حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            سال بھر پہلے مارچ کے مہینے میں ہمارے وطن عزیز کے طول وعرض میں ، کاروبارزندگی کے تعطل کا وہ سلسلہ شروع ہوا تھا جو لاک ڈائون کے نام سے متعارف ہوا اور جس کی یادیں ذہنوں میں ایک بھیانک خواب کی طرح تازہ ہیں ، دنیا کے اکثر ملکوں میں یہ تجربہ ہم سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا، جس نے زندگی کے تمام شعبوں کو اس طرح متاثر کیا کہ وہ ہماری معلومات کی حد تک انسانی تاریخ کا پہلا تجربہ ثابت ہوا۔ اب دوسرا مارچ آتے آتے ملک کے بعض صوبوں میں اُس وبا نے پھر دستک دے ڈالی ہے اور لاک ڈائون نافذ ہونے کی خبریں آناشروع ہوگئی ہیں ۔ اللہ نہ کرے کہ یہ سلسلہ دراز ہو اور سال گزشتہ جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔

            لاک ڈائون سے پوری انسانی برادری متاثر ہوئی؛ لیکن ملت اسلامیہ کے لیے حالات دیگراقوام سے مختلف اور زیادہ سنگین ثابت ہوئے، عمومی طور پر روزگار اور جان ومال کے وہ تمام نقصانات جو سب کے لیے ہوئے وہ توہوئے ہی،اس کے علاوہ اس ملت کے دینی تعلیمی نظام پر ناقابل تلافی اثر پڑا۔ سب سے پہلے مدارس کے امتحانات ملتوی ہوئے اوراس کے بعد فوراً رمضان المبارک آگیا، جس کے دوران لاک ڈائون پوری شدت کے ساتھ نافذ رہا، نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس کا فراہمی مالیات کا سارا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ عید کے بعد مدارس میں اساتذہ وملازمین کو تنخواہ دیے جانے کا سلسلہ بند ہونا شروع ہوا اور اکثر مدارس نے اکثر اساتذہ وملازمین کی خدمت سے معذرت کرلی۔ اس کے بعد خدمت علم ودین سے وابستہ اس طبقہ کو جس قسم کے مشکل ترین حالات سے دوچار ہونا پڑا اُس سے ہر خاص وعام واقف ہے۔ اسی کے ساتھ لاک ڈائون کی پابندیوں اور بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مدارس کے بیرونی طلبہ داخلہ سے محروم رہے اورمشکل حالات میں اپنے گھروں پر رہ کر تعلیم وتعلّم کی سرگرمیوں سے دور رہے، اس کا ہمارے تعلیمی نظام پر کتنا اثر پڑے گا اورمدارس کی طرف مسلمان بچوں کے رجوع کاتناسب کتنا باقی رہے گا، اس کا صحیح اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے؛ لیکن اس راہ سے ہونے والا نقصان بھی شدید ترین ہے۔

            اب جو نقصان ہوچکا ہے اس کی تلافی شاید مشکل ہے؛  لیکن آئندہ ایسی صورت حال سے مدارس دوچار نہ ہوں اس کے لیے نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ یہ نظام بار بار اس قسم کے حالات برداشت کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہے۔

            سب سے پہلے تو ہمیں ایک بار پھر نظام  مدارس کی اہمیت اور ملت اسلامیہ کے لیے اس کی ضرورت ذہنوں میں تازہ کرلینی چاہیے یہ بات تو اب عمومی طور پر معلوم ہے کہ مدارس کا یہ موجودہ نظام کس پس منظر کے ساتھ شروع ہوا۔ ہندوستان سے مسلم حکومت کا خاتمہ اور اُس دور میں مسلمانوں کے ایمانی وجود کو درپیش خطرات، وقت کی سب سے بڑی طاقت کی جانب سے امت مسلمہ کے استیصال کی کوششیں اوراس کے بعد پہاڑوں جیسے عزائم اور اخلاص واستقامت کے حامل چند بظاہر بے سروسامان بزرگوں کے ہاتھوں دیوبند میں مدرسہ کا آغاز، پھر سہارنپور اور اس کے بعد دیگر مقامات پر مدرسوں کا قیام اور پھر برصغیر کے طول وعرض میں چراغ سے چراغ جلنے کا وہ سلسلہ جس نے پورے خطے کو بقعہ نور بنادیا اور جس کے فیض سے ایشیا،افریقہ،یورپ،امریکہ اور آسٹریلیا کے دور دراز علاقے بھی محروم نہ رہے اورجس نے اس برصغیر کے مسلمانوں کو علم وعمل کی برکات سے اس طرح مالامال کیا کہ عرب وعجم کے اہل نظر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوئے۔

            یہ تو مدارس کی اُس کارگزاری کی طرف اشارہ ہوا جو ڈیڑھ صدی سے اپنا لوہا منوارہی ہے اور جو ایک مفصل تاریخ کا موضوع ہے، موجودہ دورمیں ان مدارس اوران کے اس ایمانی کردار کی ضرورت کس درجہ شدید ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ حالات کی سنگینی کا ذرا سا احساس کافی ہے۔ ملک کی تقسیم کے نتیجہ میں مسلمانوں کی عددی اور سیاسی بے وزنی کا جوسلسلہ شروع ہوا وہ بہ تدریج برگ وبار لاتا رہا اورمختلف سیاسی پارٹیوں کی روش اس میں اضافہ کرتی رہی؛ یہاں تک کہ یہ صورت حال ہوگئی کہ۔؎

سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں

پھر بھی پوچھا جارہا ہے یہ کہاں کے لوگ ہیں

            اب جو ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے ہیں اُن کا مشن جگ ظاہر ہے۔ ۲۰۱۹ء سے جس قسم کے فیصلے بے خوف وخطر کیے گئے ہیں ، ان کے بعد بھی صورت حال کی سنگینی کا ادراک اگر کسی شخص کو نہ ہوتو اس کی بے حسی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ حالات کی اس سنگینی کی خلاصہ اگر کیا جائے تویہ ہے کہ مسلمانوں کا ایمانی وجود ایک بار پھر خطرے میں ہے، جس کے لیے کچھ مختصرمدتی یا ہنگامی منصوبے اُن کی طرف سے بنائے گئے ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں اور کچھ طویل مدتی منصوبے ہیں جو سب منظر عام پر نہیں آئے ہیں ، کچھ ہی آئے ہیں ان میں سے ایک خطرناک ترین منصوبہ قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۱۹ء ہے، جس کے مضمرات کا تجزیہ تو کسی قدر ہوچکاہے؛ لیکن اس کے تدارک کی کوئی مضبوط اور واضح سبیل اب تک ہم نہیں تلاش کرسکے ہیں ۔ اتنی بات طے ہے کہ مسلمانوں کے ایمانی وجود کے لیے جو چیلنج درپیش ہیں اُن میں یہ پالیسی غالباً سب سے خطرناک چیز ہے۔

            ایسے حالات میں ایمان کی حفاظت اور اگلی نسلوں کے مسلمان باقی رہنے کے لیے دینی تعلیم یا مدارس کے نظام کی اہمیت کس قدر ہے، اس بات کے سمجھانے کے لیے اگر اب بھی محنت کی ضرورت پیش آئے تو یہ بے حسی کی انتہا ہوگی، جس کا نتیجہ اچھا نہیں ، بقول شاعر۔؎

اہل طوفاں ! بے حسی کا گر یہی عالم رہا

موجِ خوں بن کر ہر اک سرسے گزر جائے گی رات

            نظام مدارس کو مزید کمزوری اورنقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے مدارس سے تعلق رکھنے والے ہر طبقہ کی توجہ ضروری ہے، اس کے لیے چند باتیں عرض کی جاتی ہیں :

            (۱) سب سے پہلی بات تو مدارس کا تعاون کرنے والے اہل خیر سے ہمیں کہنی ہے؛ کیوں کہ مدارس کو لگنے والا تازہ اور فوری جھٹکا مالیات سے تعلق رکھتا ہے، جس کی ایک وجہ تو یہ ہوئی کہ تعاون اکثر وبیشتر رمضان میں ہوتا ہے اور رمضان میں سفر کی پابندیوں کی وجہ سے مدارس کے نمائندے معاونین تک پہنچ نہیں سکے۔ پھر رمضان کے بعد جب نمائندے پہنچے تو اکثر معاونین نے تعاون سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ابھی مدرسہ میں تعلیم جو جاری نہیں ہے پھرچندہ کس کام کے لیے؟ یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ طرز عمل تمام معاونین کا نہیں ہے، بہت سے حضرات نے تعاون بھی کیا، یہاں تک کہ خود بھیجنے کا انتظام بھی کیا؛ لیکن ایسا بڑے یا منتخب مدارس کے ساتھ ہوا، عام مدرسوں کے لیے صورت حال دشوار ہی رہی۔

            اس سلسلے میں یہ نکتہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ مدارس میں دارالاقامہ بند رہنا تو ایک مجبوری کی وجہ سے تھا؛ لیکن مقامی بچوں کی تعلیم زیادہ تر مدارس میں کسی نہ کسی انداز میں جاری رہی۔ اس کے علاوہ اگر مدارس اپنے اساتذہ وملازمین کو تنخواہیں نہ دیں جیساکہ اس سال اکثر مدرسوں میں ہوا تو یہ طبقہ اپنے روزگار کے لیے دیگر ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہوگا، اُن میں سے جو لوگ دیگر ذرائع معاش میں کامیاب ہوں گے اُن کا مدرسہ میں واپس آنا آسان نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے یہ دینی نظام تعلیم کا بڑا نقصان ہے۔ اس کا ایک خطرناک پیغام یہ بھی جارہا ہے کہ اس نظام میں جب ایک ماہ کے روزگار کی بھی گارنٹی نہیں ہے تو اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے وابستہ کیوں کیا جائے۔

            ایک اور بات بہت زیادہ اہمیت کے ساتھ ملحوظ رکھنے کی ہے کہ مدارس کے نظام سے مدارس کے خدام کا معاش بھی وابستہ ہے اس کی وجہ سے عام طور پر یہ ذہن بن گیا ہے کہ مدرسے چلانا دراصل علماء کے معاش کامسئلہ ہے؛ حالانکہ حقیقت اس طرح ہے کہ مدارس کا نظام مسلمانوں کے دین وایمان اور علوم شرعیہ کی حفاظت کے لیے ہے، اب اس میں کام کرنے والوں کا روزگار اگر اس سے وابستہ ہوگیا تو یہ ایک مجبوری ہے اس سے مدارس کی اصل حیثیت ومقام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اس بات کو اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ مدارس کا نظام کسی رکاوٹ یا تعطل کا شکار ہو اور اس کی وجہ سے خدام مدارس کے لیے معاش کا مسئلہ پیدا ہوتو اُس کا حل تو یہ نکل سکتا ہے کہ وہ دیگر ذرائع سے روزگار کمائیں ؛ لیکن مسلمانوں کے بچوں کی دینی تعلیم کا کیا ہوگا؟ کہنا یہ ہے کہ مدارس کا نظام اصلاً کچھ لوگوں کی معاشی ضرورت نہیں ؛ بلکہ مسلمانوں کی دینی وایمانی ضرورت ہے۔

            (۲) دوسری بات تمام مسلمانوں سے عرض کرنی ہے اور وہ یہ کہ آنے والے سنگین حالات میں اپنے بچوں اور نسلوں کو مسلمان بنائے رکھنے کے لیے بہت زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے، یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس میں کسی طرح کی کوتاہی اب چلنے والی نہیں ہے ؛ اس لیے اپنے بچوں کی عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم پر توجہ بے حد ضروری اور اہم ہے۔ خواہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کی ضرورت پیش آئے۔

            (۳) تیسری بات مدارس اسلامیہ کے منتظمین کی خدمت میں عرض ہے اور وہ یہ کہ اس نظام کی حفاظت اور بقاء میں سب سے اہم کردار آپ کا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نظام جن بزرگوں کے علم واخلاص، عزم وہمت اوردیانت وامانت کی برکت سے اب تک، ہر قسم کے مخالف حالات کا مقابلہ کرتا ہوا چلا ارہا ہے اور پوری قوت سے باقی ہے۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا محمدیعقوب نانوتوی، حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حضرت مولانا محمد علی مونگیری، حکیم الامت حضرت تھانوی، شیخ الاسلام حضرت مدنی، حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی، مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی وغیرہم رحمہم اللہ، ان حضرات اور ان کے رفقاء ومعاصرین اور دیگر اکابر علماء دیوبند کے طرز عمل کو اپنے لیے نمونہ بنائیے، دیانت وامانت اور عزم وہمت کے اُن کرداروں کو زندہ کیجیے جو درحقیقت اللہ کی مدد کا مستحق بناتے ہیں اوراس سے ہماری کشتی مخالف موجوں کا مقابلہ کرتی ہے۔

            مدارس کے مالیاتی نظام کو کس درجہ اور کس طرح شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کو آپ سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔ فراہمی مالیات کے کام میں جو نزاکتیں پیداہوگئی ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں ، اس کے علاوہ مدارس کے اندرونی نظام میں جن اصلاحات کی ضرورت ہے، اُن کو بھی بار بار دہرانا اچھا نہیں لگتا، دارالعلوم دیوبند کی جانب سے رابطۂ مدارس اسلامیہ کے پلیٹ فارم سے اس قسم کی تجاویز، مشورے اور ہدایات مناسب موقع پر جاری کی ہوئی ہیں ان کو ملحوظ رکھیں ، مدارس میں شورائی نظام کو مضبوط بنائیں ، اور ہر وقت ہر آن یہ بات پیش نظر رکھیں کہ مدارس ہماری دنیا نہیں ہیں ہماری آخرت ہیں ، آخرت کی جواب دہی کا صحیح احساس دنیا کی جواب دہی کو بھی آسان بنادے گا۔ ورنہ چیلنج بہت سخت ہے۔ حالات اچھے نہیں ہیں ۔ ان حالات سے نکلنے کے لیے اور مدارس کے اس نظام کو باقی اورمحفوظ رکھنے کے لیے آپ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

            (۴) ایک بات عزیز طلبہ سے بھی کہنا ضروری ہے کہ علم دین اللہ رب العزت کی سب سے عظیم نعمت ہے جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتے ہیں اس کی قدر کریں اس کو نعمت سمجھیں اور ابھی فکر معاش میں پڑکر اپنی تعلیم کا نقصان نہ کریں اورجن بچوں کو خانگی حالات کی مجبوری نے معاش کی محنت میں لگنے پرمجبور کردیا ہے وہ بھی موقع ملتے ہی اپنی تعلیم کی تکمیل کی فکر کریں ، عزم وحوصلے سے کام لیں اوراللہ سے مدد مانگ کر آگے بڑھیں ۔ اس سال تعلیمی تعطل کی وجہ سے کتابوں کے استحضار میں جو کمی آگئی ہو اس کے لیے شعبان رمضان میں محنت کریں تاکہ آنے والے تعلیمی سال میں کتابیں سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔

            (۵) ایک بات تمام ہی حضرات کے غوروفکر کی محتاج ہے کہ اگر خدانخواستہ پھر دوبارہ پہلے جیسے حالات پیدا ہوں یاکچھ رکاوٹیں سامنے آئیں تو اس سال کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا لائحہ عمل سوچ لیا جائے کہ تعلیمی نظام تعطل کا شکار نہ ہو۔ اس سلسلے میں مالیات کی فراہمی کا نظام بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ باہمی مشورہ سے کوئی ایسی صورت طے کرلی جائے کہ سال گزشتہ جیسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح تعلیم جاری رکھنے کے لیے بھی حضرات علماء کو غور وفکر کرکے طریقۂ کار طے کرنا ضروری ہے۔

            اوران تمام تدابیر کے ساتھ سب سے بڑھ کر ضروری ہے کہ رجوع الی اللہ کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے لیے اور ساری انسانیت کی فلاح کے لیے دعائیں کی جائیں ، مختلف مواقع پر اکابر علماء نے جن دعائوں کے پڑھنے پرمتوجہ کیا ہے، اُن کا اہتمام کیا جائے اور اللہ کے غضب سے حفاظت اور رحمتوں کے نزول کے لیے ہر طریقہ اپنایا جائے۔

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :3،    جلد:105‏،  رجب المرجب – شعبان المعظم 1442ھ مطابق   مارچ  2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts