از: مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی
ادارہ علم وعرفان حیدرآباد و نئی دہلی
جسم اور جان اللہ کی عطاکردہ نعمتیں ہیں ، جن کی حفاظت اور نگہداشت ہمارا فریضہ ہے ، جان کی حفاظت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی صحت کی حفاظت کی جائے ، مضر صحت امور سے اجتناب کیا جائے، اس کے قُویٰ کی حفاظت کی جائے، جان کی حفاظت کے لیے ضروری امور کا انتظام کیا جائے، اپنے آپ کو ہموم وغمو م اور مصائب ومتاعب سے محفوظ رکھا جائے،جس کے لیے بقدر ضرورت مال کے حصول کے لیے تگ ودو بھی کرے، چونکہ صحت میں خلل، قوی واعضا وجوارح میں کمزوری یا مالی اعتبار سے بے اطمینانی اس کی وجہ سے دینی کاموں میں خلل واقع ہوتا ہے، دوسروں کی خدمت بھی نہیں ہوپاتی، کبھی ناشکری بے صبری جیسے مراحل آجاتے ہیں ، جوبسااوقات ایمان کے کھودینے کا باعث ہوتے ہیں ۔
صحت کی حفاظت
صحت اللہ کی بڑی نعمت ہے، بلکہ سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ انسان کا وجود ہی صحت سے ہے، مضر صحت امور سے بالکلیہ اجتناب کرنا چاہئے، جس میں زیادہ کھانا یا زیادہ سونا، یا کم کھانایا کم سونا، یا حد سے زیادہ فارغ رہنا، ہموم وغموم کا شکار ہوجانا،یا اپنی آپ کو کسی بھی عمل میں اتنا منہمک کرنا جس میں آدمی کی حرکت نہ ہو، جس سے موٹاپا در آئے، راتوں کا جاگنا، دنوں کا سونا یہ ساری امور صحت کے لیے نقصان دہ باعث وبال جان ہوتے ہیں ، اس طرح کے امور سے اجتناب کر کے اپنے آپ کو منظم ومرتب کرے، سونے کے وقت سوئے، کھانے کے وقت کھائے، کام کے وقت کام کرے، ہلکی پھلکی ورزش، چہل قدمی، راتوں کے شروع میں جاگنے سے اجتناب، دھوپ کا حاصل کرنا یہ سارے امور در اصل شرعی نقطہ نظر سے قابل التفات امور ہیں ، ایک مومن توانا اور قوی تر ضعیف اور کمزور مومن کے مقابلہ زیادہ بہتر اور اچھا ہوتا ہے، آیت خداوندی میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں ،’’وَإِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِینِ‘‘ (الشعرائ: ۸۰)(جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شفایاب کرتا ہے) اس سے معلوم ہوا کہ صحت بھی مطلوب ومقصود ہے، اس کے علاوہ ایک روایت میں فرمایا: ’’تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، اورتمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے‘‘(بخاری)گرچہ روایت کا پس منظر شب بیداری اور نفل روزہ میں زیادتی کی ممانعت ہے؛ لیکن کسی بھی عمل میں حد درجہ اشتغال اور انہماک، بالکل یکسوئی اور فراغت کا نہ ہونا بھی یہ مضر صحت ہوا کرتا ہے، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ زیادہ جاگنے اور بالکل بھوکے رہنے سے صحت خراب ہوجاتی ہے، کھانے اور سونے میں غلو بھی موٹاپے کا شکار کردیتا ہے، ایک روایت میں فرمایا گیا: ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں ان کے بارے میں بکثرت لوگ نقصان اور خسارے میں ہیں (یعنی ان سے کوئی ایسا کام نہیں لیتے جس سے دینی نفع ہو)ایک صحت اور دوسرے بے فکری،‘‘(بخاری) اس سے پتہ چلا کہ زیادہ جاگنے اور بالکل بھوکے رہنے سے صحت خراب ہوجاتی ہے اور اس کا اثر انسان کے قوی پر پڑے گا اور وہ مضمحل ہوکر پھر دوسرے فرائض کی ادائیگی کے قابل نہ رہیں گے۔
اسی صحت ونوجوانی،مالی ووقتی فراغت کی اہمیت کو یوں بیان فرمایا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں (کے آنے) سے پہلے غنیمت سمجھو(اور ان سے دین کے کاموں میں مدد لو) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت سمجھو اور صحت کو بیماری سے پہلے، اور مالداری کو افلاس سے پہلے اور بے فکری کو پریشانی سے پہلے اور زندگی کو مرنے سے پہلے‘‘(المستدرک)اس سے معلوم ہوا کہ جوانی میں جو صحت وقوت ہوتی ہے وہ اور فراغت اور مالی گنجائش بڑی نعمتیں ہیں ۔
اس لیے تمام مضر صحت امور سے اجتناب کیا جائے اور صحت کے بگڑنے پر دوا وعلاج کا اہتمام کیاجائے، اور صحت جسمانی کی نگہداشت کے جو بھی جائز ذرائع ووسائل ہوسکتے ہیں ان کو اختیار کیا جائے چونکہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دوا دونوں چیزیں اتاری ہیں اور ہر بیماری کیلیے دوا بھی بنائی،سوتم دوا کیا کرو اور حرام چیز سے دوا مت کرو‘‘ (ابوداؤد)اس سے پتہ چلا کہ صحت بھی مطلوب ومقصود ہے، مضر صحت امور سے اجتناب اور گریز، مضر صحت امور اور کھانے پینے کی چیزوں (جیسے چینس فاسٹ فوڈ،حد سے زیادہ کھانا) وغیرہ ان چیزوں سے بھی احتراز کرنا چاہیے اور پھل فروٹ قدرتی اغذیہ ترکاری معتدل مقدار میں گوشت،انڈا مچھلی وغیرہ کا استعمال ہو، چکن مضر صحت ہوتا ہے، اس کے استعمال سے گریز کیا جائے، چونکہ یہ انسانی دفاعی قوت ختم کرتا ہے، بہرحال باعث صحت چیزوں کا استعمال اور مضر صحت امور کا اجتناب کو نبی کریم ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’ : یہ (کھجور) مت کھاؤ، تم کو نقاہت ہے، پھر میں نے چقندر اور جو تیار کیا، آپ ﷺنے فرمایا : اے علی (رضی اللہ عنہ)اس میں سے لے لو، یہ تمہارے موافق ہے‘‘(ترمذی) صحت کے متعلق بصیرت مند اور تجربہ کار لوگوں کے مشوروں پر عمل درآمد کرے۔
قوت وتوانائی کی برقراری کے لیے تگ ودو
انسان قوی ہو، طاقتور ہو، ومضبوط وتوانا رہے، اس کے لیے کوشش کرنا اور اسباب اختیار کرنابھی شرعا مطلوب ہے۔کیوں کہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’وَاَعِدُّواْ لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّن قُوَّۃٍ‘‘ (الانفال: ۶۰)، اسی سلسلہ میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : قوت والا مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کم قوت والے مومن سے بہتر اور زیادہ پیارا ہے’’المؤمن القوی، خیر وأحب إلی اللّٰہ من المؤمن الضعیف‘‘ اور یوں سب میں خوبی ہے۔
جب قوت اللہ کے نزدیک پیاری چیز ہے تو اس کو باقی رکھنا او ربڑھانا اور جو چیزیں قوت کو کم کرنے والی ہیں ان سے احتیاط کرنا یہ سب مطلوب ہوگا، اس میں غذا بہت کم کردینا، نیند کا بہت کم کرنا، ہم بستری میں حد قوت سے آگے زیادتی کرنا،ایسی ـچیز کھانا جس سے بیماری ہوجائے یا بدپرہیزی کرنا، جس سے بیماری بڑھ جائے اور قوت کمزور پڑ جائے، قوت کو باقی رکھنے کے لیے دوڑنا، پیادہ چلنے کی عادت ڈالنا، جن اسلحہ کی قانون سے اجازت ہے یا اجازت حاصل ہوسکتی ہے، ان کی مشق کرنا، یہ سب داخل ہیں ۔اسی حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے : تیر اندازی بھی کیاکرو اور گھوڑ سواری بھی (ترمذی) اور ایک روایت میں فرمایا کہ جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں (مسلم)
بقدر کفاف مال ضروری
انسان کے پاس اپنی جان اور جسم کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے بقدر کفاف مال ہو اور فکروں سے آزاد ہو اوراسے فراغت قلب نصیب ہو یہ بھی شرعا مطلوب ومقصود ہے، چونکہ اللہ عزوجل نے مال کی تنگی سے جان میں پریشانی سے بچنے کا حکم دیا ’’ولا تبذر تبذیرا‘‘ (بنو اسرائیل : ۲۶)
اسی لیے ایک روایت میں جان میں امن اور بدن میں صحت اور اس دن کے کھانے کی فراہمی کے ساتھ صبح کو باعث سعادت قرار دیا گیا، چنانچہ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جو شخص تم میں سے اس حالت میں صبح کرے کہ اپنی جان میں (پریشانی سے) امن میں ہو او ر اپنے بدن میں (بیماری سے) عافیت میں ہو اور اس کے پاس اس دن کے کھانے کو ہو ( جس سے بھوکا رہنے کا اندیشہ نہ ہو) تو یوں سمجھو کہ اس کے لیے ساری دنیا سمیٹ کر دے دی گئی‘‘(ترمذی) اس حدیث مبارکہ سے صحت اور امن وعافیت اور بقدر کفاف مال کے حصول کا مطلوب ہونا معلوم ہوا ۔
یہ بھی ارشاد گرامی ہے :’’ جو شخص حلال دنیا کو اس لیے طلب کرے کہ مانگنے سے بچارہے اور اپنے اہل وعیال کے (ادائے حقوق) کے لیے کمایا کرے اور اپنے پڑوسی پر توجہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند جیسا ہوگا ‘‘ (شعب الایمان)
اس سے معلوم ہوا کہ کسب مال بقدر ضرورت دین بچانے کے لیے او ر ادائے حقوق کے لیے بڑی فضیلت کی چیز ہے ۔
اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے جسم کی جان کی حفاظت کے لیے ان تین امور کا پاس ولحاظ رکھے، ہر کام کو اصول صحت کا پابند ہو کر شریعت کے احکام کی بجاوری کرتے ہوئے، صحت جسمانی، توانائی وقوت جسمانی اور اور بقدر مال کفاف کے حصول کے ساتھ یکسوئی وفراغت کے ساتھ متوجہ الی اللہ ہو، یہ مطلوب وشرعا محمود امر ہے، اس لیے اس کے لیے تگ ودو کرنا یہ در اصل شریعت کے احکام ہیں ، البتہ صحت وقوت کی برقراری اور مال کے حصول کو ذریعہ آخرت اور زاد روز محشر بنائے، ورنہ یہ توانیاں ، یہ فروانیاں ، یہ انگڑائیاں بسااوقات انسان کے لیے سوہان روح اور جہنم کا یندھن بن جاتی ہے، اس لیے ہر امر میں وسط واعتدال کے ساتھ صحت، وقوت اور حلال مال کی جستجو اور فروانی کے ساتھ متوجہ الی اللہ رہے، اپنی جان کی حفاظت کا حق ادا کرے تب ہی وہ حقوق اللہ وحقوق العباد کو تندہی کے ساتھ کرسکتا ہے، اللہ عزوجل توفیق ارزانی عطا کرے۔(آمین)
————————————————
دارالعلوم ، شمارہ :1-2، جلد:105، جمادی الاول- رجب المرجب 1442ھ مطابق جنوری- فروری 2021ء
٭ ٭ ٭