از: مولانا محمداللہ خلیلی قاسمی

شعبۂ انٹرنیٹ دارالعلوم دیوبند

            اس میں کوئی شک نہیں کہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے زندگی کے ہر میدان میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا ہے ، اس جدید مواصلاتی ٹکنالوجی نے زمانے میں سرعت و لطافت اور وسعت و منفعت کا ایک خزانہ بھر دیا ہے۔ انٹر نیٹ کی وجہ سے پوری دنیا ایک ٹیبل پر سمٹ کر آگئی ہے۔ بین اقوامی سطح پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے اس دھماکے کو سائنس و ٹکنالوجی کی خوشگوار آندھی سے تعبیر کیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔گذشتہ صدی کے دوران سائنس و ٹکنالوجی کی ہوش ربا ترقیات کے زیر اثر دنیا جس تیز رفتاری سے تبدیل ہوئی ہے ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔موجودہ صدی بلاشبہ اطلاعاتی انقلاب کی صدی ہے۔ کوئی بھی ملک یا قوم و ملت یا انسانی جماعت اس اطلاعاتی انقلاب کے ثمرات سے اجتناب یا بے اعتنائی برت کر یا اس سے محروم رہ کر خود اپنا ہی نقصان کرے گی کہ اس طرح وہ طاقت اور ترقی کے اصل سرچشمے سے دور جاپڑے گی۔

            اس مواصلاتی ترقی کے نتیجہ میں تجارت اور صنعت و حرفت کے علاوہ تعلیم وتبلیغ کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ۔ عصر حاضر میں انفارمیشن ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کی حیرت انگیز ترقی سے جہاں بہت سارے نت نئے سماجی و مذہبی مسائل پیدا ہوئے ہیں اور انٹرنیٹ سے اخلاقی تباہی کے نئے نئے راستے کھلے ہیں ، وہیں کمپیوٹر و انٹرنیٹ کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ان وسائل کا استعمال کر کے اسلامی پیغام و مذہبی تعلیمات کو انتہائی آسانی اور تیزرفتاری کے ساتھ دنیا میں بھر میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ اس وقت تبلیغی و اصلاحی اور تعلیمی میدانوں میں بھی انٹرنیٹ زبردست رول اداکررہا ہے۔ دنیا کی تمام بڑی تنظیمیں اور ادارے انٹر نیٹ کے ذریعہ اپنے مشن کو عام کرنے کی کو شش کررہے ہیں ۔

             اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انٹر نیٹ کا استعمال جہاں تعلیمی، تبلیغی ، اصلاحی اور دیگر اچھے کاموں کے لیے ہو رہا ہے وہیں شرپسند طاقتیں اور اسلام دشمن عناصر انٹر نیٹ کا استعمال غلط طریقے سے بھی کرنے میں پیچھے نہیں ہیں ۔ ویب سائٹ کے ذریعہ فاسد عقائد کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی سازشیں اب ایک عام بات ہوگئی ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں اور یہودی و عیسائی تنظیموں نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اور وہ اپنی ویب سائٹوں کے ذریعہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مذموم اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ۔ قادیانیوں نے ابتدا ہی سے انٹرنیٹ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا ہے اور اسلام کی نمائندگی کے لیے ایسی ویب سائٹیں رجسٹر کر رکھی ہیں جن سے ایک عام مسلمان تو کیا اچھے خاصے تعلیم یافتہ حضرات بھی آسانی کے ساتھ ان کے دامِ فریب کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر الحاد زدہ اور گمراہ جماعتیں بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ اپنے مشن کو پھیلانے میں لگی ہوئی ہیں اور نہ جانے کتنے مسلمان اس کے دام فریب میں پھنس کر اسلام سے محروم ہو رہے ہیں ۔

            آج کا یہ نازک دوراس امر کا متقاضی ہے کہ جس طرح علمائے امت نے ماضی میں ہر موڑپر ملت اسلامیہ کی پاسبانی کی ہے اور مسلک اہل سنت والجماعت کی اپنی بساط کے مطابق ہمیشہ ترجمانی کی ہے اسی طرح آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں جن ذرائع ابلاغ کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہورہاہے انہیں ذرائع یعنی انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ اسلام دشمن عناصر کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے منصوبہ بند پروگرام کے ساتھ میدان عمل میں آئیں اور اپنے مسلک کی اشاعت و حفاظت کے ساتھ دنیا کے سامنے اسلام کا پیغام اس کے حقیقی پس منظر میں پیش کرکے اپنا فریضہ اانجام دیں ۔

            حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اگراپنے دین اور عقائد کا تحفظ چاہتے ہیں تو انہیں نہ صر ف اس طوفان کا مقابلہ کرنا پڑ ے گا اور ایک ہمہ گیر بیداری اور عروج وارتقا کے سارے اسباب وو سائل کو حاصل کرنا پڑ ے گا بلکہ اپنے دین کے تعارف اور اس کے خلاف کئے جانے والے جھوٹے اور باطل پروپیگنڈو ں کا جواب دینے کے لیے ذرائع ابلاغ کے تما م و سائل کا استعمال بھی کرنا پڑ ے گا۔المیہ یہ ہے کہ آج بھی ہماری دعوتی تو انا ئیاں عملی حیثیت سے بھی نہ صر ف انفرادی اور اجتماعی اختلافا ت کی نذر ہورہی ہیں بلکہ دعوتی میدانوں میں کام کرنے والے مختلف اداروں اور تنظیموں کے درمیان باہمی ربط وضبط اور تعاون کا بھی فقدان ہے۔

            اسی وجہ سے اس حق کی تبلیغ کے لیے جس پر ہمار ا ایما ن ہے اور ان باطل نظریات اور اعتراضات وشبہات کو روکنے کے لیے جو اسلام کے گر د اپنا دائرہ تنگ کر رہے ہیں انٹر نیٹ کا استعمال ناگزیر ضر ور ت بن گیا ہے۔ انٹر نیٹ کوئی ایسا خطرہ نہیں ہے جو اسلام کو چیلنج کرے بلکہ یہ ایک مؤثر وسیلہ ہے جس کے استعمال سے فرار ممکن نہیں ۔ بس ہوا یو ں کہ ایک طویل عرصہ تک مسلمان اس انٹرنیٹ سے غافل رہے اور دوسر وں کو اپنے باطل مضامین اور وسائل کی اشاعت کے لیے دروازہ کھلا مل گیا۔ انٹرنیٹ کو تبلیغ دین کا نہایت موثر ذریعہ بنایا جاسکتا ہے ۔ قرآن نے نہایت بلیغانہ انداز میں ہمیں ’’ادْعُ إِلِی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ‘‘ (سورۃ النحل ۱۲۵)کا حکم دیا ہے اور حدیث شریف میں مؤمنین کو تاکید ہے کہ ’حکمۃ‘ ان کا سرمایہ ہے اور وہ جہاں کبھی ملے مؤمن اس کا زیادہ حق دار ہے(الحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدھا فھو احق بھا:ترمذی، حدیث ۲۶۱۱)لہٰذا انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی اسباب در اصل اسی ’حکمۃ‘ کا حصہ ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔

            آیات و احادیث کی رروشنی میں دیکھیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہی زمانہ ہے جس کی ہمیں خبر دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : یُرِیدُونَ أَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللّہُ إِلاَّ أَن یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔ ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (سورۃ التوبۃ، آیت ۳۲-۳۳)

            اس آیت میں ذکر ہے کہ کافروں او دشمنانِ اسلام کی طرف سے اس بات کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں کہ وہ اسلام کے چراغ کو گل کردیں ، لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بشارت اور تسلی بھی دی ہے کہ اللہ تعالی کو نور اسلام کی تکمیل مقصود ہے اور نبی آخر الزمان سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ دین حق تمام دینوں پر غالب آئے گا ، خواہ کافروں اور مشرکوں اس کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہوجائیں ۔

            احادیث میں اسلام کے آئندہ غلبہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          ان اللّٰہ زوی لی الارض فرأیت مشارقہا ومغاربہا، وان امتی سیبلغ ملکہا ما زوی لی منہا. (صحیح مسلم ، حدیث نمبر ۵۱۴۴)

