از: مولانا محمد اجمل قاسمی

استاذ تفسیر وادب مدرسہ شاہی مرادآباد

            اس دنیائے فانی کوکسی کَل قرارنہیں ، یہاں ہرآن تغیر ہے، ہر لمحہ تبدیلی ہے، راحتیں کلفتوں میں تبدیل ہوتی ہیں ،اورآزمائشیں کامرانیوں کی نوید بنتی ہیں ، شرکے ہولناک اندھیروں کی جڑ سے خیرکے اجالے پھوٹتے ہیں ، اورخیر کی بڑھتی روشنی پرشر کی سیاہی حاوی ہوجاتی ہے، کبھی عیش کی راحت بھری چھاوں ہے، توکبھی غم کی تپتی ہوئی دھوپ، اورانسانی زندگی ہے جوانہیں حالات کے درمیان جھول رہی ہے،راحتیں پیش آتی ہیں توانسان اکڑتا اور اتراتا ہے، اوراسے اپنا حق قرار دیتاہے اور پریشانیاں گھیرتی ہیں توگھبراتا اورمنتیں کرتا ہے اور بہت جلدی مایوس ہونے لگتاہے :

          ’’لایَسْأَمُ الإِنسَانُ مِن دُعَائِ الْخَیْرِ وَإِن مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَؤُوسٌ قَنُوطٌ، وَلَئِنْ أَذَقْنَاہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاء مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ہَذَا لِی۔۔۔، وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَی الإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأی بِجَانِبِہِ وَإِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاء عَرِیضٍ‘‘ (فصلت:۴۹و۵۱)

            ’’انسان کا حال یہ ہے کہ وہ بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا، اوراگر اسے کوئی برائی چھوجائے توایسا مایوس ہوجاتاہے کہ ہر امید چھوڑبیٹھتا ہے،اورجوتکلیف اسے پہنچی تھی اگر اس کے بعد ہم اسے اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھادیں تووہ لازماً یہ کہے گا کہ یہ میرا حق ہے۔۔۔‘‘  دوسری آیت میں فرمایا: ’’اورجب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تووہ منہ موڑ لیتا ہے اور اپناپہلوبدل لیتا ہے اورجب اسے کوئی برائی چھوجاتی ہے تووہ لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔‘‘

            فرد کی زندگی میں بھی اتار چڑھاؤ ہے اور قوموں کی زندگی میں بھی نشیب وفراز ہے،کبھی قومیں بڑھتی اورچڑھتی ہیں اورکبھی رکتی اورسمٹتی ہیں ، کبھی فتح کا پرچم لہراتی ہیں اورکبھی شکست وریخت سے دوچار ہوتی ہیں ، اللہ کویہی منظور ہے، یہی ہوتارہا ہے اورہوتا رہے گا، غروئہ احد میں صحابہ کی شکست کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اپنی اسی سنت کو بیان کیا ہے:

          اِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہُ وَتِلْکَ الأیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّہُ الَّذِینَ آمَنُواْ وَیَتَّخِذَ مِنکُمْ شُہَدَاء وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ الظَّالِمِینَ (آل عمران:۱۴۰)

            ’’اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو(تمہارے دشمن) لوگوں کوبھی زخم پہلے لگ چکا ہے، یہ توآتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں اور(تمہاری شکست سے)یہ مقصد تھا کہ اللہ ایمان والوں کوجانچ لے،اورتم سے کچھ لوگوں کوشہید قراردے اوراللہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔‘‘

            قوموں کوجب عروج نصیب ہوتا ہے توان کے لیے اپنے دین دھرم، تہذیب وکلچر، زبان وادب،علمی ورثے، تاریخی آثار اورقومی وملی تشخص کی حفاظت کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ اگر اس پہلوپر توجہ دیتی ہیں تووہ ان چیزوں کی حفاظت کے ساتھ اس کو بآسانی فروغ بھی دیتی ہیں ؛ بلکہ طاقت کے زورپر دوسری کمزورقوموں پر اپنی چیزوں کوتھوپنے پر بھی کامیاب ہوجاتی ہیں ،  انبیاء کے مخالفین نے ہمیشہ اپنے مذہب اورقومی عادات کوانبیاء کرام علیہم السلام اوران کے ماننے والوں پر طاقت کے بل بوتے تھوپنے کی سرتوڑ کوششیں کی ہیں ، کئی آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:

          وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُواْ لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّـکُم مِّنْ أَرْضِنَآ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا فَأَوْحَی إِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِینَ (ابراھیم:۱۳)

            ’’اور جن لوگوں نے کفراپنا رکھا تھاانہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہاکہ ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال کررہیں گے یا(بصورت دیگر)تمہیں ہمارے دھرم میں واپس آنا پڑے گا؛ چنانچہ ان کے پروردگار نے ان پروحی بھیجی کہ یقین رکھوہم ان ظالموں کوہلاک کردیں گے۔‘‘

            لیکن جب قومیں سیاسی اعتبار سے مغلوب، یاتعداد وسائل کے اعتبار سے کمزور اورمحکومیت کی زنجیر کی وجہ سے بے بس ہوتی ہیں ، جنہیں قرآن اپنے الفاظ میں ’’مُسْتَضْعَفُونَ فِی الاَرْضِ‘‘ کے الفاظ سے بیان کرتاہے،توپھر ایسی قوموں کے لیے مخالف ماحول میں اپنے وجود اورتشخص کوباقی رکھنا بڑا چیلنج ہوتاہے، جن قوموں کے پاس اپنا کوئی مذہب اور کوئی فلسفۂ حیات نہیں ہوتا، یا اس طرح کے مخالف حالات سے نبردآزما ہونے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا،  وہ توبہت جلدہاتھ پاؤں ڈھیلے کرکے حالات سے صلح کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں ،اورحکمراں قوم کے رنگ میں ڈھل کرجلد ہی اپنے وجود وتشخص کوکھودیتی ہیں ۔

            مگر جن قوموں کے پاس اپنا کوئی مذہب، تہذیب اورفلسفۂ حیات ہوتا ہے، ان کی تاریخ میں مخالف حالات سے نبرد آزماہونے کے کامیاب تجربوں کے نمونے ہوتے ہیں ، ان کے دین میں ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے رہنمایاں ہوتی ہیں ، ایسی قومیں اپنی محکومیت ومغلوبیت کے زمانے میں طرح طرح کے نقصانات سے دوچار توضرورہوتی ہے، ان کے بہت سے لوگ آزمائش کے بعض کٹھن موڑ پر ہمت ہار کر ساتھ چھوڑ بھی دیتے ہیں ، بہت سے حصے ٹوٹ کر الگ بھی ہوجاتے ہیں ؛ مگروہ قومیں بحیثیت مجموعی اپنے وجود اورتشخص کی حفاظت میں بالآخر کامیاب ہوجاتی ہیں ۔

            یہود اپنی تاریخ کے طویل دورمیں زبردست آزمائشوں اورسخت ترین غلامی کے دورسے گذرے ہیں ، ان کی تاریخ کی دوبڑی تباہی کا ذکر خود قرآن میں اسراء کی آیت ۴ تا ۸ میں ہوا ہے، جن میں ایک تباہی ولادت مسیح سے پہلے اوردوسری ولادت مسیح کے بعد کی بتائی جاتی ہے، نزول قرآن کے بعد بھی یہودیوں کومسلسل شکست وریخت اورنسل کشی کا سامنا کرنا پڑا ہے، ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں یہودیوں نسل کشی یہودیوں کی آزمائشی زنجیر کی ایک کڑی ہے؛ لیکن ان سب کے باوجود یہودیت زندہ رہی، مذہب اورمذہبی کتابوں سے ان کی وابستگی ہی اس حفاظت کا سب سے اہم ذریعہ رہی ہے۔ عیسائیت دنیاکے مختلف ملکوں میں اقلیت میں رہی اور محکومیت ومغلوبیت سے دوچار رہی ؛ لیکن مذہبی رسومات سے وابستگی کی وجہ سے وہ ان ملکوں میں اپنے وجود کوبچانے میں کامیاب رہی۔

            مسلمان بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں محکومیت اورغلامی کے سخت ترین دورسے گذرے،  تاتاریوں کے ہاتھوں دارالخلافہ بغداد کی وسیع آبادی کوتہِ تیغ کیا گیا، شہر کو نذرآتش کیا گیا، کتب خانے جلادئے گئے ۔اسپین میں مسلمانوں کا مکمل صفایا کر کے جارحیت کی بدترین مثال قائم کی گئی۔ مصطفی کمال اتاترک کے ترکی اور سویت یونین کے زیراقتدار وسط ایشاکی مسلم ریاستوں میں اسلام کو مٹانے کی کیا کچھ کوششیں نہیں ہوئیں ، اسلام، قرآن،دینی علوم اورحد یہ ہے کہ عربی زبان تک سے بھی مسلمانوں کا رشتہ کاٹ دیاگیا، مسجدیں میوزیم میں تبدیل کردی گئیں ،اسلامی سرگرمیاں یک لخت موقوف ہوگئیں ، اور مدتوں فضا میں ایک سناٹا چھا یا رہا؛ مگر  ان سب کے باوجودمسلمانوں میں مسلمان ہونے کا شعور باقی رہا، گرچہ یہ شعور بعض مرحلوں میں اتنا کمزور اورمدھم ہوگیا کہ محسوس بھی نہیں کیا جاسکتا  تھا؛ مگر اسلام سے وابستگی اورمسلمان ہونے کا یہی احساس انہیں دوبارہ اسلام کی طرف لانے میں معاون بنا؛ چنانچہ جیسے ہی جارحیت اورظلم کے بادل چھنٹے،راکھ میں دبی ہوئی چنگاری شعلے میں تبدیل ہوگئی، اورہرجگہ اسلام اوراسلامیت کے مناظر نظر آنے لگے،نئی نسلوں نے دین کی متاعِ گمشدہ کوڈھونڈ ڈھونڈ کرحاصل کرنا شروع کیا اورایک اسلامی لہر وجود میں آگئی۔اسپین جہاں مسلمانوں کاصفایا ہی کردیا گیا تھا،  وہاں سے بھی اسلام کوہمیشہ کے لیے نکالا نہ جاسکا؛چنانچہ جب آمدورفت کے تیز رفتار  وسائل پیدا ہوئے، سفری آسانیاں وجود میں آئیں ، اوربین الاقوامی تجارت  کوفروغ ہوا، تومعاش کی تلاش میں مسلمان ایک بار پھر اس خطے میں داخل ہوئے؛ چنانچہ آج اسپین  میں مسلمانوں کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے، ان کے دینی مدارس ہیں ، مساجد کی تعداد بارہ ہزار سے زائد ہے۔

            ہندستان میں اسلام مسلم تاجروں اورزیادہ تر صوفیائے کرام اوراولیا ء اللہ کے ذریعے پھیلا، گرچہ یہاں مسلمانوں کی تعداد کافی ہوگئی اورصدیوں ان کی حکمرانی قائم رہی؛ مگر رہے وہ ہمیشہ اقلیت میں ہی اور اس دورحکمرانی میں بعض مرتبہ ان کے سامنے اپنے وجود وبقا کا مسئلہ ایک مہیب چیلنج کی شکل میں سامنے آیا، دوراکبری دین الٰہی کے نام سے ایک سرکاری دین کوجاری کیا گیا، جوہندومت اور عیسائیت کا آمیزہ تھا، اس نوایجاد مذہب کو سرکاری مشینری کے بل بوتے ملک کے عوام پر عموماً اورمسلمانوں پر خصوصاً نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، دربار اوردرباریوں میں یہ نیا دین ضرور نافذ کرلیا گیا؛ مگر عوام نے عموماً اس مذہب کومسترد کردیا، صوفیا ء کرام نے ان کے دلوں ایمان کے جودیپ جلائے تھے وہی ان کے دین کی حفاظت کا سبب بنے۔

            جب مسلمانوں کا اقتدار جاتارہا توایک بار پھراس ملک میں مسلمانوں کی بقا کا مسئلہ ایک ہولناک شکل میں سامنے آیا، اب یہاں اسلام اورمسلمانوں کے بقا کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں رہی کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی جائے اوران میں اسلامیت کے شعور کوزندہ اورتیزکیا جائے، مختلف بہی خواہان اسلام نے اس مقصد کے لیے مختلف کوشش کیں ، جن میں دو بہت بنیادی کوششیں مدارس اسلامیہ اورتبلیغی جماعت ہیں ، الحمد اللہ ان کے ذریعہ نہ صرف اس ملک میں اسلام اورمسلمان باقی رہے؛ بلکہ دینی شعوراوراسلامی احکام کی بجا آوری میں یہاں کے مسلمان دنیا کے بیشتر مسلم ممالک کے مسلم باشندوں سے بھی فائق نظر آتے ہیں ، اس کے علاوہ ان دو نوں ذرائع سے اسلام اورعلوم اسلامیہ کی عالمی سطح پر جوبے نظیر خدمات انجام دی گئیں وہ اس پر مستزاد ہیں ۔

            مذہب کا قوموں کے وجود وبقا اوران کے تشخص کی حفاظت میں بہت ہی بنیادی کردار ہے،اللہ کا شکر ہے کہ ہماریپاس ایک ایسا دین ہے جودین فطرت ہے، سدازندہ اورپائندہ ہے،اس کی تعلیمات اتنی سچی اتنی اچھی اوراتنی واضح اورروشن ہیں کہ اس رات بھی اس کے دن کی طرح اجالی ہے، مخالف حالات میں فکروتشویش توفطری ہے،مگرکوئی وجہ نہیں کہ ایسے عظیم وشاندار دین کا حامل حالات اورموج حوادث سے گھبرا کر مایوس ہونے لگے،یہ دین ہی ہماری زندگی کا ضامن ہے بس شرط یہ ہے کہ ہم اس کی حفاظت کے ضامن بنیں ، وہ ہمارا بہترین پاسبان اورمحافظ ہے شرط ہے کہ ہم اس کی پاسبانی اورحفاظت کی ذمہ داری کا حق اداکریں ، اس کی تعلیمات کوعام کریں ،اس کے احکام اپنی زندگی میں لائیں ،یہ دین اوردینی شعور جب تک امت میں قائم ہے، امت بھی ہے، ارشاد باری ہے:

          ’’یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ‘‘ (محمد:۷)

            ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تواللہ تمہاری مدد کرے گا اورتمہارے قدم جمادے گا‘‘ (اللہ کی مدد سے مراد اس کے دین کی مدد کرنا ہے، ایمان والے جب اللہ کے دین کے حامی ومددگار ہوں گے تواللہ ان کا ناصر ومدد گار ہوگا،اوردشمنوں کے مقابلے میں ان کے قدم جمادے گا اوراپنی طاعت پر پختگی اورپابندی کرنے کی توفیق عطافرمائے گا:روح المعانی )

            دین پرثابت قدمی اوراستقامت کی اہمیت یوں توہرحال میں ہے ؛ مگر جب امت مغلوبیت اورمحکومیت کے دور سے گذر رہی رہو، اور اس کو اس کے دین وتہذیب سے ہٹانے کے لیے سرتوڑ کوششیں خفیہ اورعلانیہ جاری ہوں ، توایسے مخالف اورحوصلہ شکن حالات میں استقامت اوردین پر مضبوطی سے جمنے کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے،دین پر استقامت کے بغیر چیلنجز کے دورکو کامیابی سے عبور نہیں جاسکتا۔ مکہ مکرمہ میں جب اسلام سخت آزمائشی  دورسے گذررہا تھا، اوراہل اسلام کواسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ظلم وبربریت کے ہرحربے آزمائے جارہے تھے،اس وقت ہدایت کے ان  عظیم علمبرداروں کوجن کی تعداد مٹھی بھربھی نہیں تھی مختلف انداز میں بار باردین پر ثابت قدمی کے درس دئے جاتے تھے ۔ایک موقع پر اللہ تعالی نے ایمان والوں سے کہا کہ اللہ نے تمہیں وہی دین دیا ہے جونوح کوپھر ابراہیم، موسی اورعیسی علیہم السلام کو دیا گیا تھا اوران سے اس دین کوقائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس تمہید کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا :

          ’’فَلِذَلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَائَ ہُمْ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّہُ مِن کِتَابٍ‘‘ (الشوری:۱۵)

            ’’لہٰذا (اے پیغمبر یہ دین جس کی ان انبیاء نے دعوت دی)تم بھی اسی کی طرف لوگوں کودعوت دیتے رہو،اورجس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے (اس دین پر)جمے رہو،اوران (مشرک)لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو،اورکہہ دوکہ میں تواس کتاب پر ایمان لایا ہوں جواللہ نے اتاری ہے ۔‘‘

            خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہے؛ مگر سنانا درحقیقت ایمان والوں کوہے، حکم میں زور پیدا کرنے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کوخطاب کیا گیا ہے، اورمزید زور پیدا کرنے کے لیے تمہید میں ان انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے جومخالفت،دشمنی اورسازشوں کے بیچ  دین کی دعوت دینے اور اس پر مضبوطی سے قائم رہنے میں انبیاء کی صف میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں ، اس انداز بیان سے ایمان والوں کومخالف ماحول میں دین پر جمنے کی اہمیت بھی معلوم ہو گی اورہمت وحوصلہ بھی ملے گا۔

            دوسری جگہ دور مکی میں رسول اللہ صلی اللہ اوراہل ایمان کودین پر جمنے اورظلم پیشہ مشرکین کے طریقوں سے پرہیز کرنے کا حکم پوری قوت سے دیا گیا، ارشادہے:

          ’’فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ وَلاَ تَرْکَنُواْ إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن دُونِ اللّہِ مِنْ أَوْلِیَاء ثَمَّ لاَ تُنصَرُونَ‘‘(ہود:۱۱۲-۱۱۳)

            ’’لہٰذا(اے پیغمبر!)جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اس کے مطابق تم بھی سیدھے راستے پر ثابت قدم رہو، اوروہ لوگ بھی جوتوبہ کرکے تمہارے ساتھ ہیں ، اورحد سے آگے نہ نکلو،یقین رکھوکہ جوعمل بھی تم کرتے ہو وہ اسے پوری طرح دیکھتا ہے ۔اور(اے مسلمانو!) ان ظالم لوگوں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا کبھی دوزخ کی آگ تمہیں بھی آپکڑے،اورتمہیں اللہ کوچھوڑ کرکسی قسم کے دوست میسر نہ آئیں ، پھرتمہاری کوئی مدد بھی نہ کرے۔‘‘

            مکی دورمیں ہی توحید اوراس کے تقاضوں پر مضبوطی سے قائم رہنے پر ایمان والوں کوزبردست بشارتیں سنائی گئیں اوران سے بڑے بڑے وعدے کیے گئے،چنانچہ فرمایا گیا:

          ’’إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِی کُنتُمْ تُوعَدُونَ، نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ، نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیمٍ‘‘(فصلت:۳۰-۳۲)

            ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، اورپھروہ اس پر ثابت قدم رہے توان پربیشک فرشتے یہ کہتے ہوئے اتریں گے کہ نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا،ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اورآخرت میں بھی رہیں گے، اوراس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جس کوتمہارا دل چاہتاہے، اوراس میں ہروہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جس کوتم منگوانا چاہو، یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہلی میزبانی ہے، جس کی بخشش بھی بہت ہے، اوررحمت بھی کامل ہے۔‘‘

            جامع ترمذی میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پاک حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

          قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یَأتی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِیْہِمْ عَلَی دِینِہِ  کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمَرِ (جامع الترمذی:۲۲۶۰)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں اپنے دین پر مضبوطی سے جمنے والا ایسا ہوگا جیسے انگارے کوہاتھ سے پکڑنے والا‘‘۔

            علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں ، خلاصہ حسب ذیل ہے:

            ’’اس حدیث میں آگاہی بھی ہے اوررہنمائی بھی:آگاہی تویہ ہے کہ آخر زمان میں شروفتنے کے اسباب بہت بڑھ جائیں گے،اوردین کو مضبوطی تھامنے والے بہت تھوڑے رہ جائیں گے، اور اس تھوڑی سی تعداد کوبھی دشمنوں اورظالموں کے جبر وتشدد،نیز شکوک وشبہات اورشہوتوں کے فتنوں کی بہتات کی وجہ سے دین پر چلنے میں سخت حالات اورمشکلات کا سامنا ہوگا۔ یہ توہوئی آگاہی، جہاں تک رہنمائی کا تعلق ہے تواس حدیث میں امت کوپیغام دیا گیا ہے کہ اس قسم کے سخت حالات پیش آکر رہیں گے، لہٰذا انہیں اس کے لیے ذہن بنا نا چاہیے، اوردین کی پیروی کی راہ میں جوبھی پریشانی آئے ہمت اوراستقامت کے ساتھ اس کوبرداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔جن لوگوں کویہ حالات پیش آئیں وہ اگر مضبوطی اورپامردی سے دین پر ڈٹے رہیں گے، توان کا مقام ومرتبہ اللہ کے نزدیک نہایت بلند ہوگا۔‘‘(بہجۃ قلوب الابرار،حدیث:۹۹)

            آج امت سخت حالات ومسائل سے دوچار ہے، ہرروز فتنوں اورآزمائشوں کی نئی یلغارہے، لوگ سہم کے سنبھل نہیں پاتے کہ کوئی نیا سانحہ یا المیہ دستک دے رہا ہوتاہے، جوخوف ودہشت اورمایوسی وناامیدی کی کیفیت میں مزید اضافہ کرجاتا ہے، یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مسلمان ایسے حالات کے لیے ذہنی طورپر تیار نہیں ہے، اس کی توقعات کچھ اورہیں اورحالات اس کے بالکل برعکس  اسے کچھ اور دکھاتے ہیں ؛ حالاں کہ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جنہیں پیش آنا ہی ہے، اللہ کے رسول نے خبر دی ہے، آپ کی خبر غلط نہیں ہوسکتی، لہٰذا ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی، ہمیں یہ تسلیم کرکے زندگی جینی ہوگی کہ ناگواریاں اورناخوشگواریاں پیش آنی ہی ہیں ، اور یہ طے کرنا ہوگا کہ زمانہ ہمارے سامنے کیسے ہی حالات کیوں نہ لائے، موج حوادث ہماری راہوں میں کیسا ہی طوفان کیوں نہ برپا کرے ہمیں تواللہ کے دین کوسینے سے لگائے رکھنا ہے اور ہرحال میں اس پر ثابت قدم رہنا ہے ۔

            سوچ وفکرکے بدلنے سے ہمارے عزائم بدلیں گے، ہمارے اندر صبر، استقامت اورقربانی کے جذبات پیدا ہوں گے، بزدلی اورپس ہمتی، بہادری اورالولعزمی میں تبدیل ہوگی، اورہماری راہ ہزار رکاوٹوں کے باوجود بھی آسان ہوتی چلی جائے گی،اوراسی ایمانی عزم وہمت کے ذریعے ان شاء اللہ ہم آزمائشی دورکو سرکر نے میں کامیاب ہوں گے، ہمارادین بھی سلامت رہے گا اورہم بھی بحیثیت ایک امت باقی رہیں گے۔

            دل کے عزم وارادہ کے ساتھ اللہ سے دین پر استقامت اورثابت قدمی کی دعا بھی کرنی ہے،انسان ضعیف البنیان ہے، اس کے عزم ارادے بھی کمزورہیں ، پھر سب کچھ کرنے دھرنے اورکامیابی سے ہم کنار کرنے والی ذات اللہ کی ہے، اس کی توفیق وتائید کے بغیر ہماری ہرکوشش وسعی لاحاصل ہے، قرآن پاک میں اللہ نے اپنے الولعزم بندوں کی دعائیں نقل کرکے ہمیں دعا کی تعلیم دی ہے ارشاد ہے:

          ’’قَالَ الَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُو اللّہِ کَم مِّن فِئَۃٍ قَلِیلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیرَۃً بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ، وَلَمَّا بَرَزُواْ لِجَالُوتَ وَجُنُودِہِ قَالُواْ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ‘‘ (بقرۃ:۲۵۰)

            ’’جن لوگوں کا ایمان تھا کہ وہ اللہ سے جاملنے والے ہیں ،انھوں نے کہاکہ نہ جانے کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جواللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں ، اوراللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جوصبر سے کام لیتے ہیں ، اورجب یہ(ایمان والے تھوڑے سے) لوگ (دشمن کے نامور زورآورسپہ سالار) جالوت اوراس کے لشکروں کے آمنے سامنے ہوئے توانہوں کے کہا:اے پرور دگار! صبرو استقلال کی صفت ہم پرانڈیل دے، ہمیں ثابت قدمی بخش دے،اورہمیں اس کافرقوم کے مقابلے میں فتح ونصرت عطافردے ۔‘‘

            یہ چند آیتیں پیش کی گئی ہیں ، قرآن پاک میں ایسی آیتوں کی تعداد خاصی ہے جس میں مسلمانوں کو مشکل اورمخالف حالات میں دین کے دامن کومضبوطی سے تھامنے کی تاکید مختلف انداز میں آئی ہے ۔

            گذشتہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوئی کہ بحیثیت امت اپنی بقا کے لیے اپنے دین اور دینداری کی حفاظت انتہائی اہم ہے،لہٰذا ہر ملی شعور اوردینی درد رکھنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیت وحیثیت کے اعتبار سے اپنے دائرئہ اثر میں دین ودینداری کوعام کرنے کی کوشش کرے، اس فریضہ کوانجام دینے کے لیے پرانے وسائل کو بھی متحرک وفعال بنانا ہوگا، اورزمانہ نے ہمیں جو جدید وسائل دئے ہیں ان کو بھی مثبت انداز میں بروئے کارلانا ہوگا،جس کا جومیدان ہے وہ اس میں کام کرے ۔

            ہماری بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم نے سارے ملی کاموں کی ذمہ داری چندتنظیموں ،اداروں ، تحریکوں اورچند شخصیات کوسونپ رکھی ہے، اورساری توقعات انہیں سے قائم کرکے خود ایک طرف بیٹھ گئے ہیں ،ہرچھوٹے بڑے کام کے لیے ہم انہیں کی طرف دیکھتے ہیں ، مشورے دیتے ہیں ، توقعات پوری نہ ہونے پر لعن طعن کرتے ہیں ،اورخودکسی سطح پر اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے، بلاشبہ تنظیموں ، بااثر اداروں اورشخصیات کی ذمہ داری عام لوگوں سے بہت زیادہ ہے؛ مگرکام بہت ہے، تنہاتنظیمیں اوربااثر ادارے انجام نہیں دے سکتے، ان کے وسائل بھی محدود ہیں ،ضروری ہے کہ ہم میں ہرشخص اپنی ذمہ داری محسوس کرکے اپنا کردار اداکرے، عام مسلمانوں میں دینداری پیدا کرنے کے لیے مسجد ایک بہت اہم پلیٹ فارم ہے، تیاری کے ساتھ جمعہ میں تقریریں کی جائیں ، حالات اورضرورت کے اعتبارسے صحیح دینی رہنمائی لوگوں کوپیش کی جائے، درس قرآن اوردرس حدیث کے حلقے قائم کیے جائیں ،رمضان میں مسائل کا حلقہ قائم کریں ، گاؤں اورمحلہ کے جوبچے عصری اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں چھٹیوں میں ان کے لیے خصوصی اسلامک کورس کا اہتمام کریں ،یہ کام تقریباً ہرعالم دین اپنے ساتھیوں کے تعاون سے انجام دے سکتاہے۔ہماری ایک بہت بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ ہم میں سے ہرکوئی ملکی پیمانے پر کوئی انقلاب لانا چاہتا ہے؛ حالاں کہ ایسا اس کے بس میں نہیں ، اوراپنے محلہ اوربستی میں انقلاب لاسکتاہے؛مگر اس  طرف توجہ نہیں ، ہمیں حقیقت پسند بننا ہوگا اوراپنے اس غلط رویے کوسدھار نا ہوگا۔  

            ہم عاجز وناتواں بندے اللہ سے عافیت اورسلامتی کی دعاکرتے ہیں ،ہرحال میں دین پر استقامت اوراسلام پر جینے اورمرنے کی توفیق کے طالب ہیں ، اللہ پوری امت کے حال پر رحم فرمائے،اور اپنی مرضیات پر چلنا آسان کرے! آمین!

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :3،    جلد:105‏،  رجب المرجب – شعبان المعظم 1442ھ مطابق   مارچ  2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts