(آبروئے قرطاس و قلم، عربی و اردو کے مشہور و معروف ادیب، بے مثال و باکمال استاذ ومربی، استاذ محترم مولانا نور عالم خلیل امینی -نور اللہ مرقدہ- کی شخصیت کے امتیازات و خصوصیات اور ان کے دروس و نگارشات سے متعلق ایک تاثراتی تحریر)

بہ قلم: مولوی محمد ذکوان دیوبندی

متعلّم دار العلوم دیوبند

کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت

گلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت

کلبہٴ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت

دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت

            علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے ان اشعار کا لفظ لفظ حالاتِ حاضرہ پر منطبق اور کوائفِ تازہ کی مکمل عکاسی اور صحیح منظر کشی کر رہا ہے، واقعی عالمِ آب و گِل میں اس وقت موت مانندِ ”نسیم“ ارزاں ہو چکی ہے، گلشنِ ہستی پر خزاں کا حملہ بڑا شدید ہے، موت کی ایسی آندھی چلی ہے کہ علم وعمل کے چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں، ہر صبح اپنے جِلو میں نویدِ مسرت کے بجائے پیامِ الم لے کر آتی ہے، ہر شب اپنے دامن میں مژدئہ سکون و عافیت کے بجائے رنج و غم کی سوغات لیے نمودار ہوتی ہے، ہر صبح خورشیدِ جہاں تاب کی کرنیں کسی ”گوہرِ شب چراغ“ کے گل ہونے کی خبر دیتی ہیں، اور ہر رات کا اندھیرا قافلہٴ زیست سے کسی مسافر کے بچھڑجانے کی خبر دیتا ہے، گردشِ زمانہ ہر قدم پر ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ چمنستانِ ارضی کی ہر بہار خزاں نصیب ہے اور اس کی ہر شادابی تغیر پذیر، جہانِ رنگ و بو کی اسی تغیر پذیری کا ایک مظہر گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے، جس دوران نہ جانے کتنے آسمانِ علم و عمل اور آفتابِ فضل و کمال غروب ہوگئے جن کی ضیا پاشیوں سے ایک عالم منور تھا، علوم و معرفت کے کتنے ہی ایسے چشمے خشک ہوگئے جن سے ایک دنیا سیراب ہورہی تھی، بہ کثرت ایسی ممتاز شخصیات رہروانِ آخرت میں شامل ہوگئیں جنہوں نے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے، کسی نے مسندِ درس و تدریس پر جلوہ افروز ہوکر قال اللہ اور قال الرسول کا نغمہ سنایا، تو کسی نے اصلاح و تزکیہ کی قندیل فروزاں کرکے ہزاروں گم گشتگانِ راہ کو منزلِ حقیقی سے روشناس کرایا، کسی نے میدانِ سیاست میں اتر کر ملک و ملت کے گیسوئے برہم کو سنوارا، تو کسی نے زبان و بیان اور قرطاس و قلم کو میدانِ عمل بنا کر پیامِ حق کو چار دانگِ عالم میں پہنچایا۔

            ”مسافرانِ آخرت“ میں شامل ہونے والی ان ہی ممتاز شخصیات میں سے ایک: آبروئے قرطاس و قلم، عربی واردو کے بصیرت مند معروف ادیب، یکتائے روزگار معلم حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کی ”حسن تربیت“ کے ”عکسِ جمیل“، بے مثال مربی اور باکمال مدرس حضرت استاذ محترم مولانا نور عالم خلیل امینی -نور اللہ مرقدہ- کی ذات گرامی بھی ہے۔ آپ کی رحلت صرف ایک فرد کا حادثہ نہیں؛ بلکہ قرطاس وقلم کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ آہ! اب وہ قلم خاموش ہوگیا جو صحرائے بے کنار میں بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم کا پتہ دیتا تھا، الفاظ و حروف کی وہ مشعل بے نور ہوگئی جو دشت و بیاباں میں علم و ادب کے چراغ روشن کرتی تھی، وہ خامہٴ حقیقت رقم ساکت ہوگیا جو سوئے ہوئے ضمیروں میں حوصلہٴ سرفروشی اور ٹھٹھرے ہوئے اعصاب میں جرأت و بے باکی کی برقی لہر دوڑا دیا کرتا تھا۔

            آپ محض ایک روایتی طرز کے ”ادیب“ نہیں تھے؛ بلکہ پختہ فکر کے مالک بابصیرت عالم بھی تھے اور ”دلِ درد مند“ اور ”فکرِ ارجمند“ کے حامل دیدہ ور مفکر بھی۔ ان کا ساز اگرچہ ”زخم ہائے عجم“ کا ستم رسیدہ رہا؛ لیکن وہ ”ذوقِ وفا“ کے ایسے شہید تھے جس کی نوا ہمیشہ عربی رہی۔ عربی زبان وادب کی خدمت اور اس راہ میں آبلہ پائی ہی کو انھوں نے اپنی حیاتِ مستعار کا مقصد بنایا تھا اور پھر ”جہدِ مسلسل“ اور ”سعیِ پیہم“ کے ذریعہ شہرت، مرجعیّت اور اعتبار کا وہ مقام حاصل کیا جو ساکنانِ عجم کے لیے باعثِ صد رشک بھی ہے اور سرمایہٴ فخر بھی۔

            یوں تو ان کی کتابِ زیست کا ورق ورق درخشاں ہے؛ لیکن اس کا سب سے جلی عنوان ”جہدِ مسلسل“، ”سعیِ پیہم“ اور ”ان تھک محنت“ ہے، یہی وہ جوہر ہے جس نے انھیں ”درِّ یکتا“ اور ”گوہرِ نایاب“ بنا کر کامیابی کے بامِ عروج تک پہنچایا۔ اس ”گوہرِ نایاب“ نے دمشق و بغداد، سمرقند و بخارا یا شیراز و خراسان کی مٹی سے نہیں؛ بلکہ ہندوستان کے ضلع مظفر پور کی ایک گم نام سرزمین ”ہر پور بیشی“ کی مٹی سے جنم لیا تھا، صرف تین ماہ کی عمر میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے تھے، نہ کوئی عظیم خاندانی پس منظر تھا، نہ والدہ محترمہ کے علاوہ کسی کی پشت پناہی حاصل تھی، کم عمری ہی میں نامساعد احوال اور زمانے کے تلخ حقائق سے سابقہ پڑا اور اسی چیز نے انھیں صبر وہمت، جفا کشی اور ریاضت کا عادی بنادیا، قسّامِ ازل نے پیدائشی طور پر ذہانت و فطانت اور مختلف صلاحیتوں سے نوازا تھا، مذکورہ اوصاف نے ان خداداد جوہروں کو مزید صیقل کر دیا اور نتیجتاً وہ حقیقی معنوں میں ”نور عالم“ بن کر اسم بامسمی ثابت ہوئے۔

یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں

تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا

            ان کی زندگی کا ایک اور نمایاں ترین وصف وقت کی قدر دانی، اس کا انضباط، صحیح استعمال اور نظام الاوقات کی پابندی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وقت کی قدر دانی اور نظام الاوقات کی پابندی صرف درس وتدریس یا تصنیف و تالیف سے وابستہ شخص ہی کے لیے ضروری نہیں؛ بلکہ ہر اس فرد کے لیے امرِ ناگزیر ہے جو شاہ راہِ زندگی پر کامیابی کا سفر طے کرنے کا خواہاں ہے۔ حضرتؒ کی حیاتِ بابرکات اس حوالے سے بھی نسلِ نو کے لیے ایک نمونہٴ عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سردی ہو یاگرمی، دھوپ ہو یا برسات، سازگار حالات ہوں یا نا مساعد احوال، کوئی چیز بھی ان کے لیے اپنے معمولات کی پابندی اور وقت پر ان کی تکمیل سے مانع نہیں تھی۔ عمر کے آخری چند سالوں میں تو وہ متعدد امراض سے نبرد آزما تھے اور عرصہٴ دراز سے ”شوگر“ کی بیماری سے بھی دو چار تھے؛ لیکن بایں ہمہ معمولات کی پابندی میں سرِ مو فرق نہیں آیا تھا۔ درس گاہ میں تشریف آوری ہو یا دارالعلوم کے اساتذئہ کرام کی کسی میٹنگ میں شرکت، ایک لمحے کی بھی تاخیر سے پہنچنے کا ان کے یہاں کوئی سوال نہیں تھا۔ وقت کی اسی قدر دانی اور انضباط کا نتیجہ ہے کہ بیماریوں اور امراض کے ہجوم کے باوجود ان کے ”قلمِ زرنگار“ سے ایسی شاہ کار تحریرات و تالیفات وجود میں آئیں جو اسلامی کتب خانے کے لیے ”گنج ہائے گراں مایہ“ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

            چوں کہ عربی زبان کی خدمت کے لیے انھوں نے اپنی حیات کو وقف کردیا تھا اور اس حوالے سے بے پناہ جدو جہد اور پیہم محنت ہی ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا؛ اس لیے صرف تصنیف و تالیف ہی نہیں؛ بلکہ درس و تدریس میں بھی ان کی وابستگی عربی زبان ہی سے رہی؛ چناں چہ دارالعلوم دیوبند میں ان سے دو گھنٹے متعلق رہے، ایک سالِ ششم میں دیوانِ متنبی اور دیوانِ حماسہ کا، دوسرا تکمیلِ ادب عربی میں ”النثر الجدید“ کا، جس میں ”المختارات العربیة“ کا درس دیتے تھے۔ محض اللہ کے فضل و کرم سے راقم حروف کو حضرتؒ سے دونوں جماعتوں میں مذکورہ تمام کتب پڑھنے کی سعادت میسر آئی۔ ان کے درس کی صحیح اور بھر پور منظر کشی اور خصوصیات و امتیازات کی کما حقّہ ترجمانی تو راقمِ آثم کی باریابی سے بالاتر ہے؛ لیکن ان کا ایک ادنی شاگرد ہونے کے ناطے راقم اپنے ذاتی احساسات و مشاہدات اور ان کے دروس سے مستفاد تجربات کو بواسطہٴ قلم سینہٴ قرطاس پر منعکس کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ ممکن ہے سطورِ ذیل میں ان کے میخانہٴ علم و ادب سے مئے نوشی کے آداب سیکھنے والے بادہ خواروں کو ان کے درس کا دھندلا ساہی سہی عکس محسوس ہو۔

            حضرت سے بالواسطہ استفادہ تو اسی وقت سے جاری تھا جب راقم کی عربی تعلیم کا آغاز ہوا تھا، کچھ ان کی کتابوں (خصوصاً ”مفتاح العربیة“) کی وجہ سے اور کچھ اس بنیاد پر کہ مخدومِ مکرم حضرت والدِ گرامی دامت برکاتہم کی زبانی مختلف حوالوں سے بارہا ان کا تذکرہ سننے کو ملتا اور یوں ان سے بلا واسطہ استفادے و مشاہدے سے قبل ہی ان کی عقیدت و محبت دل میں جاگزیں ہوچکی تھی۔

لقد سمعنا بأوصافٍ لکم کمُلت

فسَرَّنا ماسمعناہ وأحیانا

من قبل روٴیتکم نِلْنا مودَّتکم

والأذن تعشق قبل العین أحیانا

            راقم کے لیے اگرچہ ان سے وابستگی ”من قبل روٴیتکم“ کے قبیل سے تو نہیں تھی؛ لیکن ”من قبل روٴیتکم بعین البصیرة“ کے قبیل سے یقینا تھی۔ علاوہ ازیں خود لفظ ”روٴیة“ نگاہِ بصیرت سے دیکھنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

            حضرت سے براہِ راست تلمذ و استفادے کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا جب راقم کا تعلیمی سلسلہ سال ششم تک پہنچا۔ اس وقت طلبہ کی تعداد کی کثرت کے باعث ششم کی جماعت چار حصوں میں منقسم تھی جن میں سے دوسری ترتیب (ششم ثانیہ) میں متنبی و حماسہ حضرتؒ سے متعلق تھی۔ اس میکدہٴ علم و ادب سے جرعہ نوشی کی دیرینہ آرزو ہمیں بھی ششم ثانیہ تک کھینچ لے گئی اور تشنگی کو ”سیرابی“ میں تبدیل کرنے کا حقیقی موقع نصیب ہوا۔

طرزِ تدریس

            حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے بعد ماضی قریب میں عربی زبان و ادب کے حوالے سے جو ”مرجعیت“ کا مقام حضرت مولانا نور عالم صاحبؒ کو حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا، ان کی صرف تصانیف و نگارشات ہی ان کی فنی مہارت کا حوالہ نہیں ہیں؛ بلکہ ان کا درس بھی عربی کے تعلق سے ان کے طویل و عمیق تجربات اور گہری بصیرت کا آئینہ دار تھا۔

            دیوانِ متنبی و حماسہ کے درس میں بنیادی طور پر استاذ کے پیش نظر چار چیزیں رہتی ہیں: اشعار کی ترکیب، مشکل لغات کا حل، ترجمہ اور تشریح، حضرتؒ کے درس کا محور بھی یہی امور تھے؛ لیکن ایک الگ انفرادیت کے ساتھ، گویا شراب کہنہ ضرور تھی؛ مگر ساغر نیا تھا۔ اولاً رجسٹر حاضری میں درج اسماء کی ترتیب کے اعتبار سے چار سے پانچ طلبہ کا نام عبارت خوانی کے لیے پکارا جاتا اور سب کھڑے ہو کر بالترتیب بہ آوازِ بلند عبارت پڑھتے۔ عبارت خوانی میں کسی نحوی یا صرفی غلطی کا در آنا تو خیر ہر استاذ کے یہاں ایک قابلِ اصلاح و تنبیہ امر ہے؛ لیکن حضرتؒ کے یہاں علاوہ ازیں مزید دو چیزیں قابلِ توجہ تھیں، ایک عبارت خوانی میں عربی لہجے کا لحاظ؛ چناں چہ طلبہ کو ہمیشہ یہ ہدایت فرماتے کہ عربی زبان کا ایک الگ رنگ و آہنگ ہے، اس کے الفاظ کی ادائیگی میں ایک مخصوص زیر و بم کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بغیر کسی بھی عربی عبارت کا پڑھنا ایک صاحبِ ذوقِ سلیم کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ اسی حوالے سے بارہا یہ جملہ بھی حضرتؒ سے سنا کہ: ”عربی لہجے کی تصحیح کے لیے فنِ تجوید کے مطابق ادائیگی اور اس کے اصول و ضوابط کو بروئے کار لانا امرِ ناگزیر ہے؛ بنا بریں جو طلبہ پہلے سے فنِ تجوید سے واقفیت و مناسبت رکھتے ہیں ان کا لہجہ عمدہ ہے“۔ دوسری چیز یہ تھی کہ ان کے یہاں عبارت خوانی میں برق رفتاری یا تیزگامی موجبِ تنبیہ تھی، میانہ روی؛ بلکہ آہستہ رفتار سے عبارت پڑھنے کی تلقین فرماتے۔ جن طلبہ کی عبارت مذکورہ امور پر کھری اترتی ان کو ”جمیل“ ”جمیل“ کے حوصلہ افزا تمغے سے بھی نوازا جاتا۔

            بعد ازاں حضرتؒ کے سلسلہٴ کلام کا آغاز ہوتا اور خزانہٴ علم ادب سے آب دار نگینے اور جواہر پارے لٹائے جاتے، ہر بادہ خوار اپنے ظرف کے مطابق سیرابی حاصل کرکے تشنگی کو دور کرتا، اور ”وادیِ ادب“ کے ”رہروانِ شوق“ اپنی منزلِ مقصود کا سراغ پالیتے۔ حضرت والاؒ سب سے پہلے اشعار کی ترکیب بہ وضاحت بیان فرماتے۔ اہل نظر پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ فن عَروض کی پابندی اور وزن و قافیے کی پاس داری کے باعث اشعار میں جذبات و احساسات کو آزادی کے ساتھ مرتب الفاظ کا جامہ پہنانے کی گنجائش بہ نسبت نثر کے بہت کم ہوتی ہے؛ جس کی وجہ سے کلمات میں تقدم و تاخر، فعل و فاعل میں فصلِ غیر، باہم مربوط الفاظ میں دوری وغیرہ کا ہونا ایک امرِ لابدی ہے؛ بنا بریں اشعار کی نحوی ترکیب ایک مشکل کام ہے اور اس ذمے داری سے کماحقّہ عہدہ برآ ہونا ہر کس و ناکس کا کام و مقام نہیں ہے؛ اسی وجہ سے حضرت نہایت توجہ اور وضاحت کے ساتھ ترکیب بیان فرماتے، تاکہ طلبہ کو کلمات کا باہمی ربط و تعلق اور الفاظ کا ایک دوسرے سے جوڑ ذہن نشیں ہوجائے اور وہ ترجمہ و تشریح کے مرحلے میں حیران و سرگرداں نہ رہیں۔

            اس کے بعد حلِ لغات کا نمبر آتا، اشعار میں مذکور مشکل کلمات کی لغوی صرفی وضاحت فرماتے، اس حوالے سے بھی ان کے یہاں دو باتیں منفرد تھیں، ایک تو یہ کہ اگر عبارت میں مذکور عربی لفظ مختلف مفاہیم و متنوع معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کا صرف وہی مفہوم ذکر فرماتے جو وہاں عبارت میں مقصود ہوتا، اور اس سلسلے میں اپنے استاذِ گرامی حضرت مولانا کیرانویؒ کے حوالے سے فرماتے تھے کہ اگر ایک لفظ کئی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو دورانِ درس در پیش عبارت میں مقصود معنی ہی کو اچھی طرح ذہن نشیں کرانا مدرس کی ذمے داری ہے، ورنہ اگر تمام معانی کو ایک ہی جگہ بیان کردیا جائے گا تو طالب علم کا ذہن ایک گونہ تشویش کا شکار ہوگا اور ان تمام مفاہیم کا حفظ و ضبط بھی اس کے لیے دشوار ہوگا۔ دوسری چیز یہ کہ وہ مختلف معانی کے حامل لفظ کے معنی تو وہی ذکر فرماتے تھے جو پیشِ نظر عبارت میں مقصود ہوتے؛ لیکن اس ایک معنی کے لیے اردو میں بہ کثرت متبادل اور مترادفات ذکر فرماتے، جس کے نتیجے میں طلبہ کے ذہن و دماغ کے دریچے وا ہو جاتے اور وہ ”لکیر کے فقیر“ نہ رہتے؛ بلکہ از خود دورانِ ترجمہ صحیح متبادل لفظ کے انتخاب پر قادر ہوجاتے۔ مثلا: عذَل -ُ عذلاً: ملامت کرنا، برا بھلا کہنا، زجر و توبیخ کرنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا،سخت سست کہنا، سرزنش کرنا، جھڑکنا، آڑے ہاتھوں لینا وغیرہ۔

            بعد ازاں اشعار کا ترجمہ فرماتے اور اس سلسلے میں درسِ نظامی کی تدریس میں رائج ”روایتی انداز“ کی تقلید سے حد درجہ گریزاں رہتے۔ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ وہ صرف ترجمہ کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے؛ بلکہ ترجمہ نگاری کا فن سکھاتے تھے۔ ”ترجمہ نگاری“ کو بہت سے اصحابِ نظرنے فنِ ”انشا پردازی“ سے زیادہ مشکل اور دشوار قرار دیا ہے؛ اس لیے کہ انشا پردازی کے دوران اظہارِ خیال کے لیے صاحبِ قلم نہ کسی غیر کے افکار و خیالات کاپابند رہتا ہے اور نہ کسی دوسرے کے الفاظ و تعبیرات یا اسلوبِ نگارش کا، جب کہ ایک تخلیق کو اصل زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے والے کے لیے جہاں ”مترجَم منہ” اور ”مترجَم الیہ“ دونوں زبانوں میں مہارتِ تامہ اور کامل دست رس کا ہونا ضروری ہے، وہیں دورانِ ترجمہ اسے مصنف کی شخصیت اور اس کے فکر و اسلوب کا بھی پابند رہنا پڑتا ہے۔

            یہی وجہ ہے کہ حضرتؒ اس پہلو پر بھی مکمل توجہ فرماتے، نہایت شگفتہ، شستہ، شائستہ اور ادبی زبان میں اشعار کا ترجمہ فرماتے، اس سلسلے میں اپنے تجربات بھی بیان فرماتے اور رائج اغلاط پر تنبیہ بھی فرماتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ”ترجمہ نگاری“ کے گُر بتاتے، فنی اصولوں سے روشناس کراتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دشت میں آبلہ پائی کے اصول و آداب سے شناسائی ہمیں اسی درس گاہِ علم و ادب میں پہنچ کر ہوئی۔ دورانِ درس ان کے بیان کردہ چند اصول قارئین کی نذر ہیں:

            ۱- ترجمہ نگاری کے دوران ”مترجَم منہ“ زبان کے بجائے ”مترجَم الیہ“ زبان کے محاورات اور اس کے تقاضوں کا پابند رہنا ضروری ہے، چناں چہ فرماتے: مثلا: ”ذہب زید إلی المحطة“ کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ”زید اسٹیشن گیا“، لفظ ”إلی“ کا الگ سے کچھ ترجمہ کرنا، مثلا: ”اسٹیشن تک“ یا ”اسٹیشن کی طرف“ یہ اردو محاورے کی خلاف ورزی ہے (البتہ کسی خاص مصلحت کے پیش نظر اس طرح کا ترجمہ کرنا بھی درست ہوگا؛ لیکن عمومی اصول یہی ہے)۔

            ۲- اردو زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں فعل ہمیشہ جملے کے اخیر میں مذکور ہوتا ہے، جب کہ فاعل و دیگر متعلقات پہلے ذکر کیے جاتے ہیں اور عربی میں جملہ فعلیہ کے اندر ہمیشہ فعل پہلے آتا ہے، بعد ازاں فاعل و دیگر متعلقات مذکور ہوتے ہیں ؛ لہٰذا دورانِ ترجمہ یہ فرق ملحوظ رکھنا اور اس اصل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے؛ چناں چہ مثال کے طور پر ”انعقدت حفلة لتوزیع الجوائز في قاعة الحدیث التحتانیة في الثامنة لیلا“ کا درست ترجمہ اس طرح ہوگا: ”رات آٹھ بجے دارالحدیث تحتانی میں ایک انعامی جلسہ منعقد ہوا“۔

            ۳- کسی بھی مضمون یا کتاب کا ترجمہ کرتے وقت یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی ضروری ہے کہ ترجمے میں ایسی شگفتگی، سلاست، روانی اور پختگی ہو کہ وہ پڑھنے والے کو ترجمہ نہ محسوس ہو؛ بلکہ اس کی حیثیت ”مترجَم الیہ“ زبان میں ایک مستقل مضمون یا کتاب کی ہو۔

            ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر یہ چند مثالیں ذکر کی گئیں، نہ جانے کتنے ایسے آب دار نگینے اور جواہر پارے اس خزانہٴ علم و ادب سے لٹائے جاتے تھے ، جو اس راہ کے جویا کو نشانِ منزل کا پتہ دیتے ہیں۔

            ترجمے کے بعد اشعار کی تشریح شروع ہوتی اور اس مرحلے پر آکر حضرت کا درس اوجِ کمال پر پہنچ جاتا، نہایت شرح و بسط کے ساتھ کلام فرماتے۔ متنبی کے بارے میں ان کا یہ قول تھا کہ وہ کئی دماغوں کا ایک انسان اور اپنے زمانے کا سب سے بڑا شاعر ہے اور شاعر سے بڑھ کر دانش ور اور فلسفی بھی ہے ، اس سلسلے میں خود متنبی کا یہ قول بارہا ان کی زبانی سنا: ”أنا و أبوتمّام حکیمان، و الشاعر البحتري“۔متنبی کی شاعری سے گہری واقفیت رکھنے والے اہلِ نظر اس بات کی تصدیق فرمائیں گے کہ حیات و کائنات کے بے شمار فلسفوں اور کارگاہِ زیست کے حقائق و مسلمات کو جس خوش اسلوبی سے متنبی نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے وہ بہت کم شعراء کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے، اس کی شاعری میں صرف تشبیہات و استعارات کا بانکپن ہی نہیں ہے؛ بلکہ خیال کی ندرت اور مضامین کی بالیدگی بھی ہے، صرف الفاظ کے زیر و بم اور تعبیرات کے پیچ و خم ہی نہیں ہیں؛ بلکہ نکتہ آفرینی اور معانی کی تہہ داری بھی ہے، اپنی بلند پروازِ تخیل کے ذریعہ وہ ایسے نظارے نگاہوں کے سامنے پیش کردیتا ہے جو دیدہ وروں کے خواب و خیال میں بھی نہیں آتے۔ حضرتؒ چوں کہ ایک رمز شناس و بابصیرت ادیب بھی تھے اور زمانے کے تلخ و شیریں سے آگاہ مفکر بھی؛ اس لیے ان کے یہاں دیوانِ متنبی پڑھنے اور سمجھنے کا الگ ہی لطف تھا، قدم قدم پر وہ متنبی کی شاعری کی خصوصیات سے آگاہ کرتے، اشعار کی لڑی میں پروئے گئے حقائق و تجربات کو واضح کرتے اور شاعر کی نکتہ آفرینی اور عربی زبان پر اس کی مضبوط گرفت سے روشناس کراتے، ان کے میکدے سے بادہ خواری کا حظ اٹھانے والے اس بات کی تصدیق کریں گے کہ متنبی کے بعض اشعار کی توضیح و تشریح کے حوالے سے ان کے ذاتی اجتہادات بھی تھے، جو زبان و ادب کے حوالے سے ان کی وسعتِ نظر اور تعمقِ فکر کی روشن دلیل ہیں۔

            حضرتؒ کے درس کی یہ ہلکی سی منظر کشی ہے، گو کہ بہت سے درسی امتیازات کا اس میں ضمناً تذکرہ آچکا ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ”سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے“ چناں چہ راقم آئندہ کی سطور میں ان کے اسباق کی چند مزید نمایاں خصوصیات مختلف عناوین کے تحت سپردِ قرطاس کر رہا ہے، اگرچہ ”احاطہ“ اس کی بساط سے باہر ہے۔

طرزِ گفتگو

وہ تیرا رو بہ رو ہونا وہ ہم سے گفتگو کرنا

بہت پُرکیف لمحے تھے جو پھر آتے تو اچھا تھا

            حضرت کے درس کی ایک ممتاز خصوصیت آپ کا طرزِ تکلم اور اندازِ گفتگو تھا، جب سلسلہٴ کلام شروع ہوتا تو تمام طلبہ گوش بر آواز ہوجاتے، گفتگو میں ایسی سحر کاری، حلاوت اور چاشنی ہوتی تھی کہ ہرسننے والا ان کا گرویدہ ہوجاتا، ان کی تحریر کی جادو گری تو عالم آشکارا ہے؛ لیکن ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے ان کے تلامذہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اپنی دل چسپ و دل نشیں گفتگو سے سامع کے دل کو موہ لینے کے ہنر سے بھی واقف تھے، آواز کا رنگ و آہنگ، الفاظ کا زیر و بم، ادبی تعبیرات، اعضاء و جوارح کے معنی خیز و منطبق اشارے، سب ہی وہ امور تھے جو ان کے کلام کے لطف کو دو بالا کردیتے تھے، ہر سننے والا بزبانِ حال یہ پکار اٹھتا:

ترا لہجہ، ترا جلوہ ترا اندازِ بیاں

تجھ میں خالق نے ہر اک چیز جدا رکھی ہے

            حضرتؒ سے استفادے کا موقع ہمیں اس وقت میسر آیا جب ان کا کاروانِ حیات ساٹھ کی دہائی کو تجاوز کر چکا تھا، گوناگوں امراض اور مختلف عوارضِ صحت سے آپ نبرد آزما تھے؛ لیکن اس کے باوجود ان کے طرزِ تدریس، اندازِ کلام اور دورانِ درس ولولہ و لگن دیکھ کر کبھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ مسند پر جلوہ افروز یہ شخصیت کئی امراض و آلام سے دو چار ہے۔

زبان و ادب سے متعلق ذاتی تجربات سے طلبہ کو آگاہ کرنا

            بنیادی طور پر تو حضرتؒ عربی زبان کے عبقری معلم: حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے فیض یافتہ اور ان ہی کے مدرسہٴ علم و ادب کے ساختہ و پرداختہ تھے اور ان کے عطا کردہ نقوش و تجربات کو انھوں نے اپنے لیے راہِ عمل بنایا تھا؛ لیکن چوں کہ وہ بذاتِ خود راہِ علم و ادب میں عرصہائے دراز سے آبلہ پا تھے اور قرطاس و قلم سے ان کی وابستگی نصف صدی کا قصہ ہے، کوئی دو چار برس کی بات نہیں، اس بنا پر ان کے پاس ذاتی طور پر تجربات و مشاہدات کا ایک وافر حصہ تھا، جو ان کی وسعتِ نظر، تعمقِ فکر، علمی کدو کاوش اور اس راہ میں جہدِ مسلسل اور سعیِ پیہم کی دین تھے؛ چناں چہ وہ نہایت اہمیت کے ساتھ طلبہ کے سامنے ان تجربات کو ذکر فرماتے، بارہا یہ جملہ بھی ارشاد فرماتے کہ: ”یہ میرے ذاتی تجربات ہیں جو کسی کتاب میں اس طرح لکھے ہوئے نہیں ملیں گے“۔

            بہ طور خاص تعبیرات کے مواقعِ استعمال میں ان تجربات کو خوب ذکر فرماتے، اگر ایک ہی مفہوم کی ادائیگی کے لیے دو یا زائد مختلف تعبیریں مستعمل ہیں تو ان کے درمیان معنوی دقیق فرق اور ان کے محلِ استعمال کو واضح فرماتے، مثلاً: کسی چیز کو مقصد اور نشانہ بنانے کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے ”ہدف إلی کذا“ بھی مستعمل ہے اور ”استہدف کذا“ بھی۔ حضرت نے یہ فرق سمجھایا کہ اصلًا تو دونوں مترادف ہیں؛ لیکن ایجابی اور مثبت مفاہیم کے لیے ”ہدف إلی کذا“ کا استعمال ہوتا ہے، اور سلبی اور منفی معنی کے لیے ”استہدف“ کا۔

            ان تجربات کی بعض مثالیں ”طرزِ تدریس“ کے عنوان کے تحت ترجمہ نگاری کے اصولوں کے ضمن میں گزر چکی ہیں۔

تعبیرات کی تفہیم

            تکمیل ادب کی جماعت میں حضرتؒ سے ”المختارات العربیة“ متعلق تھی، جس میں حل عبارت و لغات اور ترجمے کے بعد سب سے اہم امر عربی جملوں کی ساخت اور تعبیرات کو سمجھنا اور پھر ان پر مشق و تمرین ہے؛ چناں چہ حضرت دورانِ درس آنے والی نئی اور منتخب تعبیرات طلبہ کو سمجھاتے، ان کے مواقعِ استعمال، صلات کی اہمیت، صلات کے فرق سے افعال کے ترجمے میں تغیر، مترادفات کے مفہوم میں دقیق فرق، وغیرہ جیسے عقدوں کی گرہ کشائی فرماتے۔ تعبیرات کا ترجمہ ہی ایسے انداز میں فرماتے کہ مکمل مفہوم مع صلے کے سمجھ میں آجاتا، مثلاً فرماتے: ”اعتمد أحد علی کذا“ فاعل کا مجرور بہ ”علی“ پر بھروسہ کرنا/ اعتماد کرنا، ”ہنّأ أحد غیرَہ بکذا“ فاعل کا مفعول بہ کو ”باء“ کے مجرور کی مبارک باد دینا، ”صرف أحد غیرہ عن کذا“ فاعل کا مفعول بہ کو مجرور بہ ”عن“ سے روکنا/ دور کرنا، اس کے بعد ان تعبیرات پر بذاتِ خود جملے بنا کر سمجھاتے اور طلبہ کو پر زور انداز میں تاکید فرماتے کہ اپنے کمروں میں جاکر ان تعبیرات کو اپنے جملوں میں استعمال کریں، جملوں کے اندر تمام ممکن تغیرات (فاعل کی تبدیلی، متعلقاتِ فعل اور صیغوں میں تغیر وغیرہ) عمل میں لائیں، نتیجتاً تعبیر مکمل مالہ و ما علیہ کے ساتھ ذہن میں راسخ ہوجائے گی۔

رائج اغلاط پر تنبیہ

            عربی زبان و ادب سے واقفیت و بصیرت رکھنے والے ہر فرد پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ فی زمانہ عربی زبان میں بہت سی ایسی تراکیب، تعبیرات و الفاظ در آئے ہیں جو قواعد و ضوابط کی میزان پر کھرے نہیں اترتے اور بابِ سخن میں وہ اغلاط ہی کے قبیل سے ہیں، اگر غور کیا جائے تو بنیادی طور پر اس کے تین اسباب سمجھ میں آتے ہیں:

            پہلا سبب: عام گفتگو اور بول چال میں فصیح کے بجائے ”علاقائی اور عامی زبان“ کا استعمال۔ ”عامی زبان“ میں قواعد کی پابندی تو درکنار الفاظ اور صیغوں کا درست تلفظ بھی نہیں کیا جاتا اور اس وقت پورے عالمِ عرب میں عوام ہی نہیں، خواص کی بھی ایک بہت بڑی تعداد تکلم اور بول چال کی حد تک فصیح کے بجائے عامی زبان کا ہی دامن تھامے ہوئے ہے؛ اس لیے تحریر و انشا پردازی کے باب میں بھی عربی زبان اغلاط کی آلودگی سے پاک نہ رہ سکی؛ چنانچہ حضرتؒ دورانِ درس بھی اور اپنی تحریروں کے ضمن میں بھی جا بہ جا تاکید فرماتے کہ تحریر ہو یا تقریر، بہر صورت فصیح زبان کی پابندی اور اس کے قواعد و ضوابط کو بروئے کار لانا ہی عربی زبان سے سچی محبت کا تقاضا ہے۔ اس حوالے سے حضرتؒ کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمِ عرب میں مقامی اور عامی زبان کے غلبے کو انھوں نے مذہب اسلام اور اس کے دو بنیادی مصدر قرآن و حدیث کے خلاف ایک دانستہ اور دور رس سازش کے طور پر ذکر فرمایا ہے، چنانچہ ”متی تکون الکتابات موٴثرة؟“ (ص ۴۶) پر رقم طراز ہیں: ”وکان ذلک موٴامرةً بعیدةَ المدی لمحاربة الإسلام عن طریق محاربة اللغة التي نزل بہا و لمحاربة القرآن و الحدیث․․․“۔

            دوسرا سبب: اخبارات و جرائد میں مستعمل زبان میں قواعد و ضوابط کی کما حقہ پاس داری کا نہ ہونا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دورِ ترقی میں اخبارات کی کثرت، جرائد و صحف کی بے پناہ اشاعت نے عربی زبان کو ایک نئی وسعت و ہمہ گیری سے ہم کنار کرایا ہے؛ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان میں (بہ طور خاص اخبارات میں) استعمال ہونے والی زبان میں قواعدِ عربیت کی کما حقہ پاس داری و پابندی نہیں کی جاتی، نتیجتاً اس گوشے سے بھی بہت سی اغلاط عربی زبان میں راہ پاگئیں، اور زبان زدِ خاص و عام ہوگئیں، حضرتؒ کے دروس و نگارشات سے استفادے کی بنیاد پر راقم اس نتیجے پر پہنچا کہ اخبارات کی زبان کے واسطے سے در آنے والی اغلاط بالعموم تین طرح کی ہوتی ہیں:

            (۱) نحوی قواعد کی خلاف ورزی۔ مثلاً اگر مضاف الیہ ایک ہو اور مضاف متعدد تو صحیح تعبیر اس طرح ہوگی کہ اولاً مضافِ اول کو ذکر کریں گے، پھر مضاف الیہ، اس کے بعد مضافِ ثانی کو مضاف الیہ سابق کی ضمیر کے ساتھ لایا جائے گا، مثلاً اگر ہمیں یہ کہنا ہے: ”مسجد حرام کے امام و خطیب“ تو صحیح تعبیر یوں ہوگی: ”إمام المسجد الحرام و خطیبہ“ ”عربی زبان کی نشأت اور اس کا ارتقاء“ ”نشأة اللغة العربیة و تطورہا“؛ لیکن اخبارات و جرائد میں بہ کثرت اس کے خلاف (إمام و خطیب المسجد الحرام، نشأة و تطور اللغة العربیة) رائج ہے۔ اسی طرح لفظ ”کافّة“ کا درست استعمال یہ ہے کہ ترکیب میں اسے ماقبل سے حال بنایا جاتا ہے، ارشاد باری ہے: ﴿ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ کَافَّةً﴾ جب کہ اب اس کا استعمال خود ذو الحال کی طرف اضافت کے ساتھ ہونے لگا۔ کافّة الناس، کافّة المشاکل وغیرہ۔

            (۲) صلات کے استعمال میں غلطی۔ عانی معاناةً کے ساتھ ”من“ (یعاني فلان من شدة المرض) کا استعمال، استأذن کے ساتھ ”من“ (استأذن فلان من أبیہ للسفر) کا استعمال، اور أجاب إجابةً کے ساتھ ”علی“(أجاب علی سوٴالہ) کا استعمال۔ یہ سب صلات کی رائج اغلاط ہیں۔

            (۳) اصل عربی الفاظ کے ہوتے ہوئے انگریزی سے معرَّب الفاظ کا استعمال، مثلاً: ”المجمع“ کے بجائے ”أکادیمیة“، ”الحاسوب“ کے بجائے ”الکمبیوتر“، ”الحافلة“ کے بجائے ”الباص“ اور ”سیارة الأجرة“ کے بجائے ”تاکسی“ وغیرہ کا استعمال یہ ان ہی اخبارات و جرائد کی دین ہے۔

            ممکن ہے بہت سے اہل نظر کو مذکورہ بالا بعض امور کو از قبیلِ اغلاط گرداننے سے اختلاف ہو؛ لیکن بہرحال یہ امور قواعد و ضوابط کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے، یہی وجہ ہے کہ حضرت ”کا ذوقِ سلیم“ ان کو درست ماننے سے ہمیشہ اِباء کرتا تھا۔

            تیسرا سبب: اردو زبان میں بہ کثرت عربی الفاظ کا استعمال۔ اس تیسرے سبب کا تعلق برِصغیر ہند و پاک کے اردوداں طبقے سے ہے اور وہ یہ کہ اردو زبان میں بے شمار الفاظ وہ مستعمل ہیں جو اپنی اصل ساخت کے اعتبار سے عربی ہیں؛ لیکن قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ بالعموم اردو میں وہ الفاظ الگ معنی میں مستعمل ہیں، جب کہ عربی میں ان کے متبادل کلمات الگ ہیں، برِصغیر کا اردو داں طبقہ جب عربی سے وابستگی کے بعد اس میں خامہ فرسائی کرتا ہے تو بسا اوقات ناواقفیت کی وجہ سے یا معاجمِ لغویہ کی بہ کثرت مراجعت کی عادت نہ ہونے کی بناء پر اس کے قلم پر اس طرح کے الفاظ اسی معنی میں جاری ہوتے ہیں جس میں وہ اردو میں مستعمل ہیں، حالاں کہ ان کا صحیح متبادل عربی زبان میں الگ ہے، مثلاً ”صدر“ عربی لفظ ہے؛ لیکن اردو میں جس معنی میں یہ استعمال ہوتا ہے اس کا صحیح عربی متبادل ”الرئیس“ ہے، اسی طرح ”وکیل“ کے لیے ”المحامي“، ”ملازم“ کے لیے ”الموظَّف“، ”ملازمت“ کے لیے” الوظیفة“، ”ملاقات“ کے لیے ”اللقاء، المقابلة“، ”ملک“ کے لیے ”الدولة“ وغیرہ صحیح عربی متبادل ہیں؛ حالاں کہ ان میں سے ہر ایک لفظ عربی میں بھی دوسرے مفاہیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

            حضرتؒ قدم قدم پر طلبہ کو اس طرح کی اغلاط سے آگاہ فرماتے، وہ ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ فرماتے تھے کہ کسی بھی تحریر کا اصل کمال، اس کا دل کش ادبی تعبیرات، خوب صورت استعارات و کنایات وغیرہ پر مشتمل ہونا نہیں؛ بلکہ اصل کمال تو اس کا قواعدِ عربیہ کے مکمل مطابق ہونا اور رائج اغلاط سے پاک ہونا ہے۔

رموزِ اوقاف کی پابندی اور املا و تحریر کی درستگی کی تلقین

            جس طرح الفاظ کا درست انتخاب، فکر وخیال کی بلندی اور معانی کی تہہ داری کسی بھی تحریر کے بنیادی اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی طرح املا کی درستگی بھی تحریر کے کلیدی عناصر میں شامل ہے؛ اس لیے کہ اگر مضمون میں صحیح املا کی رعایت نہ کی جائے تو بسا اوقات الفاظ ہی بدل جاتے ہیں، اور قاری کے لیے (بہ طور خاص جو قواعد و رموزِ املا کا عادی ہو) صاحبِ تحریر کی مراد سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے، نیز ”ذوقِ سلیم“ پر گرانی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر تحریر میں رموزِ اوقاف (سکتہ، وقفہ، ختمہ، رابطہ، فجائیہ وغیرہ) کی رعایت بھی ہو تو اس کا پڑھنا اور سمجھنا نہایت سہل ہوجاتا ہے؛ اس لیے کہ ان علامات اور رموز سے معلوم ہوتا ہے کہ دو جملوں کے درمیان کس طرح کا ربط ہے، کون سا جملہ بر سبیلِ تعجب ہے اور کون سا از قبیلِ سوال، کہاں سے نئے عنصر کا آغاز ہو رہا ہے اور کس جملے پر اختتام ہو رہا ہے وغیرہ۔

            حضرتؒ کے درس کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ان کا طلبہ کو املا کی درستگی اور رموزِ اوقاف کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے، حقیقت یہ ہے کہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد دورہٴ حدیث شریف تک پہنچنے کے بعد بھی ان امور سے کما حقہ واقف نہیں ہوتی؛ لیکن جب وہی طلبہ تکمیلِ ادب کی جماعت سے وابستہ ہوتے اور حضرت کے درس سے مستفید ہونے کا موقع انھیں نصیب ہوتا تو ان امور کے تعلق سے ان کی ”ناواقفیت“ اور ”وحشت“ ختم ہو کر ”انسیت“ میں بدل جاتی۔ گاہے گاہے طلبہ کو اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”حرفِ شیریں“ کو پڑھنے اور اس میں بیان کردہ امور کی عملی تطبیق کی نصیحت فرماتے۔

            اسی طرح طلبہ کو تحریر کی درستگی اور خوش خطی پر توجہ دلاتے۔ خود ان کا خط بھی نہایت پاکیزہ، نفیس اور خوبصورت تھا، راقم حروف نے ”النادی الادبی“ کے محفوظات میں حضرت کے دستِ مبارک سے خطِ نسخ میں لکھے ہوئے ان کے زمانہٴ طالب علمی کے ایک ”مجلے“ کا بچشمِ خود مشاہدہ کیا ہے، تحریر کی جاذبیت اور خط کی دل کشی ایسی ہے کہ کوئی صاحبِ ذوق لطف اٹھائے بغیر نہ رہ سکے؛ بلکہ بظاہر دیکھنے والا فرق نہیں کرسکتا کہ یہ ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر ہے یا کمپیوٹر سے ٹائپ شدہ۔ ان کا خطِ نسخ ماضی میں استعمال ہونے والے ”مصری ٹائپ رائٹر“ سے بہت حد تک مشابہ تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ: ”حسنِ خط طالب علم کا زیور ہے“۔ حسنِ خط کے فوائد و منافع اور بد خطی کے مضرات و نقصانات سے متعلق حضرتؒ نے جو ”حرف شیریں“ میں گفتگو فرمائی ہے وہ ہر طالب علم کے لیے مطالعے کی چیز ہے؛ بلکہ وہ مکمل کتاب ہی اپنے قیمتی مشمولات کی بنا پر رہروانِ علم و ادب کے لیے ”متاعِ بیش بہا“ اور ”گنجِ گراں مایہ“ کی حیثیت رکھتی ہے۔

            حضرت کے اسباق کی یہ چند خصوصیات و امتیازات اور ان کے دروس و نگارشات سے حاصل ہونے والے کچھ تجربات ہیں جو طالبانِ علومِ نبوت کے لیے راہ نما ہدایات اور ایسے روشن نقوش کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کو اپنے ”علمی سفر“ میں ”زادِ راہ“ بنالینا ان کے لیے تابناک مستقبل کا ضامن ہے۔ حضرت کے درس سے متعلق اپنی اس دراز نَفَسْ گفتگو کو راقم ان اشعار کے ساتھ ختم کرتا ہے:

تشنہ کاموں کے لیے یوں فیض ان کا عام ہے

جیسے ہو وسطِ بیاباں میں کوئی پانی کی جھیل

دل میں یوں پیوست ہو جاتی تھی تعلیم آپ کی

جیسے خاتَم میں نگینہ، تختہٴ کشتی میں کیل

عمر بھر اس سے ہدایت لیں گے تلمیذ آپ کے

آپ کے اسباق ہیں علمی سفر میں سنگِ میل

لغتِ حجاز کے رمز شناس صاحبِ قلم

            عربی زبان و ادب سے پروانہ وار قلبی وابستگی، اپنی نوکِ قلم سے اس کی زلفوں کو سنوارنا اور اس کے سرمائے میں قیمتی اور گراں قدر جواہر پاروں کا اضافہ کرنا، حضرتؒ کی داستانِ حیات کا سب سے درخشاں ورق اور ان کے علمی کارناموں کی اصل جولان گاہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان وادب کی حیثیت آپؒ کے لیے محض ایک علم اور فن ہی کی نہیں تھی؛ بلکہ یہ ان کا ذوق اور حال بن گیا تھا اور ان کے جسم وجان اور رگ و ریشے میں اس طرح رچ بس گیا تھا جیسے پھولوں میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی

ع شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحرگاہی کا نم

            انھوں نے تقریبا نصف صدی تک پرورشِ لوح و قلم کا فریضہ انجام دیا، لگ بھگ پانچ دہائیوں تک ان کے قلم کا ستارہٴ بلند اقبال برِ صغیر کے افق پر جگمگاتا رہا، اس طویل عرصے کے دوران انھوں نے اپنے قلم کے ذریعہ وہ نمایاں خدمات انجام دیں جو ”جریدہٴ عالم“ پر ان کے ”نقوشِ دوام“ ثبت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مجلہ ”الداعی“ کا ترقی و مقبولیت کے مدارج طے کرتے ہوئے شہرت کے بامِ عروج تک پہنچنا ان ہی کی شبانہ روز محنتوں کا رہینِ منت ہے، کم و بیش چالیس سال تک انھوں نے ”الداعی“ کی ادارت کے فرائض انجام دیے اور اس شان سے کہ صرف برِ صغیر ہی نہیں؛ بلکہ عالمِ عرب تک دارالعلوم دیوبند کی ”صدائے حق“ کا فیض پہنچایا اور ”نغمہٴ ہندی“ کو ”حجازی لے“ میں پیش کرنے کی ذمے داری کو بہ خوبی نبھایا۔

            ان کی ایک اور ممتاز خصوصیت جو علم و ادب کے رہ نوردوں کے لیے ”شاہِ کلید“ کی حیثیت رکھتی ہے، یہ ہے کہ انھوں نے اپنے قلم کو محض ”لالہ و گل“ کے ”افسانوں“ یا ”حسیں خوابوں“ کی نقاشی کے لیے کبھی نہیں استعمال کیا؛ بلکہ اسے خدا کی عطا کردہ امانت سمجھ کر ہمیشہ دعوت الی اللہ اور پیغامِ حق کی ترجمانی کے مقدس فریضے کی انجام دہی کا ذریعہ بنایا؛ یہی وجہ ہے کہ ان تحریروں میں داعیانہ بصیرت بھی ہے اور مفکرانہ دیدہ وری بھی، درد مندانہ شعور بھی ہے اور ایمان افروز تجزیہ بھی، ایک مومنِ ادیب کی روشن ضمیری بھی ہے اور ایک سچے داعی الی اللہ کا سوز بھی۔

            وہ چوں کہ عربی زبان کے رمز شناس، کوائفِ تازہ اور احوالِ واقعی سے باخبر، بصیرت مند اور دیدہ ور ادیب تھے؛ اس لیے وہ اپنوں کی ”سادگی“ اور غیروں کی ”عیاری“ سے بہ خوبی آگاہ تھے اور ان عیاریوں کو اجاگر کرنے اور امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل و خطرات سے باخبر کرنے کے تعلق سے اپنی ذمے داری کا انھیں مکمل احساس تھا، ان کے قلمِ حقیقت رقم سے وجود میں آنے والے بہت سے ”شاہ کار“، بہ طور خاص: ”فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں“، ”کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟“ اور ”موجودہ صلیبی صہیونی جنگ“ ان کے اسی احساس و شعور کا نتیجہ ہیں۔

            وہ عربی میں ایک منفرد اور نرالے اسلوب کے مالک تھے، جس میں حلاوت بھی تھی اور لطافت بھی، قوت بھی تھی اور تاثیر بھی، خیالات کا بانکپن بھی تھا اور پیرایہٴ بیان کا تنوع بھی، ان کی نثر نسبتًا طویل جملوں؛ لیکن عمدہ، پرشکوہ اور دل کش تعبیرات پر مشتمل ہوتی تھی، غرضے کہ ایک باذوق قاری کی تسکین و تسلی کا مکمل سامان ان کی تحریر میں تھا۔ نمونے کے طور پر درجِ ذیل اقتباس نذرِ قارئین ہے جو ”تحریر و بیان میں قوت و تاثیر کے حصول کے اسباب“ کے عنوان سے متعلق ہے:

                                                ”الکتابات تکتسب الجمالَ، و القوة، والتأثیر بالعواطف التي تتفجَّر من أعماق القلب، و مَشاعر التألّم التي تُکیِّف کلاًّ من القول والفعل بمعانٍ لایقدر علی التعبیر عنہا لسان أي ”سحبان“ وقلم أي ”جاحظ“۔

                                                إن مجرَّد ترتیب الحروف لتتکوّن کلمات، و تصفیف الکلمات لتصیر جُمَلاً وفقرات، وإسناد الجمل إلی الجمل لتُصبح نصًّا متکاملاً، لیس بشيء إذا تجرَّد من المعاني المذکورة أعلاہ؛ لأن النص الخالي منہا جسَد بلا روح، لا یمشي و لا یتحرک، ولا یوٴدّي دورَہ في الحیاة۔

                                                إن الکتابات أصلاً ہي کتابات من یعتقد أنَّ الکتابة في الواقع مسوٴولیةٌ أمامَ اللّٰہ و خَلْقہ، کُلِّف ہو أداءَ ہا عند ما أُہِّل لہا بتقدیر العزیز العلیم۔

                                                ومن یعتقد ہذا الاعتقاد یکتب ما یکتب بدم القلب لا بالمِداد، وعن وحيٍ من الضمیر، و إملاءٍ من الغیرة، وإلہامٍ من التوفیق الإلہی، والإنسانیة التي یتصف بہا و یصدر عنہا في جمیع أعمالہ في الحیاة“۔ (متی تکون الکتابات موٴثرةً؟)

            عربی میں ان کی تالیفات تقریبا ایک درجن ہیں، جن میں ”فلسطین في انتظار صلاح الدین“، ”مفتاح العربیة“، ”الصحابة و مکانتہم في الإسلام“، ”تعلموا العربیة فإنہا من دینکم“، ”متی تکون الکتابات موٴثرة؟“، ”من وحي الخاطر“، ”مجتمعاتنا المعاصرة و الطریق إلی الإسلام“، ”العالم الہندي الفرید الشیخ المقرئ محمد طیب“ وغیرہ شامل ہیں۔

            ”الداعی“ کی کامیاب اور بے مثال ادارت اور مذکورہ گراں قدر تالیفات کے علاوہ ان کا ایک عظیم کارنامہ اکابر کی کتابوں کو اردو کے قالب سے عربی سانچے میں ڈھالنا ہے؛ چناں چہ انھوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ، مفکر اسلام حضرت مولانا سیّدابوالحسن علی میاں ندویؒ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ وغیرہ اکابر کی تقریباً ۳۵ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا اور اِن اکابر کے ”تام“ فیض کو مزید ”عام“ کردیا۔

گلستانِ اردو کے گلِ سرسبد

             حضرتؒ کے قلم کی جولانیاں صرف عربی زبان تک محدود نہ تھی؛ بلکہ وہ اردو زبان کے بھی بلند پایہ اور ممتاز صاحبِ قلم تھے؛ چناں چہ ان کے خامہٴ گہر بار نے دامنِ اردو کو بھی بے شمار آب دار موتیوں سے مزین کیا۔ یوں تو ان کے ذہنِ رسا نے اشہبِ قلم کو مختلف و متنوع موضوعات کی سیر کرائی ہے؛ لیکن سوانحی باب اور شخصیات پر تحریر کردہ مضامین و مقالات میں ان کے قلم کی جولانیاں اور رعنائیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ ان کی تالیف کردہ مشہور زمانہ کتاب ”وہ کوہ کَن کی بات“ ایک لائق وفائق سعادت مند شاگرد کی جانب سے اپنے محبوب عبقری استاذ کی شان میں صرف ایک خراجِ عقیدت کی حیثیت ہی نہیں رکھتی؛ بلکہ وہ زبان وقلم کے تعلق سے ان کی عظمتوں کا روشن حوالہ بھی ہے۔ اس کتاب کی سطر سطر سے جہاں ان کی اپنے استاذ کے تئیں محبت و عقیدت سے سرشاری جھلکتی ہے، وہیں موٴلف کی زبان وبیان پر قدرت، اس کی نزاکتوں اور خوب و زشت سے گہری واقفیت بھی صاف طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرتؒ نے اس کتاب کی تالیف کے ذریعہ سوانحی باب میں ایک نیا ”طرزِ جنوں“ متعارف کرایا ہے، جس میں مضامین و معانی کی ترتیب میں بھی ”روایتی طرز“ کی ”تقلید“ سے ہٹ کر الگ روِش ختیار کی ہے اور الفاظ و تعبیرات میں بھی ”مانگے کے اجالے“ سے بالکلیہ پرہیز کیا ہے۔ بہ طورِ نمونہ ایک اقتباس ملاحظہ ہو جو ان کی خوبصورت انشاپردازی کا نمونہ بھی ہے اور چاشنی بھری نثر کا نقش دوام بھی:

            ”اب کسی کو کس طرح بتاوٴں کہ نوجوانانِ مسلم اور عشاقانِ زبانِ محمدی و تہذیبِ حجازی کے لیے مولانا کیا تھے اور کیا نہ تھے:

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاوٴ کہ ہم بتلائیں کیا

            خوابیدہ صلاحیتوں کے لیے مرغِ سحر، افسردہ دلوں کے لیے مرغِ چمن، مردہ ضمیروں کے لیے حرارتِ نفس ہائے مسیح، کسل مندوں کے لیے بانگِ درا، ناشکیبوں کے لیے ضربِ کلیم، شرمندگانِ ساحل کے لیے بحرِ بے کراں، مغلوبانِ گماں کے لیے یقینِ محکم، اور اسیرانِ آرزو کے لیے عملِ پیہم۔

            جب بھی جی نہ لگتا، تو مولانا کے پاس جاتا اور تخمِ عمل اور نخلِ فکر و نظر کے لیے ہمیشہ سازگار آب وہوا کی ایک بڑی قسط لے کر واپس آتا۔ نا امید جاتا اور دل کے لالہٴ افسردہ کو آتش قبا کر کے واپس آتا۔ کوئی خوشی ہو یا غم، ان سے ضرور ملتا؛ کیوں کہ وہ خوشی کو دو بالا اور غم کے لیے زود اثر مرہم‘ ہم دست کردیتے“۔ (وہ کوہ کن کی بات: ص ۶۱- ۶۲)

            حضرتؒ کے قلم کا ایک اور وقیع شاہ کار مشہورِ زمانہ شخصیات پر ان کے تحریر کردہ مضامین کا مجموعہ ”پسِ مرگ زندہ“ ہے، یہ کتاب بھی سرمایہٴ اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے، تمام ہی مضامین میں ان کی زبان نئی تراکیب اور خوش نما ادبی تعبیرات سے بھر پور ہے، خیال کی ندرت، اسلوبِ نگارش کی حلاوت، طرزِ بیان کی سحرکاری اور ظرافت و بذلہ سنجی وغیرہ یہ وہ امور ہیں جن کی بنیاد پر قاری کبھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ ان کے الفاظ میں شوکت و جلال اور رعنائی و جمال کا بہت خوبصورت و صال نظر آتا ہے، ان کی تحریر صرف جادو نہیں جگاتی؛ بلکہ ذہن کے بند دریچوں کو بھی وا کرتی ہے۔ ”پسِ مرگ زندہ“ کا بھی ایک اقتباس نذرِ قارئین ہے:

            ”مولانا (منظور) نعمانیؒ نے دار العلوم دیوبند میں ایسے علمائے نام دار کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، جو عالم میں انتخاب اور علم و عمل کے آفتاب و ماہ تاب تھے، علم و عمل کی جامعیت کے اعتبار سے اِس وقت ان کی نظیر نہ صرف بر صغیر میں؛ بلکہ پوری دنیا میں نہیں مل سکتی۔ آج علم کی ”سرکشی“ اور معلومات کی ”دھماکہ خیزی“ و ”رستاخیزی“ کا دور ہے۔ عقل نے قلب کے خلاف اور علم نے عشق کے خلاف ”مسلح“ کام یاب اور افسوس ناک ”بغاوت“ کر رکھی ہے۔ ”زبانِ ہوش مند“ ”دلِ روشن“ پر غلبہ پایا چاہتی ہے اور مادّیت اپنے تمام کرّ و فر کے ساتھ روحانیت سے برسرِ پیکار ہے۔ سب سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ بہت سی جگہ اور بہت سی مرتبہ اول الذکر، ثانی الذکر پر اُسی کی شکل و صورت میں حملہ آور ہوتی رہتی ہے؛ اس طرح ”من کی دنیا“ کے مخلصوں اور ”تن کی دنیا“ کے اہل کاروں میں بہت سے ظاہر بینوں کے لیے فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے“۔ (پسِ مرگ زندہ: ص ۳۹۷)

            اردو میں حضرت کی کتب کی تعداد آٹھ ہے، جس میں مذکورہ دو کتابوں (وہ کوہ کن کی بات اور پس مرگ زندہ) کے علاوہ ”فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں“، ”کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟“، ”موجودہ صلیبی صہیونی جنگ“، ”حرفِ شیریں“، ”خط رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں؟“ اور ”رفتگانِ نارفتہ“ شامل ہیں۔

            آج استاذمحترمؒ ہمارے درمیان نہیں ہیں؛ لیکن ”جہدِ مسلسل“ اور ”عملِ پیہم“ سے عبارت ان کی حیاتِ بابرکات کے یہ روشن نقوش ان کے تلامذہ اور محبین و مخلصین کو صبر و ہمت، جفا کشی، بلند حوصلگی اور اَن تھک محنت و جد و جہد کے ساتھ کامیاب وبا مقصد زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ مہمیز کرتے رہیں گے۔ گو کہ ان کی رحلت سے بزمِ قرطاس و قلم برہم ہوگئی اور جہانِ ادب تاریک ہوگیا؛ لیکن اپنی تحریرات و تالیفات میں بکھرے ”جواہر پاروں“ کی بنیاد پر وہ قدر دانوں کے دلوں میں پسِ مرگ زندہ رہیں گے۔

کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں

صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

            اور

تیرے اعمال ابد تک نہ مریں گے ہرگز

رہ نما ہے ترا نقشِ کفِ پا تیرے بعد

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :6-7،    جلد:105‏،  شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق   جون-جولائی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts