افادات: بحرالعلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم
محدث دارالعلوم دیوبند
مرتب: مولوی محمد شعیب علی گڑھی
کیا صحابہ میں بعض منافق بھی تھے؟
سوال: قرآن کریم کے بیان کے مطابق عہدِ نبوی میں منافقین کا بھی ایک گروہ تھا، جو مسلمانوں ہی میں گھلاملا رہتا تھا، ایسی صورت حال میں تمام صحابہ ہمارے لیے معیار حق کیوں کر ہوسکتے ہیں ؟
جواب: اہل سنت والجماعت کے نزدیک تمام صحابہ معیارحق ہیں ، ہمیں دین انھیں کے واسطے سے ملا ہے؛ اس لیے ان کے صدق وعدالت میں ادنیٰ شبہ بھی ایمان کے لیے خطرہ ہے، جس سے حددرجہ احتیاط لازم ہے۔
رہامسئلہ منافقین کا، تو قرآن کریم کی صراحت کے مطابق عہدِ نبوی میں منافقوں کا ایک گروہ ضرور موجود تھا، جو اسلام مخالف سازشوں میں پیش پیش رہا کرتا تھا؛ لیکن قرآن کی پیشین گوئیوں کے مطابق، وہ اپنے ناپاک عزائم میں بری طرح نامراد ہوا، اس کا نفاق ظاہر کرکے اسے رسوا کیاگیا اور لعنت وملامت کا طوق گردن میں لیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات ہی وہ اپنے انجامِ بد کو پہنچا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق ایسی واضح آیات نازل فرمائیں ، جن سے منافقین ومخلصین کے درمیان واضح فرق قائم ہوگیا اور بعد میں آنے والے کسی مسلمان کے لیے فدایان رسول اور دشمنان رسول میں تمیز دشوار نہ رہی، ذیل میں چند آیات ذکر کی جاتی ہیں ۔
ارشاد باری ہے: وممن حولکم من الأعراب منافقون الآیۃ (سورۃ توبہ:۱۰۱)
ترجمہ: بعض بدوی لوگ، جو شہر مدینہ کے آس پاس رہتے ہیں وہ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والوں میں سے بھی، یہ لوگ نفاق پر سخت ہیں ، اے نبی! آپ ان کو نہیں جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں ، ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر اس کے بعد وہ ایک دردناک عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
اس آیت سے درج ذیل امور دریافت ہوئے۔
(۱) منافقین یا تو مدینہ کے آپس پاس والی بستیوں کے باشندے تھے، یا کچھ مدینہ کے رہنے والے تھے، اسکا مطلب یہ ہوا کہ کسی کو منافق کہنے سے قبل یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس جگہ کا باشندہ ہے؟ جب تک اس کا اہل مدینہ یا مدینہ کے قرب وجوار کے اعراب میں سے ہونا نہ پتہ چلے، اسے نفاق کی تہمت نہیں دی جاسکتی، کسی مکی، یمنی، نجاشی، حبشی صحابی پر تہمت لگانے کی کسی صورت میں گنجائش نہیں ، مولانا عبدالشکور صاحب فرماتے ہیں : کہ منافقوں کو خدا نے دو قسموں میں منحصر کردیا: ایک وہ بدوی لوگ، جو مدینہ منورہ کے آس پاس کی بستیوں میں رہتے تھے، دوسرے خاص مدینہ کے رہنے والے، تو ان کو سب کو منافق نہیں فرمایا؛ بلکہ ان میں بعض کو، معلوم ہوا کہ مہاجرین میں سے کوئی بھی منافق نہ تھا؛ لہٰذا مہاجرین پر نفاق کا شبہ کرنا اس آیت کی خلاف ورزی کرنا ہے؛ بلکہ سچ پوچھوتو اس آیت کی تکذیب کرنا ہے۔ (آیات خلافت وامامت ص:۱۹۳، مطبوعہ: مکتبہ فاروقیہ لکھنؤ)
قاضی سیّدسلیمان منصو رپوری فرماتے ہیں : اس اخبارِ غیب میں مصلحت یہ تھی کہ ازمنۂ مستقبلہ میں کوئی شخص محض اپنی ہی رائے یا ظنون یا خیال یا تعصب سے اصحابِ کرام کو تہمتِ نفاق نہ دے سکے، پہلی شرط جو کسی کو منافق کہنے کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ باشندئہ مدینہ ہو، کسی یمنی، تہامی، مکی، حضرمی وغیرہ ممالک کے صحابہ میں سے کسی پر بھی نفاق کا شبہ یا شائبہ یا سایہ نہیں پڑسکتا۔ (بہ حوالہ رحمۃ للعالمین، ج:۳، ص:۳۰۸، مطبوعہ: اعتقاد پبلشنگ ہائوس دہلی)
معلوم ہوا کہ کسی مہاجر صحابی پر نفاق کی تہمت لگانا در پردہ اس آیت کی تکذیب کرنا ہے۔
(۲) آیت سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ منافقوں کو تین عذاب ہونے ضروری ہیں ، دو دنیا میں اور تیسرا عذابِ الیم، جو آخرت میں ہوگا، دنیوی دو عذابوں کے متعلق مفسرین نے فرمایاہے کہ ان میں سے پہلا یہ ہے کہ منافقین کا نفاق ظاہر کرکے ان کو رسوا کیا جائے گا، ان کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں طشت از بام ہوجائیں گی، پوری قوم کی نظروں میں وہ غدار ثابت ہوں گے اور ان کا دجل وفریب کھل جائے گا، عذاب کی یہ قسم انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے، ایسا آدمی اپنا منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتا، اس کا ضمیر اسے ہردم ملامت کرتا رہتا ہے اور وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے۔ دوسرا دنیوی عذاب یہ ہوگا کہ جس مال واولاد کی محبت میں انھوں نے منافقت کا راستہ اپنایا اور جھوٹے عذر پیش کرکے جہاد سے جان چرائی وہ مال ومتاع بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا،یا پھر اس دوسرے عذاب کا تعلق قبر سے ہے کہ دوسرا عذاب قبر میں ہوگا۔
اس آیت کی رو سے کسی صحابی پر نفاق کا الزام لگانے سے قبل یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اگر وہ منافق تھا، تو کیا وہ قرآن کے بیان کردہ ان دوعذابوں میں مبتلا ہوا؟
دوسری آیت لئن لم ینتہ المنافقون الآیۃ (سورئہ احزاب:۶۱-۶۲)
ترجمہ: اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں وحشت انگیز افواہیں اڑانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے یعنی انھوں نے نفاق سے توبہ نہ کی، تو اے نبی! ہم ضرور آپ کو ان پر برانگیختہ کردیں گے اور پھر وہ آپ کے پڑوس یعنی مدینہ میں ، تھوڑے دنوں کے سوا نہ رہ سکیں گے، ان پر لعنت ہوگی اور وہ جہاں کہیں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور خوب قتل کیے جائیں گے، یہ اللہ کا ابدی قانون رہا ہے، ان لوگوں میں جو پہلے گذرچکے اور آپ اللہ کے قانون میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔
یہ آیت منافقین اور مخلصین کے درمیان ایسا واضح امتیاز قائم کردیتی ہے کہ اس کے بعد کسی صحابی پر تہمتِ نفاق کی کسی صورت گنجائش نہیں رہتی، اس آیت کی رو سے، جو لوگ نفاق کی روش نہیں چھوڑیں گے، دنیا ہی میں وہ حسب ذیل سزائوں میں مبتلا ہوں گے۔
۱- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے خلاف جہاد کا حکم ملے گا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان پر غالب آجائیں گے۔
۲- منافقین مدینہ میں تھوڑے دنوں سے زیادہ نہ رہ سکیں گے اور یہ تھوڑے دن حیات مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ختم ہونے ضروری ہیں ؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کا پڑوسی ہونے کی کوئی صورت نہیں ۔
۳- ان پر ہر طرف سے لعنت وپھٹکار ہوگی۔
۴- مدینہ سے بھاگ کر جہاں جائیں گے، پکڑے جائیں گے اور بری طرح قتل کیے جائیں گے۔
۵- منافقوں کو یہ سزا ملنا اللہ تعالیٰ کا وہ ابدی قانون ہے جو اگلے زمانوں میں بھی رہا ہے۔
سورئہ تحریم کی آیت نمبر۹: یا ایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین الآیۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ احزاب میں لنغرینک بہم میں جووعید سنائی گئی تھی وہ پوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیاگیا؛ لیکن یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے ساتھ کوئی جہاد کیا ہو؛ اس لیے کہ اس آیت کے نزول کے بعد کچھ منافقین اپنے نفاق سے باز آگئے اور کچھ اپنی موت مرکر اپنے انجام بد کو پہنچ گئے؛ اسی لیے جہاد کی نوبت نہ آئی اور یہ واقعات کے مطابق بھی ہے، بخاری میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: کہ قرآن کریم کے ارشاد: قاتلو أئمۃ الکفر کا مصداق جولوگ تھے ان میں سے اب صرف تین باقی رہ گئے اور منافقین میں صرف چار رہ گئے۔ (بخاری کتاب التفسیر، حدیث:۴۶۵۸)
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ منافقین عہدِ نبوی میں ہی نابود ہوگئے تھے اور جن چار کے متعلق حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: وہ بھی اس وقت منافق نہ تھے،جس وقت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرمارہے ہیں ؛ بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ وہ پہلے منافق تھے، اب تو وہ توبہ کرچکے تھے،اس کی دلیل یہ ہے کہ ائمہ کفر کے مصداق میں حضرت ابوسفیان کا نام بھی آتا ہے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد کے وقت وہ مخلص مسلمان تھے، معلوم ہوا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی مراد یہی تھی کہ یہ لوگ پہلے ائمہ کفر یا منافق رہے ہیں ، اب تو وہ توبہ کرکے مخلص مسلمان ہوچکے ہیں ، علامہ ابن حزمؒ فرماتے ہیں : وکذٰلک أیضا قولہ: انہ لم یبق من المنافقین الا أربعۃ، فلا شک عند أحد من الناس أن أولئک الأربعۃ کانوا یظہرون الاسلام، وأنہ لا یعلم غیب القلوب الا اللّٰہ تعالی، فہم ممن أظہر التوبۃ بیقین لا شک فیہ۔ (المحلی بالآثار: ۱۲/۱۶۱، مسئلہ:۲۲۰۳، مطبوعہ: دارالکتب العلمیہ)
ان صراحتوں کے بعد یہ بات دن کی روشنی کی طرح آشکارا ہوجاتی ہے کہ: مسلمانوں نے جس مقدس گروہ کو صحابہ کرام کی فہرست میں شامل مانا ہے اور جن کے واسطے دین کا سارا اثاثہ ہم تک پہنچا ہے، ان میں کوئی منافق نہ تھا، دین کا ایک حرف بھی کسی منافق کی روایت سے آلودہ نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دین کو نقل کرنے والی پوری جماعت نفاق کی تہمت سے ایسے ہی بری ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے خون سے بھیڑیے۔
التحبیر شرح التحریر میں ہے: الثانیۃ: قال الحافظ المزیؒ: من الفوائد أنہ لم یوجد قط روایۃ عمن لمز بالنفاق من الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم۔
الثالثۃ: من فوائد القول بعدالتہم مطلقا اذا قیل: عن رجل من الصحابۃ: ان النبی ﷺ قال: کذا، کتعیینہ باسمہ لاستواء الکل فی العدالت۔ (التحبیر شرح التحریر، ج:۴، ص:۱۹۵۵)
ایسے کسی شخص سے کوئی روایت مروی نہیں ہے، جس پر نفاق کی تہمت لگی ہو۔
صحابہ کو مطلقاً عادل ماننے کے فوائد میں سے یہ ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ ’’صحابہ میں سے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا‘‘ تو یہ کہنا اس شخص کو اس کے نام کے ساتھ متعین کرنے کی طرح ہوگا؛ کیوں کہ تمام صحابہ عدالت میں برابر ہیں ۔
حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : والصحابۃ المذکورون فی الروایۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم والذین یعظہم المسلمون علی الدین کلہم کانوا مؤمنین بہ، ولم یعظم المسلمون، وللّٰہ الحمد، علی الدین منافقا۔ (منہاج السنۃ:۸/۴۷۴)
جو صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث نقل کرتے ہیں اور جن کی مسلمان دین کے بارے میں تعظیم کرتے ہیں سب کے سب مومن ومخلص تھے الحمدللہ مسلمانوں نے دین کے معاملہ میں کسی منافق کی تعظیم نہیں کی۔
جو لوگ صحابۂ کرام کے متعلق بدگمانیاں رکھتے ہیں ان میں نفاق کے کیڑے تلاش کرتے ہیں ، انھیں اپنے ایمان کی خیرمنانی چاہیے۔
غرض صحابۂ کرام نفاق کی تہمت سے منزہ ہیں ، ان سے بغض درحقیقت خدا اور رسول سے بغض ہے، ایک کامل ایمان والے سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ صحابہ کے متعلق اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی رکھتا ہو۔
کیا حضرت ابوہریرہؓ حدیث چھپاتے تھے؟
سوال: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم کے) دو برتن محفوظ کیے: ایک تو میں نے تم لوگوں میں پھیلادیا، اگر دوسرے کو پھیلائوں ، تو یہ گردن کاٹ دی جائے گی، حضرت ابوہریرہؓ کے اس بیان سے کیا یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت ابوہریرہؓ اپنی جان بچانے کے لیے دین کی باتیں چھپالیا کرتے تھے؟
جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مکثرین صحابہ میں سے ہیں ، یعنی آپ ان صحابہ میں سرفہرست ہیں جنھوں نے کثرت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث نقل فرمائی ہیں ، ان کے متعلق یہ بدگمانی کہ: وہ -نعوذ باللہ- دین کی باتوں کو چھپاتے تھے، انتہائی جہالت کی بات ہے؛ اس لیے کہ کتمانِ علم سے بچنے کے جذبے نے ہی حضرت ابوہریرہؓ کو کثرت احادیث روایت کرنے پر آمادہ کیا تھا؛ چناں چہ بخاری میں روایت موجود ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں ؛ حالاں کہ اگر اللہ کی کتاب میں دو آیات نہ ہوتیں ، تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینات والہدی من بعد ما بیناہ للناس فی الکتاب أولئک یلعنہم اللّٰہ ویلعنہم اللعنون الا الذین تابوا واصلحوا وبینوا فأولئک اتوب علیہم وانا التواب الرحیم۔ (بخاری کتاب العلم باب حفظ العلم، حدیث:۱۱۸)
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت میں مذکورہ وعید سے بچنے کے لیے، دین کی کوئی ایسی بات بیان کرنے سے ہرگز گریز نہ کیا، جس کا بتلانا ضروری ہو اور اس کا نہ بتانا کتمانِ علم کے تحت آتاہو؛ کیوں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مکمل استحضار تھا، جس میں دین کی بات چھپانے والوں پر لعنت فرمائی گئی ہے؛ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ دین کی کوئی ایسی بات چھپالیں ، جس کا بتلانا فرض ہو۔
رہی وہ حدیث، جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا ہے کہ: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو تھیلے محفوظ کیے ہیں ، ایک کو میں نے پھیلادیا ہے اور دوسرے کو پھیلادوں ، تو میری گردن کاٹ دی جائے:
ان دوتھیلوں میں سے پہلا تھیلا تو دین کے وہ واضح احکام ہیں ، جو البینات والہدی کی قبیل سے ہیں ، جن کی تبلیغ ضروری ہے اور دوسرے تھیلے سے مراد فتنوں کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ پیشین گوئیاں ہیں ، جو البینات والہدی کی قبیل سے نہیں ہیں ، جن کی تبلیغ فرض نہ تھی؛ چناں چہ حضرت ابوہریرہؓ نے پہلے علم کی تبلیغ میں ذرہ برابر کوتاہی نہ کی اور سب کچھ بیان کرڈالا؛ لیکن دوسرے علم کا جو کہ فتنوں کے متعلق تھا، اسے چھپانا ہی مصلحت جانا اور اسے بیان نہیں کیا۔
اور یہ اس لیے تھا کہ ہر بات بتلانے کی نہیں ہوتی، بہت سی باتوں کے اخفاہی میں مصلحت ہوتی ہے، اظہار کرنے میں خرابی یا فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس نوع کی باتوں کا چھپانا نہ صرف یہ کہ مقتضاء مصلحت ہے؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے، حضرت ابوہریرہ ہی کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نعلین مبارکین مجھے عنایت فرمائے اور فرمایا کہ: میری یہ جوتیاں لے جائو اور اس باغ کے ادھر جو بھی ایسا شخص ملے، جو دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو اسے تم جنت کی خوشخبری سنادو۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے، انھوں نے پوچھا، ابوہریرہ یہ جوتے کیسے ہیں ؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارکین ہیں ، آپ نے مجھے یہ جوتے لے کر بھیجا ہے، کہ میں جو بھی ایسا شخص پائوں ، جو دل کے یقین کے ساتھ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی گواہی دیتا ہو، تو میں اسے جنت کی خوشخبری سنادوں ، حضرت عمرؓ نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ اس زور سے مارا کہ میں سرین کے بل گرپڑا اور حضرت عمرؓ نے کہا: کہ ابوہریرہ واپس جائو، میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس لوٹا اور زور سے روپڑا، حضرت عمرؓ بھی میرے ساتھ چلے، وہ میرے پیچھے ہی تھے، مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ابوہریرہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا، مجھے عمر ملے، میں نے ان کو وہی حدیث سنائی، جو آپ نے مجھے لے کر بھیجا تھا، تو عمر نے میرے سینے پر اس زور سے مارا کہ میں سرین کے بل گرپڑا اور مجھ سے یہ کہا کہ واپس لوٹ جائو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا: عمر! تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا، حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا آپ نے ابوہریرہ کو اپنے نعلین لے کر بھیجا کہ وہ جس شخص کو بھی پائیں ، جو دل کے یقین کے ساتھ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی گواہی دیتا ہو، اسے جنت کی بشارت سنادیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا نہ کیجیے؛ اس لیے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں لوگ اسی پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں ، یعنی اعمال ترک کردیں ؛ لہٰذا آپ لوگوں کو چھوڑ دیجیے کہ وہ اعمال میں لگے رہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ پھر انھیں چھوڑدو، یعنی یہ حدیث لوگوں سے بیان نہ کرو۔ (مسلم شریف حدیث:۳۱)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ساری باتیں بیان کرنے کی نہیں ہوتیں ، کچھ باتیں مصلحتاً مخفی بھی رکھی جاتی ہیں اور یہ کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ ان احادیث کو کھلے عام بیان کرنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں ، جن کا ظاہر حاکمِ وقت کے خلاف خروج کے جواز پر دلالت کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے لوگوں کے سامنے صفاتِ باری سے متعلق (متشابہ) احادیث بیان کرنے کو ناپسند فرمایا ہے۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے ایسی احادیث لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے منع کیا، جن کا مضمون عجائب وغرائب پر مشتمل ہو، جو لوگوں کے فہم سے بالاتر ہو۔ حضرت حسنؒ سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت انس کے حجاج کے سامنے عرنین کا قصہ بیان کرنے پر انکار فرمایا؛ کیوں کہ اس نے اس قصہ کو اپنی باطل توجیہ کے ذریعہ بے دریغ خوں ریزی کی حجت بنالیا تھا۔ (فتح الباری، ج:۱، ص:۳۰۰ کتاب العلم حدیث:۱۲۷، باب من خص بالعلم قوماً دون قوم کتاب العلم)
مذکورہ بالا وضاحتوں کی روشنی میں انصاف سے فرمائیے کہ جو لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر احادیثِ فتن نہ بیان کرنے کی وجہ سے طعن کرتے ہیں ، کیا وہ نعوذ باللہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طعن کریں گے، کہ آپ نے بھی لوگوں سے بعض باتیں بیان کرنے سے منع فرمایا ہے؟ اگر یہ الزام حضرت ابوہریرہؓ پر عائد ہوتا ہے، تو پھر کیا یہی الزام خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد نہ ہوگا؟ العیاذ باللہ
——————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :1-2، جلد:105، جمادی الاول- رجب المرجب 1442ھ مطابق جنوری- فروری 2021ء
٭ ٭ ٭