جمع وترتیب: مفتی محمد زیدمظاہری، ندوی
استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
حقیقی عالم کی تعریف
ارشاد فرمایا عالم وہ نہیں ہے جس کے اندر محض علم ہو، حقیقی عالم وہ ہے جس کے اندر علم کے ساتھ عمل اور خوف خدا، خشیت الٰہی ہو، اگر اس کے دل میں خوف خدا اور خشیت الٰہی نہیں تو وہ عالم عالم نہیں اور خوف خدا کی علامت یہ ہے کہ اس کا ظاہر صالح ہو، یعنی اعمال صالحہ کا اس سے ظہور ہوتا ہو، بے عمل کو عالم نہیں کہتے، محض علم عمل کا ذریعہ نہیں ، عمل کرانے والی چیز تو خوف خدا اور خشیت الٰہی ہے جس کے دل میں اللہ کا ڈر وخوف نہ ہو اس کی عملی زندگی درست نہیں ہوسکتی۔
اصلاح وتبلیغ کے لیے پہلے ذہن سازی کرنا چاہیے
حضرت کے سامنے ایک صاحب کا تذکرہ ہوا کہ وہ ہر عالم کو تنقیدی انداز میں یہی کہا کرتے ہیں کہ تم کو اپنے علاقہ میں دین کا کام کرنا چاہیے، اپنی برادری اور خاندان کی خبرلینی چاہیے۔ حضرت نے ارشاد فرمایا: دین کا کام کرنا آسان نہیں ہے، ہر جگہ کے حالات الگ الگ ہوتے ہیں ، اصلاح سختی سے اور محض بات کہہ دینے سے نہیں ہوتی، کسی کی اصلاح کے لیے پہلے مزاج بنانا پڑتا ہے، ذہن سازی کرنا پڑتی ہے، اس سے قرب اور اس کا اعتماد حاصل کرنا پڑتا ہے، پھر نرمی سے بات کرنا پڑتی ہے، محض سخت بات کہہ دینے سے اصلاح نہیں ہوتی، اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ، بہت کچھ برداشت کرنا اور سننا پڑتا ہے، جب پہلے قرب حاصل کیا جائے گا تو لوگ بات سنیں گے، قبول کریں گے، اس کا اثر بھی لیں گے۔
علمی اور تصنیفی کام کرنے والوں کے لیے اہم نصیحت
فرمایا: کام تو گمنامی ہی میں ہوتا ہے، جہاں کوئی جاننے والا بھی نہ ہو، لوگوں کی زیادہ آمد ورفت نہ ہو دلجمعی اور یکسوئی ہو، کوئی مفید بات ذہن میں آئے اس کو فوراً لکھ لینا چاہیے، اگر بروقت نہ لکھا جائے تو بسا اوقات بعد میں سوچنے کے بعد بھی وہ بات یاد نہیں آتی، میں نے ایک آیت سے استنباط کیا تھا کہ لوگوں کے درمیان صلح وصفائی، اتحاد واتفاق کیسے کرانا چاہیے، اُس آیت سے صلح کرانے کا طریقہ معلوم ہوتا تھا، اس کا حاصل یہ تھا کہ جن لوگوں میں باہم اختلاف ہے ان کے سابقہ تعلقات وروابط کو بیان کیا جائے کہ تمہارے آپس کے کیسے ہمدردانہ تعلقات تھے، ایک دوسرے کے ساتھ کیسی ہمدردیاں تھیں ، اور اب کیا سے کیا ہوگیا۔ اس طرح کے ان کے باہمی تعلقات اور محبتوں کا ذکر کرکے صلح کرانے کی کوشش کی جائے۔ یہ مضمون قرآن پاک کی ایک آیت سے سمجھ میں آیا تھا؛ لیکن اب بہت سوچ رہا ہوں وہ آیت یاد نہیں آرہی، اس کے علاوہ اس کا کوئی علاج ہے ہی نہیں کہ جو بات ذہن میں آئے اس کو فوراً یاد داشت کے طور پر لکھ لے، اشارۃ ہی لکھ لے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا یہی معمول تھا کہ رات میں اگر ان کی آنکھ کھلی اوراس وقت کوئی بات ذہن میں آئی تو اسی وقت اٹھتے چراغ روشن کرکے اس بات کو یاد داشت کے طور پر نوٹ فرمالیتے تھے، دیا سلائی اسی مقصد سے سرہانے رکھ کر سوتے تھے۔
ضرورت وحالات کے لحاظ سے بدنظمی بھی ایک نظم ہے
حضرت عامل نہیں ہیں ؛ لیکن لوگ دعا تعویذ کے لیے بہ کثرت اپنی پریشانیوں کو لے کر آتے ہیں تو حضرت ان کو مایوس نہیں فرماتے؛ بلکہ حدود جواز میں رہتے ہوئے لوگوں کو تعویذ بھی دے دیتے ہیں ؛ لیکن یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ہروقت تعویذ والوں کاہجوم ہونے لگا، ہتھورا بستی دیہات ہے، سواریوں کی قلت ہے آنے جانے والوں کو سخت پریشانی ہوتی ہے اس لیے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کے پیش نظر تعویذ کے لیے آنے والوں کا کام حضرت جلدی فرمادیتے ہیں تاکہ جلدی واپس ہوجائیں ؛ لیکن اس کی وجہ سے پریشانیاں بڑھ گئیں ، ہروقت تعویذ والوں کا ہجوم رہنے لگا، کئی مرتبہ حضرت نے اعلان لگوایا کہ یہ کام میں نے بند کردیا ہے، اب کوئی صاحب اس غرض سے نہ آئیں ؛ لیکن ضرورت مند لوگ جب آجاتے تو حضرت از راہ شفقت ومروّت ان کومحروم نہ فرماتے، یہ بات بھی حضرت کے پیش نظر رہتی تھی کہ دوسری جگہ جاکر لوگ قبرپرستی شرک اور دوسرے محرمات میں مبتلا ہوں گے، نیز بعض باطل فرقہ والے بریلوی طبقہ سے منسلک اور متعصبانہ ذہن رکھنے والے غیرمسلم آتے تھے مصلحتاً حضرت ان کو بھی قریب کرتے، دلجوئی بھی کرتے اور تعویذ بھی دیتے، اس طرح پورے علاقہ میں مخالفین اور متعصبین کی مخالفت اور تعصب ختم ہوگیا یا کم ہوگیا، دوسرے مخلوق کی خدمت بھی پیش نظر رہتی تھی، ان وجوہات کی بنا پر حضرت اپنے ذوق ومزاج کے خلاف تعویذ لکھ دیا کرتے تھے۔
لیکن اس کی وجہ سے لکھنے پڑھنے اور دوسرے ضروری کاموں میں حرج ہونے لگا تھا، ایک موقع پر حضرت نے فرمایا: ایساکہیں نہیں ہوتا ہوگا، جیسی بدنظمی یہاں ہے کہ ہر وقت تعویذ، ہر وقت تعویذ، اتنے وقت میں تو ایک کتاب لکھ جائے۔ سیکڑوں کام ہیں ؛ لیکن بدنظمی کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے، مجبوری کی وجہ سے آنے والوں کا کام جلدی کرنا پڑتا ہے تاکہ جلدی واپس جائیں ورنہ پھر ان کے قیام وطعام کا مسئلہ ہوتا ہے،ابھی چند روز قبل میں ہردوئی گیا تھا حضرت مولانا ابرارالحق صاحب سے عرض کیا کہ حضرت آپ کے یہاں تو نظم ہی نظم ہے اورہمارے یہاں بدنظمی ہی بدنظمی ہے، حضرت نے فرمایا: آپ کے یہاں حالات کے مطابق یہ بدنظمی بھی تو ایک نظم ہے، حضرت نے مولانا ابرارالحق صاحب کے انتظام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ وہاں دیکھا آئی ہوئی ڈاک ترتیب سے رکھی ہوئی ہے یہ یوپی کی ڈاک ہے یہ آندھرا پردیش کی ہے، ہر صوبہ کی ڈاک علاحدہ علاحدہ ترتیب سے رکھی ہے، جب وقت ملے گا ترتیب سے ڈاک لکھتے رہیں گے، ہر کام کا وقت مقرر ہے، اصل میں حضرت کے یہاں افراد ہیں ، کچھ کام کرنے والے اسی کام کے لیے مقرر ہیں ، ہمارے پاس اتنے آدمی کہاں ، اللہ تعالیٰ جس کو جس حال میں رکھے وہی بہتر ہے، اللہ کے فیصلہ پر سب کو راضی رہنا چاہیے۔
تعلیم وتدریس کے وقت چھوٹے بچوں سے دُلاروپیار وملاعبت نہیں کرنا چاہیے
حسب معمول حضرت سبق پڑھارہے تھے، مہمانوں کے ہجوم کی وجہ سے گھر جانے کا وقت کم ملتا تھا، گھر کے چھوٹے بچوں ، پوتوں ، نواسوں کو کبھی گھر سے بلالیا کرتے تھے، شفقت محبت دلار پیار کرتے، کبھی گود میں لیتے، تقبیل فرماتے، کچھ کھانے کی چیزیں دیتے، فرماتے اس عمر میں عائلی زندگی اچھی ہوتی ہے، اطباء نے ایسی زندگی کوکہ چھوٹے بچے (پوتے نواسے) ساتھ ہوں ، ان سے جی بہلائے، اس کو صحت کے لیے مفید بتلایا ہے۔ الغرض حضرت عادت کے مطابق گھر سے نواسوں کو گھر سے بلایا، وہ آئے،اس وقت حضرت سبق پڑھارہے تھے، حضرت نے ان کو گود میں لیا، بچوں کو کھلاتے بھی جاتے تھے اور سبق بھی پڑھاتے جاتے تھے؛ لیکن بچہ کی بچکانہ حرکت،اچک پھاند، سے سبق میں خلل واقع ہورہا تھا، طلباء بھی ادھر متوجہ ہوجاتے تھے، وہ خاموش نہیں بیٹھ رہا تھا اس سے سبق میں خلل ہوا، حضرت نے فرمایا آج تو میں نے ایسی غلطی کردی ہے کہ تم کو ایسے وقت میں بلالیا ہے، آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گا، علاقائی زبان میں فرمایا کہ میں کان پکڑتا ہوں اب کبھی بھول سے بھی سبق کے وقت میں تم کو نہیں بلائوں گا۔
سبق ناغہ ہونے پر رنج وغم اور ملال
تعلیم کے وقت علی الصباح پہلے گھنٹے میں ایک مدرس چھٹی کی درخواست لے کر آئے کہ فلاں مدرسہ میں امتحان کے لیے جانا ہے، رخصت چاہیے، حضرت نے فرمایا اگر آپ کو جانا ہی ہے تو اسباق پڑھاکر دوپہر کو چلے جائیے تاکہ طلبا کے اسباق کا ناغہ نہ ہو، یا اگر جلدی ہی جانے کا پروگرام تھا تو طلبا کو کچھ پہلے ہی اسباق پڑھادیتے، ان کے چلے جانے کے بعد حضرت نے فرمایا کچھ نہیں آج کل لوگوں کے ذہنوں میں سبق کی اہمیت ہی نہیں ، سبق کا ناغہ ہوتو ہوا کرے کچھ پرواہ نہیں ، دوسرے مدرسہ میں امتحان لینے جارہے ہیں اور یہاں طلبا آزادانہ پھرتے رہیں گے اس کی کچھ فکر نہیں ۔
ششماہی امتحان کے بعد لمبی تعطیل
فرمایا: اب ایک سلسلہ چل پڑا ہے امتحان کے بعد چھٹی کا، ہمارے زمانۂ طالب علمی میں یہ سب کچھ نہ ہوتا تھا، یہ تو ابھی چند سالوں سے امتحان بعد چھٹی ہونے لگی ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے تقریباً ایک ماہ کی تعلیم کا نقصان ہوتا ہے، امتحان کے بعد راحت کے لیے ایک دو روز چھٹی کافی تھی لمبی تعطیل سے بہت نقصان ہوتا ہے، اصل میں یہ سلسلہ چل پڑا ہے بڑے مدرسوں سے؛ انھیں کی اتباع اور انھیں کی نقل میں چھوٹے مدرسوں میں بھی ہونے لگا، اب اگر کچھ کہا جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں جگہ بھی تو چھٹی ہوتی ہے فلاں جگہ بھی تو ہوتی ہے، اتنے بڑے بن گئے کہ ندوہ اور دیوبند سے بھی آگے بڑھ گئے۔
ایک شافعی طالب علم اور حضرت اقدس کی وسعت ظرفی
حضرت کے مدرسہ میں شافعی المسلک طالب علم زیر تعلیم تھے، حضرت نے فرمایا ان کے والدصاحب بڑے نیک ہیں اور اس طالب علم سے فرمایا تم اپنے مذہب پر قائم کیوں نہیں ، جس طرح شوافع کیا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی کیا کرو، شافعی مسلک کے مطابق نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھا کرو اور آمین بھی زور سے کہا کرو، چاروں مذہب حق پر ہیں ، امام شافعیؒ کا مسلک تم کو تو معلوم ہی ہوگا، یہاں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ہدایہ وغیرہ ان میں بھی حضرت امام شافعیؒ کا مسلک مذکور ہے اس کے مطابق ہی عمل کیا کرو، اس طالب علم نے عرض کیا کہ سینہ پر ہاتھ باندھتا تھاتو بعض طلبا چڑھاتے تھے کہ دیکھو عورتوں کی طرح نماز پڑھتا ہے، حضرت سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہنے دو، کون کہتا ہے مجھے بتائو میں اس کو تنبیہ کروں گا، آمین بھی زور سے کہو، جو تمہارا مسلک ہے اس کے مطابق ہی عمل کرو، کوئی کچھ کہے کہنے دو، مجھے بتائو میں اس کو تنبیہ کروں گا۔
ایک نومسلم حضرت کے مدرسہ میں تعلیم کے لیے حاضر ہوا جس نے شوافع حضرات کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا اور انھیں کے ماحول میں رہا تھا، نماز بھی انھیں کے مسلک کے مطابق پڑھتا تھا، اب حضرت کے مدرسہ میں زیرتعلیم تھا۔ حضرتؒ نے اس کے لیے شافعی مسلک کی کتابیں منگانے کا اہتمام فرمایا اور فرمایا کہ اس کو شافعی مسلک کی کتابیں پڑھانا چاہیے؛ کیوں کہ شافعی المسلک ہے۔
———————————————
دارالعلوم ، شمارہ :1-2، جلد:105، جمادی الاول- رجب المرجب 1442ھ مطابق جنوری- فروری 2021ء
٭ ٭ ٭