از: مولانا اشرف عباس قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
قرآن مجید کے تورات وانجیل سے ماخوذ ہونے کا مغالطہ
جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے بہت سے مستشرقین نے وحی اور قرآن کی مصدریت کا انکار کرتے ہوئے اس کو وحی ربانی اور کلام الٰہی ماننے کے بجائے اس کو نعوذ باللہ! خود پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق وتالیف قرار دینے پر خاصا زور صرف کیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے؛ بلکہ سابقہ آسمانی کتابوں تورات وانجیل اور بحیرا راہب وورقہ بن نوفل سے حاصل کردہ علوم سے ماخوذ ہے: چنانچہ مستشرق گولڈ زہیر کہتا ہے: ’’نبی عربی نے جو کچھ بھی پیش کیا اور ان مذہبی معلومات اور آراء کا خلاصہ و آمیزہ ہے جسے انھوں نے یہودی اور مسیحی عناصر سے روابط کی وجہ سے حاصل کیاہے اور منتخب کرکے خاص ترتیب سے پیش کردیا ہے‘‘ (نقدالخطاب الاستشراقی، دارالدارالاسلامی، ص۳۰۳)
ہرشفلید نے اپنی کتاب ’’العناصر الیہودیۃ في القرآن‘‘ میں اس بات پر زور صرف کردیا ہے کہ قرآن کریم انجیل کا ہی ایک ایڈیشن ہے جس کو دوسرا نام دیا گیا ہے۔‘‘
مستشرق جوزیف نے الزام عائد کیا ہے کہ امانۃ، برکۃ، تبارک، کفارۃ، جبار، جنات عدن وغیرہ الفاظ ہیں جو عبرانی زبان کے ہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مکہ اورمدینہ میں یہود سے حاصل کیا ہے‘‘ (المستشرقون والدراسات القرآنیۃ: احمد العلوی)
مغالطے کی تردید: قرآن وکتب سابقہ کی تعلیمات کا موازنہ
توراۃ وانجیل سے قرآن مقدس کے ماخوذ ومقتبس ہونے کے الزام کے غلط ہونے کے لیے اخذ واقتباس کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے۔ کسی بھی کتاب سے اخذ واقتباس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اس کی کسی فکر کو کلی یا جزئی طور پر اس طرح نقل کیا جائے کہ ناقل اس میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ نہ کرے؛ لیکن اگرناقل اپنی طرف سے کچھ اضافہ کردے یا بعض افکار وخیالات کی تعدیل و تصحیح کردے تو اسے نقل اور اقتباس کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ قرآن مقدس میں اور کتب سابقہ کا مصدر ایک ہونے کے سبب واقعات کی یکسانیت اچنبھے کی بات نہیں ہے؛ لیکن ان واقعات میں بھی کہیں مکمل طور پر یکسانیت نہیں ہے؛ بلکہ صاف نظر آتا ہے کہ قرآن مقدس تناقضات، پرانے روایتی افسانوں ، فرضی قصوں اور ہر طرح کی بے ہودگیوں سے بالکل پاک ہے؛ جب کہ دوسری کتابوں میں موجود مشرکانہ توہم پرستی اورمخلوق وخالق کے درمیان برابری کا تصور خود بتلاتا ہے کہ انسانی اختراع نے اس پر خوب ہاتھ صاف کیاہے۔ مثال کے طور پر تورات میں خدا اور جیکوب کے درمیان کُشتی کے ایک انوکھے مقابلے کاحال بیان کیاگیا ہے، جس میں جیکوب خدا کو عاجز کردیتاہے اور خدا اپنی تمام قدرت، الوہیت اور طاقت کے ایک فانی انسان کو جسمانی طور پر شکست نہیں دے پاتاہے۔‘‘ (پیدائش:۳۲: ۲۴-۲۸)
’’خداوند یہوداہ کے ساتھ تھا، سواس نے کوہستانیوں کو نکال دیا؛ لیکن وادی کے باشندوں کو نہ نکال سکا؛ کیوں کہ ان کے پاس لوہے کے رتھ تھے‘‘ (قضا ۱۵:۱۹)
بائبل کے مطابق خدا نے یعقوب کی محبت میں ’’عیسوسے عداوت رکھی۔ اس کے پہاڑوں کو ویران کیا اور اس کی میراث، بیابان کے گیدڑوں کو دے دی‘‘ (ملاکی ۱:۲-۳)
کیا قرآن کریم میں اس طرح کی واہیات کہانیاں اور بے ہودہ باتوں کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟
انبیاء کرام علیہم السلام اللہ پاک کے منتخب بندے اوراس کی مرضی کے نمائندے ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم ان کی عظمت وتقدس کو جابجا بیان کرتا اور ان کے دامن عفت کو داغ دار کرنے کی ہر کوشش کی جڑیں کاٹ دیتا ہے؛ جب کہ دوسری کتابوں میں نہ جانے کیسی کیسی خرافات اور حیا سوز واقعات اس مقدس گروہ کے پاکباز افراد سے منسوب کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کی گئی ہے:
’’اس (نوح) نے شراب پی اور اسے نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرے میں برہنہ ہوگیا؛ حتیٰ کہ ان کے بیٹے حام نے انھیں اس حالت میں دیکھا‘‘ (پیدائش ۶:۹،۹:۲۰-۲۲)
بائبل کے بیان کے مطابق لوط کی دوسگی بیٹیوں نے انھیں شراب پلائی اور باری باری ان سے ہم آغوش ہوئیں ۔ (نعوذ باللہ) (پیدائش:۱۹:۳۰-۳۸)
’’اور سلیمان بادشاہ فرعون کی بیٹی کے علاوہ بہت سی اجنبی قوموں کی عورتوں سے محبت کرنے لگا اوراس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کرلیا اوراس کا دل خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیساکہ اس کے باپ دائود کا دل تھا‘‘ (اسلاطین ۱۱:۱-۶) (تورات وانجیل کے قصے، الحاد ڈاٹ کام)
کیا قرآن مقدس میں ان خرافات کے لیے جگہ ہوسکتی ہے۔ اس نے توایسی تمام یہودی روایات کو سرے سے خارج کرکے انبیاء کرام کی عظمت اورناموس کو اپنی بنیادی تعلیمات میں شامل کررکھا ہے۔ قرآن نے ان سب کی رسالت وصداقت کی گواہی دی ہے:
’’إِنَّ اللّہَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ‘‘ (آل عمران:۳۳)
’’اور بیشک اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا ہے آدم کو اور نوح کو اورابراہیم کی اولاد کو اور عمران کی اولاد کو تمام جہاں پر‘‘
’’وَإِسْمَاعِیلَ وَالْیَسَعَ وَیُونُسَ وَلُوطاً وَکُلاًّ فضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِینَ‘‘ (الأنعام:۸۶)
’’نیز (ہم نے ہدایت کی) اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اورہرایک کو تمام جہاں والوں پر ہم نے فضیلت دی‘‘
اسی طرح یہودی ہرزہ سرائیوں کی تردید اور سلیمان علیہ السلام کی تنزیہہ کے لیے قرآن مقدس نے جہاں ان کی غیرمعمولی شان وشوکت اور حکومت وسلطنت کا تذکرہ کیا وہیں ان کے علم وانابت پر خصوصیت کے ساتھ روشنی ڈالی۔
’’ولقد آتینا داود وسلیمٰن علمًا‘‘ (النمل:۱۵) ’’اور ہم نے دائود اور سلیمان کو علم عطا فرمایا‘‘
’’نعم العبد، إنہ أوّاب‘‘ (صٓ:۳۰)
’’سلیمان بہت اچھے بندے تھے کہ بہت رجوع ہونے والے تھے‘‘
قصص وواقعات کے بیان میں اس قدر واضح فرق اور عقیدئہ توحید کی ترسیخ میں قرآن کے خاص امتیاز اور کتب سابقہ کی تغلیط کے باوجود اس قرآن کو انہی کتب محرفہ کا ایڈیشن اور انہی سے ماخوذ قرار دینا ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کے علاوہ کچھ نہیں ۔
تردید:۲
اسلام سے پہلے عہد قدیم (تورات) کے کسی عربی ترجمے کا وجود نہیں ملتا ہے، خود مستشرقین نے اس کی صراحت کررکھی ہے؛ چنانچہ جوٹن یہودی صحائف کے بارے میں کہتا ہے: ’’یہ سارے صحیفے اجنبی زبان میں لکھے ہوئے ہیں اور انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں اس کی وضاحت ہے کہ اسلام سے پہلے یہود کی مقدس کتابوں کے عربی ترجمے کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ پہلا عربی ترجمہ عباسی دورخلافت کے آغاز میں ہوا ہے، ورنہ یہ ساری کتابیں عبرانی زبان میں تھیں ۔‘‘
تو پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عبرانی توراۃ سے کیسے استفادہ کرلیا؟ اب تو مستشرقین کو ایک نیاجھوٹ گڑھنا پڑے گا کہ رسول امی صلی اللہ علیہ وسلم عبرانی زبان سے بھی واقف تھے اور عربی میں اس کا ترجمہ کرتے تھے۔ (اسلام سوال وجواب: شیخ محمد صالح المنجد)
تردید:۳
یہود ونصاریٰ کے دعوائے نقل کی تردید کے لیے واضح دلیل قرآن کریم کا بار بار یہ چیلنج ہے کہ اگر قرآن انسان کا بنایا ہوا کلام ہے تو وہ بھی اس جیساکلام پیش کردیں ! اگر اس قرآن کی اصل ان یہود ونصاریٰ کے پاس تھی تو انھیں قرآن کا چیلنج قبول کرکے تورات وانجیل سے اس جیسا کلام پیش کرنے کا زریں موقع ہاتھ سے بالکل نہ جانے دینا چاہیے تھا۔ قرآن کا یہ چیلنج آج بھی باقی ہے:
’’قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَـذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیراً‘‘ (الإسرائ:۸۸)
’’آپ فرمادیجیے کہ اگر تمام انسان اور جنات سب اس بات کے لیے جمع ہوجاویں کہ ایسا قرآن بنا لائیں تب بھی ایسا نہ لاسکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جاویں ‘‘۔
تردید:۴
اگر قرآن کریم کتب سابقہ سے ماخوذ ہوتا تو کیا رسول امی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اس کا چیلنج دے سکتے تھے؟ کیا اس کا اندیشہ نہ رہتا کہ قرآن کی اصل تو لوگوں میں موجود اور متداول ہے تو ہوسکتا ہے کہ کوئی بھی اصل سے مراجعت کرلے اور چیلنج کا جواب لے آئے؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پوری قوت اور انشراح کے ساتھ خدا کے پیغمبرﷺ نے چیلنج کیا اوران مدعیوں سے آج تک جواب نہ بن پڑا!
تردید:۵
قرآن کریم کے بعض احکام و شرائع کا تورات وانجیل اور عربوں کی روایات سے ہم آہنگ ہونا؛ اس بات کی دلیل نہیں کہ قرآن کریم انہی سے ماخوذ ہے۔ اس لیے کہ قرآن ہرچیز کو ختم کردینے کے لیے نہیں آیا ہے؛ بلکہ اس کا ہدف غلطی کی تصحیح اور حق کی تثبیت ہے؛ چنانچہ اسلام نے عربوں میں موجود صفات حمیدہ سچائی، شجاعت، سخاوت اور حلم ورحمت وغیرہ کو بدلنے کے بجائے ان کی مزید ترغیب دی خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بُعِثْتُ لِأتَمِّمَ مَکَارِمَ الأخلاقِ‘‘، ’’مجھے اس لیے مبعوث کیاگیا ہے کہ میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں ‘‘ ۔
اس لیے فطری بات ہے کہ قرآن نے بعض احکام وشرائع کو باقی رکھا ہے، خواہ اس کا تعلق کتب سابقہ سے ہو یا لوگوں کے عرف وتعامل سے؛ البتہ کسی غلط بات کی قرآن تصدیق نہیں کرتا ہے۔ خود ارشاد ربانی ہے: ’’وَمَا کَانَ ہَـذَا الْقُرْآنُ أَن یُفْتَرَی مِن دُونِ اللّہِ وَلَـکِن تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیلَ الْکِتَابِ لاَ رَیْبَ فِیہِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِینَ‘‘ (یونس:۳۷) ’’اور یہ قرآن افترا کیا ہوا نہیں ہے کہ غیراللہ سے صادرہوا ہو؛ بلکہ یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل نازل ہوچکی ہیں اور احکام ضروریہ کی تفصیل بیان کرنے والا ہے۔ اس میں کوئی بات شک کی نہیں ،رب العالمین کی طرف سے ہے۔‘‘
تردید:۶
قرآن کریم میں بعض ایسے حقائق و واقعات بھی ہیں جن کا یہود ونصاریٰ کی کتابوں میں کوئی وجود ہی نہیں ہے، مثلاً ہود، صالح اور شعیب علیہم السلام کے واقعات، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر یہ واقعات کہاں سے بیان کردیے؟
تردید:۷
کئی بار ایسا ہوا ہے جیساکہ اسباب نزول کی تفصیلات سے واضح ہے کہ کوئی خاص واقعہ پیش آگیا یارسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال کرلیاگیا، فوراً ہی وحی کے آثار شروع ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت نازل شدہ آیت کریمہ پڑھ کر سنادی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ تورات وانجیل سے اخذ کررہے ہوتے تو ایسے مواقع پر مرتجلاً حکم ربانی نہ پیش کردیتے؛ بلکہ وقت لیتے اوراصل کتاب سے مراجعت کے بعد ہی بتاتے۔
بحیرا اور ورقہ کی شاگردی کا فسانہ
بعض مستشرقین نے اپنے افتراء ات والزامات کو سند دینے کے لیے یہ بھی گڑھ لیا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو بائبل کی تعلیمات بحیرا راہب اور ورقہ بن نوفل کے ذریعے حاصل ہوئی تھیں اور یہی دونوں آپ کے معلم اور قرآن کریم کا مصدر وذریعہ ہیں ؛ چنانچہ روسی مستشرق الیکس نے اس طرح افسانہ سازی کی ہے ’’ابتدا میں محمد بحیرا راہب سرجیوس کے شاگرد تھے، لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے انہی سے تورات وانجیل کی بنیادی معلومات حاصل کیں ۔‘‘ (الاسلام والمسیحیۃ، الیکس، ص۶۱)
اسی طرح منٹگمری واٹ نے لکھا ہے کہ ورقہ بن نوفل جو ایک مذہبی آدمی تھے اور عیسائی ہوگئے تھے؛ ان سے محمد متأثر رہے اور اصول دین کو حاصل کیا۔‘‘ (محمد فی مکۃ:۷۵)
بحیرا سے شاگردی کی نسبت غلط ہونے کی دلیل
بحیرا راہب کی شاگردی کا جو افسانہ گڑھا گیا ہے اس کی تردید کے لیے اتنا کافی ہے کہ تاریخی طور سے صرف اس قدر ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو بار شام کا تجارتی سفر کیا ہے ایک بار کم سنی میں اور دوسری مرتبہ جوانی میں ۔ دونوں ہی سفر میں بصریٰ کے بازار سے آگے جانا ثابت نہیں ہے اور نہ ہی بحیرا یا کسی اور راہب سے دین ومذہب سے متعلق کوئی چیز سننا ثابت ہے اور وہاں کا یہ سفر خفیہ بھی نہیں تھا۔‘‘ (مناہل العرفان زرقانی:۲/۳۲۶)
دلیل:۲
بحیرا راہب اگر ایسے عظیم معلم اور باکمال شخص تھے کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی نقشہ سازی کی، تو عیسائیوں کے یہاں ان کی حیات و خدمات بھی متعارف ہوتیں اور حق وصداقت کی یہ آواز مکہ کے بجائے بصریٰ سے لگائی جاتی۔
دلیل:۳
اگر بصریٰ میں اس راہب کے پاس رک کر تعلیم حاصل کی ہوتی تو اس سفر سے واپسی کے بعد مکہ میں یہ بات معروف اورمتعارف ہوتی اور آپ کے دعویٰ نبوت کے بعد مشرکین اس الزام کو خوب زور وشور سے اٹھاتے کہ آپ نے تو فلاں راہب سے یہ سب کچھ حاصل کررکھا ہے؛ لیکن مشرکین نے ہزارطعن کے باوجود کبھی یہ الزام عائد نہیں کیا۔
قاضی محمد سلیمان منصورپوری فرماتے ہیں : پادری صاحبان نے اتنی بات پر ’’بحیرہ نصرانی ملا تھا‘‘ یہ شاخ وبرگ اور بھی لگادئیے کہ ۴۰ سال کی عمر کے بعد جو تعلیم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہر کی تھی، وہ اس راہب کی تعلیم کا اثر تھا۔ میں کہتاہوں کہ اگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تثلیث اور کفارہ کا رد، مسیح علیہ السلام کے صلیب پر جان دینے کا بطلان اس راہب کی تعلیم ہی سے کیا تھا تو اب عیسائی اپنے اس بزرگ کی تعلیم کو قبول کیوں نہیں کرتے۔‘‘ (رحمۃ للعالمین ۱/۲۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)
ورقہ بن نوفل کبھی آپ کے معلم نہیں رہے
وجہ:۱- اسی طرح ورقہ بن نوفل کے سلسلے میں منٹگمری واٹ نے جو دعویٰ کیا ہے وہ بھی سراسر جھوٹ ہے؛ اس لیے کہ کہیں سے یہ ثابت نہیں کہ ورقہ عیسائیت کے داعی اور مبلغ تھے؛ اس لیے انھوں نے حضرت خدیجہؓ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسائیت سے متاثر کردیا تھا؛ بلکہ یہ بھی عجیب بات ہے کہ پہلی وحی کے بعد حضرت خدیجہؓ جب آپ کو لے کر ورقہ کے پاس گئی ہیں تو انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حوالہ دینے کے بجائے کہا: ’’ہٰذا الناموس الذي نزّل اللّٰہ علی موسٰی‘‘ (صحیح البخاری کتاب بدء الوحی) یعنی یہی وہ مقدس فرشتہ ہے جسے اللہ پاک نے وحی لے کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا۔‘‘
وجہ:۲- خود ورقہ نے وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی تھی کہ یہ پیغام، اللہ رب العزت کی طرف سے ہے۔ اس میں آپ کے ارادے اور عمل کو دخل نہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود مستشرقین وحی کا مصدر خود ورقہ کو قرار دینے پرمُصر ہیں ۔
وجہ:۳- ورقہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات وحی کے نزول کے بعدہوئی ہے، تو ملاقات سے پہلے جو وحی آگئی وہ ورقہ کی تعلیم کیسے ہوسکتی ہے؟ اوراس سے پہلے بھی آپ ان سے ملتے رہے ہوں ، تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ (وحی اللہ حقائقہ وخصائصہ، ص۱۴۶)
نزول وحی کی ابتدا میں اس ملاقات کے بعد ہی ورقہ انتقال کرگئے تھے۔ تواس کے بعد وہ کیسے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دیتے رہے؛ جب کہ وحی کا سلسلہ تو آگے تیئس سال تک جاری رہا۔
بعض مستشرقین کا اعتراف حقیقت
قرآن کو تورات وانجیل اور بحیرا وورقہ کی تعلیمات سے ماخوذ قرار دینے کا نظریہ اس قدر غلط اور جھوٹا ہے کہ خود مستشرقین کی ایک جماعت بھی اس کے خلاف میدان میں آگئی؛ چنانچہ انگریز مستشرق لائٹنر کہتا ہے: ’’مجھے یہود ونصاریٰ کے دین سے جتنی واقفیت ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ محمد کا علم اس سے ماخوذ نہیں ہے؛ بلکہ بلاکسی شک وشبہ کے وہ وحی ربانی ہے۔‘‘ ہنری دی کاسٹری کہتا ہے: ’’یہ بات محقق ہوچکی ہے کہ محمد نے کسی کتاب مقدس کو نہیں پڑھا اورنہ اپنے دین کے سلسلے میں کسی سابق مذہب سے استفادہ کیا ہے‘‘ (دیکھیے: الطعن في القرآن الکریم والرد علی الطاعنین، ص۴۶، شاملہ)
مستشرق کا رلائل بحیرا راہب کے تعلق سے جوپروپیگنڈا کیاگیا ہے؛ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں اس راہب سرجیوس بحیرا کے متعلق کیا کہوں جس کے بارے میں خیال ہے کہ ابوطالب اور محمدؐ اس کے ساتھ ایک مکان میں ٹھہرے اور نہ یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ ایک کم سن لڑکا اس چھوٹی سی عمر میں کسی بھی راہب سے کچھ حاصل کرسکتا ہے؟‘‘ (محمد المثل الأعلی نوماس کارلیل، ص۲۳)
(جاری)
———————————————
دارالعلوم ، شمارہ :1-2، جلد:105، جمادی الاول- رجب المرجب 1442ھ مطابق جنوری- فروری 2021ء
٭ ٭ ٭