از: مولانا اشرف عباس قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

اسلام کی اشاعت میں تلوار اور طاقت کے بے جا استعمال کا طعن

            محسن انسانیت سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے انسانیت کی کشت ویراں لہلہا اٹھی، حق و انصاف کا نیا دور شروع ہوا، انسانوں کے خود ساختہ اصنام ونظریات کو منہ کی کھانی پڑی، گم گشتۂ راہ بندگان خدا کے دلوں میں اپنے خدائے برتر کی عظمت، یکتائی اور قوت اس طرح راسخ ہوگئی کہ پوری دنیا کی طاقت وشہنشاہیت ان کی ٹھوکروں میں آگئی، صرف تیئس سال کے عرصے میں کیا مکہ کیا مدینہ؛ پورے جزیرۃ العرب میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نظام اور شریعت کے آگے جاہلانہ تہذیب، جابرانہ نظام اور وثنیت ونصرانیت نے سپرڈال دیے۔’’یہ مملکت (مدینہ کی ریاست) ابتداء میں ایک شہری مملکت تو تھی؛ لیکن کامل شہر میں نہیں تھی؛ بلکہ شہر کے ایک حصے میں قائم کی گئی تھی؛ لیکن اس کی توسیع بڑی تیزی سے ہوئی ہے، اس توسیع کا آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ صرف دس سال بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اس وقت مدینہ ایک شہری مملکت نہیں ؛ بلکہ ایک وسیع مملکت کا دارالسلطنت تھا۔ اس وسیع سلطنت کا رقبہ تاریخی شواہد کی رو سے تین ملین یعنی تیس لاکھ مربع کلومیٹرپر مشتمل تھا۔ دوسرے الفاظ میں دس سال تک اوسطاً روزانہ کوئی آٹھ سو پینتالیس مربع کلومیٹر علاقے کا ملک کے رقبے میں اضافہ ہوتا رہا۔‘‘ (خطبات بھاولپور، ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ)

            ظاہر ہے اس حیران کن تبدیلی اور صالح انقلاب کے پس پشتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ومکارمِ اخلاق، اسلام کے محاسن وخصوصیات کارگر عناصر تھے؛ لیکن براہو تعصب وعناد کا، کہ مستشرقین نے اسلام کی اس غیرمعمولی فتح واشاعت کو بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت گیری اور سیف وسنان کی طاقت کا کرشمہ قرار دے دیا اور اسلام کے اس رخ روشن کو داغ دار کرنے کے لیے اپنی نام نہاد تحقیق کے زور پر مزعومات وافتراء ات کا ایسا پلندہ تیار کردیا ہے کہ الامان والحفیظ۔

الزام کا پس منظر

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے مذہب اور نظریے کی اشاعت کے لیے تلوار اور بے جا طاقت کے استعمال کا الزام اب کافی پرانا ہوچکا ہے؛ تاہم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاندین جو ہمیشہ کمزور پہلوئوں کی تلاش میں رہتے تھے، اس طرح کا بے بنیاد الزام عائد نہیں کرسکے، آپ کے بعد آپ کے صحابہ اور اولوالعزم خلفاء کے دور میں بھی اس طرح کی الزام تراشی سامنے نہیں آئی، ہزارسال کے بعد جب مسلمانوں کی شمشیرخارا شگاف کند پڑنے لگی، ان کی طاقت ومرکزیت کا شیرازہ بکھرنے لگا، تو عیسائی ویہودی مؤرخین ومحققین نے زور وشور کے ساتھ اس کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا اور عالمی سطح پر حکومت وطاقت کے اعتبار سے کمزور ہوتے مسلمانوں کو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔ دراصل دوسوسال تک عیسائیوں کی مذہبی وسیاسی قیادت کے گٹھ جوڑ سے جاری رہنے والی مقدس صلیبی جنگوں (۱۰۹۷ء تا ۱۲۶۸ء) میں تمام تردسیسہ کاریوں ، سازشوں ، وسائل کے بے دریغ استعمال، عوام میں مسلم مخالف مذہبی جنون پیدا کرنے اور ہرقسم کے ظلم و ستم کو روا رکھنے کے باوجود یورپ کو ناکامی ہاتھ لگی اور وہ سمجھ گئے کہ عسکری طاقت کے ذریعے مسلمانوں کو ختم کرنا مشکل ہے اور اس کے بعد یورپ کو علم وثقافت کی نئی روشنی بھی مل گئی، تو وہاں کے مفکرین ومحققین نے علم و تحقیق کی آڑ میں مسلمانوں پر اپنی تہذیبی برتری ثابت کرنے کے لیے اسے ایک تشددپسند اور پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تندخو اور سخت گیر فاتح قرار دیا۔ بعد کے ادوارمیں ہندوستان کے مسلم فاتحین کے پس منظر میں یہاں کے ہندو مؤرخین نے بھی اس الزام کو ہوادی۔

مستشرقین اور ہندومؤرخین کی افتراپردازی

            مونیسینبر کولی اپنی کتاب ’’البحث عن الدین الحق‘‘ میں لکھتا ہے:

            ’’محمد(…) نے اپنے متبعین کو تلوار پکڑادی اور جنگی اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انھیں غلط کاری اور لوٹ مار کی اجازت دے دی اور لڑائی میں مرنے والوں کو جنت کی داعی اور لازوال نعمتوں کی خوشخبری سنائی۔‘‘

            ’’تاریخ فرانس‘‘ کا مصنف گلین لکھتا ہے:

            ’’دین اسلام کے بانی محمد (…) نے اپنے متبعین کو حکم دیا کہ وہ تمام مذاہب کا خاتمہ کرکے دین اسلام کو نافذ کریں اور ان عربوں نے طاقت کے بل پر اپنا دین مسلط کردیا اور اعلان کردیا کہ اسلام قبول کرو یا موت کو گلے لگائو۔‘‘

            گلوور ’’تقدم التبشیر العالمی‘‘ میں لکھتا ہے:

            ’’محمد مطلق العنان حکمراں تھے اور انھوں نے ہر اس شخص کی گردن زدنی کا عہد کررکھا تھا جو ان کی مرضی کا غلام نہ بن سکے، انھوں نے اپنی عرب فوج کو اس پر لگارکھا تھا کہ جو بھی ان کی مرضی مسترد کردے اور ان کی راہ سے دوری اختیار کرے اسے موت کے گھاٹ تاردیں ۔‘‘ (افترائات المستشرقین والرد علیہا، د۔ یحییٰ مراد، مقالہ: ڈاکٹر عماد خلیل، ص۲۸۰-۲۸۱)

            منٹگمری واٹ ’’محمد فی المدینہ‘‘  میں لکھتا ہے:

            ’’بلاشک وشبہ محمد(…) کے ذہن میں ایک نکتہ بھی تھا، انھوں نے مسلمانوں کو باہم لڑائی کرنے اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے منع فرمایا اور مسلمانوں کی تعداد دیکھتے ہوئے سرحدی علاقوں کے قافلے لوٹنے کا حکم دیا۔‘‘

            ایک دوسرے مقام پر لکھتا ہے:

            ’’ڈاکے اور جہاد میں فرق صرف نام کی تبدیلی کا ہے، اس طرح وہ کام دراصل ڈاکہ ہی تھا، اس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔‘‘ (محمد فی المدینہ، ترجمہ: شعبان برکات، المکتبۃ العصریۃ)

            اور جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ برصغیر میں انگریزوں نے دو بڑی قوموں میں منافرت بڑھانے کے لیے اس الزام کو خوب ہوا دی، چنانچہ ایسے رسالے ’’سب سے پہلے ممبئی کے گورنر الفسٹن کے قلم سے صفحۂ قرطاس پر آئے جو بہت جلد ملک کے کونے کونے میں پھیلادیے گئے، یہاں تک کہ اسے شامل کرکے بچوں کو پڑھایا جانے لگا۔‘‘ (مختصرتاریخ ہند، سیدابوظفرندی، مطبع معارف، ۱۹۷۹ء)

            ان جیسے انگریز مؤرخین سے متاثر ہوکر بہت بعد میں ہندومؤرخین بھی اس راہ پر چلتے نظر آئے؛ چنانچہ مشہور ہندو مؤرخ سرجادَوناتھ نے پانچ جلدوں میں اورنگ زیب کے نام سے انگریزی میں کتاب لکھی ہے جس میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہے:

            ’’اسلام ایک وحشیانہ مذہب ہے جو اپنے متبعین کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ لوٹ مار اور خوں ریزی کو مذہبی فرض سمجھو، یہ دنیا کے امن کا دشمن ہے اور اس کی رو سے رواداری ناجائز ہے، اورنگ زیب کی عدم رواداری کا ذمہ دار اسلام تھا؛ کیوں کہ وہ شجراسلام کا ایک پھل تھا، جب درخت ہی کڑوا ہے تو پھل لامحالہ کڑوا ہوگا۔‘‘ (دیکھیے: کتاب کاص۱۶۳-۱۹۰، نئی دہلی ۱۹۷۲ء)

            ان کے علاوہ ایشوری پرساد، سری رام شرما، آشروادی لال وغیرہ نے یہ کہہ کر تنقیدکی ہے کہ اسلام کو پھیلانے کے لیے جبر وتشدد کی پالیسی اپنانے میں کوئی مضایقہ نہیں ۔

نبیٔ رحمت پر دہشت کا طعن؟

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام پر لگائے گئے یہ الزامات حقیقت سے بعید تر ہیں ، ظالموں نے یہ الزامات اس شخصیت پر عائد کردیے جو سراپا رحمت، امن کے پیامبر، صلح ومحبت کے داعی، دنیا سے ظلم وتشدد ختم کرکے ہر صاحب حق کو اس کا حق دلانے والے اور انسانیت کے سب سے بڑے محسن ہیں ، جن کی حیات طیبہ کے ورق ورق اور روشن تعلیمات کی سطر سطر سے انسان دوستی، کمزوروں کی دستگیری، ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور انسانی خون کی بے پناہ وقعت واہمیت کا سبق ملتا ہے، جو صرف انسانوں کی جہاں نہیں ؛ بلکہ چرند وپرند، طیور ومَلَک اور ارض وفلک سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے، جنھوں نے اپنے سخت ترین جانی دشمنوں پر بھی عین اس وقت پیار کی شبنم چھڑکی جب آپ کے ایک اشارے پر ان کے سرتن سے جدا کیے جاسکتے تھے، صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کثیرا۔

اشاعت اسلام میں تلوار کا کردار

            اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام میں طاقت اور تلوار کی بھی اہمیت مسلم ہے۔ ظلم وستم اور شروفساد سے پاک معاشرے کی تشکیل میں کبھی تلوار ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے اور مسلمانوں کی تلواروں نے بدروحنین میں ائمہ کفر کی سرکوبی اور فتنہ وفساد کا قلع قمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا؛ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر حصولیابی اور اسلام کی غیرمعمولی اشاعت کو اسی تلوار کا فیض قرار دینا حقیقت سے منہ چرانا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض نہ تو نقل یعنی کتاب وسنت کی کسوٹی پر درست ہے، نہ عقلی اعتبار سے اور نہ ہی تاریخی حقائق و واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس پہلو سے مسئلے کا مختصر جائزہ لے کران اسباب وذرائع کو بھی واضح کریں گے جو اسلام کی اشاعت میں اختیار کیے گئے۔

کتاب وسنت کی کسوٹی پر

            کتاب وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں قبول اسلام کے لیے جبر واکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ارشاد باری ہے:

          ’’لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیٰ لاَ انْفِصَامَ لَہَا وَاللّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ‘‘(البقرۃ:۲۵۶)

            ’’دین میں زبردستی نہیں ، ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ سو جو شخص شیطان کا انکار کردے اور اللہ کا یقین جمالے تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کو کسی طرح شکستگی نہیں اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والے ہیں اور خوب جاننے والے ہیں ۔‘‘

            اس آیت کا سبب نزول جان لینے سے صورت حال مزید واضح ہوجاتی ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنوسالم بن عوف سے تعلق رکھنے والے ایک انصاری صحابی حصینؓ کے دو بیٹے بعثت سے قبل ہی نصرانیت اختیار کرکے مدینے سے چلے گئے تھے۔ ایک زمانے کے بعد دونوں نصرانیوں کی ایک جماعت کے ساتھ بہ غرض تجارت مدینہ منورہ آئے، تو ان کے والد حصینؓ ان کے پیچھے پڑگئے کہ تمھیں اسلام قبول کرنا ہی ہوگا۔ معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس میں واضح کردیاگیا کہ ایمان وکفر انسان کا ذاتی معاملہ ہے، بہ جبر واکرام کسی کو اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (تفسیر طبری ۵/۴۰۹، روح المعانی ۳/۱۹)

          دوسری جگہ ارشاد باری ہے:  ’’أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِینَ‘‘ (یونس:۹۹)

            ’’کیا آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ ایمان ہی لے آئیں ۔‘‘ یعنی آپ ایسا نہیں کرسکتے ہیں ،نبی کا کام تبلیغ کرنا ہے، کسی کو قبول حق پر مجبورکرنا ہرگز نہیں ۔

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی اپنے قول وعمل سے قرآن مقدس کی ہی تبیین وتشریح فرمائی ہے، تو کیا ایسے واضح قرآنی ارشادات وہدایات کی موجودگی میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آپ نے کبھی ان کی خلاف ورزی کی ہوگی اور کسی کو اسلام پرمجبور کیا ہوگا؟ بلکہ ایک مشرک اگر مجبور ومقہور ہوکر پناہ میں آجائے تو بھی قرآن کریم نے واضح کردیا ہے کہ اسے اسلام لانے پر مجبور نہیں کرنا ہے، اس پر موقع ہونے کے باوجود دبائو نہیں بنانا ہے۔ اس کے سامنے اسلام اوقر آن مقدس کی اچھی طرح تبلیغ کردو، اگر وہ نہ مانے تو بھی اس پر زیادتی کرنے کا کوئی حق نہیں ؛ بلکہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس کو کسی محفوظ مقام تک پہنچادو، ارشاد ہے:

          ’’وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُونَ‘‘ (التوبۃ:۶)

            ’’اور اگر کوئی شخص مشرکین میں سے آپ سے پناہ کا طالب ہو تو آپ اس کو پناہ دیجیے؛ تاکہ وہ کلام الٰہی سن لے، پھر اس کو اس کے امن کی جگہ میں پہنچادیجیے، یہ حکم اس سبب سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ پوری خبر نہیں رکھتے۔‘‘

عقل کی کسوٹی پر

            جس کو بھی عقل وخرد کا ذراحصہ نصیب ہوا ہے تو وہ یہ خوبی سمجھ سکتاہے کہ بھلا محض تلوار کے زورپر اتنے کم عرصے میں اس قدر مضبوط ومستحکم اور مقبول حکومت کیسے قائم کی جاسکتی ہے؟ اگر بہ زور وزبردستی وقتی طور سے کسی پراپنانظریہ مسلط بھی کردیا جائے تو وہ موقع ملتے ہی اپنی گردن سے اس کا پٹہ اتار پھینکتا ہے؛ کیوں کہ تلوار سے کسی کے دل پر حکمرانی نہیں کی جاسکتی ہے، جب کہ پوری تاریخ گواہ ہے کہ چند افراد کو چھوڑ کر جس کسی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کا اقرار کرلیا، زندگی کی آخری سانس تک وہ اس پر اس طرح قائم رہا کہ کوئی خوف یا کوئی طمع اس کے پائے استقامت میں جنبش نہ پیدا کرسکی، اس کے جذبۂ طاعت پر خود کفار ومخالفین دنگ رہ جاتے تھے۔

            دوسری بات یہ ہے کہ مکۃ المکرمہ میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے سروسامانی کے عالم میں دعوت اسلام کا آغاز کیا، اس وقت آپ کے پاس نہ تو تلوار کی طاقت تھی اور نہ کوئی مخصوص طاقتور لابی؛ بلکہ جن سعادت مند نہتے لوگوں نے اسلام کو قبول کرلیا تھا وہی مقہور ومجبور تھے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور ان نومسلموں کے پاس صبروتحمل کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور اگر کوئی مذہب تلوار کے ذریعے پھیلتا تو یقینا کفار ومشرکین کو کسی محاذ پر ہزیمت نہیں ہوتی اور اسلام کا چراغ روشن ہونے سے پہلے گل کردیا جاتا؛ اس لیے کہ تلوار کی طاقت تو ان کے پاس تھی اور ان تلواروں کو استعمال کرنے والے مضبوط بازئوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔

            اپنے دین اور نظریے کی اشاعت کے لیے تلوار کا استعمال ایسا بے بنیاد اور خلاف عقل الزام ہے کہ خود ایک مستشرق تھامس کارلائل نے بھی اس کو قطعی جھوٹ قرار دیتے ہوئے لکھا:

            ’’یہ عقل میں آنے والی بات ہی نہیں کہ ایک شخص، جو اپنی دعوت کے ابتدائی دنوں میں بالکل تن تنہا ہو، کوئی اس کو ماننے والا نہ ہو، وہ اکیلے پوری قوم اور جماعت کے خلاف تلوار لے کر اٹھ کھڑا ہو اور انھیں اپنے آپ کو منوانے پر مجبور کردے۔‘‘ (محمد المثل الاعلیٰ، ترجمہ: محمد السباعی، ص۲۱، مکتبۃ النافذہ، مصر۲۰۰۸ء)

تاریخ کی کسوٹی پر

            پوری سیرت طیبہ اور تاریخی تحقائق سے ثابت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار کے ذریعے اسلام پھیلانے کا الزام انتہائی غلط، من گھڑت اور صرف تعصب وعناد پر مبنی ہے۔

            ۱- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال تک بے سروسامانی کے عالم میں مکۃ المکرمہ میں دین حق کی تبلیغ کی، کفار کے پاس طاقت وقوت تھی اس لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی اذیتیں دیں ، جن گنے چنے افراد نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا ان پر سخت ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے؛ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بہ جز صبر وتحمل یا دعائے ہدایت کے کچھ جواب نہ ہوتا تھا۔ اس تیرہ سالہ مکی دور کی مکمل تاریخ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان دوجملوں میں سمودی ہے:

            ’’دعوت الی اللہ کی وجہ سے مجھے مسلسل خوف وہراس میں مبتلا کیاگیا، ڈرایا دھمکایا گیا، اتنا کہ کسی اور کو ڈرایا نہیں جاسکتا، مجھے اتنی اذیت پہنچائی گئی کہ ایسی اذیت کسی اور کو نہیں پہنچائی جاسکتی ہے‘‘۔ (ترمذی)

            لیکن ان سخت حالات کے باوجود مقابلے کے بجائے پورے مکی دور میں قرآن کریم کے اس حکم پر عمل پیرا رہے ’’فَاصْفَحْ عَنْہُم وقُلْ سَلٰمٌ، فَسَوفَ یَعْلَمُوْنَ‘‘ (الزخرف:۸۹)

            ’’سو آپ ان سے بے رخ رہیے اور یوں کہہ دیجیے کہ تم کو سلام کرتا ہوں ، سو ان کو ابھی معلوم ہوجاوے گا۔‘‘

            یعنی ان کی سخت باتوں اور تضحیک واستہزا پر نہ ان کے لیے بددعا کیجیے اورنہ ان کے جواب میں کوئی سخت بات کہیے، بس سلام اور دفع شر کی بات کرکے ان سے الگ ہوجائیے۔

            ۲- ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے تشریف فرما تھے کہ حضرت خبابؓ بن ارت تشریف لائے اور خود پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ اللہ کے سچے اورمحبوب نبی ہیں ، آخرہمارے لیے اللہ کی مدد کیوں نہیں آتی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا: تم سے پہلے ایمان والوں کو اس طرح آزمایا گیا کہ ان کے جسموں سے لوہے کی کنگھیوں کے ذریعے گوشت نوچاگیا، انھیں آروں سے چیردیا گیا؛ لیکن یہ سزا بھی ان کو ان کے دین سے نہیں پھیرسکی۔ اللہ اس دین کو ضرور غالب کرے گا یہاں تک کہ ’’صنعاء‘‘ سے ’’حضرموت‘‘ تک ایک شخص جائے گا جس کو اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا؛ لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو۔‘‘ (بخاری، حدیث نمبر:۳۶۱۲)

            تو ظاہر ہے کہ ابتدا میں جو مسلمان ہوئے اور ۱۳ سال تک مکہ میں مسلسل ظلم وستم سہتے رہے انھیں کس تلوار نے مسلمان کیا تھا؟

            ۳- مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمانوں کو مقابلے اور دفاع کی اجازت دی گئی؛ لیکن ۲ھ میں پیش آنے والی پہلی بڑی جنگ غزوئہ بدر میں مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لیے صف بندی کرنی پڑی۔ اس وقت بھی سیف وسنان کی طاقت اور وسائل کی کثرت قریش کے پاس تھی؛ لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب تک کے چودہ سالہ جدوجہد کے نتیجے میں صرف ۳۱۳ مسلمان اس جنگ کا حصہ ہیں ؛ لیکن صرف ایک سال بعد احد میں یہ تعداد دگنی سے بڑھ کر سات سو تک جاپہنچتی ہے، یہ اضافہ کس تلوار نے کیا تھا؟

            اس کے بعد ۳ھ میں جنگ احد میں اور ۵ھ میں غزوئہ خندق میں کفار ومخالفین ہی اپنی تلوار خارا شگاف کے ساتھ مسلمانوں کو کمزور پاکر مدینہ پر چڑھ آئے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کو غرہ تھاکہ ہم مضبوط قلعوں میں محصور ہیں اور ہماری فوجی طاقت بھی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہے؛ اس لیے وہ مسلسل مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے اور اپنے خلاف اکساتے رہے۔ ۷ھ میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چودہ سو صحابہ کے ساتھ خیبر کا رخ کیا اور یہودیوں کا لشکر دس ہزار سے زائد افراد پر مشتمل تھا، تو ظاہر ہے یہاں بھی تلوار انھیں کے پاس تھی۔ اس کے باوجود ان جنگوں میں سے ہر بعد والی جنگ میں مسلمانوں کی تعداد کئی گنی بڑھتی رہی، آخر انھیں کونسی تلوار مسلمان بنارہی تھی؟

            ۶ھ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر جنگ بندی اور تلوار کو نیام میں رکھنے پر مسلمانوں نے صلح کرلی تھی، جس میں مخالفین کی طرف سے مسلمانوں کو اپنی مرضی کی شرائط ماننے پر مجبورکیاگیا تھا؛ لیکن صرف دو سال کے بعد ۸ھ میں فتح مکہ کے موقع پر حدیبیہ سے سات گنی بڑی فوج کے ساتھ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوکر عفوودرگزر کا عام اعلان فرماتے ہیں ۔ تلوار بندی اور صلح کے زمانے میں اتنی بڑی تعداد کو کس تلوار نے کلمہ پڑھادیا تھا؟

            اس طرح عقل، نقل اور تاریخ کی کسوٹی پر کہیں سے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور کرکے کسی کو مسلمان بنایاہو۔

(باقی آئندہ)

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :3،    جلد:105‏،  رجب المرجب – شعبان المعظم 1442ھ مطابق   مارچ  2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts