از: پروفیسر محمد سلیم قاسمی
ڈین دینیات فیکلٹی وصدر شعبہ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
حضور ﷺ سے محبت ایمان کا جزء ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ إِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ (التوبہ:۲۴) (آپ کہہ دیجیے اے لوگو! اگر تمہیں تمہارے آباء تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور خاندان اور مال جو تم نے کماکے جمع کیا ہے اور تمہاری تجارت جسے تم کسادبازاری سے بچاتے ہو اور تمہارے عمدہ گھر اگر اللہ اور اس کے رسول کے مقابلہ میں زیادہ محبوب ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو اللہ کے فیصلہ کا، یہ سمجھ لو کہ اللہ کسی فاسق کو ہدایت نہیں دیتا)۔
اسی طرح سورہ احزاب میں فرمایا گیا: النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ (احزاب:۶) (پیغمبرمومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں )۔
آیات کی تشریح میں آپ نے فرمایا: لا یؤمن احدکم حتی اکون احب إلیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان) (کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ ’’میں ‘‘ اس کے والدین،اولاد اور دوسرے تمام لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ محبوب نہ ہوجائوں )۔
دوسری صحیح حدیث میں ہے: ثلاث من کن فیہ وجد بہن حلاوۃ الایمان، من کان اللّٰہ ورسولہ احب إلیہ مما سواہما (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حلاوۃ الایمان) (جس شخص میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس محسوس کرے گا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بندہ اللہ اوراس کے رسول سے ہر ایک رشتہ اور چیز سے زیادہ محبت کرے)۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے محبوب (بلکہ اعظم محبوب من الخلق) ہیں اور ظاہرسی بات ہے جو اللہ سے محبت کرتا ہے وہ اللہ کے محبوب سے بھی محبت کرے گا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول مومنوں کے سب سے بڑے ہمدرد اور مشفق ہیں ۔ ان پر مومنوں کی تکلیف نہایت گراں گذرتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَقَدْ جَائکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ (توبہ:۱۲۸) (تمہارے پاس تمہیں میں سے ایسا رسول آیا ہے جس پر تمہاری تکلیف نہایت شاق گذرتی ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کے حریص ہیں اور نہایت شفقت والے اور رحم والے ہیں ایمان والوں پر)۔
آپ ﷺ کی شفقت کی انتہاء یہ ہے کہ نماز میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آپ سن لیتے تو نماز ہلکی کردیتے، صحیح بخاری میں ہے: اذا سمع البکاء یخفف من صلاتہ رأفۃ وشفقۃ علی قلب امہ بہ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب من أخف الصلوٰۃ عند بکاء الصبی) (جب آپ نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو آپ نماز مختصر کردیتے، اس وجہ سے کہ کہیں بچے کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں پریشان نہ ہوجائے)۔
نہ معلوم کتنی مرتبہ آپ نے فرمایا: لولا ان أشق علی أمتی لامرتہم۔۔۔۔ (صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب السواک، ابن حبان، باب مواقیت الصلوٰۃ، دارمی، باب ینزل اللّٰہ الی السماء الدنیا) (اگر مجھے امت پرتنگی کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ اور یہ حکم دیتا، مگر امت کا خیال رکھتے ہوئے وہ حکم نہیں سنایا کہ کہیں وہ حکم ان پر گراں نہ گذرے)۔
ایسے مشفق اور سراپا رحمت رسول سے اللہ بھی محبت کرتا ہے، اس کے فرشتے ان کے لیے علومرتبت اور رحمت کی دعا کرتے ہیں ؛ لہٰذا مومنین کو حکم دیا کہ وہ بھی اللہ سے رحمت کی دعا کریں ، ارشاد فرمایا: إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا(احزاب:۵۶)۔ بیشک اللہ اپنی رحمتیں بھیجتا ہے نبی پر اور فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں ان کے لیے اور اے ایمان والو! تم بھی ان پر صلاۃ (درود) وسلام بھیجو۔
مؤمنین کا حضور پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے درخواست کریں کہ اللہ اپنی بیش از بیش رحمتیں ابدالآباد تک نبی اور ان کی ازواج وذریات پر نازل فرماتا رہے۔ اس لیے کہ حضور کے احسانات کا بدلہ چکانا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ حضور کا احسان صرف یہ نہیں کہ انھو ں نے دین کو آسان صورت میں پیش کیا؛ بلکہ ان کا احسان تمام انسانیت پر ہے، انھوں نے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر چلنا سکھایا، جہنم کے دہانے پر کھڑے انسانوں کو جنت کا راستہ دکھایا، جو انسان اخلاقی پستیوں میں گراہوا تھا اسے وہاں سے اٹھاکر بلندیاں عطا کیں ، جو دوسروں کے غلام تھے انھیں حکمرانی کے ہنرسکھائے۔ کفر کی دنیا اس لیے اس شخص سے خارکھائے ہوئے ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہیں کی تھی۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضہ ہے کہ جتنا بغض وہ خیرمجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر؛ بلکہ اس سے زیادہ تم ان سے محبت کرو جتنی وہ مذمت کرتے ہیں اتنی تم ان کی تعریف کرو، ان کے حق میں دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب وروز کررہے ہیں ؛ کیوں کہ ہم ان کے احسانوں کا بدلہ کبھی نہیں چکاسکتے، اس لیے اللہ سے کہتے ہیں اللہ ان کی خدمات کے بدلے انھیں بہتراز بہتر مقام ومرتبہ عطا فرما (تفہیم القرآن حاشیہ آیت:۵۶، سورہ احزاب)۔
جب حکم صلاۃ (درود) نازل ہوا تو صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہمیں آپ نے سکھادیا کہ – یعنی – السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، جو نماز کے تشہد میں پڑھا جاتا ہے اور اب صلاۃ (درود) کا طریقہ بھی تعلیم فرمادیجیے، آپ نے یہ درود تلقین فرمایا: اللّٰہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللّٰہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی آل ابراہیم انک حمید مجید (متفق علیہ۔ بخاری، کتاب الدعوات، باب الصلاۃ علی النبی ﷺ، مسلم، کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ علی النبی بعد التشہد)
صحیح بخاری ومسلم کی دوسری روایات میں یہ درود اس طرح بھی ہے: اللّٰہم صلی علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی آل ابراہیم وبارک علی محمد وازواجہ وذریتہ کما بارکت علی آل ابراہم انک حمید مجید (متفق علیہ۔ بخاری، کتاب الدعوات، باب الصلاۃ علی النبی ﷺ۔ مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب یصلی علی النبی بعد التشہد)۔
واضح رہے کہ آیت میں صرف آپﷺ کے لیے صلاۃ (درود) کا حکم تھا کہ مؤمنین آپ پر درود بھیجیں ، مگر حضورﷺ نے اپنے ساتھ اپنی آل، ازواج اور ذریت کو بھی شامل کرلیا۔ اس پر ابن حجر الہیثمی مکی نے فرمایا کہ الفاظ صلاۃ (درود) میں اپنے ساتھ اپنے اہل بیت کو شامل کرنا اس بات کی ظاہر دلیل ہے کہ اللہ نے اہل بیت پر صلاۃ کا حکم فرمایا اور یہ آپ کے لیے اور آپ کے گھر والوں کے لیے نہایت شرف وعظمت کی بات ہے (الصواعق المحرقہ، ص:۱۳۱، الباب الحادی عشر فی فضائل اہل البیت النبوی، الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم)۔
بلاشبہ اللہ کے رسول ﷺ بغیرحکم ومنشاء الٰہی کچھ نہیں کہتے،آپﷺ نے آیت یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا کے سوا درج ذیل آیات کے معنی ومفہوم کو سامنے رکھ کر اپنے ساتھ دوسروں کو صلاۃ میں شامل فرمایا:
أُولَـئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولَـئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (البقرۃ:۱۵۷)
خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلاَتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ (التوبہ:۱۰۳)
ہُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُہُ لِیُخْرِجَکُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ(الاحزاب:۴۳)
پہلی آیت میں اللہ رب العزت کی طرف سے ان لوگوں کو صلاۃ اور رحمت بطور خراج تحسین پیش کیاگیا جو راہ خدا میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے اوران کو ہدایت یافتہ ہونے کی مزید سند عطا کی گئی۔ دوسری آیت میں رضی اللّٰہ عن المومنین (الفتح:۱۸) کے مصداق صحابہ پرآپ کو صلاۃ (دعاء رحمت) بھیجنے کا حکم دیاگیا۔ تیسری آیت میں قیامت تک آنے والے تمام مؤمنوں پر اللہ ارحم الراحمین کی طرف سے صلاۃ (رحمت) کاوثیقہ عطا کیاگیا۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ان تمام آیات کی غرض وغایت اور منشاء الٰہی کو دیکھتے ہوئے ایک جامع درود کی تعلیم فرمائی۔ اس درود میں بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج وذریت اور اقارب سرفہرست ہیں ؛ کیوں کہ اسلام میں ان کی خدمات گراں قدر ہیں ۔
حضورﷺ کے اقرباء:
آپ ﷺ کے اقرباء کے لیے نہایت شرف وعظمت کی بات ہے کہ اللہ رب العزت نے ان کو مال غنیمت اور فئی میں سے خمس عطا فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاعْلَمُوا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِن شَیْء فاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ ولِلرَّسُولِ ولِذِی القُربٰی(الانفال:۴۱) (اور جان لو کہ جو چیز تم کو غنیمت میں ملے اس میں پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے اور رسول کے رشتہ داروں کے لیے ہے)۔
اس آیت سے یہ بات بھی طے ہوگئی کہ حضور کے قرابت دار کون ہیں ؟ یعنی قرابت دار وہ ہیں جن کو حضور ﷺمال غنیمت اور فے میں حصہ دیتے تھے اور وہ بنوہاشم اوربنومطلب ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت جبیر بن مطعمؓ بیان کرتے ہیں : مشیت انا وعثمان بن عفان الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلنا یا رسول اللّٰہ! اعطیت بنی المطلب وترکتنا ونحن وہم منک بمنزلۃ واحدۃ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما بنو المطلب وبنوہاشم شیٔ واحد (بخاری، کتاب فرض الخمس، باب ومن الدلیل علی ان الخمس للامام) (میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے خمس میں سے بنومطلب کو توحصہ دیا ہے؛ لیکن ہمیں چھوڑدیا، حالانکہ ہم اوربنو مطلب آپ کے نزدیک رشتہ میں ایک ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ بنومطلب اور بنوہاشم ایک ہیں )۔
بنوہاشم سے مراد آل علی، آل عباس، آل جعفر،آل عقیل اورآل حارث ہیں اور خود حضور ﷺ کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ اور عبدالمطلب نے بنوہاشم کی جاہلیت اوراسلام میں بڑی مدد کی تھی اور انھیں کے ساتھ گھاٹی میں قید ہونا بھی منظور کیاتھا۔ یہ لوگ پورے طور پر حضور کی حمایت میں تھے۔ ان میں مسلمان تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے اورجو اس وقت ایمان نہیں لائے تھے وہ خاندان کی طرفداری اور رشتوں وناطوں کی حمایت کی وجہ سے۔ رہے بنوشمس اور بنونوفل، گو یہ بھی حضور کے چچازاد بھائی تھے؛ لیکن وہ اس وقت حضورﷺ کی حمایت میں نہیں تھے؛ بلکہ ان کی وفاداریاں قریش کے ان تمام قبائل کے ساتھ تھیں جنھوں نے مل کر حضور کے خاندان بنوہاشم کا بائیکاٹ کیاتھا۔ حضرت جبیربن مطعم (راوی حدیث) اور حضرت عثمان بن عفان کا تعلق علی الترتیب بنونوفل اور بنوعبدشمس سے تھا، اللہ کے رسول نے انھیں خمس میں شامل نہیں فرمایا۔
حضور ﷺ کے اقرباء (بنوہاشم اور بنومطلب) حضور سے شرف قرابت اور ابتداء اسلام میں نصرت وامداد کی وجہ سے تمام دوسروں سے افضل ہیں ؛ لیکن ان کی محبت میں کسی قسم کا غلو جائز نہیں کہ انھیں مقام نبوت یا مقام عصمت تک پہنچادیں ۔ مقام عصمت انبیاء کا امتیاز ہے۔ اسی طرح ان کے مطلق طور پرافضل ہونے کا مطلب بھی یہ نہیں کہ علم وفضل میں ان سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہیں ؛ بلکہ خلفائے ثلاثہ امت کے دوسرے تمام افراد میں افضل ہیں باوجود اس کے کہ حضرت علیؓ بعض خصوصیات میں خلفائے ثلاثہ میں ممتاز ہیں ۔
تمام اہل سنت والجماعۃ اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ رسول اللہ کے اہل بیت کی محبت اور ان کی تعظیم وتکریم دراصل آپ ﷺ ہی کی تعظیم وتکریم ہے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ کہاکرتے تھے ارقبوا محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی أہل بیتہ (بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ) (اے لوگو! رسول اللہﷺ کے گھرانے کے لوگوں کا پاس ولحاظ رکھو، انھیں کسی قسم کی تکلیف مت پہنچائو اورنہ ہی انھیں برا بھلا کہو)۔
ایک اور موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا رسول کی قرابت اور ان کے ساتھ حسن سلوک مجھے زیادہ عزیز ہے بہ نسبت اپنے رشتہ داروں کے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے (قرابۃ رسول اللّٰہ احب إلی أن اصل من قرابتی) (مسلم، کتاب الجہاد، باب قول النبی ﷺ لانورث)۔
حضرت عمرؓ بھی حضور کی قرابت کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ انھیں عطایا اور تقسیم وظائف میں خود پر بھی مقدم رکھتے تھے اور دوسرے تمام پر بھی۔ ابن تیمیہؒ نے فرمایا: فان عمر ابن الخطاب لما وضع دیوان العطاء کتب الناس علی قدر انسابہم، فبدأ فأقربہم نسبا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما انقضت العرب ذکر العجم ہکذا کان دیوان علی عہد الخلفاء الراشدین وسائر الخلفاء من بنی امیہ وولد العباس إلی أن تغیر الأمر بعد ذلک (اقتضاء الصراط المستقیم فی مخالفۃ اصحاب الجحیم ۱/۳۹۹، مطبوعہ: ریاض سعودی عرب)۔ (حضرت عمرؓنے جب اپنے عہد خلافت میں وظیفہ کا رجسٹرتیار کرایا تو اس میں لوگوں کا وظیفہ رسول اللہ ﷺسے قرابت کی بنیاد پر رکھا۔ اس میں سب سے پہلے ان لوگوں کو رکھا جو نسب میں رسول اللہ ﷺ سے قریب تر تھے۔ جب تمام عرب کے قبائل کا ذکر مکمل ہوا تو اس کے بعد عجم کے لوگوں کا ذکر کیا۔ یہ رجسٹر اور اس پر عمل عہد خلفائے راشدین اور بنوامیہ کے تمام خلفاء اور بنوعباس کے زمانہ تک ہوتا رہا یہاں تک کہ اس کے بعد حالات میں تبدیلی آئی)۔
ازواج مطہرات:
آپ ﷺ کے گھرانے میں آپ کی ازواج مطہرات پر اللہ کی خاص رحمت اور برکت رہی۔ اللہ رب العزت نے آپ کی ازواج کو امت کی ’’اولین خواتین‘‘ کا درجہ عطا فرمایا۔ انھیں دنیا بھر کی تمام عورتوں کے لیے قدوہ اورپیشوا بنایا، ارشاد فرمایا: یَا نِسَاء النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء (احزاب:۳۲)۔ اے نبی کی بیویوں تم عام عورتوں میں سے نہیں ہو۔
اللہ عزوجل نے ان کے گھروں کو مہبط وحی (نزول وحی کا مقام) بنایا، ارشاد فرمایا: وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ (احزاب:۳۴) (اور تلاوت کرتے رہو اس چیز کی جو پڑھی جاتی ہے تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت)۔
جب اللہ عزوجل نے ان ازواج کو یہ اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا تو انھیں اپنے مقام ومرتبہ کا خیال رکھنے اور اللہ کی ناراضگی سے بچنے کی بھی تلقین فرمائی، ارشاد فرمایا: یَا نِسَاء النَّبِیِّ مَن یَأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُضَاعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا(احزاب:۳۰) اے ازواج نبی! تم میں سے جو بھی اپنے مقام ومرتبہ سے ہٹ کر کوئی عمل کرے گا اس کے لیے دوگنا عذاب ہوگا۔
ان سب باتوں کا مقصد گھرانہ نبوت کو تمام کھوٹ اور عیوب سے اعلیٰ درجہ کی تطہیر سے نوازنا تھا، ارشاد فرمایا: إنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا(احزاب:۳۳) (اللہ چاہتاہے کہ تم دی گئی ہدایات پر عمل کرو اور تمہارے گھروں سے کثافت دور کردے اور تمہیں پورے طور پر پاک وصاف کردے)۔
آیت کی تفسیر میں حضرت عکرمہ، عطا، مقاتل اور سعید بن جبیر نے ابن عباس کے حوالہ سے فرمایا کہ اہل بیت سے مراد صرف ازواج مطہرات ہیں ۔ دلیل یہ ہے کہ سیاق وسباق کی تمام آیات میں ازواج مطہرات ہی کاذکر ہے (تفسیر بغوی وتفسیر ابن کثیر، سورہ احزاب:۳۳)۔ حضرت عکرمہ تو بازاروں میں اعلان کرتے تھے کہ آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں ؛ کیونکہ یہ آیت انھیں کی شان میں نازل ہوئی اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کو تیار ہوں (تفسیر قرطبی و ابن کثیر، تفسیر سورہ احزاب:۳۳)۔
اس میں شک نہیں کہ یہ آیت ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اوراہل بیت سے وہی مراد ہیں ؛ لیکن یہ بات اس کے منافی نہیں کہ تبعا کچھ دوسرے لوگ (داماد اور اولاد الاولاد) بھی اہل بیت میں شامل ہوجائیں ؛ چنانچہ ابن کثیرؒ کی یہی رائے ہے۔ اس لحاظ سے اہل بیت میں آپ ﷺ کے تمام داماد (حضرت ابوالعاص، حضرت عثمان اور حضرت علی)، بیٹیاں (حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ) اور بیٹیوں کی اولاد (حضرت زینب کی اولاد: حضرت امامہ اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی اولاد: حضرت حسن، حسین، زینب اور ام کلثوم) سب شامل ہیں ۔
حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ:
حضرت خدیجہؓ مکہ کی ایک نہایت معزز خاتون تھیں ۔ ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں آنحضرت ﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے، اس رشتہ کے لحاظ سے وہ آپ کی چچازاد بہن تھیں ۔ ان کی دو شادیاں ہوچکی تھیں ، پہلی شادی ابوہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی۔ ان سے ہند اورہالہ پیدا ہوئے۔ دوسری شادی عتیق بن عائذ مخزومی سے ہوئی، ان سے ہند پیداہوئیں ۔ عتیق کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہؓ رسول اکرم ﷺ کے عقد نکاح میں آئیں ۔ رسول اللہ ﷺ سے نکاح کے وقت ان کی عمر چالیس سال تھی اور حضورﷺ کی پچیس برس۔
حضرت خدیجہؓ اپنے زمانہ کے لوگوں میں نہایت عقلمند، دانا اور بابصیرت خاتون تھیں ۔ ان کے اخلاقی فضائل میں سخاوت، جاں نثاری، صبر واستقامت جیسے اوصاف نمایاں تھے۔ وہ اپنے معاشرے میں ایک پاک دامن اور بلندمرتبہ خاتون تھیں ۔ ایام جاہلیت میں وہ طاہرہ اور سیدہ قریش کے نام سے مشہور تھیں ۔ ان کا در دولت ہمیشہ حاجت مندوں اور فقیروں کے لیے کھلا رہتا تھا، کوئی بھی محتاج ان کے دروازے سے خالی نہیں جاتا تھا۔
حضرت خدیجہ حسین وجمیل اور مکہ کی سب سے دولت مند خاتون تھیں ۔ ان کی ذاتی تجارت تھی۔ ان کا کاروبار اتنا بڑا تھا کہ جب اہل مکہ کا قافلہ تجارت کے لیے روانہ ہوتا تھا تو اکیلا ان کا سامان تمام قریش کے سامان تجارت کے برابر ہوتا تھا۔ ان کے حسن وجمال، دولت اور سماج میں اعلیٰ مقام کی وجہ سے اس زمانے کے عرب کے بڑے بڑے سردار مثلا عقبہ بن معیط بن امیہ، ابوصلت، ابوجہل اور ابوسفیان وغیرہ نے ان سے رشتہ ازدواج کی خواستگاری کی؛ لیکن وہ ان میں سے کسی کو اپنی شان کے مطابق نہیں سمجھتی تھیں ۔ حضرت خدیجہؓ نے حضورﷺ کے رشتہ کو یہ کہتے ہوئے قبول کیا کہ ان کے اخلاق نہایت عمدہ ہیں ، وہ امانت دار اور سچے ہیں ۔
آپ ﷺ بچپن ہی سے تجارت سے منسلک تھے۔ سولہ سال کی عمر تک آپ اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ کئی تجارتی سفر کرچکے تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ آپ کا دنیاوی اور تجارتی تجربہ بڑھتا گیا۔ اس زمانہ میں لوگ عموماً اپنا سرمایہ کسی تجربہ کار اور امین شخص کے ہاتھ میں دے کر اسے تجارت کے نفع میں شریک کرتے تھے۔ آں حضرت ﷺ خوشی کے ساتھ اس شرکت کو گوارا فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے تجارت کی غرض سے شام وبصرہ اوریمن کے متعدد سفر کیے۔ پچیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ کے حسن معاملہ، راست بازی، صدق، امانت اورپاکیزہ اخلاق کی عام شہرت ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ لوگ آپ کو امین کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے ان اسباب کی بناء پر آنحضرت ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام کو جائیں اور کہا کہ جو معاوضہ دوسروں کو دیا جاتا ہے اس سے دو چند معاوضہ آپ کو دیا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے اسے قبول فرمایا اور مال تجارت لے کر سفر پر روانہ ہوگئے۔ واپس آکر حضرت خدیجہ کو اتنا زیادہ نفع لوٹایا جتنا اب تک کسی نے بھی نہیں لوٹایا تھا۔ حضرت خدیجہؓ آپ کی محنت اورایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں ۔ سفر سے واپسی کے دو یا تین مہینہ بعد حضرت خدیجہؓ نے آپ کے پاس شادی کا پیغام بھیج دیا۔ اس زمانہ میں عورتوں کو اس قسم کی آزادی حاصل تھی۔ حضورﷺ نے آپ کا رشتہ قبول فرمایا اور پانچ سو درہم مہر پر آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کا نکاح حضرت خدیجہؓ سے کردیا۔
نکاح کے بعد حضور نے ان کے ساتھ زندگی کے پچیس برس گذارے اس کے بعد حضرت خدیجہ کا انتقال ہوگیا۔ حضورﷺ حضرت خدیجہ سے بہت محبت فرماتے تھے۔ وہ جب تک حیات رہیں آپ نے کبھی دوسری شادی نہیں کی۔ حالاں کہ عرب کے ماحول میں ایک سے زائد شادی کرنا عام بات تھی۔
حضرت خدیجہ نے حضور کی بڑی مدد کی۔ ابتداء اسلام میں جب رسول اللہﷺ کا کوئی معاون ومددگار نہ تھا تو انھوں نے اپنی تمام دولت آپ کے قدموں میں ڈال دی۔ آپ ہی حضور کی وزیراور مشیر تھیں ۔ مکہ میں جب ہر طرف مخالفت کا طوفان تھا تو صرف وہی ایک حضور کی تسکین کا باعث تھیں ۔ وہ جب تک زندہ رہیں حضور کو کوئی غم لاحق نہیں ہوا؛ مگر جس سال حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا، وہ سال آپ ﷺ کی زندگی کا عام الحزن (غم کا سال) بن گیا۔ حضور زندگی بھر انھیں بھلا نہیں پائے۔
آنحضرتﷺ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے حضرت خدیجہ سے ہوئیں ۔ ان میں تین صاحبزادے، جن کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا اور چار صاحبزادیاں : حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ ہیں ۔
حضرت خدیجہ کی ایک بہن حضرت ہالہؓ بھی تھیں جن کے بیٹے ابوالعاص سے حضورﷺ کی بڑی بیٹی حضرت زینب کا نکاح ہوا تھا۔ حضرت ہالہؓ قدیم الاسلام تھیں اور حضرت حدیجہ کی وفات کے بعد تک حیات رہیں ۔ ایک مرتبہ وہ مدینہ میں آنحضرت ﷺ سے ملنے آئیں اور استئذان کے قاعدہ سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ ان کی آواز حضرت خدیجہ سے ملتی تھی۔ آپ کے کانوں میں آواز پڑی تو حضرت خدیجہؓ یاد آگئیں اور بے جھجک اٹھے اور فرمایاکہ ’’ہالہ ہوں گی‘‘۔ وہاں حضرت عائشہؓ بھی موجود تھیں ان کو رشک ہوا، بولیں کہ آپ ایک بوڑھی عورت کو یاد کیے جاتے ہیں جو مرچکیں ، خدا نے آپ کو ان سے اچھی بیویاں عطا کیں ۔ حضورﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے ان کی محبت دی ہے۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد جب بھی گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر حضرت خدیجہؓ کی ہم نشیں عورتوں کے پاس گوشت بھجوایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ گو میں نے خدیجہؓ کو کبھی نہیں دیکھا؛ لیکن مجھ کو جس قدر ان پر رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ کو ’’خیرنساء العالمین‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔ یعنی وہ دنیا کی چار سب سے بہتر خواتین میں سے ایک تھیں ۔ ان چار میں بقیہ تین: حضرت مریم، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ اور آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ ہیں (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔
حضرت سودہ بنت زمعہؓ:
ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہؓ ابتداء نبوت میں مشرف باسلام ہوئیں ۔ اس بناء پر انھیں قدیم الاسلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ان کی پہلی شادی حضرت سکران بن عمرؓ سے ہوئی تھی۔ حضرت سودہؓ انھیں کے ساتھ اسلام لائیں اورانھیں کے ساتھ حبشہ ہجرت (ثانی) کی، پھر حبشہ سے مکہ واپس آنے کے کچھ دنوں بعد حضرت سکران کی وفات ہوگئی اور ایک لڑکا یادگار چھوڑا،اس کا نام عبدالرحمن تھا۔ انھوں نے اسلامی جہاد میں شہادت حاصل کی۔
حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد حضور اکرم ﷺ نہایت غمگین اور اداس رہتے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے عرض کی کہ آپ کو ایک مونس وغمخوار کی ضرورت ہے، آپ نے فرمایا ہاں ، گھربار بال بچوں کا انتظام سب خدیجہؓ کے حوالے تھا۔ آپ کے ایماء سے وہ حضرت سوداء کے گھر گئیں اور نکاح کا پیغام دیا، گھر والوں نے رشتہ کو منظوری دی۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کا نکاح چار سودرہم مہر پر حضرت سودہ سے ہوگیا۔ نکاح کے وقت ان کی عمر پچاس سال تھی اور حضور ﷺ کی عمر مبارک بھی پچاس سال تھی۔ نکاح کے بعد حضرت سودہؓ نے آپ کی چہیتی اور لاڈلی بیٹیوں کی دل وجان سے پرورش کی۔ جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مسجد نبوی سے متصل آپؓ کا حجرہ بنایاگیا۔ اس کے بعد دوسری ازواج کے حجرے تعمیر ہوئے۔ ان حجرات (کمروں ) کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؓ نے حضورﷺ کے ساتھ فریضہ حج ادا کیا۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعدانھوں نے گھر میں ہی رہنا پسند کیا۔ حجۃ الوداع کے بعدکبھی کسی طرح کا سفر نہیں کیا، نہ ہی کسی حاجت سے باہر نکلیں ۔
حضرت سودہؓ نے جب نبی ﷺ کا دلی میلان حضرت عائشہؓ کی جانب محسوس کیا تو آپ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دے دی تھی۔ اس طرح آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے گھر دو دن رہتے تھے۔ ایک دن حضرت عائشہ کی باری کا اور ایک دن حضرت سودہ کی باری کا۔ حضرت سودہؓ کی وفات حضرت عمرؓ کی خلافت کے اواخرلگ بھگ ۲۲ہجری میں ہوئی۔ سخاوت اور فیاضی ان کے اوصاف نمایاں تھے۔
حضرت عائشہؓ:
۱۰؍نبوی میں آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں ، چار سودرہم مہر مقرر ہوا۔ نکاح کے وقت وہ کمسن تھیں ، اس لیے اس وقت ان کی رخصتی نہیں ہوسکی۔ ۱۳؍نبوی میں آپ نے مدینہ ہجرت کی تو حضرت ابوبکرؓ (والد حضرت عائشہ) ساتھ تھے۔مدینہ میں جب اطمینان ہوا تو حضرت ابوبکرؓ نے عبداللہ بن اریقط کو بھیجا کہ ام رومان (حضرت عائشہؓ کی والدہ) اور اسمائؓ (حضرت عائشہ کی بہن) اور عائشہؓ کو لے آئیں ۔ ادھر آں حضرتﷺ نے حضرت زید بن حارثہ اور ابورافع کو حضرت فاطمہؓ، ام کلثومؓ اور حضرت سودہؓ وغیرہ کو لانے کے لیے روانہ فرمایا۔ مدینہ آکر حضرت عائشہؓ سخت بخار میں مبتلا ہوگئیں ۔ صحت حاصل ہوئی تو ان کی والدہ کو رسم رخصتی ادا کرنے کا خیال آیا۔ حضرت عائشہؓ کا نکاح شوال کے مہینہ میں ہوا تھا اور رخصتی بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ زمانہ قدیم میں اسی ماہ میں طاعون آیا تھا اس بناء پر اہل عرب اس ماہ کو خوشی کی تقریب کے لیے ناموزوں سمجھتے تھے؛ مگر اس نکاح سے جاہلیت کا یہ وہم ہمیشہ کے لیے نابود ہوگیا۔
حضرت عائشہؓ آپ ﷺ کی محبوب بیوی تھیں ۔ آپؐ نے مرض الموت میں تمام ازواج سے اجازت لے کر اپنے زندگی کے آخری ایام حضرت عائشہؓ کے حجرے میں گذارے تھے۔
حضرت عائشہؓ کی علمی زندگی بہت نمایاں ہے، اللہ نے انھیں دین کی فہم عطا فرمائی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں فتویٰ دیتی تھیں ۔ متعدد اصحاب رسول پر ان کے استدراکات ہیں ۔ ان سے ۲۲۱۰؍حدیثیں مروی ہیں ۔ لگ بھگ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی حصہ ان ہی سے منقول ہے۔ ترمذی میں ہے کہ صحابہ کے سامنے جب کوئی مشکل سوال آجاتا تو اس کو حضرت عائشہؓ ہی حل کرتی تھیں ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب من فضل عائشہؓ)۔ خصوصا عورتوں کے مسائل ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
حضرت عائشہؓ نے ۹؍برس تک آں حضرت ﷺ کے ساتھ زندگی بسر کی۔ حضورؐ کے بعد وہ تقریباً ۴۸؍سال حیات رہیں ، ۵۷ھ میں وفات پائی اس وقت ان کی عمر ۶۶ سال کی تھی۔
حضرت حفصہؓ:
حضرت حفصہؓ حضرت عمرؓ کی صاحبزادی تھیں ۔ بعثت سے پانچ برس قبل پیدا ہوئیں ۔ ان کی پہلی شادی خنیس بن حذافہ السہمی سے ہوئی اور انھیں کے ساتھ مدینہ ہجرت کی۔ خنیس کو جنگ بدر میں کاری زخم لگا، واپس آکر وہ انھیں زخموں کی وجہ سے انتقال فرماگئے۔ اس کے بعد حضور نے ۳ہجری میں حضرت حفصہؓ کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔
حضرت حفصہؓ کے مزاج میں سختی تھی۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں : انہا ابنۃ ابیہا (وہ اپنے باپ کی بیٹی ہیں )۔ حضرت عمرؓ سخت مزاج مشہور تھے۔ حضورؐ نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ عمر سے شیطان بھاگتا ہے۔
حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ تقریب نبوی میں دوش بدوش رہتی تھیں ۔ اس بناء پر یہ دونوں دیگر ازواج کے مقابلہ میں باہم ایک تھیں ؛ لیکن کبھی کبھی خود بھی باہم رشک ورقابت کا اظہار ہوجایا کرتا تھا۔
حضرت حفصہؓ نے ۴۵ھ میں دوران خلافت حضرت امیر معاویہؓ وفات پائی۔مروان بن الحکم گورنر مدینہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت زینب بنت خذیمہؓ ؍ام المساکین:
زینب نام تھا، زمانہ جاہلیت سے فقراء ومساکین کو نہایت فیاضی کے ساتھ کھلاتی تھیں اسی لیے ام المساکین کی کنیت کے ساتھ مشہور ہوگئیں ۔ آنحضرتﷺ سے پہلے عبداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں ۔ عبداللہ بن جحش نے جنگ احد میں شہادت پائی۔ احد کے بعد ۳ہجری میں آنحضرت ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے بعد آنحضرت ﷺ کے پاس صرف دو تین مہینے رہنے پائی تھیں کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں حضرت خدیجہؓ کے بعد صرف یہی ایک بی بی تھیں جن کی وفات پہ آنحضرت ﷺ نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ وفات کے وقت ان کی عمر ۳۰سال تھی۔
حضرت ام سلمہ بنت ابوامیہؓ:
ہند نام اور ام سلمہ کنیت تھی، والد کا نام سہیل اورماں کا نام عاتکہ تھا۔ حضرت خالد بن الولید کی چچازاد بہن تھیں ، حضرت ام سلمہؓ مکہ کی خوبصورت اور شریف زادیوں میں سے تھیں ۔ پہلے عبداللہ بن عبدالاسد کے نکاح میں تھیں ، جو زیادہ تر ابوسلمہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان کے ساتھ اسلام لائیں اور ان ہی کے ساتھ سب سے پہلے حبشہ ہجرت کی۔ چنانچہ سلمہ (ان کے بیٹے) حبشہ ہی میں پیداہوئے۔ حبشہ سے مکہ آئیں اور یہاں سے مدینہ ہجرت کی۔ وہ پہلی خاتون اسلام ہیں جو ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائیں ۔ ان کے شوہر ابوسلمہ اچھے شہسوار تھے۔ جنگ بدر واحد میں دادشجاعت حاصل کی۔ غزوہ احد میں زخم آئے جن کے صدمہ سے جاں بر نہ ہوسکے اور ۴ھ میں وفات پاگئے۔ ان کے جنازہ کی نماز نہایت اہتمام سے پڑھی گئی۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی نماز جنازہ میں ۹؍تکبیریں کہیں ، لوگوں نے نماز کے بعد پوچھا یا رسول اللہ! نماز میں کچھ خلاف معمول تو نہیں ہوا؟ فرمایا کہ یہ ہزار تکبیر کے مستحق تھے۔
ابوسلمہ کے وفات کے وقت ام سلمہ حمل سے تھیں ۔ وضع حمل کے بعد جب عدت گذر گئی تو حضور نے ان سے نکاح کرنا چہا تو انھوں نے چند عذر پیش کیے، وہ بولیں کہ میں بچہ والی ہوں ، میرا سن زیادہ ہے اور میں سخت غیور ہوں ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ تم سے تمہاری اس خوکو رفع کردے گا۔ رہی بات بچوں کی، تو ان کی کفالت میرے ذمہ ہوگی۔ عمر کے بارے میں فرمایا کہ میرا سن تم سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد ام سلمہؓ نکاح کے لیے راضی ہوگئیں اور نکاح ہوگیا۔
ازواج مطہرات میں سب سے بعد ۶۰ ہجری کے لگ بھگ آپ نے وفات پائی، وفات کے وقت ان کی عمر ۸۴ سال تھی۔
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہؓ کے بعدفضل وکمال میں انھیں کا مقام ومرتبہ ہے۔ روایت حدیث اور نقل احکام میں حضرت عائشہؓ کو چھوڑ کر انھیں دوسری تمام بیبیوں پر فضیلت حاصل ہے۔ ان کی اصابت رائے اور کمال عقل پر حدیبیہ کا واقعہ شاہد ہے۔ صلح حدیبیہ کے وقت جب صحابہ کو حلق اور قربانی میں تامل تھا تو حضرت ام سلمہؓ ہی کی تدبیر سے یہ مشکل حل ہوئی۔ یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی منقول ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ دب کر صلح ہونے پر افسردہ تھے۔ اسی دوران آپ نے حدیبیہ ہی میں قربانی کرنے کا حکم فرمایا۔ مگر بار بار کہنے کے باوجود لوگوں نے آپ کے حکم کی تعمیل میں تاخیر کی۔ آپ ﷺ اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے اور ام سلمہ سے شکایت کی۔ انھوں نے کہا اب آپ کسی سے کچھ مت کہیے؛ بلکہ باہر نکل کر خود قربانی کیجیے اور بال منڈوالیں ۔ آپ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے۔ اب جب لوگوں کو یقین ہوگیا کہ اس فیصلہ میں تبدیلی نہیں ہوسکتی تو سب نے جلدی جلدی قربانیاں کیں اور احرام اتارا۔ہجوم اور عجلت کا یہ حال تھا کہ ہر شخص ان کاموں سے سب سے پہلے فارغ ہونا چاہتا تھا۔
۹ہجری میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت عمر نے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہؓ کو تنبیہ کی تو حضرت عمرؓ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے پاس بھی آئے وہ ان کی عزیز ہوتی تھیں ۔ ان سے بھی گفتگو کی۔ ام سلمہ نے جواب دیا عمر تم ہر معاملہ میں دخل دینے لگے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دیتے ہو؛ چونکہ جواب نہایت مسکت تھا اس لیے حضرت عمر چپ ہوگئے اوراٹھ کر چلے آئے۔ رات کو یہ خبرمشہور ہوگئی کہ آپ ﷺ نے ازواج کو طلاق دے دی، صبح کو جب حضرت عمرؓ آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور تمام واقعہ بیان کیا، جب ام سلمہ کا قول نقل کیا تو آپ ﷺ مسکرادیے۔
حضرت زینب بنت جحشؓ:
ام المومنین حضرت زینب رسول اکرم ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں ۔ حسن وجمال میں ممتاز تھیں ، حضرت عائشہؓ کی ہمسری کا دعویٰ بھی رکھتی تھیں ۔ آنحضرت ﷺ کو بھی ان سے نہایت محبت تھی۔ زہدو ورع کا حال یہ تھا کہ جب حضورؐ نے ان سے حضرت عائشہؓ کی بابت دریافت کیا تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہا: ما علمت الا خیرا۔ میں ان کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتی۔ ان کا پہلا نکاح حضرت زیدبن حارثہ سے ہوا۔ حضرت زیدؓ حضورؐ کے منہ بولے بیٹے تھے وہ اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابوبکرؓ مسلمان ہوئے تھے۔ وہ حضورؐ کے ساتھ رہتے رہتے زید بن محمد کے نام سے مشہور ہوگئے۔ حضور کی ان پر خاص عنایت تھی، حضورؐ نے حضرت زینب کا نکاح حضرت زیدؓ سے کردیا؛ مگر یہ رشتہ قائم نہ رہ سکا۔ طلاق وعدت کے بعد حضرت زینبؓ حضورؐ کی زوجیت میں آئیں ۔
صحیحین میں ہے کہ حضرت زینبؓ تمام ازواج کے مقابلہ میں فخر کیا کرتی تھیں ، کہتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے اولیاء نے کیا؛ مگرمیرا نکاح خود اللہ نے اپنے رسول کے ساتھ کیا۔ سورہ احزاب میں ہے: فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا لِکَیْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا (الاحزاب:۳۷) پھر جب زید حاجت پوری کرچکا (یعنی طلاق دے چکا) تو ہم نے اس کو آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں کو متبنّیٰ کی زوجہ سے نکاح کرنے میں تنگی نہ رہے۔
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فرمایا تم میں سے مجھ سے جلد وہ ملے گا جس کا ہاتھ لمبا ہوگا۔ یہ اشارہ تھا فیاضی کی طرف؛ لیکن ازواج مطہرات نے اس کو حقیقت سمجھا۔ حضرت زینبؓ اپنی فیاضی کی بناء پر اس پیشین گوئی کا مصداق ثابت ہوئیں ؛ چنانچہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات میں سب سے پہلے انھوں نے ہی انتقال کیا۔ مرنے سے پہلے کفن کا سامان خود تیار کرلیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، ۲۰ھ میں انتقال ہوا، ۵۳برس کی عمر پائیں ۔ حضور ﷺ سے نکاح کے وقت ان کی عمر ۳۵سال تھی۔
حضرت زینبؓ عبادت میں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ مشغول رہتی تھیں ، طبیعتاً نہایت قانع اور فیاض تھیں ۔ خود اپنے دست وبازو سے معاش پیدا کرتی تھیں ۔ اس سے جو بھی حاصل ہوتا تھا اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیتی تھیں ۔
حضرت جویریہؓ:
حضرت جویریہ حارث بن ضرار (یہودی) کی بیٹی تھیں ، جو قبیلہ نبو مصطلق کا سردار تھا۔ مسافع بن صفوان سے شادی ہوئی تھی جو غزوہ مریسیع میں قتل ہوا۔ اس لڑائی میں جو لوگ قیدی بنائے گئے ان میں حضرت جویریہ بھی تھیں ۔ تقسیم غنیمت کے وقت وہ ثابت بن قیس بن سماس انصاری کے حصہ میں آئیں ۔ حضرت جویریہؓ نے حضرت ثابت بن قیس سے ۹؍اوقیہ سونے پر مکاتبت کرلی، یعنی اپنی آزادی کے بدلے ۹؍اوقیہ سونا ادا کرنے پر معاہدہ کرلیا؛ لیکن یہ رقم ان کی اسطاعت سے بہت زیادہ تھی۔ وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ! میں مسلمان کلمہ گو عورت اور جویریہ بنت حارث ہوں جو اپنی قوم کا سردار ہے۔ مجھ پر جو مصیبتیں آئیں وہ آپ سے مخفی نہیں ۔ میں نے ثابت بن قیس کے حصہ میں آنے کے بعد ۹؍اوقیہ سونے پر ان سے عہد کتابت کرلی؛ مگر یہ رقم اداکرنا میرے بس میں نہیں تھی، تاہم میں نے آپ کے بھروسے اس کو منظور کرلیا اوراس وقت آپ سے اسی رقم کا سوال کرنے کی غرض سے آئی ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں ؟ انھوں نے کہا وہ کیا چیز ہے، آپ نے فرمایا کہ میں یہ رقم ادا کیے دیتا ہوں اور تم راضی ہوتو میں تم سے نکاح کرلیتا ہوں ، تاکہ تمہارا خاندانی اعزاز ووقار برقرار رہے، وہ راضی ہوگئیں ۔ آپ نے ثابت بن قیس کو بلایا وہ بھی راضی ہوگئے۔ آپ نے رقم ادا کرکے انھیں آزاد کردیا اور پھر ان سے نکاح کرلیا۔
مدینہ واطراف مدینہ میں جب یہ خبر پھیلی کہ حضورؐ نے حضرت جویریہ سے نکاح فرمالیا تو مسلمانوں نے قبیلہ مصطلق کے تمام کے تمام لونڈی اور غلاموں کو اس بناء پر آزاد کردیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس قبیلہ سے رشتہ مصاہرت قائم کرلیا۔ آزادہونے والوں کی تعداد تقریباً سات سو تھی۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی عورت جویریہ سے زیادہ اپنی قوم کے لیے عظیم البرکت ثابت ہوئی ہو۔
۵ہجری میں حضور ﷺ نے ان سے عقد کیا تھا، اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی۔ ۵۰ ہجری میں ان کا انتقال ہوا،انتقال کے وقت ان کی عمر ۶۵سال تھی۔ آپؓ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔
حضرت ام حبیبہؓ:
ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ ابوسفیان کی بیٹی اور حضرت امیرمعاویہؓ کی بہن تھیں ، ان کا نام رملہ اور کنیت ام حبیبہ تھی۔ بعثت سے ۱۷سال قبل پیدا ہوئیں اور عبید اللہ بن جحش سے عقد ہوا۔ آنحضرت ﷺجب مبعوث ہوئے تو دونوں مشرف باسلام ہوئے اور حبشہ کی طرف ہجرت (ثانیہ) کی۔ حبشہ جاکر عبید اللہ نے عیسائیت قبول کرلی؛ لیکن ام حبیبہ اسلام پر قائم رہیں ۔ اختلاف مذہب کی بنیاد پر دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ ایک روز کسی نے رسول رحمت ﷺ کو حبشہ میں آباد مہاجرین کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ یا رسول اللہ! ابوسفیان کی بیٹی انتہائی مشکل اور کٹھن حالات سے دوچار ہے۔ اس کا خاوند مرتد ہوکر فوت ہوچکا ہے، گود میں ایک چھوٹی سی بچی ہے؛ لیکن صبرواستقامت کے ساتھ وہ دین اسلام پر قائم ہے، رشتہ دار بھی اس کی خبر نہیں لیتے؛ لہٰذا وہ ہماری مدد کی مستحق ہیں ۔ آپ ﷺنے سن کر حضرت عمروبن امیہ ضمری کو شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں ایک مراسلہ دے کر روانہ کیا۔ آپ نے اس میں لکھا کہ ام حبیبہؓ اگر پسند کریں تو ان کا نکاح میرے ساتھ کردیں ۔ نجاشی کو جب یہ پیغام پہنچا تواس نے اپنی خاص لونڈی کو ام حبیبہؓ کے پاس بھیجا اور رسولاللہ کے پیغام کی خبر دی۔ ام حبیبہ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور اپنا سارا زیور اتار کر اس خوشخبری کے انعام میں اس لونڈی کو دے دیا۔
خالد بن سعید بن ابوالعاص جو ام حبیبہؓ کے ماموں کے لڑکے تھے، ان کو وکیل بناکر نجاشی کے دربار میں بھیجا۔ نجاشی نے حضرت جعفرؓ اور دوسرے صحابہؓ کو جو اس وقت حبشہ میں موجود تھے، بلایا اور سب کے سامنے نکاح کیا۔ خود خطبہ پڑھا اور چار سو دینار مہر اپنے پاس سے ادا کیا جو اسی وقت خالد بن سعید کے سپرد کیے گئے۔ نکاح کے بعد لوگوں نے اٹھنا چاہا؛ لیکن نجاشی نے کہا کہ دعوت لیمہ تمام پیغمبروں کی سنت ہے۔ چنانچہ کھانا آیا لوگ دعوت کھاکر رخصت ہوئے۔ جب مہر کی رقم ام حبیبہؓ کو ملی تو انھوں نے اس میں سے پچاس دینار اسی لونڈی کو دینا چاہا جس نے حضور کے پیغام نکاح کا مژدہ سنایا تھا؛ مگر اس نے یہ کہہ کر منع کردیاکہ بادشاہ نے ہدیہ قبول کرنے سے منع کیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے کنگن اور انگوٹھی بھی واپس کردی جو ام حبیبہؓ نے اسے پہلے سے دی ہوئی تھی۔ اس نے کہا کہ میں رسول مبعوث پر ایمان رکھتی ہوں ، میری حاجت آپ سے صرف اتنی ہے کہ آپ رسول ﷺ تک میرا سلام پہنچادیجیے اور ان سے کہیے کہ میں ان کے دین کی اتباع کرتی ہوں ۔ عقد کے بعد شاہ نجاشی کی طرف سے بہت سے تحفہ وتحائف کے ساتھ ام حبیبہؓ کو شرجیل بن حسنہ کے ذریعہ مدینہ بھیج دیاگیا۔ جب حضرت ام حبیبہؓ مدینہ تشریف لائیں تو نجاشی کے دربار کے تمام واقعات، خطبہ نکاح اور باندی کی باتوں کو حضور ﷺ تک پہنچایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وعلیہا السلام ورحمۃ اللہ۔ یہ ہجری ۷ کی بات ہے، اس وقت ام حبیبہؓ کی عمر ۳۶ سال کی تھی۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ نہایت پرہیزگار اور عابد خاتون تھیں ، اکثر خداکی یاد میں رہتی تھیں ۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ حضرت ام حبیبہؓ نے اس کے بعد ساری زندگی کبھی بھی ان نوافل کو نہیں چھوڑا۔ فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ کی تجدید کے لیے آپؓ کے والد ابوسفیان مدینہ آئے تو آپؓ کے گھر بھی آئے، استراحت کی خاطر رسول اللہ ﷺ کے بستر پر بیٹھنے کا ارادہ کیا، حضرت ام حبیبہؓ نے اسے فوراً اٹھالیا، ان کے والد نے برامانا اور بیٹی سے پوچھا کہ تم نے بستر کیوں سمیٹ دیا۔ آپؓ نے فرمایا تم مشرک ونجس ہو اور یہ رسول اللہ کا پاک بستر ہے تم اس پر بیٹھنے کے لائق نہیں ۔ ام حبیبہؓ نے ۴۴ھ میں وفات پائی اور مدینہ میں مدفون ہوئیں ۔
حضرت میمونہؓ:
آپ کا نام میمونہ تھا، آپ کے والد کا نام حارث بن حزن بن عبدالعزی۔ پہلے مسعود بن عمرو بن عمیرالثقفی کے نکاح میں تھیں ۔ مسعود نے طلاق دے دی تو ابورہم بن عزہ نے نکاح کیا۔ ابورہم کے انتقال کے بعد ۷ہجری میں رسول اللہﷺ کے نکاح میں آئیں ۔ روایات کے مطابق سن ۷ہجری میں حضورﷺ عمرۃ القضاء کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو سیدہ میمونہ مسلمانوں کی ہیئت کو دکھ کر حیران ہوئیں اورانھیں رسول اللہ ﷺ سے گائو ہوگیا۔ انھوں نے اس موضوع کو اپنی بہن ام الفضل لبابہ کے سامنے رکھا جو رسول اللہ کے چچا حضرت عباس کی زوجہ محترمہ تھیں ۔ انھوں نے اپنے شوہر حضرت عباس سے اس رشتہ کے لیے درخواست کی۔ عباس نے اس بات کا اظہاررسول اللہ کے سامنے کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے جعفر بن ابی طالب کو اس رشتہ کی خواستگاری کے لیے بھیجا۔ جب رسول اللہ کی طرف سے انھیں نکاح کا پیغام پہنچا تو اونٹ پر سوار تھیں انھوں نے کہا: اونٹ اور اس کا سوار ان کے اللہ اور اللہ کے رسول کی یاد میں ہے۔ اس موقع پر آیت یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ۔۔۔۔۔ (احزاب:۵۰) نازل ہوئی۔
سیدہ میمونہ نے اپنی شادی کا اختیار عباس بن عبدالمطلب کے سپرد کردیا، جنھوں نے مکہ سے دس میل کے فاصلے پر مقامِ سرف پر آ پ کا نکاح کردیا اور چار سو درہم حق مہر قرار دیا۔ رسم عروسی ادا ہوئی۔ یہ رسول اللہ کا آخری نکاح تھا اور سیدہ میمونہ آپ کی آخری بیوی تھیں ، یہاں سے آپ رسول اللہ کے ہمراہ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگئیں ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ حضورﷺ سے ان کا نکاح مقام سرف میں ہوا تھا اور ۱۵ہجری میں سفرحج سے واپسی کے وقت مقام سرف میں ان کا انتقال بھی ہوا اور اسی مقام پر دفن ہوئیں جہاں زفاف کا قبہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ صحاح میں ہے کہ جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ (ان کے بھانجے) نے فرمایا یہ رسول اللہ کی بیوی ہیں ۔ جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو۔ باادب اورآہستہ لے چلو۔ وفات کے وقت ان کی عمر ۸۰؍۸۱ سال تھی۔
حضرت صفیہؓ:
آپ کا اصل نام زینب تھا۔ دستور عرب کے مطابق مال غنیمت کا جو بہترین حصہ بادشاہ کے لیے مخصوص ہوجاتا تھا اس کو صفیہ کہتے تھے؛ چونکہ جنگ خیبر میں اسی طریقہ کے موافق آنحضرت ﷺ کے نکاح میں آئی تھیں ، اس لیے صفیہ کے نام سے مشہور ہوگئیں ۔ آپؓ حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ۔ ان کے والد کا نام حییّ بن اخطب اور ماں کا نام برہ بنت سموال تھا۔ حضرت صفیہ کو باپ اور ماں دونوں کی جانب سے سیادت حاصل تھی۔ باپ قبیلہ بنونضیر کا سردار اور ماں قریظہ کے رئیس کی بیٹی تھیں ۔
حضرت صفیہ کی پہلی شادی سلام بن مشکم القرظی سے ہوئی تھی۔ ابن مشکم نے طلاق دے دی۔ اس کے بعد کنانہ بن ابی الحُقیق کے نکاح میں آئیں ۔ کنانہ سے نکاح ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ محرم ۷ہجری میں غزوہ خیبر برپا ہوگیا۔ کنانہ جنگ خیبر میں مارا گیا، ساتھ ہی حضرت سفیہ کے باپ اور بھائی بھی مارے گئے اور خود بھی گرفتار ہوئیں ۔ جب خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئے تو حضرت دحیہ کلبی نے آنحضرت ﷺ سے ایک لونڈی کی درخواست کی، آنحضرتؐ نے انھیں انتخاب کی اجازت دے دی، انھوں نے حضرت صفیہ کو منتخب؛ مگر جب لوگوں نے آپؐ کو اطلاع دی کہ دحیہؓ نے جس لونڈی کو منتخب کیاہے وہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے سردار کی لڑکی ہے۔ خاندانی وقار ان کے لباس سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار یعنی سرکار دوعالم ﷺ کے لیے موزوں ہیں ۔ آپؐ نے حکم دیا کہ دحیہؓ اس لونڈی کو لے کر حاضر ہوں ۔ چنانچہ حضرت دحیہؓ صفیہؓ کو لے کر آئے توآپ نے ان کو دوسری لونڈی عنایت فرمائی اور صفیہ کوآزاد کردیا اور انھیں یہ اختیار دیا کہ چاہیں وہ اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو نکاح میں آجائیں ۔ حضرت صفیہؓ نے حضورﷺ کے نکاح میں آنا پسند کیا، ان کی رضامندی سے حضور نے ان سے نکاح کرلیا۔ خیبر سے روانہ ہونے کے بعد مقام صہباء میں جب قافلہ نے پڑائو ڈالا تو وہاں ام سلیم،والدہ حضرت انس بن مالک، نے ان کی کنگھی چوٹی کی، کپڑے بدلے، خوشبو لگائی اور وہیں رسم عروسی ادا ہوئی۔ کھانے کی چیزوں میں سے جو کچھ لوگوں کے پاس تھا اس کو جمع کرکے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیاگیا۔ حضور نے یہاں تین روز قیام کیا جب روانہ ہوئے تو آپؐ نے انھیں اونٹ پر سوار کرلیا اور اپنے عباء سے ان پر پردہ کیا۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ وہ ازواج مطہرات میں داخل ہوگئی ہیں ؛ کیوں کہ اس وقت پردہ کا حکم صرف حرّہ (آزاد عورت) کے لیے ہی تھا، لونڈی کے لیے نہیں تھا۔
حضرت صفیہؓ نہایت حسین وجمیل تھیں ۔ وہ جب خیبر سے مدینہ آئیں ، تو یہاں ان کے حسن وجمال کا شہرہ ہوا، چنانچہ قبیلہ انصار کی عورتیں ان کو دیکھنے آئیں ۔ حضرت عائشہؓ بھی نقاب اوڑھ کر آئیں ؛ مگر رسول اللہ ﷺ نے انھیں پہچان لیا۔ جب واپس جانے لگیں تو حضورؐ ان کے ساتھ کچھ دور تک ساتھ چلے اور پوچھا کہ صفیہ کو تم نے کیسا دیکھا۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ دیکھا کہ وہ یہودیہ ہیں ۔ حضورؐ نے فرمایا یہ نہ کہو وہ مسلمان ہوگئی ہیں ۔
حضرت صفیہؓ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو نہایت محبت تھی اور ہر موقع پر ان کی دلجوئی فرماتے تھے۔ ایک بار آپ حضرت صفیہؓ کے پاس تشریف لے گئے، دیکھا کہ وہ رورہی ہیں ۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی، انھوں نے کہا کہ عائشہ اور زینب کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں اس لیے کہ وہ آپ ﷺ کی زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی چچازاد بہن بھی ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہارون میرے باپ، موسیٰ میرے چچا اور محمد (علیہم الصلاۃ والسلام) میرے شوہر ہیں ، اس لیے تم لوگ کیوں کہ مجھ سے افضل ہوسکتی ہو۔
حضرت صفیہؓ جب حضورؐ کی زوجیت میں آئیں تو ان کی عمر سترہ سال تھی اور لگ بھگ ۵۰ھ میں وفات ہوئی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔
اولاد واحفاد:
حضرت زینبؓ: آپ ﷺکی اولاد میں چار حقیقی بیٹیاں ہیں اور چاروں حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے ہیں ۔ ان میں حضرت زینبؓ سب سے بڑی بیٹی ہیں ، بعثت سے دس برس قبل پیداہوئیں ، اس وقت آپ ﷺ کی عمر ۳۰ سال تھی۔ جب حضور نے اعلان نبوت فرمایا تو سیّدہ خدیجہ کے ساتھ آپ نے بھی اسلام قبول فرمایا۔ اس وقت حضرت زینبؓ کی عمر ۱۰؍سال تھی۔ بڑے ہونے پر ان کی شادی حضرت ابوالعاص بن الربیع سے ہوئی، جو رشتہ میں ان کے خالہ زاد بھائی تھے۔ ان سے دو بچے (حضرت علی اور امامہ) پیدا ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ نے جب نبوت کے تیرہویں سال مدینہ ہجرت کی تو حضرت زینب اپنے شوہر کے گھر تھیں ۔ حضرت ابوالعاص کفر پر قائم ہونے کے باوجود ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔
ہجرت کے بعد ۲ہجری میں جنگ بدر ہوئی۔ اس جنگ میں ابوالعاص کفار کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے۔ وہ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے۔ جنگ بدر میں اہل اسلام کو فتح ہوئی تو جنگی قاعدہ کے مطابق شکست خوردہ افراد کو قید کرلیا گیا۔ ان قیدیوں میں آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس اور آپ کے داماد ابوالعاص بھی تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ فیصلہ ہوا کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدی چھڑانے کے لیے فدیہ اورمعاوضے بھیجنے شروع کیے۔ مدینہ طیبہ میں یہ تمام فدیے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیے گئے اور حضرت ابوالعاص کا فدیہ حضرت زینب کی طرف سے ہار کی شکل میں پیش ہوا۔ نبی کی جب اس پرنظر پڑی تو آپ ﷺ پربلا اختیار رقت طاری ہوگئی۔ اس ہار کو دیکھ کر حضرت خدیجہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ نبی ﷺ کی اس کیفیت کو دیکھ کر تمام صحابہ متاثر ہوئے۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اگر تم ابوالعاص کو رہا کردو اور زینب کا ہار واپس کردو تو تم ایسا کرسکتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ کا ارشاد درست ہے ہم ابوالعاص کوبلافدیہ رہا کرتے ہیں اور حضرت زینب کا ہار واپس کرتے ہیں ۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نے ابوالعاص سے وعدہ لیا کہ مکہ پہنچ کر زینب کو مدینہ بھیج دیں گے۔ ابوالعاص نے وعدہ کرلیا اور انھیں بلامعاوضہ رہا کردیاگیا۔
حضرت ابوالعاص مکہ آئے اور حسب وعدہ حضرت زینبؓ کو مدینہ جانے کی نہ صرف اجازت دی؛ بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔ انھوں نے اپنی تلوار اور تیروکمان لیے اور سفر کے لیے نکل گئے۔ حضرت زینبؓ سواری کے کجاوے میں تھیں اور کنانہ آگے آگے۔ مکہ سے باہر نکلتے ہی اہل مکہ کو اطلاع ہوگئی کہ زینب بنت محمد مدینہ جارہی ہیں ، تو کفار نے انھیں چاروں طرف سے گھیر کو ان پر حملہ کردیا۔ ہباربن اسود (بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) نے آگے بڑھ کر سیدہ زینبؓ پر نیزہ سے وار کیا۔ شہزادی رسول زخم کھاکر سواری سے نیچے گرگئیں اور ایک چٹان سے ٹکراگئیں ، جس سے وہ کافی زخمی ہوگئیں ، ان کا حمل بھی ضائع ہوگیا۔ کنانہ نے ان کا تیروں سے مقابلہ کیا، ہبار اور ان کے ساتھی پیچھے ہٹ گئے۔ قریب تھاکہ حالات مزید خراب ہوتے مگر اس بیچ ابوسفیان نے آکر معاملہ کو رفع دفع کردیا۔ مگر سیدہ زینب کی حالت اس وقت ایسی نہ تھی کہ وہ سفر کرسکیں ۔ انھیں مکہ واپس جانا پڑا۔ کچھ عرصہ بعد حضور ﷺ نے زید بن حارثہ کو انھیں مکہ سے لانے کے لیے بھیجا۔ اس بار پھر لوگوں نے مدینہ ہجرت سے انھیں روکنا چاہا، مگر اس بار ابوسفیان کی بیوی کی مداخلت سے انھیں مدینہ جانے دیاگیا۔ حضرت زیدؓ جو شہر سے باہر شہزادی رسول کی سواری کا انتظار کررہے تھے تمام آداب بجا لاتے ہوئے شہزادی کونین کو بحفاظت مدینہ پہنچادیا۔ حضرت زینبؓ نے مدینہ پہنچنے کے بعداپنے ابا جان سے کفار کی طرف سے پہنچنے والے تمام مظالم کا ذکر کیا تو سن کر حضوراقدس ﷺ کا دل بھر آیا، پھر فرمایا: زینب میری سب سے اچھی بیٹی ہے، جسے میری وجہ سے سب سے زیادہ مظالم سہنے پڑے۔ کچھ دنوں بعدابوالعاص بھی ایمان لے آئے تو آپ ﷺ نے حضرت زینب کا ابوالعاص کے ساتھ دوبارہ نکاح کردیا۔ اب سیدہ زینبؓ کے لیے آرام کے دن آئے تو زندگی نے وفا نہ کی۔ مکہ سے مدینہ سفر کرتے ہوئے ہبار بن الاسود کے نیزے سے جو زخم آپ کو آئے تھے وہ پھر تازہ ہوگئے۔ آخر کار وہی زخم آپ کی وفات کا سبب بن گئے۔ ۳۰سال کی عمر میں ۸ھ میں آپؓ اس دنیا سے پردہ فرماگئیں ۔ حضور اقدس ﷺ نے کفن میں رکھنے کے لیے اپنا تہہ بند مرحمت فرمایا۔ نماز جنازہ آپ ﷺ نے پڑھائی پھر اپنے جگرگوشہ کو قبر میں اپنے دست مبارک سے اتار کر خالق حقیقی کے سپرد فرمادیا۔
حضرت زینب کی بیٹی امامہ سے آپ ﷺ بہت محبت کرتے تھے۔ دوران نماز انھیں کندھے پر بٹھالیتے تھے، جب رکوع میں جاتے تو دوش مبارک سے اتار دیتے اور جب سجدہ سے سراٹھاتے تو پھر سوار کرلیتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلی وہو حامل امامۃ بنت زینب بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔۔ فاذا سجد وضعہا وإذا قام حملہا (بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب اذا حمل جاریۃ صغیر علی عنقہ فی الصلاۃ) (رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو حضرت امامہ بنت زینب کو اپنے کندھے پر بٹھالیتے، پھر جب رکوع وسجدہ کرتے تواتار دیتے اورجب کھڑے ہوتے تو انھیں سوار کرلیتے)۔
ایک مرتبہ بادشاہ نجاشی نے ایک نہایت قیمتی انگوٹھی آپ کی خدمت میں بطور تحفہ ارسال کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ انگوٹھی میں اس کو دوں گا جو مجھے اہل بیت میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے۔ لوگ یہ سمجھے کہ شاید یہ انگوٹھی آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کو عطا فرمائیں گے؛ لیکن یہ انگوٹھی آپ ﷺ نے اپنی نواسی حضرت امامہؓ بنت زینبؓ کو عطا کی۔
بڑے ہونے پر حضرت فاطمہ (خالہ) کے انتقال کے بعد (حضرت فاطمہؓ کی وصیت کے مطابق) ان کا نکاح حضرت علیؓ بن ابی طالب سے ہوا۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت امامہؓ کا نکاح حضرت مغیرہ بن نوفل سے ہوا۔
حضرت زینبؓ کے صاحبزادے حضرت علیؓ سے بھی آپ ﷺ بہت محبت کرتے تھے۔ فتح مکہ دن حضور نے انھیں اپنی اونٹنی پر سوار فرمایا تھا (ولما دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکۃ یوم الفتح ادرف علیا خلفہ) (اسدالغابہ، ۴؍۴۱، لابن اثیر)۔ ابن الاثیر کے مطابق اس سبط رسول سیدنا علی بن ابوالعاصؓ نے رسول اللہ ﷺ کی حیات ہی میں قریب البلوغ عمر میں وفات پائی۔ (اسدالغابہ، ۴؍۴۱، لابن اثیر)
حضرت رقیہؓ: آپ ﷺ کی دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ ہیں ۔ بعثت سے سات سال قبل پیدا ہوئیں ، ان کا نکاح ابولہب (آپ ﷺ کے چچا) کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا؛ مگر جب سورۃ تبت یدا نازل ہوئی تو باپ کے کہنے پر عتبہ نے حضرت رقیہ کو طلاق دے دی۔ پھر ان کی شادی مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ مکہ میں جب کفار کے مظالم حدبرداشت سے بڑھ گئے تو آپ حضرت عثمان کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئیں ۔ کچھ وقت کے بعد حضرت عثمانؓ کو پتہ چلا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے والے ہیں تو حضرت عثمانؓ چند صحابہ کے ساتھ مکہ آئے، اس دوران نبی کریم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جاچکے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت رقیہ ؓ کو لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ حبشہ کے زمانہ قیام میں ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکا گیا، جس کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کی کنیت ابوعبداللہ مشہور ہوئی۔ عبداللہ کا چار سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں انتقال ہوگیا۔
۲ہجری غزوہ بدر کا سال تھا، حضرت رقیہؓ کو خسرہ کے دانے نکلے اور سخت تکلیف ہوئی۔ حضور ﷺ بدر کی تیاری میں مصروف تھے۔ حضور اور صحابہ کرام غزوہ میں شرکت کے لیے روانہ ہونے لگے تو حضرت عثمانؓ بھی تیار ہوگئے، نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ رقیہ بیمار ہے آپ ان کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں ہی مقیم رہیں ۔ آپ کے لیے بدر میں شرکت کرنے والوں کے برابر اجر ہے۔
جب نبی کریم ﷺ غزوئہ بدر میں شریک تھے، مدینہ میں حضرت رقیہؓ نے آخری سانس لی۔ کفن دفن کی تمام تیاری حضرت عثمانؓ نے انجام دی۔ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر جب حضرت زید بن حارثہؓ مدینہ پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہؓ کو دفن کرنے کے بعد لوگ اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے۔ چند دن بعد حضور ﷺ جب مدینہ پہنچے تو جنت البقیع میں قبررقیہ پر تشریف لے گئے اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۲۰سال تھی۔
حضرت ام کلثومؓ: ام کلثوم آپ ﷺ کی تیسری صاحبزادی ہیں ۔ ان کا شادی ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے ساتھ ہوئی تھی، رخصتی نہیں ہوپائی تھی کہ سورہ ابی الہب نازل ہونے کے بعد ابولہب کے کہنے پر عتیبہ نے بھی حضرت ام کلثوم کو طلاق دے دی۔ حضرت رقیہ کے انتقال کے بعد حضور نے ان کی شادی حضرت عثمان غنیؓ سے کردی۔ ۹ھ میں آپؓ کا بھی انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۲۵سال تھی۔ حضرت ام کلثوم کے انتقال کے وقت آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس کا نکاح بھی عثمان سے کردیتا۔ حضورﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں ان کو دفن فرمایا۔
حضرت فاطمہؓ: فاطمہ زہراء آپ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں ، آغاز بعثت یا بعثت سے ۴؍۵سال قبل پیداہوئیں ۔ آپ ان سے بہت محبت فرماتے تھے۔ ان کا نکاح دو ہجری میں واقعہ بدر کے بعد حضرت علیؓ کے ساتھ ہوا۔ اس وقت حضرت علیؓ کی عمر ۲۱ سال تھی اور حضرت فاطمہ کی عمر ۱۵سال اور ساڑھے پانچ ماہ، دوسرے قول کے مطابق ۱۹سال تھی۔ حضرت فاطمہؓ چال ڈھال اور سیرت میں حضورﷺ کے بہت مشابہ تھیں ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات واطوار میں حضرت فاطمہؓ سے زیادہ کسی کو رسول اللہ سے مشابہ نہیں دیکھا۔
حضرت فاطمہؓ حضورﷺکی سب سے چھوٹی بیٹی ہونے کی وجہ سے آپ کی بہت لاڈلی تھیں ۔ حضور ﷺ کی زندگی کے آخری سالوں میں تو وہ رسول اللہ کی تمام ترتوجہات اور محبت کا مرکز بن گئی تھیں ۔ اس لیے کہ ہجری۸ تک حضرت فاطمہ کی تینوں بڑی بہنوں کا انتقال ہوچکا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے ابوجہل کی بیٹی سے پیغام نکاح بھیجا تو حضرت فاطمہؓ حضورﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اورکہنے لگیں کہ علیؓ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ رسول اللہ نے سنا تو فرمایا: فاطمۃ بضعۃ منی، فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے میں اسے ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی اسے تکلیف پہنچائے۔ خدا کی قسم رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں ۔ یہ سن کر حضرت علیؓ نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ (بخاری، کتاب اصحاب النبی، باب ذکر اصہارالنبی ﷺ)
حضرت فاطمہؓ جب حضور سے ملاقات کے لیے آتیں تو حضور کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے اور ان کے سرکا بوسہ لیتے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ حضور کے وصال سے کچھ پہلے ملاقات کے لیے آئیں ، ان کی چال ڈھال رسول اللہ کے مشابہ تھی۔ رسول اللہ نے بیٹی کو خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد آپ نے ان کو اپنے داہنی یا بائیں جانب بٹھایا، پھر آہستہ سے آپ نے حضرت فاطمہ کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں ۔ پھر سرگوشی کی تو وہ مسکرانے لگیں ۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ بعد میں میں نے فاطمہؓ سے پوچھا کہ حضورﷺ نے کیا فرمایا، تو انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو افشاء نہیں کرنا چاہتی۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد ایک دن پھر میں نے فاطمہ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ حضرت جبرئیل ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کا ورد کیا کرتے تھے مگر اس سال انھوں نے مجھ سے دوبار کیا۔ اس سے میرا خیال ہے کہ میرا آخری وقت قریب ہے تو میں رونے لگی، پھر مجھ سے کہا کہ سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی اورتم جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہوگی تو میں یہ سن کر ہنسنے لگی۔ (بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب فاطمہؓ)۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ وصال سے کچھ پہلے رسول اللہ مرض کی زیادتی سے بے ہوش ہوگئے۔ حضرت فاطمہؓ آپ کے پاس تھیں وہ رونے لگیں ، کہنے لگیں کہ میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ نے فرمایا: آج کے بعد پھر کبھی نہیں ہوگی۔ جب آپ ﷺ کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہ یہ کہہ کر روئیں کہ میرے والد! اللہ نے آپ کو قبول کرلیا۔ اباجان آپ کا مقام جنت الفردوس ہے۔ اے میرے ابا جان! میں آپ کے وفات کی خبرجبرئیل کو سنائوں گی۔ جب آپ ﷺ کو دفن کیا جاچکا تو حضرت فاطمہؓ نے غم سے نڈھال ہوکر حضرت انسؓ سے کہا تم لوگوں نے کیسے گوارا کرلیا کہ اللہ کے رسول کو مٹی میں چھپادو۔
حضرت فاطمہ زہراء سے حضرت حسن، حسین، زینب، ام کلثوم اورمحسن پیدا ہوئے، حضرت محسن کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ حضرت زینب کی شادی حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے اور حضرت ام کلثوم کی شادی حضرت عمر بن الخطاب سے ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کا انتقال رمضان ۱۱ھ، حضور کے ۶ماہ بعد ہوگیا۔ اس وقت ان کا سن ۳۰ سال سے کم (۲۹ سال) تھا۔
حضورﷺ کے صاحبزادے: آنحضرت ﷺ کے صاحبزادوں میں سب سے بڑے حضرت قاسم ہیں جو بعثت سے قبل پیدا ہوئے۔ دوسال بعد ان کی وفات ہوگئی۔ حضورﷺ کی کنیت ابوالقاسم انھیں کی وجہ سے تھی۔ دوسرے صاحبزادے عبداللہ ہیں جو بعثت کے بعد پیدا ہوئے، اسی لیے ان کا لقب طیب وطاہر تھا۔ صغرسنی میں ہی وفات پاگئے، یہ دونوں صاحبزادے حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے تھے۔ تیسرے صاحبزادے حضرت ابراہیم تھے جو ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہؓ سے پیدا ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد وہ بھی وفات پاگئے۔
شیعہ اور اہل بیت:
لفظ اہل بیت عربی زبان میں ٹھیک انھیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’گھروالوں ‘‘ کا لفظ بولتے ہیں اوراس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور بچے دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ بیوی کو مستثنیٰ کرکے ’’اہل خانہ‘‘ یا ’’گھروالوں ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ انھیں معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا جمہور اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ آپ ﷺ کی تمام ازواج مطہرات واولاد اہل بیت ہیں ۔ اس کے برعکس شیعوں کے نزدیک اہل بیت میں صرف پنج تن -یعنی- حضورﷺ، حضرت علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ اور حسینؓ ہی شامل ہیں ۔ اس میں کوئی چھٹا تن داخل نہیں ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ اور آپ کی محبوب بیوی حضرت خدیجہؓ بھی نہیں ۔ دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ آیت: انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا میں مذکر صیغوں سے خطاب ہے، اگر اہل بیت سے حضورﷺ کی ازواج مراد ہوتیں تو آیت کے الفاظ عنکم ویطہرکم کے بجائے عنکن ویطہرکن ہوتے۔
آیت کی تشریح میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیں : جو انسان ذرا بھی عربی سے واقفیت رکھتا ہے وہ آیت پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ازواج مطہرات شامل نہیں ؛ بلکہ اگر کسی عام آدمی کو ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کی بھی سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں ؛ کیوں کہ نظم قرآن میں تدبر کرنے والے کو ایک لمحہ کے لیے اس میں شک وشبہ نہیں ہوسکتا کہ یہاں اہل بیت کے مدلول میں ازواج مطہرات یقینا داخل ہیں ؛ کیوں کہ آیت ہذا سے پہلے اور بعد میں تمام تر خطابات انھیں سے ہوئے ہیں ۔ ماقبل آیت: ’’وقرن فی بیوتکن۔۔۔۔‘‘ اور اس کے بعد ’’واذکرن ما یتلی فی بیوتکن۔۔۔‘‘ میں ان ہی کی طرف نسبت کی گئی ہے۔ ان دونوں کے درمیان: انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا ہے۔ اس درمیانی جزء کے بارے میں یہ کہنا کہ چوں کہ اہل بیت کو صیغہ مذکر سے بیان کیاگیا ہے اس لیے وہ اہل بیت میں شامل نہیں ، یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے عربی زبان و ادب سے کوئی واسطہ نہ ہو (ترجمہ شیخ الہند، تفسیر ازمولانا شبیر احمد عثمانی، سورہ احزاب، آیت:۳۳)۔
قرآن کریم میں یہ لفظ اسی صیغہ میں سورہ ہود میں بھی آیا ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو خطاب کرتے ہوئے ملائکہ نے کہا: أَتَعْجَبِیْنَ أَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ (ہود:۷۳) (کیا تم اللہ کے حکم میں تعجب کرتی ہو۔ اللہ کی رحمت اور برکت ہے تم پر اے گھر والو)۔
اس جگہ اہل البیت سے مراد زوجہ ابراہیم خلیل اللہ ہی ہیں ۔ شیعہ مفسرین طبرسی (مجمع البیان) اور کاشانی (منہج السالکین) نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں اہل البیت سے مراد حضرت سارہ ہیں ، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چچازاد بہن تھیں ۔ (اگرچہ انھوں نے اس کی بے بنیاد تاویل کی ہے)۔
اسی طرح حضرت موسیؑ کے واقعہ میں بھی قرآن کریم میں ضمیرمذکر کا استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَلَمَّا قَضَی مُوسَی الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَہْلِہِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَاراً قَالَ لِأَہْلِہِ امْکُثُوا إِنِّی آنَسْتُ نَاراً لَّعَلِّیْ آتِیکُم مِّنْہَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَۃٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ (القصص:۲۹) (پھر جب پوری کرچکے موسیٰ وہ مدت (بعوض مہر) اور لے کر چلے اپنے گھر والوں کو، تو انھیں طور کی جانب سے آگ دکھائی دی، تو اپنی زوجہ سے کہا تم ٹھہرو مجھے آگ نظر آئی ہے۔ شاید میں وہاں سے راستہ کا کچھ پتہ لائوں یا آگ کا انگارہ، تاکہ تم سینکو)۔
اس آیت میں دو جگہ اہل کا لفظ آیا ہے اور دونوں ہی جگہ تمام شیعہ بلاکسی تاویل کے متفق ہیں کہ اہل سے مراد حضرت موسیٰؑ کی زوجہ ہیں جو حضرت شعیب کی بیٹی تھیں ۔ (دیکھئے: تفسیر مجمع البیان، ۷؍۳۶۴، (الاحزاب:۳۳)، للطبرسی (ابوالفضل بن الحسن)، طبرسی چھٹی صدی ہجری کے فاضل ترین شیعہ علماء میں سے ہیں ان کی تفسیر کئی جلدوں میں شائع ہے۔ ان کے علاوہ قمی (ابوالحسن علی بن ابراہیم) بھی تیسری صدی ہجری کے شیعہ علماء میں ممتاز سمجھے جاتے ہیں اور ابتدائی شیعہ مفسرین کے امام ہیں )۔ ان سب کے نزدیک اس جگہ زوجہ موسیٰؑ مراد ہیں ۔ اس جگہ انھوں نے صیغہ مذکر ومونث کی کوئی بحث نہیں کی۔
جہاں تک ان تمام مذکورہ مقامات میں ازواج کو صیغہ مذکر میں مخاطب کرنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے (قد اجمع اہل اللسان العربی علی تغلیب الذکور علی الاناث فی الجموع ونحوہا) عرب میں جب ایک سے زیادہ لوگوں کو خطاب کیا جاتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوں تو وہاں صیغہ مذکر لایا جاتا ہے۔ اس قاعدہ کے تحت حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور سردار انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی زوجات مطہرات کے لیے ضمیر مذکرلائی گئی ہے۔
الغرض اہل بیت میں حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کا داخل ہونا یقینی ہے؛ بلکہ آیت کاخطاب ہی ان سے ہے؛ لیکن چونکہ اولاد وداماد بھی اہل بیت (گھروالوں ) میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس لیے روایات، مثلاً آپ ﷺ کا حضرت فاطمہ زہرا، علی، حسن وحسین رضی اللہ عنہم کو ایک چادر میں لے کر اللّٰہم ہولاء اہل بیتی وغیرہ فرمانا اور حضرت فاطمہ کے مکان کے قریب سے گذرتے ہوئے: الصلاۃ اہل البیت! اور یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس الخ سے خطاب کرنا اگر سنداً اور درایۃً درست ہے تو وہ اسی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ یہ حضرات بھی اس لقب کے مستحق اور فضیلت تطہیر کے اہل ہیں ۔ وگرنہ ہجری ۵ یا ۶ کے اوائل میں جس وقت حضور ﷺ نے حضرت فاطمہؓ، علیؓ اور حسنؓ وحسینؓ کو ایک چادر میں لے کر یہ فرمایا تھا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں ۔ حضور ﷺ اپنی بیمار بیٹی زینب جس کا گھر بار سب کچھ اجڑچکا تھا اپنے بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کے گھر پناہ لیے ہوئے تھی، حضور اس کو اپنی چادر میں لینے سے کیسے بھول سکتے تھے۔ حضرت فاطمہؓ کے سوا حضور کی تمام بیٹیوں میں ایک وہی حیات تھی، بقیہ دونوں حضرت رقیہؓ اور ام کلثومؓ کا انتقال ہوچکا تھا۔
دوسرے یہ کہ واقعہ کساء سے متعلق تمام روایات اکٹھا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار کا نہیں ؛ بلکہ کئی بار کا ہے۔ اور آیت تطہیر ایک بار نہیں ، کئی بار نازل ہوئی۔ اس لیے کہ یہ واقعہ کہیں ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے گھر کا بتایا جاتا ہے، کہیں حضرت فاطمہ کے گھر کا اور کہیں حضرت عائشہؓ کے گھر کا۔ اس لیے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہؓ سے بھی مروی ہے۔ ان روایات میں آپس میں اتنا اضطراب ہے کہ ان سے کسی نتیجہ پر پہنچنا دشوار ہی نہیں ؛ بلکہ ناممکن ہے۔ مزیدبرآں یہ کہ ان تمام روایات کے رواۃ یا تو مجروح ہیں یا ان پر کلام ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امام بخاری اس سلسلہ میں بالکل خاموش ہیں ، باوجود اس کے کہ انھوں نے اپنی صحیح میں اس سے متعلق کئی ابواب قائم کیے ہیں ۔
ان روایات کو اگر قابل قبول مان لیا جائے تب بھی ان سے حصر کے معنی نہیں نکلتے؛ بلکہ امام قرطبی فرماتے ہیں : فذہب الکلبی ومن وافقہ فصیرہا لہم خاصۃً (تفسیر قرطبی، سورہ احزاب، آیت:۳۳) کلبی (رافضی) اور سبائی ٹولہ ہی اس بات کا مدعی ہے کہ یہ (آیت تطہیر پنج تن کے بارے میں نازل ہوئی)۔
ابن عاشور فرماتے ہیں کہ یہ وہم (پنجتن کا) تابعین کے زمانہ کی دین ہے جو قرآن کریم سے متصادم ہے۔ جہاں تک حدیث کساء کی بات ہے کہ اس میں ایسا ایک لفظ بھی نہیں جس سے حصر کے معنی نکلتے ہوں (آیت تطہیر سے صرف پنجتن مراد ہوں )۔ صیغہ ہؤلاء اہل بیتی مانند کلام الٰہی ان ہؤلاء ضیفی (الحجر:۶۸) کے ہے، جس کے معنی یہ نہیں کہ ان کے سواء اس میں کوئی دوسرا شامل نہیں ۔ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اہل بیت (پنج تن) کے معنی کو حدیث کساء سے غصب کیا ہے اور قرآن کریم کو پیچھے چھوڑدیا۔ جس میں ازواج نبوی کو مخاطب کیاگیا ہے۔ (تفسیر التحریر والتنویر، تالیف: محمد طاہر بن عاشور، سورہ احزاب، آیت:۳۳)۔
واضح رہے کہ حضور ﷺ جس طرح حسن وحسین سے محبت کرتے تھے انھیں کندھوں پر بٹھاتے تھے اسی طرح حضرت زینب کی بیٹی امامہؓ اور بیٹے علیؓ سے بھی محبت کرتے تھے (پیچھے گذرچکا کہ) آپؐ امامہ کو گود میں لے کر نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح علی بن زینبؓ کو فتح مکہ کے دن اپنی سواری پر اپنے ساتھ بٹھانے کا اعزاز بخشا تھا؛ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے نبی کے سب سے بڑے نواسے اور نواسی کو جانتی تک نہیں ۔ حتیٰ کہ اکثر علمائے کرام بھی اپنے خطبات میں ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔ اہل بیت میں صرف حسن وحسین شامل ماننا اور حضور کے دوسرے نواسے ونواسیوں کو اس سے خارج کرنا ان کے ساتھ غایت درجہ نا انصافی کی بات ہے۔
آل محمد ﷺ : عربوں میں کسی شخص کے آل سے مراد وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی،مددگار اور متبع ہوں خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انھیں سب معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے:
آل بمعنی قرابت دار: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَکَذَلِکَ یَجْتَبِیکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِن تَأْوِیلِ الأَحَادِیثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّہَا عَلَی أَبَوَیْکَ مِن قَبْلُ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ (یوسف:۶) (اور اس طرح تمہارا رب تمہیں برگزیدہ کرے گا اور تم کو معافلہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) سکھائے گا اور اپنی نعمت تم پر پوری کرے گا اور یعقوب کے گھرانے پر بھی جیساکہ اس نے اس سے پہلے تمہارے دادا اور پردادا، اسحاق وابراہیم، کو بھی نعمتوں سے نوازا)۔
اس جگہ آل یعقوب سے مراد حضرت یوسف کے بھائی اور ان کی اولاد ہیں ۔ جن کی نسل سے اللہ نے سیکڑوں انبیاء مبعوث فرمائے۔
مثال دوم: ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (آل عمران:۳۳) (بیشک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہانوں کے لوگوں میں سے۔ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل سے ہیں )۔
اللہ رب العزت نے خود اس آیت میں آل سے نسل اور ذریت کو مراد لیا ہے۔
مثال سوم: ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَّجَّیْنَاہُم بِسَحَر (القمر:۳۴) (ہم نے قوم لوط پر عذاب بھیجا سوائے آل لوط کے ہم نے کسی کو نہیں چھوڑا)۔
یہاں آل سے مراد حضرت لوطؑ کی اولاد (بیٹیاں ) ہیں ؛ کیوں کہ ان کی قوم میں سوائے ان کی دوبیٹیوں کے کوئی ایمان نہیں لایا تھا حتیٰ کہ ان کی بیوی بھی نہیں ، جسے اللہ نے عذاب میں ہلاک کردیا۔
حدیث میں بھی آل کا لفظ حضور کے رشتہ داروں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرات حسنین بچپن میں کھجور کے ڈھیر کے پاس کھیل رہے تھے، کھیلتے کھیلتے ان میں سے کسی نے ایک کھجور اپنے منھ میں ڈال لی۔ آپؐ کی نگاہ پڑی تو منھ سے کھجور نکلوادی اور فرمایا: اما علمت ان آل محمد لا یاکلون الصدقۃ (کیا تمہیں پتہ نہیں کہ آل محمد صدقہ کا مال نہیں کھاتے)۔
آل بمعنی اصحاب ومتبعین: قولہ تعالیٰ: وَإِذْ نَجَّیْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوء الْعَذَابِ (البقرہ:۴۹) (اور یاد کرو جب فرعون کے کارندے تمہیں سخت عذاب دیتے تھے)۔
یہاں آل سے مراد فرعون کی پولیس اور حفاظتی دستے ہیں ، جو اسرائیلیوں کو پکڑ پکڑ کر سزا دیتے تھے، جنھیں اللہ نے ہلاک کردیا،ارشاد فرمایا: وَإِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَیْنَاکُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ (البقرہ:۵۰) (اور یاد کرو جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو (راستہ دینے کے واسطے) بیچ سے پھاڑ دیا، پس تم کو ہم نے نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا)۔
سمندر میں جو لوگ غرق ہوئے تھے، وہ فرعون کا لشکر تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَأَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِہِ فَغَشِیَہُم مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَہُمْ (طہٰ:۷۸) (فرعون نے اسرائیلیوں کا پیچھا کیا اپنے تمام لائولشکر کے ساتھ پس وہ سمندر کی لہروں میں غرق ہوگیا)۔
اسی طرح جب ملک فرعون میں عذاب آیا تو وہ بھی تمام قوم پر آیا جو فرعون کی پرستش کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ولقد اخذنا آل فرعون بالسنین (اعراف:۱۳۰) (ہم نے نافرمانیوں کے سبب فرعون کی قوم کو قحط سالی میں پکڑا)۔ اس جگہ بھی آل فرعون سے مراد فرعون کی قوم ہے جو اللہ کی طرف سے عذاب کا شکار ہوئی۔
اسی طرح ایک آیت میں فرعونیوں کے لیے سخت عذاب کی پیشین گوئی کی گئی، ارشاد ہوا: النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (الغافر:۴۶) (فرعونیوں پر ان کے بعد مرنے کے پیش کی جاتی ہے آگ ہر صبح وشام اور جب قیامت ہوگی تو کہا جائے گا کہ سخت عذاب (نارجہنم) میں داخل ہوجائو)۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آل سے مراد خاندان ہی نہیں ؛ بلکہ متبعین بھی ہیں ۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آل فرعون کالفظ آیا ہے، ان میں کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں ؛ بلکہ وہ سب مراد ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں فرعون کے طرفدار تھے۔
یہ لفظ حدیث میں ازواج مطہرات کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، صحیح بخاری میں ہے، حضرت انسؓ فرماتے ہیں : ما امسی عند آل محمد ﷺ صاع بر ولا صاع حب وان عندہ لتسع نسوۃ (صحیح بحاری، کتاب البیوع، باب شراء النبی ﷺ بالنسیئۃ) (کوئی شام آل محمد ﷺ پر ایسی نہیں گذرتی تھی جب ان کے پاس ایک صاع گیہوں یاکوئی دوسرا اناج ہو؛ جبکہ آپ کی نوبیویاں تھیں )۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : انا کنا آل محمد لنمکث شہرا ما نستوقد بنار ان ہو الا التمر والماء (صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق، باب ما بین النفختین) (ہم آل محمد کے گھروں میں ایک ایک مہینہ گذرجاتا تھا چولھا نہیں جلتا تھا، صرف کھجور اور پانی پر گذارا کرتے تھے)۔
معلومہوا کہ لفظ ’’آل‘‘ اقرباء وازواج رسول ﷺ اور اصحاب ومتبعین سب کے لیے استعمال ہوتا ہے، صرف رشتہ داروں کے لیے نہیں ۔
کلمہ اہل اورآل میں فرق: کسی شخص کے اہل بیت وہ ہوتے ہیں جو اس کے قریبی اور رشتہ دار ہوں ، خواہ وہ اس کے متبع ہوں یا نہ ہوں اورآل وہ کہلاتے ہیں جو کسی کے متبع ہوں خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ آل عام لوگوں کی اولاد کے لیے استعمال نہیں ہوتا، یہ صرف شاہان مملکت اور عظیم شخصیات کی اولاد اور ان کی نسل یا ان کے اصحاب ومتبعین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
درود ابراہیمی میں آل کے معنی: نماز میں پڑھے جانے والے درود میں آل محمد وآل ابراہیم کا مطلب اوراس کی تفصیل میں جانے سے پیشتر یہ جان لینا مناسب ہے کہ غیرنبی پر درود بھیجنا جائز ہے یا نہیں ؟
درود علیٰ غیرالنبی: صحیح بخاری میں امام بخاری نے ترجمۃ الباب قائم کیا: ہل یصلی علی غیرالنبی ﷺ (کیا غیرنبی پر درود بھیجا جاسکتا ہے؟) اور پھر اس کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں : عن ابن ابی اوفٰی قال کان اذا اتی رجل النبی ﷺ بصدقۃ قال اللّٰہم صل علیہ فاتاہ ابی بصدقۃ فقال اللّٰہم صل علی آل ابی اوفی (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب ہل یصلی علی غیرالنبی) (حضرت ابن اوفی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے پاس جو کوئی صدقہ لے کر آتا تو آپ فرماتے، اے اللہ اس پر صلاۃ (رحمت) نازل فرما۔ اسی دوران میرے والد (ابواوفی) بھی صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: اے اللہ آل ابی اوفی پر صلاۃ (رحمت) نازل فرما)۔
اسی طرح امام ابودائود نے ترجمۃ الباب قائم کیا: الصلاۃ علی غیرالنبی ﷺ۔ اس باب کے تحت امام ابودائود یہ حدیث لائے ہیں : عن جابر بن عبد اللّٰہؓ ان امرأۃ قالت للنبی ﷺ صل علیّ و علی زوجی فقال النبی ﷺ وعلی زوجک (ابودائود، کتاب الصلاۃ، (باب تفریع ابواب الوتر) باب الصلاۃ علی غیرالنبی) (اک عورت نے کہا کہ میرے اورمیرے شوہر کے لیے دعاء رحمت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا: اللہ تم پر اور تمہارے خاوند پر رحمت نازل فرمائے)۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں حضور کے سوا دوسروں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے؛ لیکن مستقلاً اور علیحدہ طور پر درود علی غیرالنبی کے سلسلہ میں اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ درست نہیں ۔ یہ رائے امام مالک امام شافعی اور احناف سے منقول ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ما اعلم الصلاۃ ینبغی علی احد من احد الا علی النبی ﷺ (فتح الباری، شرح صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب ہل یصلی علی غیرالنبی ﷺ) (رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کے سوا کسی پر بھی تنہا درود پڑھنا درست نہیں )۔
حضرت ابن عباس غیرنبی پر درود بھیجنے کو جائز اس لیے نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے زمانہ میں شیعہ صرف اپنے ائمہ کے نام پر ہی درود پڑھنے لگے تھے، ان کے ساتھ وہ حضور ﷺ کو بھی شریک نہیں کرتے تھے جو ایک طرح کا غلو تھا۔ (جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وہل یصل علی آلہ منفردین)
انھیں وجوہات کے پیش نظر حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے ملکی سطح پر اس فعل کو ممنوع قرار دیا۔ آپؒ نے اپنے اعمال کو لکھا اما بعد،فان ناسا من الناس قد التمسوا الدنیا بعمل الآخرۃ وان من القصاص قد احدثوا فی الصلوۃ علی خلفائہم وامرائہم عدل صلاتہم علی النبی ﷺ فاذا جائک کتابی فمرہم ان تکون صلاتہم علی النبیین ودعائہم للمسلمین عامۃ (جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل:وہل یصلی علی آلہ منفردین) کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ اعمال آخرت کے ذریعہ دنیا حاصل کرتے ہیں ، ان میں سے بعض واعظین نے یہ نیا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ وہ نبی پر درود بھیجنے کے بجائے اپنے خلفاء اورامراء کے لیے صلاۃ کالفظ استعمال کرنے لگے ہیں ، میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انھیں حکم دو کہ وہ صلاۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور عام مسلمانوں کے لیے دعا۔
خلاصہ یہ کہ اب چونکہ یہ اہل اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلاۃ وسلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں ، اس لیے جمہور امت کا یہ فیصلہ ہے کہ نبی کے سوا کسی کے لیے درود بھیجنا جائز نہیں )
آل محمد کے معنی: آل محمد سے مراد آپ ﷺ کے خاندان والے ہی نہیں ؛ بلکہ اس میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو آپ کے پیروہوں اورآپ کے طریقے پر چلیں ، خواہ وہ آپ ﷺ کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ۔ امام نوویؒ لکھتے ہیں : واختلف العلماء فی آل النبی ﷺ علی اقوال اظہرہا وہو الاختیار الازہری وغیرہ من المحققین انہم جمیع الامۃ والثانی بنوہاشم وبنو المطلب والثالث اہل بیتہ ﷺ وذریتہ (صحیح مسلم شرح نووی، باب الصلاۃ علی النبی) (علماء نے آل نبی ﷺ کے معنوں میں اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی اقوال وارد ہیں ، ان میں راجح قول وہ ہے جسے ازہری اور دوسرے محققین نے اختیار کیا ہے کہ آل سے مراد تمام امت ہے)۔
اسی قول (راجح) کو امام مالک، حافظ ابن عبدالبر، احناف اور امام ابن تیمیہ وغیرہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ صحابی رسول حضرت جابرعبداللہ ان اولین لوگوں میں سے ہیں جن سے یہ قول منقول ہے۔ چنانچہ امام بیہقی اور سفیان ثوری نے حضرت جابرؓ سے یہی قول نقل کیا ہے۔ امام شافعی کے بعض اصحاب نے بھی اسی قول کو اختیارکیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وہل یصلی علی آلہ منفردین)۔ اسی طرح عرب اسکالر شیخ ابن عثیمینؒ نے فرمایا: اذا ذکر الآل وحدہ فالمراد جمیع اتباعہ علی دینہ (مجموع فتاویٰ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین، باب صلاۃ التطوع،۱۵۶، سعودی عرب، ۱۹۹۹) (جب لفظ آل تنہا مذکور ہو تو اس سے مراد جملہ متبعین دین ہیں )۔
درودابراہیمی میں آل محمد سے اگر صرف بنوہاشم وبنومطلب مراد لیے جائیں ، جو نسبا آل محمد ہیں ، تو اس میں نیک وبد اورمومن وکافر سب شامل ہوجائیں گے۔ دوسری طرف آل ابراہیم میں مغضوب وضالین بھی شریک ہوجائیں گے جو نسبا آل ابراہیم ہیں ؛ حالاں کہ قرآن میں فرمایا گیا: إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہَـذَا النَّبِیُّ وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَاللّہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِینَ (آل عمران:۶۸) (ابراہیم سے قرب رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور پیغمبر آخرالزماں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے)۔
لہٰذا آل ابراہیم وآل محمد میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جومتبع شریعت ہیں ، نہ کہ وہ جو دین میں غلو کرتے ہیں اورآیات الٰہیہ میں تحریف؛ بلکہ وہ متبع رسول ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس پرجسے اللہ نے اتارا اوراپنے گذرے ہوئے بھائیوں کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِینَ آمَنُوا (الحشر:۱۰)۔ (اے ہمارے رب! ہماری مغفرت فرما اور ہمارے ان دینی بھائیوں کی جو ہم سے پہلے گذرچکے اور نہ پیدا فرما ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے خلاف کسی طرح کا بغض)۔
————————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :1-2، جلد:105، جمادی الاول- رجب المرجب 1442ھ مطابق جنوری- فروری 2021ء
٭ ٭ ٭