از: ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی

            حضرت الاستاد مولانا نور عالم خلیل امینی رحمة اللہ علیہ بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی، ہائے یہ کیا ہوا،چند روز قبل ہی خاصی طویل بات ہوئی تھی، شخصیات کے جواردو ترجمے ہم نے بھیجے تھے، ان کی وصول یابی کی رسید کے طور پرانھوں نے فون کیا تھا اور بے شمار دعائیں دی تھیں، اتنی دعائیں کہ میں آمین اور شکریہ کہتے کہتے تھک گیا،ان کی زبان نہ رکی اور نہ تھکی؛مگر ایک دو روز بعد ہی ان کی علالت کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی، یہ سوچ کر مطمئن ہوگیا کہ مولانا مجموعہٴ امراض ہیں، شوگر تو ان کا دائمی رفیق ہے، اسی کے عوارض و عواقب سے دو بدو ہوں گے، علاج ہوگا اور ٹھیک ہوجائیں گے،ان کے چھوٹے فرزند ثمامہ نور سے اس کی تصدیق کی تو انھوں نے بھی سر ہلایااور دعائے صحت کی درخواست کی۔ فرزندوں نے سعادت کا ثبوت پیش کیا، علاج معالجے کی ساری کوششیں رو بہ عمل لائی گئیں، گھر سے لے کر ہسپتال تک ان کی دوا دارو میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی، صحت یابی کی خبر ملتی تو دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگتا اور پھر کچھ وقفہ سے صحت رو بہ زوال ہونے کی خبر گردش کرتی تو دل بیٹھ جاتا،زبان پر بے اختیاریا سلام کا ورد جاری ہوجاتا، تقریباً پندرہ روز تک مرض و صحت کی یہ آنکھ مچولی چلتی رہی، کبھی مرض غالب آگیا تو کبھی صحت نے یاوری کی،جب بھی انٹرنیٹ آن کرتا تو ہاتھ کانپتے اورسانسوں کی آمد و رفت تیز ہوجاتی،۱۹/رمضان کو بوقت سحر نیند سے بیدار ہواتو یہی کیفیت تھی، انٹرنیٹ آن کیا تو وہی ہوا جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا، فیس بک پر ان کی وفات کی جان کاہ خبر دیکھی تو دل مسوس کر رہ گیا،آدمی توعیار ہے، ہزار بہانے ڈھونڈتا ہے، اپنے آپ کو تسلی دی کہ ہو نہ ہو یہ خبر جھوٹی ہو اور پھر کوئی ایسی خبر مشتہر ہو، جس میں ان کی صحت کا مژدہ جاں فزا سننے کو ملے؛ مگر جب یہ خبریں تواتر سے آنے لگیں تو یقین ہوگیا کہ حضرت الاستاد نے ہمیں الوداع کہہ دیا، نورعالم نور آخرت بن گیا، وہ ستارہ غروب ہوگیا جس کی روشنی سے ہمارے دل و دماغ منور و مجلّیٰ ہوتے تھے۔ فوراً کلمات ترجیع کہے اور چند تعزیتی جملے لکھ کر ثمامہ کو واٹس ایپ پر بھیج دیے اور پھر یادوں باتوں کے طلسمی جہان میں کھوگیا، غم و الم کا جھونکا اتنا شدید تھا کہ سحری کے گنے چنے لقمے بھی حلق سے نیچے نہیں اتر رہے تھے۔ان کی موت بجلی کے سخت کڑکے کی طرح مجھے جھنجھوڑ گئی، یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا تھا کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، پوری علمی دنیا کو و ہ سوگوار کرکے چلے گئے، آہ! عجم میں عربی زبان آج پھر سے یتیم ہوگئی،جس کی یتیمی کے احساس کو انھوں نے مولانا علی میاں ندوی کے انتقال کے بعد اپنی شائستہ و شگفتہ ادبی اور البیلی تحریروں سے دور کیا تھا اور بر صغیر میں اس کے سر پراپنا دست شفقت رکھا تھا۔

پہلی ملاقات اور عرصہٴ شاگردی:

            مولانا مرحوم سے میں تقریباً بیس برس تک وابستہ رہا اوراخذ و استفادہ کا سلسلہ کبھی رکا یا تھما نہیں،میں نے سیکھنے میں کوتاہی کی؛ مگر مولانا نے سکھانے میں کبھی حیلہ حوالہ سے کام نہیں لیا۔ مولانااپنی اصول پسندی کے باوجود، ایک کھلے گھر کی طرح تھے، جب چاہیے دستک دے کر قدم اندر ڈال دیجیے۔میں نے بھی حتی المقدور ان کے منبع علم سے تشنگی دور کی،جب کوئی سوال ذہن میں کلبلایا، مولانا کے وقت کا خیال کرکے فون کیا اور اپنا عندیہ پیش کردیا، عربی اردو کی پیچیدگی دور کرلی، مولانا سے میری باضابطہ شاگردی کا عرصہ پورے تین سال پر محیط ہے، یہ سعادت کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہوگی کہ باقاعدہ دار العلوم میں داخل رہ کر تین سال تک مولانا کی شاگردی کے سلسلے سے منسلک رہا ہو۔ راقم ۲۰۰۰ء میں ششم عربی میں داخل ہوا، پہلی بار اتنے بڑے مدرسہ میں داخلہ کا احساس ہی عجیب فرحت بخش تھا اور ایک دور افتادہ اور مفلوک الحال طالب علم کو تنگ نائے سے نکل کر، اس وسیع و عریض صحن میں قدم رکھنے کی جگہ مل جائے تو اس کی خوشی کا کیا ٹھکانہ، جو لوگ دار العلوم کے تدریسی نظام سے واقف ہیں، انھیں معلوم ہوگا کہ طلبہ کی کثرت تعداد کے پیش نظر،دورہٴ حدیث کو چھوڑ کر باقی درجات کو کئی چھوٹے چھوٹے گروپ میں منقسم کیا جاتا ہے۔ ششم عربی کے بھی تین گروپ ہوتے ہیں، ششم اولیٰ، ششم ثانیہ اور ششم ثالثہ۔نتیجہ شائع ہونے کے بعددفتر اہتمام کے سامنے بورڈ پر جو فہرست آویزاں ہوئی، اس میں میرا نام ششم ثانیہ میں مندرج تھا،میں ان گروپوں کی سیاست اور ان کی افادیت و عدم افادیت سے یکسر نا واقف تھا۔ ہم تو ایک درجے میں پڑھنے کے عادی رہے تھے۔ یہ گروپ کیا بلا ہوتی ہے بھائی۔اکثر قدیم طلبہ ششم اولی اور ششم ثالثہ میں اپنانام دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں، طلبہ کی زبان پر یہ چرچے عام تھے کہ فلاں گروپ میں جلالین مفتی محمدراشداعظمی پڑھاتے ہیں، جن کی تفسیری صلاحیت غضب کی ہے،فلاں گروپ میں میبذی کا درس امام المنطق مولانا خورشید انور گیاوی دیتے ہیں،مباحث و مسائل گھول کر پلادیتے ہیں، اور فلاں گروپ میں متنبی کا درس فلاں ادیب اریب دیتے ہیں،جن کے منہ سے ادب کا سوتا ابلتا ہے۔ اسی طلب میں بہت سے طلبہ سفارش کراکر اپنا نام مطلوبہ گروپ میں لکھوالیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ششم اولیٰ اور ششم ثالثہ میں طلبہ کی تعداد زیا دہ ہوتی ہے، ششم ثانیہ میں دونوں گروپوں کی بہ نسبت طلبہ کی تعدادکم ہوتی ہے ، کیوں کہ اس گروپ میں انتظامیہ کی طرف سے جو نام شامل ہوجائے بس وہی طلبہ رہتے ہیں، کسی اضافی نام کا اس میں اندراج نہیں ہوپاتا۔ششم ثانیہ میں بظاہر ایسی کوئی خاص بات بھی نہ تھی کہ اس گروپ میں طلبہ اپنا نام شامل کرانے کے لیے مسابقت کا جذبہ دکھائیں،اس گروپ میں جلالین کا درس علامہ محمد جمال صاحب دیتے تھے، جنھوں نے کئی جلدوں میں جلالین کی شرح لکھی اور میبذی مولانا عبد الرحیم بستوی صاحب سادہ انداز میں پڑھاتے تھے اور ہدایہ کے مسائل اپنی سادہ اور مختصرروایتی زبان میں مولانا شبیر احمد سمجھاتے تھے، جس میں صرف ترجمہ ہوتا تھا، تشریح برائے نام ہوتی تھی۔پیر خود فقیر تو درگاہ کہاں سے لگائے،مجھے تو اپنے سارے اساتذہ بہت ہی لائق و فائق دکھے، کبھی کسی استاد کو کمتر نہیں سمجھا اور میں نے بلا ناغہ سارے اسباق کی پابندی کی، مگر یہ تینوں مذکور الصدر اساتذہ طلبہ میں اپنی تدریس کی بنیاد پرنہ جانے کیوں اتنے مقبول نہ تھے، اس ترتیب یعنی گروپ کا دار العلوم کے حساب سے صرف ایک امتیاز تھا کہ اس میں ادیب دوراں اور مولانا کیرانوی کے شاگرد رشید مولانا نور عالم خلیل امینی دیوان متنبی کا درس دیتے تھے، یہ بات طلبہ کو بھی اچھی طرح معلوم تھی اور وہ بھی اس گروپ میں آکر اس گھنٹے میں چپکے سے بیٹھ کر مولانا سے استفادہ کرتے تھے، اس ترتیب کے ساتھ ایک مسئلہ بھی تھا اور بہت گمبھیر، اس میں اس لیے بھی طلبہ اپنا نام لکھوانے سے کتراتے تھے کہ ظہر کی نماز کے بعد کا پہلا گھنٹہ مولاناکے درس کے لیے مخصوص تھا، جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔ایک تو ہمارے مدارس میں قیلولہ کی وہ لت پڑی ہوئی ہے کہ طلبہ ہی نہیں، اساتذہ بھی دو پہر کا کھانا کھاکر ایسے سوتے ہیں کہ یہ قیلولہ لیلولہ بن جاتا ہے اور اتنی گہری نیند سوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ، گھوڑا بیچ کر سونے والا مقولہ تازہ ہوجاتا ہے۔ایسی نیند کہ رات کی نیند بھی شرم کے مارے پانی پانی ہوجائے۔ اس قیلولہ کی سنت کو زندہ کرنے میں اکثر کی فرض نماز یعنی ظہر بھی قضاہوجاتی ہے ، مولانا وقت کے اتنے پابند تھے کہ ادھر پانچویں گھنٹہ کی ٹن ٹن کی آواز کانوں میں پڑتی اور ادھر مولاناعمدہ قسم کی شیروانی میں ملبوس شان و شوکت کے ساتھ دائیں بائیں دو طلبہ کی معیت میں درس گاہ میں قدم رنجہ ہوجایا کرتے تھے، ان کے درس گاہ میں داخل ہونے کے بعد پھر کسی طالب علم کے لیے درس گاہ میں انٹری بالکلیہ ممنوع تھی۔ میں پہلی بار مولانا کے نام سے آشنا ہوا تھا ، دار العلوم کے در و دیوار پر ان کی زبان دانی اور عربی دانی کا شہرہ عام تھا، میں نے اس کو غنیمت جانا اور پھر میں ایک غریب طالب علم کہاں جاتا، جس کا نہ کوئی سرپرست تھا، نہ درسی ساتھی اور نہ کوئی سینئر ہی تھا،جورہ نمائی کرتا، میں تو کئی زینہ پھلانگ کر عربی ششم میں زبردستی گھس آیا تھا، آدھا ادھورا عربی چہارم کے بعد سیدھے عربی ششم میں جیسے تیسے ایک کنارے لٹک گیا تھا، اس لیے جہاں سیٹ مل گئی، اسی پر گزارا کرلیا،اللہ اللہ خیر صلا۔ اتفاق سے میرا کمرہ بھی ششم ثانیہ والی درس گاہ کے مشرقی جانب بالکل سامنے واقع تھا، میں دار جدید ۱۲۰ نمبرکمرہ میں رہتا تھا، کئی بار تو ایسا ہوا کہ ظہر کی نماز پڑھے بغیر ہی دیوان متنبی اور ایک کاپی قلم لے کر بھاگتا ہوا درس گاہ میں پہنچ گیا، بہت اہتمام کے ساتھ نہ صرف متنبی کے اشعار کا ترجمہ، بلکہ مولانا کی ایک ایک بات اور لفظ وجملے کوبھی نوٹ کرتا جاتا تھا۔بات بیس برس پرانی ہوگئی، مجھے یاد نہیں کہ متنبی کا ایک درس بھی میں نے ناغہ کیا ہو، شاید ایک دن درس سے غیر حاضر رہا،وجہ وہی ہوئی کہ میں جب تک درس گاہ پہنچتا ، مولانا اپنے جاہ و جلال کے ساتھ درس گاہ میں براجمان تھے، میں رجعت قہقری پر مجبور ہوگیا۔ مولانا طلبہ کو درس کا پابند بنانے کا التزام کرتے تھے اور بلا وجہ غیر حاضری پر سخت سرزنش کرتے تھے۔ جب وہ غیر حاضری یا تاخیر پرکسی کو ڈانٹتے تھے، تو وہ وقت دیدنی ہوتا تھا،جب غصہ میں ہوتے تو مولانا کے ہونٹ خشک ہوجاتے،شوگر کی وجہ سے زبان لگنے لگتی، چشمہ کے پیچھے سے مولانا کی بڑی بڑی آنکھیں اتنی سرخ ہوجاتیں اور اتنی ابھر آتیں کہ خدا جھوٹ نہ بلوائے، بہتوں کا پیشاب بھی خطا کرجاتا تھا۔کیا مجال کہ مولانا ڈانٹ رہے ہوں اور کوئی طالب علم لب کشائی کرجائے۔غیر حاضری پر کوئی عذر سننے کے لیے وہ تیار نہ ہوتے۔مولاناشوگر کے دائمی مریض تھے، اس زمانے میں پچاس کے لپیٹے میں تھے،داڑھی بھی کھچڑی تھی، چال بہت بارعب تھی، گھوڑے کی ٹاپ کی طرح ان کے پالش سے چمکتے ہوئے جوتے فرش پر بچھی ہوئی اینٹوں سے ٹکراتے تھے، جب وہ صدر دروازے سے داخل ہوتے تو تمام طلبہ انھیں دیکھتے رہ جاتے، جو جہاں ہوتا وہیں رک جاتا تھا، جب وہ گھورتے تو یہ آنکھیں طلبہ کے اندر تیر کی طرح پیوست ہوجاتی تھیں۔ خیر جیسے تیسے ششم کا یہ سال مکمل ہوگیا، ششم میں دیوان متنبی کے منتخب ابواب کا درس دیا جاتا ہے اور یہ کلاسیکی ادب کی کتاب ہے، جس میں عربی کے جدیدرنگ و روپ پر بات کرنے کا موقع ذرا کم میسر آتا ہے، مگر میں نے محسوس کیا کہ مولانا موقع محل کی مناسبت سے طلبہ کے اندر عربی کے جدید رنگ و آہنگ سے بھی مناسبت پیدا کرنا چاہتے ہیں،مولانا کتاب میں ڈوب کر پڑھاتے تھے،عربی کے ساتھ اردوکے ہم معنی اشعار بھی طلبہ کو سناتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ اشعار و الفاظ سے وہ خود پہلے محظوظ ہوتے تھے، اس کے مزے لیتے تھے اور اس کے بعد طلبہ میں اس کی ترسیل کرتے تھے، کبھی انھیں عربی زبان کی اہمیت بتا رہے ہیں، کبھی انھیں اعراب اور ترکیب کی اغلاط پر کوس رہے ہیں، اور ان کی خفتہ و خوابیدہ صلاحیت کو بیدار کرنے کے ہزارجتن کر رہے ہیں۔

            میں تو پہلی بار ان کی شخصیت و سراپا سے روشناس ہوا تھا، مگرجو طلبہ قدیم تھے اور ان سے واقف تھے، وہ ان کی عربی اور اردو کا چرچہ کرتے رہا کرتے تھے، ان دنوں ان کی دو کتابوں کا شہرہ سنا، ایک حرف شیریں اور دوسری وہ کوہ کن کی بات۔ دونوں کتابیں اسی سال پڑھیں اورجی لگاکر پڑھیں، ایک بار نہیں،مکرر سکرر پڑھیں، اسی طرح لکھنے کا داعیہ پیدا ہوا،لکھنے کی کوشش کی، مگر نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب۔ مولانا کے طویل ترین جملوں، ان کی ادق اور مشکل تعبیرات کو سمجھنا ہی ہم جیسے مبتدیوں اور ضعیف الاستعداد کے لیے کار محال تھا، اس جیسا لکھنا تو جوئے شیر لانا تھا؛ مگر مولانا کی شخصیت اور ان کی زبان و بیان سے اتنا متاثر ہوا کہ اکثر عصر بعد ان کی مجلس میں بھی حاضر ہونے لگا۔ مسجد قدیم یا چھتہ مسجد میں عصر کی نماز پڑھتا اور سر پر پیر رکھ کر ان کے گھر کی طرف چل پڑتا، وجہ یہ تھی کہ ہر طالب علم ان کی مجلس میں حاضر باش رہنے کا متمنی ہوتا، اور مولانا کے برآمدے میں یہی کوئی دو تخت پر مشتمل جگہ ہوتی جس پر زیادہ طلبہ کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی۔آٹھ دس طالب علم سے زیادہ ہوتے تو کبھی کرسیاں بھی منگا لیتے؛ مگر جب طلبہ کا ہجوم زیادہ ہوتا تو انھیں کل آنے کے لیے کہہ کر دروازے سے ہی رخصت کردیتے۔ دیکھتا کہ سبھی طلبہ ایک دم خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہیں،شہر خموشاں جیسی خاموشی، جو طلبہ قدیم ہوتے، مولانا کی اصول پسندی سے آشنا ہوتے، وہ ان کی نزاکت و نفاست کا چرچہ کر رہے ہیں، ان کے آداب مجلس کا بکھان کر رہے ہیں، چپل اور جوتے کہاں اتارنے ہیں؟چائے کیسے پینی ہے؟ کپ کیسے پکڑنا ہے؟بسکٹ کیسے کھانی ہے؟ مصافحہ کیسے کرنا ہے؟ بات کس طرح کرنی ہے؟ انھیں کیسے خطاب کرنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں غریب طالب علم جو اپنے ساتھیوں میں اکلوتا بھاگ کر دیوبند پہنچ گیا تھا اور ذرا منہ کا چور بھی ہوں، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر،صرف سنی بناپیچھے دبک کر بیٹھا رہتا، کچھ دیر بعد مولانا کا حجرہ سے نزول ہوتا، تخت پر ہی کنارے بیٹھ جاتے، سبھی کا نام پتہ اور درجہ پوچھتے، کوئی اپنے علاقے کا ہوتا تو بات علاقائی احوال کی طرف مڑ جاتی اور اپنی میتھلی آمیز زبان ”رے چھوڑا“ کہہ کر لنگوٹیا یار کی طرح بات کرنے لگتے۔ میں تکمیل ادب سے پہلے جتنے دن بھی ان کی مجلس میں حاضر ہوا،خدا گواہ ہے کہ مولانا نے کچھ پوچھا تو اس کا جواب دے دیا، از خود کبھی کچھ پوچھنے یا بولنے کی ہمت نہ کرسکا۔

            سال ہفتم اور دورہٴ حدیث کی تکمیل کے بعد عربی ادب کا شوق ذرا چرایا، تو تکمیل ادب میں داخل ہوگیا، میں سال ششم سے ہی اردو میں مضامین اور مراسلے لکھنے لگا تھا اور کبھی اچھا مال تیار ہوگیا تو اپنے نام سے چھپوا دیا اور کبھی مال ذرا کچا رہ گیا تو دوسرے فرضی نام سے بھی اخبار کو بھیج دیتا، مقصد صرف اپنا نام یا اپنی تحریر پکی روشنائی میں دیکھنا ہوتا۔ نئی دنیا، راشٹریہ سہارا یہی دو اخبار اس زمانے میں زیادہ رائج تھے، قومی آواز کی شکل و صورت ذرا بھدی تھی؛ اس لیے کبھی کوئی تحریر اس میں بغرض اشاعت نہیں بھیجی۔ادھر عربی زبان سیکھنے کا شوق بھی انگڑائی لے رہا تھا، ششم کے سال میں ہی عربی انجمن النادی الادبی سے جڑ چکا تھا ، اس کے پروگرام میں پابندی سے شریک ہوتا اورٹوٹی پھوٹی تقریری و تحریری مشق بھی کرنے لگا تھا؛ مگر میری استعداد ذرا کمزور تھی، عربی قواعد تک سے نا آشنا تھا،بس عربی اول میں نحو قاسمی اور میزان میں جو کچھ آدھا ادھورا پڑھا تھا، اس کی روشنی میں عربی کی موٹی موٹی باتیں جانتا تھا، اس لیے تکمیل ادب میں داخلے کا شوق اور تیز ہوگیا؛تاکہ میری عربی کی استعداد مضبوط ہوسکے۔ تکمیل ادب میں طلبہ کم ہوتے ہیں اور مولانا کا مختارات کا درس بہت مشہور تھا کہ جس نے مختارات، جو اخباری تراشوں پر مبنی ہے مولانا سے پڑھ لی، وہ اخباری عربی پڑھنے اور لکھنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ اس سال مولانا سے سیکھنے کا موقع زیادہ ملا۔ مولانا کاانداز درس بھی بہت منفرد اور البیلا تھا۔ وہ اپنے استاد مولانا کیرانوی کے ہر معاملے میں عاشق تھے اور عربی تدریس کے معاملے میں تو وہ ان کے انداز و اطوار کے دیوانے تھے، مولانا سبھی طلبہ کو درس میں مشغول منہمک دیکھنا چاہتے تھے، کسی طلبہ کی ذرا سی غفلت اور لا پرواہی پر وہ آگ بگولہ ہوجاتے تھے اور ایسی ڈانٹ لگاتے تھے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے تھے۔وہ درس گاہ میں ایک کمانڈر کی طرح تھے، موٹے چشمے کے پیچھے سے اگلی پچھلی صف تک نظر رکھتے تھے، سبھی کی حرکات و سکنات سے باخبر رہتے تھے،کسی کو بھی عبارت خوانی کا اچانک حکم دیتے تھے، مولانا کے ہاں عبارت خوانی میں عربی لہجے کی پابندی فرض کی حد تک ضروری تھی، اعراب اور قواعد کی غلطی کو وہ برداشت کرلیتے تھے؛ مگر کوئی لہجے میں خطا کرجائے یہ بات ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ وہ عربی کو اردو میں پڑھنے پر سخت ناراض ہوتے تھے۔ ششم میں عبارت پڑھنے کا موقع ہاتھ نہیں لگا؛ مگر اس سال مجھے بھی عربی عبارت پڑھنے کا موقع ملا اور جب جملہ سازی کی باری آئی، تو کئی بار مولانا نے تحسینی کلمات بھی کہے۔ مولانا طلبہ کو پوری مختارات ازبر کرادیتے تھے ، وہ کتاب میں آنے والے جملوں اور ترکیبوں کی بخیہ ادھیڑنے کے قائل تھے، وہ کہتے تھے کہ جملوں کو الٹنے پلٹنے کی عادت ڈالیے، ماضی کو مضارع، مضارع کو ماضی بنائیے، صیغوں کی شکلیں بدلیے، مبتدا اور خبر کو تبدیل کیجیے اور اس جملے کی ایسی حجامت بنائیے کہ اس کی نانی یاد آجائے۔ مولانا کے اس انداز سے ایک ہی تعبیر پر مشتمل دسیوں مختلف جملے درس گاہ میں بن جاتے تھے۔ دوسرے طلبہ درسی قسم کا یا کوئی ایسا جملہ بناتے، جس سے قدامت اور فرسودگی کی بو آتی،مولانا ہوں ہاں کرکے آگے بڑھ جاتے؛ مگر میں ایسے جملے بناتا تھا جس سے جدت کا پہلو بر آمد ہوتا تھا۔ مختارات میں ایک خبر ہے، اس کے ایک جملے میں اعوز یعوز(بمعنی کم ہونا، نا پیدا ہونا)آیا ہے، جب یہ جملہ آیا تو مولانا نے طلبہ سے درخواست کی کہ اس کے پیٹرن پر دوسرے جملے بنائیے،مطلب صرف فعل کو باقی رہنے دیجیے اور باقی تمام چیزوں کو تبدیل کردیجیے۔ سبھی نے رسمی قسم کے مختصر جملے بناکر اپنا پیچھا چھڑا لیا، میں نے اردو کے ایک مشہور اخباری جملے سے متاثر ہوکر عربی میں یہ جملہ بنایا”القانون الدولی الموحد یعوزہ القانون الاسلامی“ مولانا میرے مصنوعی عربی لہجے میں یہ جملہ سن کر بہت خوش ہوئے، دعائیں دی اور کہا کہ بہت اچھا، بالکل الگ قسم کا جملہ تم نے بنایا ہے۔محنت کرو، آگے جاؤگے!

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :6-7،    جلد:105‏،  شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق   جون-جولائی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts