع کرتے تو ان کا انہماک دیدنی ہوتا،کتاب میں ڈوب جاتے،مزے لے لے کر پڑھاتے اور جھوم جھوم کر درس دیتے، مختصر اور طویل جملوں کے ترجمہ و تفہیم کے دوران ان کے دسیوں مواقعِ استعمال کی نشان دہی کرتے،عربی تراکیب و تعبیرات کے نئی پرانی شکلوں سے آگاہی بخشتے، عربی الفاظ ،افعال و مشتقات کی اصل ہی نہیں،ان کی روح تک سے آشنا تھے اور دورانِ درس اپنی تمام تر ادبی،لسانی و تدریسی مہارت و معلومات طلبہ تک منتقل کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کے سبق سے اٹھنے کے بعد ہر دن یوں محسوس ہوتا کہ بہت کچھ نیا سیکھنے اور جاننے کو ملا۔ آج ان سے اکتسابِ فیض کرنے والے سیکڑوں زبان و ادب کے شناور ہیں،جو نامورانِ عصر میں شمار ہوتے اور اس یگانہٴ عصر استاذ کی تعلیم و تربیت کے خوب صورت نتائج کے طورپر اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔
سال بھر ضابطے کی شاگردی کے بعد بھی طویل و مختصر زمانی وقفوں کے ساتھ مولانا کے خوانِ علم و ادب سے خوشہ چینی کا سلسلہ جاری رہا۔ ۲۰۱۸ء میں مولانا کے لیے عربی زبان و ادب میں خدمات کے عوض صدارتی ایوارڈ کا اعلان کیا گیا،اس موقعے سے میں نے مولانا کو فون کرکے مبارکباد پیش کی، ایک مضمون بھی لکھا جس میں مولانا کی ادبی خدمات و امتیازات پر روشنی ڈالی۔ مولانا نے دعائیں دیں اور کہا کہ میرا اصل ایوارڈ تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے شاگرد اور کتابیں ہیں،جنھیں لوگ پڑھتے اور دعائیں دیتے ہیں۔ ۲۰۱۹ئمیں دیوبند گیا تو وقت لے کر عصر کے بعد ملاقات کی،عصر اور مغرب کے درمیان کا وقفہ بہت کم تھا،سو کچھ خاص بات چیت نہیں ہوپائی،تو مغرب کے بعد مولانا نے فون کیا اور کافی دیر تک باتیں کرتے اور معذرت کا اظہار کرتے رہے ،کہا کہ میں تم سے مزید گفتگو کرنا چاہتا تھا؛مگر میری مصروفیات ایسی رہتی ہیں کہ بعض دفعہ بہت عزیز وں کو بھی وقت نہیں دے پاتا۔ دراصل مولانا پابندی اوقات اور ٹائم مینجمنٹ کے معاملے میں حد درجہ محتاط تھے،اس سلسلے میں وہ کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے اپنی نصف صدی کی عملی زندگی کے دوران زبان و ادب اور علم و فکر کے شعبے میں جو قابلِ قدر خدمات انجام دیں،اس کی اہم وجہ یہی تھی کہ وہ وقت کے بے پناہ قدر شناس تھے،اسی وجہ سے وہ بہت ہی کم آمیز واقع ہوئے تھے،بلا وجہ رابطے بڑھانے اور تعلقات گانٹھنے سے انھیں سخت چڑ تھی،علما عام طورپر جلسوں اور مجمعوں کے شائق ہوتے ہیں؛مگر مولانا دوسری ہی ڈھب کے انسان تھے،انھیں بھیڑ بھاڑ میں وحشت ہوتی تھی اور گوشہ نشینی میں عافیت محسوس کرتے تھے۔ پورے سال وہ شاید ہی ایک آدھ پروگرام میں کہیں جاتے ،وہ بھی اگر ان کے ذوق و مزاج کا ہوتا تب،ورنہ بڑی سے بڑی شخصیت یا ادارے کی طرف سے آنے والی دعوت پر بھی خوش اسلوبی سے معذرت کر لیتے۔ انھیں موجودہ دور کے علما سے کئی شکایتیں تھیں،جن میں سے ایک ضیاعِ وقت سے متعلق بھی تھی اور بالکل درست تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان کی زیادہ تر ناکامیوں کی وجہ تضییعِ اوقات اور زندگی کی ناقدری ہے؛اس لیے وہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ ناپ تول کر خرچ کرتے اور اسے زیادہ سے زیادہ تصنیف و تالیف، مطالعہ و تفکر اور درس و تدریس میں صرف کرتے،کسی پر بے وجہ تھوڑا سا وقت خرچ کرنا بھی ان کی طبیعت کو نہایت گراں گزرتا تھا۔
میں نے اپنے مضامین کا پہلا مجموعہ ”عکس و نقش“ جب انھیں بھجوایا،تو دیکھنے کے بعد فون کرکے فرمایا کہ ماشاء اللہ!تمھاری تحریر میں بڑی پختگی آگئی ہے۔ مولانا کا معیارِ رد و قبول بڑے سخت اصولوں پر مبنی تھا؛اس لیے ان کے حوصلہ افزا کلمات سن کر دل بے پناہ مسرور ہوا۔ پھر اکثر ایسا ہوتا کہ میری کوئی تحریرمولانا کی نظروں سے گزرتی ،تو فون کرکے حوصلہ افزائی کرتے، خوب دعائیں دیتے،ان کی وہ دعائیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ معیاری علمی و ادبی کام کرنے کے لیے ذہنی یکسوئی،وقت کی قدر شناسی،کثرتِ مطالعہ اور اپنے علم میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے کو از حد ضروری سمجھتے تھے۔ ذہنی یکسوئی کے لیے وہ ہر قسم کی فارغ البالی کو اہم قرار دیتے تھے؛اس لیے ہمیشہ وہ دینی و دنیاوی سکون و سعادت کی دعائیں دیتے اور توکل علی اللہ کے ساتھ ان کی طلب و جستجو کے لیے بھی مہمیز کرتے رہتے۔
شوگر کا عارضہ مولانا کو عرصہٴ دراز سے لاحق تھا اور کبھی کبھی اس کی شدت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی،اس کا اثر پاؤں پر زیادہ تھا؛اس لیے چلنے میں بھی قدرے پریشانی ہوتی،ادھر چند سالوں سے عصا لے کر چلنے لگے تھے، دوسری قسم کی علالتوں سے بھی دوچار رہتے؛مگر اس کے باوجود ان کے معمولاتِ تدریس و تحریر اور دیگر ذمے داریوں کی بروقت اور کماحقہ ادائیگی میں کوئی کمی نہ آنے پاتی۔ دارالعلوم دیوبند سے وابستگی کے فوراً بعد درس و تدریس کے علاوہ انھیں وہاں سے شائع ہونے والے عربی رسالہ ”الداعی“ کا مدیر بھی بنایا گیا،جو پہلے پندرہ روزہ تھا،پھر ماہنامہ ہوگیا ۔ ابتدائًا مولانا اکیلے اس رسالے کی ادارت سے لے کر طباعت و ترسیل تک کا کام کرتے اور اس مقصد سے ہر مہینے پندرہ دن کے وقفے سے دیوبند سے دہلی کا سفر کرتے،بعد میں کچھ آسانیاں میسر آئیں،”الداعی“ کے لیے باضابطہ دفتر اور عملہ مختص کیا گیا اور ان کے ذمے صرف ادارتی امور رہ گئے؛مگر دونوں زمانوں میں انھوں نے رسالے کی اشاعت میں کبھی تاخیر کو گوارہ نہیں کیا، مدارس کے حلقے سے شائع ہونے والا غالباً یہ واحد ایسا عربی رسالہ تھا،جو ہر ماہ بروقت شائع ہوتا تھا،کبھی کبھی دو ماہ کے شمارے ایک ساتھ تو شائع ہوئے؛مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس ماہ کا اگلے ماہ میں اور اگلے کا اس سے اگلے ماہ میں شائع ہوا ہو،جیسا کہ عام طورپر رسائل و جرائد کے ساتھ ایسا ہوتا ہے،اس پابندی کے ساتھ رسالے کے عالمی معیار کو مینٹین کرنے کا بھی حد درجہ اہتمام کرتے۔ یہی حال مولانا کی کلاس کا بھی تھا،بالکل وقت پر پہنچتے اور وقت پر ہی اپنا سبق ختم کرتے،ایسے طلبہ کو کلاس میں گھسنے نہ دیتے جو ان کی آمد کے بعد آتے،حالاں کہ ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ ان کی کلاس میں طلبہ ان کی آمد کے بعد پہنچیں،زیادہ تر تو ایسا ہوتا کہ ان کی گل افشانیِ گفتار سے مستفیض ہونے کے لیے متعلقہ کلاس کے علاوہ دوسری کلاسوں کے ادب شناس طلبہ بھی ان کے پیریڈ میں آجاتے ۔ مولانا ایسے اساتذہ سے بھی سخت کبیدہ خاطر ہوتے جو اپنی دراز نفس تقریر کے چکر میں ان کے گھنٹے کا کچھ حصہ ’مار جاتے‘۔
وہ اپنے عہد کے بے نظیر ادیب تھے اور ایک ادیب کی تمام تر لطافتیں، نفاستیں اور نزاکتیں ان کی ذات میں موجود تھیں،وہ صرف لفظوں کی فسوں کاری اور زبان و بیان کی حسن کاری پر ہی زور نہیں دیتے تھے؛بلکہ ان کا زور اس پر بھی ہوتا تھا کہ انسان کو اخلاق و لباس اور بول چال کے معاملے میں بھی نفیس و نستعلیق ہونا چاہیے، خود ان کی تحریر و تقریر میں ہی نفاست و نزاہت نہ جھلکتی؛بلکہ ان کا سراپا بھی ان کے انفراد و امتیاز کی گواہی دیتا،وہ جس مجلس میں ہوتے، اپنی وجیہ و با وقار شخصیت،علمی و ادبی سربرآوردگی اور لباس و پوشاک کے رکھ رکھاؤ کی وجہ سے سب میں نمایاں نظر آتے۔ بہترین کرتا پاجامہ،عمدہ شیروانی، سلیقے سے اوڑھی گئی کشتی نما(دیوبندی)ٹوپی، خوب صورت فریم اور موٹے شیشے کی عینک اور چمکتے ہوئے جوتے ان کی خوش قامتی کو مزید دیدہ زیب بنادیتے،چلنے کا انداز،دیکھنے کا ڈھنگ اور بات کرنے کا آہنگ؛سب من کو موہ لینے والا ہوتا؛چنانچہ وہ جدھر سے گزرتے،آس پاس کے لوگوں کی نگاہ بے ساختہ ان پر جاٹھہرتی،پھر وہ اس وقت تک انھیں دیکھتے رہتے،جب تک مولانا نظروں سے اوجھل نہ ہوجاتے۔ اپنی اس غیر معمولی نفاستِ ذوق کا وہ بر ملا اظہار و اعلان بھی کرتے اور شاگردوں کو ایسے ہی اطوار اختیار کرنے کی تلقین بھی کرتے،کہ اس طرح زندگی کلفتوں میں بھی لذت بخش ہوجاتی ہے اور ویسے بھی خوش لباسی و خوش فکری ہر باشعور انسان کا زیور ہے۔ اگر کسی بڑے سے بڑے انسان میں بھی انھیں بدویت،بھونڈاپن یا بد مذاقی نظر آتی تو سخت تکلیف کا اظہار کرتے۔ وہ ان کتابوں کو بھی ہاتھ لگانا گوارہ نہ کرتے،جن کی جلد بندی بے ڈھب،کاغذ ہیچ پوچ اور کتابت نگاہوں کو چبھتی ہو،کہا کرتے کہ مولانا! ایسی کتاب دیکھ کر قے ہونے لگتی ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ہر کتاب میں جتنی محنت مواد کو بہتر اور معیاری بنانے پر کرتے تھے، اسی قدر محنت اس کی معیاری طباعت پر بھی کرتے تھے۔
مولانا کی نفاستِ ذوق کے حوالے سے ایک اور واقعہ پردہ ذہن پر ابھر رہا ہے، ایک دن سرِ شام فون آیا،دعا سلام کے بعد کہنے لگے بیٹا!ایک بات معلوم کرنی ہے۔ اردو والے جو انگریزی کے ”انٹرنیشنل“ اور عربی کے ”دولی یا عالمی“ کے اردو متبال کے طورپر”بین الاقوامی“ لفظ استعمال کرتے ہیں،اس کو کیسے لکھتے ہیں؟میں تو عام طورپر الف لام کے ساتھ ہی لکھتا ہوں،مگر تم چوں کہ اردو زبان و ادب کی ”مارکیٹ“ میں ہو؛اس لیے سوچا پوچھ لوں۔ پہلے تو مولانا کے مخصوص طرزِادا اور اندازِ بیان سے لطف اندوز ہوتا رہا،پھر اپنے علم کے مطابق کہا کہ عام طورپر اردو والے ”بین الاقوامی“ ہی لکھتے ہیں،البتہ میں نے مولانا عبدالماجد دریابادی اور ایک آدھ مزید بڑے ادیبوں کی تحریروں میں ”بین اقوامی“ لکھا ہوا دیکھا ہے؛بلکہ مولانا دریابادی اردو میں مستعمل اس قسم کی جملہ ترکیبوں کو بغیر الف لام کے ہی لکھتے تھے،جیسے:”بین مِلّی“،”بین معاشرتی“ وغیرہ۔ کہنے لگے کہ مولانا کی تحریریں تو میں بھی پڑھتا رہا ہوں؛لیکن کبھی اس پر توجہ نہیں دی،گویا اس لفظ کو اردو مزاج میں ڈھالنے کے لیے یوں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ پھر بر سبیل تذکرہ میں نے ”بین الاقوامی“ کے تلفظ کے تعلق سے کہا کہ اردو حلقوں میں جن لوگوں کا عربی پس منظر نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ بین کی نحوی و اعرابی حیثیت کیا ہے، وہ اس لفظ کو”بینُ الاقوامی“بولتے ہیں،یہ سنتے ہی مولانا نے سخت ناگواری کا اظہار کیا اور کہا توبہ، توبہ! یہ تو سخت بدذوقی ؛ بلکہ بیہودگی کی بات ہے۔
مولانا کی شایستگیِ ذوق کا معاملہ نشست و برخاست سے لے کر لباس و پوشاک، اندازِ گفتگو اور تحریر و تصنیف تک یکساں تھا۔ چائے پیتے ہوئے تیز تیز چسکی لینے کو بھی وہ معیوب سمجھتے تھے،وہ بیٹھنے کا سلیقہ بھی سکھاتے تھے اور چلنے کا طریقہ بھی۔ ان کا جمالیاتی ذوق نہایت ہی اعلیٰ و بالا تھا سو وہ ہر عمل میں ترتیب و تنظیم اور جمال آرائی کو ضروری سمجھتے تھے اور بد نظمی ، بے ترتیبی و بدمذاقی سے بے حد ناراض ہوتے،پھر اپنے فصیح و بلیغ انداز میں ایسی ڈانٹ پلاتے کہ سامنے والا تھر تھر کانپنے لگتا۔ اس سلسلے میں وہ اپنے محبوب استاذ،بافیض مربی مولانا وحید الزماں کیرانوی سے خاصے متاثر تھے اور اس حوالے سے اکثر ان کے واقعات سنایا کرتے۔
پچھلے لگ بھگ دوسال سے میں مولانا کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ اپنی خود نوشت لکھنے کا سلسلہ شروع کریں،جب بھی بات ہوتی تو اس کا تذکرہ ضرور کرتا؛بلکہ ایک بار تو یہاں تک کہہ دیا کہ زندگی میں ہی اپنی سوانح لکھ دیں یہ بہتر ہے،ورنہ بعد از مرگ لوگ پتا نہیں کیا کیا جھوٹ سچ لکھ دیتے ہیں،انھیں خود اس کا بخوبی اندازہ تھا؛بلکہ اکثر اس تعلق سے بڑی مزے دار باتیں بتایا کرتے،سو کہنے لگے کہ تمھاری بات بالکل صحیح ہے۔ خود مولانا کسی بھی شخصیت کی توصیف یا تذکرے میں غلو اور افراط و تفریط کو سخت ناپسند کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر صاحبِ علم و فضل انسان کی قدر کرتے اور اس کے تعلق سے وقیع رائے کا اظہار کرتے؛مگر لفظوں کے انتخاب میں نہایت محتاط رہتے،حتی الامکان کوئی لفظ یا لقب ایسا استعمال نہ کرتے جو متعلقہ شخصیت کے قد سے بالا یا فروتر ہو اور اپنے لیے بھی غلو آمیز مدح و ستایش کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ اسی طرح اپنی تحریروں میں درج کی جانے والی معلومات کی صحت کا بھی مولانا حد درجہ اہتمام کرتے تھے،واقعات و حالات کی درست تاریخ،صحیح پس منظر اور حقیقی جزئیات تحریر فرماتے اور دوسروں سے بھی وہ یہی توقع رکھتے تھے۔ جب ۲۰۱۸ئمیں مولانا کو صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا،تو اس مناسبت سے ان کے بہت سے قدیم و جدید شاگردوں نے بہت کچھ لکھا،میں نے بھی ہندوستان میں عربی زبان و ادب کی خدمت اور فروغ میں مولانا کے کردار کو اُجالنے کی کوشش کی۔ بعد میں مجھ سے گفتگو کے دوران مولانا نے فرمایا کہ اور لوگوں نے پتا نہیں کیا کیا لکھ دیا ہے؛مگر تمھاری تحریر بالکل متوازن اور معتدل ہے ، تم نے وہی لکھا ہے،جو حقیقت ہے۔
خیر!خود نوشت لکھنے کے لیے میں مولانا کو اپنی ہر گفتگو میں آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا اور وہ اپنی مصروفیات اور بیماریوں کی وجہ سے معذوری ہی ظاہر کرتے رہے۔ ایک دن میں نے کہا کہ اگر خود لکھنا مشکل ہے تو کسی باصلاحیت شاگرد کو کہہ دیں،وہ روزانہ صبح یا شام ایک مقررہ وقت میں آپ کی خدمت میں آجایا کرے اور آپ اسے اپنا احوالِ زندگی املا کروادیا کریں،اس سلسلے میں، مَیں نے مولانا آزاد اور ان کی کتاب تذکرہ یاد دلائی اور بھی کئی بڑے لوگوں کے بارے میں بتایا کہ وہ تو اپنی پوری کتاب املا کروا دیتے ہیں،کہنے لگے ان سب کے بارے میں جانتا ہوں، تمھارا کہنا درست ہے، مگر کبھی اس طرح لکھنے کی نوبت نہیں آئی؛اس لیے میری طبیعت اس پر آمادہ ہی نہیں ہوتی۔ پھر پتا نہیں کیسے موڈ بنا تو ایک دن مغرب بعد فون کیا،کہا کہ میں نے تمھاری بات پر غور کیا ہے، سوچ رہا ہوں کہ مرتب اندازمیں نہ سہی،غیر مرتب طریقے سے ہی احوالِ حیات لکھنے کا سلسلہ شروع کردوں، کہ زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں،معلوم نہیں کب سانس کی ڈور ٹوٹ جائے۔(پچھلے کچھ عرصے سے مولانا کی ہر گفتگو میں کسی نہ کسی حوالے سے زندگی کی ناپائیداری، موت اور اختتامِ حیات کا ذکر آہی جاتا تھا) پھر فرمایا کہ اردو کی کچھ اچھی خود نوشتوں کے نام بتاؤ جو تمھارے پاس ہوں۔ میں نے بتایا تو آل احمد سرور،کنور مہندر سنگھ بیدی،ادا جعفری اور عابد سہیل کی خود نوشتیں بھیجنے کو کہا،میں نے دوچار دن میں بھجوادیں۔ لگ بھگ ایک ماہ بعد فون آیا،کہنے لگے آل احمد سرور کی خود نوشت(خواب باقی ہیں) پڑھ لی ہے،کتاب اچھی ہے؛مگر طباعت و کتابت بہت خراب ہے،طبیعت پر جبر کرکے کتاب ختم کی ہے۔ عابد سہیل (جویاد رہا)کے اسلوبِ تحریر کی تعریف کی اور کتاب کی طباعت کو بھی سراہا،اداجعفری کی خود نوشت(جو رہی سو بے خبری رہی) کے بارے میں کہا کہ یہ کتاب میں نے پہلے بھی پڑھ رکھی تھی،ٹھیک ٹھاک ہے۔ بیدی کی کتاب(یادوں کا جشن) ابھی زیر مطالعہ تھی،پوری پڑھی نہیں تھی؛مگر وہ بھی انھیں اچھی لگی تھی،بیدی کے شیریں اور بے تکلّفانہ طرزِ تحریر سے متاثر تھے،کتاب کے مشمولات بھی انھیں خاصے دلچسپ محسوس ہوئے۔ الغرض اب باضابطہ مولانا اپنی خودنوشت لکھنے کا ذہن بنا رہے تھے؛مگر ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘!
دراصل حالیہ سالوں میں، مولانا درس و تدریس، ”الداعی“ کی ادارتی ذمے داریوں کی ادائیگی اور دیگر تحریری سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ اس مجلے میں تقریباً چار دہائیوں سے مسلسل ”اشراقة“ کالم کے تحت شائع ہونے والے اپنے علمی، فکری، ادبی و اصلاحی مضامین کی ترتیب و تالیف میں مشغول تھے؛اس لیے بھی انھیں وقت نہیں مل پا رہا تھا۔ مولانا نے نہایت اہتمام سے ان مضامین کو اکٹھا کیا،انھیں بڑی محنت،دقت نظری اور جزرسی کے ساتھ پڑھا اور پانچ جلدوں میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا،کتاب کا نام مولانا نے ”من وحی الخاطر“تجویز کیا، مجھ سے ذکر کیا تو بڑی خوشی ہوئی اور میں نے ”اشراقہ“ کی علمی ،ادبی و فکری خصوصیات پر ایک تعارفی مضمون بھی لکھا۔ اس کتاب کے منتخب حصوں کا اردو ترجمہ بھی مولانا شائع کرنا چاہتے تھے،اپنی تحریروں کا ترجمہ عموماً مولانا خود کرتے تھے، مگر شاید انھیں احساس ہونے لگا تھا کہ اب ان کا عرصہ حیات مختصر ہے،سو وہ اپنے کاموں کو جلد از جلد سمیٹنا اور پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے تھے؛چنانچہ ترجمے کے لیے ان کی نگاہِ انتخاب اردو کے ممتاز ادیب و ناقد اور مولانا کے عزیز ترین اور چہیتے شاگردوں میں سرِ فہرست حقانی القاسمی صاحب پر پڑی، مجھ سے کہا کہ ان کو آمادہ کرو،مولانا حقانی صاحب کے طرزِ تحریر اور ان کی ادبی و لسانی ہنرمندیوں کے بڑے معترف تھے۔ میں نے حقانی صاحب سے بات کی تو انھوں نے اپنی مصروفیات کی بناپر مجبوری ظاہر کی، مولانا نے کہا کہ دوچار مضامین کا ہی سہی؛لیکن حقانی صاحب ضرور ترجمہ کریں،باقی تم کردینا اور حقانی اس پر نظرِ ثانی کر لیں گے۔ حقانی صاحب اس کے لیے آمادہ ہوگئے، میں نے بھی مولانا سے وعدہ کرلیا اور کہا کہ کتاب آجائے تو آپ متعلقہ مضامین نشان زد کرکے بھجوادیں۔ مولانا کی شدید خواہش تھی کہ یہ کتاب ان کے معیار اور پسند کے مطابق جلد ازجلد شائع ہوجائے؛ مگر طباعت کی تکمیل میں کورونا اور پچھلے سال بھر سے چلنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تاخیر در تاخیر ہوتی رہی،خدا خدا کرکے مارچ کے اوائل میں کتاب چھپ کر آئی؛مگر وہ ان کے ذوق اور معیار کے مطابق نہیں تھی،کچھ خامیاں رہ گئی تھیں،جنھیں دور کروایا گیا اور رمضان سے دو تین دن قبل دوبارہ شائع ہوکر آسکی ۔ ایک اور کتاب شخصیات و سوانح کے تعلق سے ”رفتگانِ نارفتہ“ کے نام سے ابھی زیر طبع ہے،اس میں چوبیس بڑے لوگوں کا دلنشیں تذکرہ ہے، مولانا اسے مطبوعہ شکل میں نہ دیکھ سکے۔ شخصیات ہی پر ایک کتاب کا مسودہ تقریباً تکمیل کے مرحلے میں تھا،نام اس کا مولانا نے ”خاکی،مگر افلاکی“ تجویز کیا تھا،یہ کتاب بھی ان کی حیات میں محرومِ طباعت رہی۔
مولانا کو میں فون کم کرتا تھا؛کیوں کہ مجھے ان کی مصروفیت کا خیال رہتا۔ عموماً مہینے پندرہ دن میں مولانا ہی یاد فرماتے اور احوال دریافت کرنے، دعاؤں سے نوازنے کے ساتھ مختلف علمی و ادبی موضوعات پر باتیں ہوتیں۔مولانا سے گفتگو کے دوران میں بولتا بہت کم تھا،صرف مولانا کے سوالوں کے جواب دیتا اور زیادہ تر انھیں سنتا اور سر دھنتا؛بلکہ اگر آس پاس میرا کوئی دوست موجود ہوتا تو سپیکر آن کرکے اسے بھی مولانا کی چٹخارے دار گفتگو اور شوخیِ بیان سے محظوظ ہونے کا موقع فراہم کرتا۔ ابھی رمضان سے دودن قبل۱۱/اپریل کو آخری مرتبہ گفتگو ہوئی۔ باتوں باتوں میں فرمایا کہ اب کوئی ایسا شخص ملتاہی نہیں جس سے کچھ بے تکلّفانہ گفتگو کی جائے۔ ایک عمیدالزماں کیرانوی(مولانا وحیدالزماں کیرانوی کے برادرِ خورد،عربی کے بہترین ادیب و مترجم) تھے،انھیں جب چاہتا تھا،فون کرکے بات کرلیتا تھا،بھائی بدرالزماں(کیرانوی،مولانا وحیدالزماں کیرانوی کے صاحبزادہ،عربی و انگریزی کے عمدہ مترجم)سے وقتاً فوقتاً بات ہوجاتی تھی؛مگر اب وہ خود بھی بیمار ہیں۔ شاگردوں میں تم کو وقت ناوقت پریشان کرتا رہتا ہوں ،یہ سن کر میں نے کہا کہ حضرت! یہ تو میرے لیے بے انتہا سعادت کی بات ہے کہ آپ مجھے یاد رکھتے اور فراغت کے وقت میں گفتگو کے قابل سمجھتے ہیں،تو ہنسنے لگے اور پھر دعاؤں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ یہی آخری گفتگو تھی،اس کے دوچار دن بعد ہی مولانا کے چھوٹے صاحبزادے بھائی ثمامہ نور سے بات ہوئی کہ طبیعت زیادہ خراب ہے، تو میں نے ان کی اجازت سے سوشل میڈیا پر اپنے احباب اور مولانا کے تلامذہ و متعلقین اور مستفیدین سے دعاے صحت کی اپیل کی، پھر کبھی طبیعت بہتر ہونے اور کبھی بگڑنے کی خبریں ملتی رہیں،ڈاکٹر کی نگرانی میں دیوبند میں گھر پر ہی علاج چلتا رہا اور مولانا کے تمام اہلِ خانہ بھر پور خیال رکھتے رہے۔ ۱۹/اپریل کو میں نے ”رفتگانِ نارفتہ“ پر ایک تعارفی تحریر لکھی، جسے بھائی ثمامہ نے پڑھ کر مولانا کو سنایا،انھوں نے بتایا کہ مولانا اسے سن کر حسبِ معمول بہت خوش ہوئے اور خوب دعائیں دیں۔
دن بہ دن حالات ناگفتہ بہ ہوتے گئے تو اسپتال میں داخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ۲۸/اپریل کو میرٹھ لے جایا گیا، وہاں سے بھی کبھی یاس انگیز تو کبھی امید افزا خبریں آتی رہیں،۲/مئی کومعلوم ہوا کہ طبیعت کافی بہتر ہے، ۳/مئی کو دن میں بھی خوش کن خبریں ملیں،مولانا کے مکمل طورپر روبصحت ہونے کی امیدپختہ ہونے لگی تھی؛مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، سو بلاوا آیا اور مولانا پوری آمادگی، انشراحِ صدر کے ساتھ تسبیح و تہلیل پڑھتے ہوئے ایک بجے شب اپنے خالق کے حضور پہنچ گئے۔ آخرِحیات میں ایک دن ثمامہ نور کو راز# الہ آبادی کا ایک شعر سنایا اور فرمایا کہ انٹرنیٹ سے پوری غزل نکال کر سناؤ،بھائی ثمامہ نے وہ غزل سنائی تو اشعار کی مخصوص لفظیات و آہنگ کی وجہ سے خود ان پر بھی رقت طاری ہوگئی اور مولانا کی کیفیت بھی بدلنے لگی ۔ وہ ان اشعار کو بار بار اس طرح پڑھتے کہ گویا شاعر نے انہی کا احوالِ دل بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی اشعار کی فنی خوبیوں اور شاعر کے کمالِ ہنر پر بھی اپنی بھرّائی ہوئی آواز میں اظہارِ خیال کرتے جاتے۔ دراصل عربی و اردو ہر دو زبانوں میں مولانا کا ادبی ذوق اعلیٰ تر اور نہایت شستہ و شگفتہ تھا،بر محل جملوں اور شعروں کا استعمال اپنے کلام اور تحریروں میں بے ساختہ کیا کرتے۔ راز# الہ آبادی کے ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاتے جاتے بھی مولانا کیسے حاضر دماغ تھے اور کیسے صوفیانہ رنگ کے اشعار ان کے ذہن و زبان پر وارد ہوئے:
آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا، ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
اور کچھ دن یہ دستور مے خانہ ہے، تشنہ کامی کے یہ دن گزر جائیں گے
میرے ساقی کو نظریں اٹھانے تو دو، جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے
اے نسیم سحر تجھ کو ان کی قسم، ان سے جا کر نہ کہنا مرا حال غم
اپنے مٹنے کا غم تو نہیں ہے مگر، ڈر یہ ہے ان کے گیسو بکھر جائیں گے
اشک غم لے کے آخر کدھر جائیں ہم، آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں
آپ ہی اپنا دامن بڑھا دیجیے، ورنہ موتی زمیں پر بکھر جائیں گے
کالے کالے وہ گیسو شکن در شکن، وہ تبسم کا عالم چمن در چمن
کھینچ لی ان کی تصویر دل نے مرے، اب وہ دامن بچا کر کدھر جائیں گے
جارج برنارڈشا کا قول کہیں پڑھا تھا کہ آپ بسا اوقات کسی ایسے انسان کو کھودیتے ہیں کہ لگتا ہے ساری دنیا انسانوں سے خالی ہوگئی۔ بلا شبہ مولانا کی رحلت کا سانحہ ایسا ہی ہے کہ وہ اپنی نوعیت کے فردِ فرید تھے،یکتاے زمانہ،فقیدالمثیل،عدیم النظیر، جس نے اپنے نام کی مناسبت سے ایک دنیا کوزبان و ادب اور علم و فکر کی روشنی بخشی ، جس کے ادب و فن کی جوے سلسبیل سے ایک عالم سیراب ہوتا رہا،ہزاروں طالبانِ زبان و ادب نے جس کے چشمہٴ شفاف سے اپنی تشنگی دور کی اور جس کی خیال انگیز تصانیف نے عالمِ عربی و عجمی کو اپنا اسیر و گرویدہ بنائے رکھا:
دل دھڑکنے کا تصور بھی خیالی ہوگیا
اک ترے جانے سے سارا شہر خالی ہوگیا
(راحت اندوری)
————————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :6-7، جلد:105، شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق جون-جولائی 2021ء
٭ ٭ ٭