            ترجمہ: اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا، چناں چہ میں نے زمین کے مشرقی اور مغربی گوشوں تک کو دیکھا۔ ایک دن میری امت کی حکومت مشرق و مغرب کے ان گوشوں تک پہنچے گی۔

            مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: 

          لیبلغن ہذا الامر ما بلغ اللیل و النہار، و لا یترک اللّٰہ بیت مدر و لا وبر الا ادخلہ اللّٰہ ہذا الدین بعز عزیز او بذل ذلیل، عزا یعز اللّٰہ بہ الاسلام و ذلا یذل اللّٰہ بہ الکفر  (حدیث رقم:۱۶۵۰۹)

            ترجمہ: یہ (دین ) ان جگہوں تک پہنچے گا جہاں جہاں رات اور دن ہوتے ہیں ۔ دنیا میں کوئی بھی کچا یا پکا گھر نہیں بچے گا جس میں یہ دن داخل نہ ہو، خواہ عزت دار کی عزت کے ساتھ، یا ذلیل کی ذلت کے ساتھ، ایسی عزت جس سے اللہ اسلام کو عزت بخشے گا اور ایسی ذلت کس جس سے اللہ کفر کو ذلیل کرے گا۔

            بیسوی صدی میں امت مسلمہ سیاسی اور عسکری میدانوں میں جس طرح شکست کا شکار رہی اور استعماری طاقتوں کا نشانہ بنی ، وہ اسلامی تاریخ کا بھیانک باب ہے۔ اس صدی میں اسلامی سطوت و شکوہ کی علامت ’خلافت‘ کا سقوط ہوا اور شمالی افریقہ کے مغربی کناروں سے مشرق بعید کے جزائر تک کے مسلم آبادی والے ملکوں پر یوروپی استعمار کا قبضہ ہوگیا۔ اس ماحول میں اگر کوئی شخص مذکورہ بالا آیت و احادیث پر نظر ڈالتا تو وہ تھوڑی کے لیے ہی سہی وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا کہ آخر یہ پیشین گوئیاں کب پوری ہوں گی۔ خلافت عثمانیہ کے زوال اور اکثر اسلامی ممالک و علاقہ جات پر یورپ کے استعماری قبضہ و تسلط کی وجہ سے گذشتہ صدیوں میں یہ تصور بھی مشکل تھا کہ مسلمان کبھی امریکہ یا یورپ میں اپنی بستیاں بسائیں گے اور وہاں پورے اسلامی تشخص و امتیازکے ساتھ نہ صرف قیام کریں گے بلکہ مساجد و اسلامی مراکز بنا کر یورپ و امریکہ کی ترقی یافتہ قوموں کو اپنا مدعوبنائیں گے۔

            آج الحمد للہ پوری تصویر کھل کر سامنے آگئی ہے اور الصادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی آفتاب نصف النہار کی طرح سچ ثابت ہوچکی ہے۔ آج اللہ تعالی نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ وہی اسلام جس کے ماننے والے مشرق میں مفتوح و مغلوب ہوگئے تھے، مغرب میں وہی اسلام سپر پاور بن کر ابھر رہا ہے۔ اسباب و وسائل کے اعتبار سے بھی اللہ نے ایسی مواصلاتی ٹکنالوجی کی شکلیں پیدا فرمادی ہیں کہ جن سے دین اسلام کا پیغام دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ ورنہ پوری دنیا میں جہاں رات اور دن ہوتی ہو اور ہر کچے اور پکے گھر میں دین کی دعوت کا پہنچنا بظاہر کتنا مشکل تھا۔

            یہ ہماری خوش قسمتی ہوگی کہ ہم دعوتِ دین کی راہ میں اپنی کوششیں صرف کرسکیں ، ورنہ اللہ کی ذات بے نیاز کسی بھی قوم سے کام لے سکتی ہے۔

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :1-2،    جلد:105‏،  جمادی الاول-  رجب المرجب 1442ھ مطابق   جنوری- فروری 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts