از: مولانامحمد فیاض عالم قاسمی

ناگپاڑہ، ممبئی

اسلام میں  شادی کی تعریف

            عام طورپر نکاح یاشادی قانونی اورشرعی طورپرمسلمان مردو عورت کے درمیان کیے گئے ایسے معاہدہ کو کہاجاتاہے جو شریعت کے ضابطہ کے مطابق انجام  پایاہو، جس کے تحت دونوں ایک دوسرے سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے جنسی لطف اندوزی کرسکتے ہوں ۔

            اس تعریف سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ اگر مرد یا عورت کوئی ایک مسلمان نہ ہو تو شرعا وہ نکاح نہیں ہے،البتہ اگر عورت کتابیہ یعنی اللہ کو مانتی ہو، کسی نبی پر ایمان ہو، کسی آسمانی کتاب کے مطابق واقعتا عمل بھی کرتی ہواور روزجزاء وسزا پربھی اس کاایمان ہو تو اس سے نکاح کرنے کی گنجائش ہے؛ مگر کراہت سے بہرحال خالی نہیں ، اسی طرح نکاح اگر شرعی ضابطہ کے تحت انجام نہ پایا ہو تواس کو بھی شرعا نکاحِ صحیح نہیں کہاجائے گا۔

بین مذہبی شادی کی تعریف

            بین مذہبی شادی کامطلب یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کا مذہب الگ الگ ہو۔ جیسے مسلم اورغیرمسلم کے درمیان نکاح، ہندو یا عیسائی کے درمیان نکاح۔ اسی کو مخلوط شادی بھی کہاجاتاہے۔ نیزایسی شادیوں کو سوِل معاہدہ بھی کہاتاجاہے۔

اسلام میں بین مذہبی شادی کی حیثیت

            بین مذہبی شادی کو قرآن نے باطل قراردیاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ  وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْـرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُـوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْـرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَاللّٰہُ یَدْعُوٓا اِلَی الْجَنَّـۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ وَیُبَیِّنُ اٰیَاتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُـمْ یَتَذَکَّرُوْنَ(سورۃ البقرۃ:۲۲۱)

            ترجمہ: اورمشرک عورتیں جب تک مسلمان نہ ہو جائیں ، ان سے نکاح نہ کرو اور ایک مسلمان باندی بھی (آزاد ) مشرک خاتون سے بہتر ہے، گو وہ تم کو پسند ہو اور(مسلمان عورتوں کا ) مشرک مردوں سے جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں ، نکاح نہ کرو گو وہ تم کو پسند ہوں ؛ (۳)کیوں کہ یہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اوراﷲاپنی توفیق دے کر جنت اور مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اور اﷲ لوگوں کے لیے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتے ہیں ؛ تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔

            تشریح: اس پر اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مشرک قوموں کے نہ مردوں سے نکاح ہوسکتا ہے اور نہ عورتوں سے؛ البتہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح درست ہے، جس کا ذکر ( المائدۃ :۵) میں ہے۔ اس طرح کا حکم اسلام کی تنگ نظری نہیں ؛ بلکہ ایک مسلمان خاندان کے ایمان اور ان کی تہذیب کی حفاظت مقصود ہے؛ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اکثر عورتوں ہی کی راہ سے بے دینی کے فتنے سماج میں لائے گئے ہیں ، اسلام سے پہلے بھی دوسرے مذاہب میں اس طرح کے احکام موجود تھے، یہودی شریعت میں اسرائیلی کا غیر اسرائیلی سے نکاح جائز نہیں ، (خروج:۳۴؍۳۱) عیسائی مذہب میں غیر عیسائی سے نکاح درست نہیں ، (کرنتھیوں : ۶؍۱۴-۱۵)اور ہندو مذہب میں تو ایک ذات کے لوگوں کے لیے دوسری ذات میں بھی نکاح کی اجازت نہیں ؛ چہ جائے کہ دوسرے مذہب والوں سے۔(آسان تفسیر، از مولاناخالد سیف اللہ رحمانی)

            اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مسلمان کانکاح کسی مشرک یاکافرسے نہیں ہوسکتاہے۔ایسانکاح شرعا باطل ہے۔

مشرک یا کافر کون؟

            مشرک وہ شخص ہے جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ رکھتاہو، کسی نبی کی رسالت اورنبوت پر ایمان نہ رکھتاہو، آسمانی کتابوں پربھی اس کاایمان نہ ہو، آخرت پر اس کایقین نہ ہو، اس کے بجائے کئی خداؤں پر اس کا ایمان ہو، یا خداکی صفات میں کسی دوسری مخلوق کو شریک سمجھتاہو، مثلا وہ بتوں کی پوجاکرتاہو، یاکسی بڑی شخصیت کو اپنا خداسمجھتاہو،تواس کو مشرک کہتے ہیں ۔

            اگر کوئی آدمی کسی بھی خداپرایمان نہیں رکھتاہے، یا کسی بھی پیغمبر کو نہیں مانتاہے، یا بعض پیغمبر کو مانتے اور بعض کو نہیں ،تو اس کو کافر کہاجاتاہے۔ مثال کے طورپر ہندو، جین، سکھ، بدھسٹ، پارسی، یہ  لوگ مشرک بھی ہیں اور کافر بھی۔

            چنانچہ درج ذیل فرقے از روئے شرع کافر ہیں ، چاہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں یا پھر سرکاری  دستاویزات پر مسلمان کہلائیں :

            قادیانی: یعنی ایسے لوگ جو مرزاغلام احمد قادیانی کونبی مانتے ہیں اور ان کی اتباع کرتے ہیں ۔

            غالی شیعہ: یعنی ایسے لوگ جن کے بارے میں یقینی طورپرمعلوم ہو کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدامانتے ہیں ،یا نبی مانتے ہیں ، یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم ان ہی پر نازل ہوناتھا؛ لیکن حضرت جبرئیل  علیہ السلام سے غلطی ہوگئی اور وہ وحی لے کر حضرت محمدﷺکے پاس چلے گئے۔ یا ان کایہ عقیدہ ہوکہ حضرت محمدﷺکی وفات کے بعد آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مرتد ہوگئے تھے۔

            بہائی: وہ لوگ جن کاایمان ہو کہ مرزاحسین علی نوری بہاء اللہ بھی اللہ کے نبی یارسول ہیں ۔

            بابی: وہ لوگ جن کا ایمان ہو کہ سید علی محمد باب اللہ کے نبی یارسول ہیں ۔

            شکیلی: وہ لوگ جن کاایمان ہو کہ شکیل بن حنیف عیسیٰ علیہ السلام ہیں ، یا امام مہدی ہیں ، یا وہ خود رسول یا نبی ہیں ۔

(اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، دفعہ نمبر۴-۵)

            یہ سارے فرقے حکومت کی نظرمیں مسلمان ہیں ؛ لیکن خداکی نظر میں مسلمان نہیں ہیں ؛ کیوں کہ یہ لوگ حضرت محمدﷺکی رسالت یا آپ کی پیغمبری پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ، یاآپ کو اللہ کاآخری نبی نہیں مانتے ہیں ، تو ان لوگوں سے کسی مسلمان مرد وعورت کا نکاح نہیں ہوسکتاہے۔ جب شرعانکاح ہی منعقد نہیں ہوگا تو پھر لوجہاد کاشوشہ چھوڑنا اوراس پر ہنگامہ برپاکرنانہایت نامعقول بات ہے۔ اسلام میں نہ ایسا کوئی جہادہے اور نہ اس کی ترغیب دی گئی؛ بلکہ اسلام میں تو کسی اجنبی عورت سے بلاوجہ بات چیت کرنے حتیٰ کہ دیکھنے کو بھی حرام قراردیاگیاہے۔

بین مذہبی شادی کی قانونی حیثیت

            ہندوستان میں پرسنل لا لاگو ہے،یعنی عائلی مسائل میں اس فرقہ کامذہبی یاروایتی قانون ہی ملک کاقانون ہے، چنانچہ اس کے لیے شریعت ایپلی کیشن ایکٹ۱۹۳۷ئمسلمانوں پر لاگوہے۔ ہندومیرج ایکٹ ۱۹۵۵ئہندوؤں پرلاگوہے،یہی ایکٹ بودھسٹ،جین،سکھ کے لیے بھی ہے۔ دَآنند میریج ایکٹ۱۹۰۹ء بھی سکھوں پر لاگوہے، دَانڈین کرسچن میریج ایکٹ ۱۸۷۲ء  عیسائیوں کے لیے ہے،اسی طرح پارسی میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ۱۹۳۶ء بھی ہے، ان لوگوں کانکاح ان ہی  ایکٹ کے تحت ہوتاہے اور ان کے مذہبی اورروایتی طوروطریقے کے مطابق انجام پاتا ہے۔

            اس کے علاوہ ایک اسپیشل میریج ایکٹ ۱۹۵۴ئبھی پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیا گیاہے، اس میں ہر ہندوستانی کو کسی بھی ہندوستانی سے اس کے مذہب اوراس کے عقیدے کا لحاظ کیے بغیرشادی کرنے کاحق ہے، اس اسپیشل میریج ایکٹ کے مطابق کیے گئے نکاح پرپرسنل لاز لاگو نہیں ہوتے ہیں ۔

اسپیشل میریج ایکٹ ۱۹۵۴کیاہے؟

            دراصل اس ایکٹ کو بنانے کامقصدپرسنل لا کو کمزورکرناہے، اس ایکٹ کے مطابق مذہب اورعقیدہ کے برخلاف کوئی بھی کسی بھی مذہب کے ماننے والے سے نکاح کرسکتاہے؛ خواہ وہ مسلم ہو، یا ہندو ہو، یا بدھسٹ ہو، یا جین ہو، یا سکھ ہو، عیسائی ہو، پارسی ہو۔اس ایکٹ کے تحت بین المذاہب نکاح منعقد کیے جاتے ہیں ۔یہ ایکٹ پورے انڈیا میں لاگو ہے اوران لوگوں پر بھی لاگوہیں جو ہندوستانی ہیں ؛لیکن باہر ممالک میں رہتے ہیں۔

(Interfaith Marriages and Negotiated Spaces. By: Shweta Verma1 Neelam Sukhramani1:23)

            ہندوستان میں بین مذہبی نکاح عروج پر ہے؛کیوں کہ اسپیشل میریج ایکٹ ایسے جوڑوں کو تحفظ فراہم کرتاہے۔ ایک قومی سروے کے مطابق۱۹۸۱ء سے۲۰۰۵ئتک بین مذہبی نکاح کی شرح دوگناہوگئی ہے۔ (Goli et al. 2013)؛چنانچہ۱۹۸۱ء میں 1.6فیصد تھا اور۲۰۰۵ء 2.7فیصد بڑھ گیا۔

(Interfaith Marriages and Negotiated Spaces. By: Shweta Verma1 Neelam Sukhramani1: 23)

            مشہورانگریزی اخبارٹائمس آف انڈیا کے مطابق اسٹیپ اور میریج رجسٹریشن کے اداروں میں ۲۰۱۳-۲۰۱۴ء میں ۲۶۲۴نکاح رجسٹر کیے گئے،صرف شہر بنگلورو میں اگلے سال یعنی۲۰۱۵- ۲۰۱۶ء میں یہ عدد بڑھ کر۱۰۶۵۵ہوگئی۔۲۰۱۵ء سے جنوری۲۰۱۶ء تک۸۳۹۱نکاح رجسٹرڈ ہوچکے تھے، جو۲۰۱۳-۲۰۱۴ئکے مقابلہ میں ۳۰۶فیصد بڑھاہواہے۔(Times of India: 20 June 2016)

Kumudin Das of Pillai’s College of Arts, Commerce and Science, Navi Mumbai,

P. K. Tripathy of Utkal University,

 International Institute for Population Sciences (IIPS)  ]Mumbai[ (K. C. Das, and T. K. Roy

            پیلائی کے کالج آف آرٹس، کامرس اینڈ سائنس نئی ممبئی کے کموڈن داس کے مطالعے کے مطابق، اتکل یونیورسٹی کے پی کے تریپتی،کے سی داس اور ٹی کے رائے، دونوں بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ برائے پاپولیشن سائنسز (IIP)ممبئی  سے متعلق ہیں ، نے ہندوستان میں بین المذاہب اور بین ذات پات سے متعلق شادیوں کی تعداد کو بڑھنے اورگھٹنے والاقراردیا۔جس میں ۲۹؍صوبوں کے ۴۲۱۸۳ لوگوں کے قومی خاندانی صحت سروے National Family Health Survey ۲۰۰۵-۲۰۰۶ء کو سامنے رکھتے ہوئے کہاگیاہے کہ ہندوستان میں 2.1فیصد شادیاں بین مذہبی تھیں ۔

 (Daset al.]2011[, 4, Table 4).

جغرافیائی لحاظ سے بین مذہبی شادیوں کی شرح اس طرح ہے

            مرکزی انڈیا:        1.2                  شمالی انڈیا:            2.2

            مشرقی انڈیا:         1.3                  شمال مشرقی انڈیا:    3.2

            مغربی انڈیا:          3.4                  جنوبی  انڈیا:           3.2

صوبوں کے لحاظ سے بین مذہبی شادیوں کی شرح اس طرح ہے

            بین مذہبی شادی کی سب سے زیادہ فیصد رکھنے والا صوبہ اروناچل پردیش ہے،جس میں 9.2 فیصد بین مذہبی شادیاں انجام پاتی ہیں ۔ اس کے بعد سکم: 8.1 فیصد، منی پور: 7.6،  پنجاب: 7.3،  میگھالیہ: 6.7، جھارکھنڈ: 5.6،  آندھراپردیش: 4.7،  مہاراشٹرا: 3.7 ، کرناٹکا: 2.8، تریپورہ: 2.7،  دہلی: 2.2  بالترتیب ہیں ۔

            سب سے کم شرح رکھنے والا صوبہ مغربی بنگال  ہے، یعنی  صرف 0.3  فیصد ہے۔ دوسرے صوبے ان دونوں کے بیچ میں ہیں ۔

(Dynamics of inter-religious and inter-caste marriages in India by: Kumudin Das, K. C. Das, T. K. Roy and P. K. Tripathy: Table: 4)

بین مذہبی شادیوں میں میاں بیوی کو مختلف قسم کی  دشواریوں کاسامناکرناپڑتاہے

            ذاتی مسائل: بین المذاہب شادیاں میاں بیوی اور رشتہ داروں کے درمیان بحث ومباحثہ اوراختلافات کا باعث بنتی ہیں ۔  مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کے جوڑے اکثر اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ۔ اس طرح کی شادیاں عام طور پر زیادہ عرصہ تک نہیں رہتیں اور تھوڑے ہی عرصے میں طلاق یاخلع کے ذریعہ علیحدگی ہوجاتی ہے۔ میں (قاضی محمد فیاض عالم قاسمی) نے ذاتی طور پر دارالقضاء (تصفیہ سینٹر) میں مشاہدہ کیا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 95  فیصد جوڑے طلاق یا خلع کے ذریعہ الگ ہوجاتے ہیں ، یاپھر یونہی ایک دوسرے کو چھوڑدیتے ہیں ۔  واضح رہے کہ یہاں ’’بین المذاہب شادی‘‘ سے مرادمسلم اورغیر مسلم کی شادی ہے۔

            سماجی مسائل: انھیں اپنے اہل خانہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے والدین ان کی شادی کی تقریبات میں شرکت نہیں کرتے ہیں ، دونوں میاں بیوی کوان کے سسرال والے افراد خانہ نہیں سمجھتے،اس وجہ سے اس طرح کے جوڑے ہمیشہ معاشرتی زندگی کے مسائل کاسامناکرتے رہتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ ایسے لوگ اپنے رشتے داروں اور معاشرے میں اپنا وقار کھو دیتے ہیں ۔ ان کے بچوں کو معاشرے میں بھی اسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛بلکہ وہ اپنے والدین سے کہیں زیادہ سخت چیلنجوں کاسامناکرتے ہیں ۔

بین المذاہب شادی کی وجوہات

مسلمانوں میں بین المذاہب شادیوں کی وجوہات یہ ہیں :

۱-  ایمان کی کمزوری:

            بین المذاہب شادیوں کی سب سے بڑی وجہ ایمان کی کمزوری ہے۔ ایک مومن، یعنی حقیقی ایمان کاحامل، محبت یا دنیاوی مال  ودولت کے بدلے کبھی بھی اپنے ایمان کاسودا نہیں کرے گا۔

۲-  مخلوط تعلیم:

            بین المذاہب شادیوں کی وجوہات میں سے مخلوط تعلیم بھی ایک بنیادی وجہ ہے۔ جب کوئی نوعمر لڑکا یا لڑکی مخلوط تعلیم گاہ جیسے کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیتا ہے تو ان کی ملاقات مخالف جنس والے بہت سے دوستوں سے ہوتی ہے، آہستہ آہستہ اس کا سادہ لوح دل و دماغ محبت کی جال میں پھنس جاتاہے  اور اس طرح محبت میں اندھے ہوکر انھیں اپنی خواہشات کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتاہے،ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جلد ہی نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں تاکہ ظالم معاشرہ ان کے درمیان روڑے نہ اٹکائے، بالآخروہ تمام تر دینی تعلیمات نظر انداز کرکے نکاح کرلیتے ہیں ۔

۳- مخالف جنس کے ساتھ دوستی:

            نوجوانوں میں آج کل خاص طور پر پیشہ ورانہ ملازمتوں میں مخالف جنس سے دوستی بہت عام ہوگئی ہے۔ ایک تاجر کے کچھ مخالف جنس دوست بھی ہوتے ہیں ، تو ڈاکٹروں کے بھی ہوتے ہیں ۔ ایک استاد مخالف جنس سے بھی ہاتھ ملاتا ہے۔ یہ آزادانہ تعلقات بھی اکثر و بیشتر بین المذاہب شادیوں کا باعث بنتے ہیں ۔

۴- غربت:

            بین المذاہب شادیوں میں غربت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو دوسرے مذہب کے لڑکوں سے شادی کرادینے پر مجبورہوتے ہیں ؛ کیونکہ انہیں شاید اپنی ہی برادری میں اپنی بیٹیوں کے لیے مناسب دولہا نہیں ملتاہے، یا پھر ان کے پاس اتنا بجٹ ہی نہیں ہوتاہے کہ سسرال والوں کو جہیزفراہم کریں ، کیونکہ جہیز مہنگا ہوگیاہے، اور آج کل شادی کا لازمی حصہ بن چکاہے۔ معاملہ اور زیادہ شرمناک اس وقت بن جاتا ہے، جب داماد یا اس کے رشتہ دار نقد رقم، موٹر سائیکل، فور وہیلر، مکان، یا تجارت یا جائیداد کے حصوں میں رقم طلب کرتے ہیں اور یہاں تک کہ بعض اوقات اگر وہ ان کے مطالبات پورے نہیں کرپاتے ہیں تو شادی منسوخ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں  اوربعض دفعہ بات چیت ہوجانے کے باوجود عین وقت پرمنسوخ کردیاجاتاہے۔

۵- لالچ:

            لالچ مرد کی جانب سے بین المذاہب شادیوں کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ وہ شادی کرکے دولت مند بننا چاہتا ہے۔ اسے سسرال سے جہیز کا ڈھیر ملنے کی توقع ہوتی ہے؛ لہٰذا لالچ بعض اوقات ایمان کی قیمت پر بھی بین المذاہب شادی کا انتخاب کرنے پر اکساتا ہے۔

۶- جہالت:

            زیادہ تر لوگوں کومعلوم ہی نہیں کہ ان کا مذہب ان لوگوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے یانہیں جو اس کے مذہب کو نہیں مانتاہے، ہمارے علم میں کچھ ایسے معاملات آئے ہیں جہاں انھوں نے انجانے میں شادی کرلی۔ پھربعدمیں جب کبھی انہیں پتہ چل گیا کہ ان کا مذہب ایسی شادی کی اجازت نہیں دیتا ہے تو وہ فورا الگ ہوگئے اور اپنے رب سے توبہ واستغفارکی۔

۷- آزادانہ خیال:

            کچھ لوگ غیر معمولی طورپر وسیع ظرف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ وہ سوچتے ہیں کہ دماغ کی وسعت اور فکر ہی تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ وہ مذہبی حدود کو رکاوٹیں اور پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے مذہب عید اور بقرعید منانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ان کے خیال میں شادی ان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لہٰذا وہ بین المذاہب شادیوں میں کچھ بھی غلط نہیں دیکھتے اور اپنے بچوں کو اپنے لیے جو بھی انتخاب کرتے ہیں ،کرنے دیتے ہیں ۔ اس طرح بہت حد تک ’’آزادانہ خیال‘‘ بھی بین المذاہب شادیوں کا باعث بنتی ہے۔

۸- تعلیم کی کمی:

            موجودہ صورتحال میں مسلمان لڑکیاں لڑکوں کی بہ نسبت تعلیم میں اعلی فیصد حاصل کررہی ہیں ۔ جس کانتیجہ یہ ہوتاہے مسلمان لڑکے ان اعلی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے مناسب نہیں ہوتے ہیں ۔ اس سے متعدد لڑکیوں کو بھی دوسرے مذاہب میں سے اپنے شریک حیات کا انتخاب کرناپڑتاہے، جو تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے کم سے کم ان کے لیے مناسب ہوتے ہیں ۔

۹- سوشل میڈیا کی لت:

            سوشل میڈیا نوجوانوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ انٹرنیٹ سب کے لیے دستیاب ہے۔ پوری دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں کی طرح ہوگئی ہے، گفتگو اور بات چیت کرنا، یہاں تک کہ موبائل کے ذریعہ دوسرے کو دیکھنا بھی بہت آسان ہوگیا ہے۔ اس مقصد کے لیے واٹس ایپ، ٹیلیگرام، فیس بک اور کچھ دوسرے سماجی پلیٹ فارم اس کام کے لیے بہت آسان ہیں ۔ اس میڈیا کے ذریعہ ایک مرد اور عورت چیٹنگ، بات چیت اور پھر ایک دوسرے سے گہری محبت کرنا شروع کردیتے ہیں ، جوبین المذاہب شادیوں کا ذریعہ بنتی ہے۔

۱۰- پروپیگنڈا:

            یہ ثابت ہوگیا ہے کہ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) ہندوستان میں ہندوؤں کی ایک غیرسرکاری تنظیم ہے  اور اسی طرح کے دائیں بازو کی تنظیمیں اپنے ہندوتوا ایجنڈے کے تحت مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانا چاہتی ہیں ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ پہلے اپنے ہی لڑکوں اورلڑکیوں کا انتخاب کرتے ہیں انہیں اچھی تنخواہوں ، ایوارڈز اور اسی طرح کی کئی پیش کش کی جاتی ہے، اور پھر وہ فیس بک اکاؤنٹ، ٹرو کالر، انسٹاگرام، ٹیلیگرام، واٹس ایپ، اور دیگر سماجی ایپس سے مسلم بچوں اوربچیوں کے موبائل  نمبر حاصل کرتے ہیں ۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ وہ موبائل ری چارجنگ کے مراکز، زیروکس سنٹرز، شاپنگ مالز، ٹیوشن کلاسز اور دوستوں سے بھی نمبرات حاصل کرتے ہیں ، جب ان کو نمبرات مل  جاتے ہیں تو وہ ان سے چیٹنگ شروع کردیتے ہیں ، آڈیو اور ویڈیو کالنگ کے ذریعہ گفتگو کی جاتی ہے، یہاں تک کہ نوجوان مسلمان لڑکیوں یا لڑکوں کو ان سے پیار ہوجاتاہے۔ اس طرح مخصوص لڑکے یا لڑکیاں مسلم نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کواپنی طرف  راغب کرتے ہیں ۔

بین المذاہب شادی کاتدارک:

۱- دینی تعلیم:

            اس کا تدارک یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو نہ صرف قرآن کریم کی تلاوت کرنا سکھائیں ؛ بلکہ کم از کم تمام اعلیٰ اورضروری مذہبی تعلیمات جیسے ایمانیات، اخلاقیات بھی سکھائیں ، ایک بچہ کو پڑوسی، دوست، شریک حیات، اور والدین کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی بتائیں ۔ تاکہ بچے جان سکیں کہ اسے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں کیا کرنا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اوربچیوں کے ذہنوں اور دلوں میں ایمان کی اہمیت پیدا کراناہے۔ صحابہ کرام کی کہانیاں گھر پر سنائی جائیں ، یہ یقینا گھر کے تمام افراد کے لیے مفید ہوگا۔

۲- مذہب اور تقویٰ:

            والدین کو مذہبی اور پرہیزگار ہونا چاہیے۔ ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پورا کریں ۔ انہیں شریعت کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس سے غیر شعوری طورپر بچوں کے اخلاق اچھے ہوں گے، اس طریقہ سے پرورش کیے گئے بچوں میں یقینی طور پراللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیداہوگا اوروہ اخلاق حسنہ سے مزین ہوں گے۔

۳- اسکول میں اسلامی ماحول:

            مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں میں اساتذہ کوطلبہ کے ساتھ اس  طرح پیش آناچاہیے کہ گویا وہ ان کے اپنے بچے ہیں ، انتظامیہ بچوں کے ایمان کو مضبوط کرنے اوران کی روشن زندگی کی ذمہ دارہے، انہیں اپنے طلباء کو اسلامی اخلاقیات سے مزین کراناہوگا، ہرجماعت میں کم از کم ایک دینی مضمون بھی ہونا چاہیے؛تاکہ ان کے ایمان کو مضبوط کیا جاسکے اور انھیں شرعی حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں روشناس کرایاجاسکے۔ انہیں باریکی سے بچوں کے طرز عمل کا مشاہدہ کرنا چاہیے، اگر وہ حد سے تجاوز کرتے ہیں تو ان کی اصلاح کرنی چاہیے۔ انہیں مخالف جنس سے دوستی کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاس روم اور ہاسٹل ہونا چاہیے۔

۴- گھر میں اسلامی ماحول:

            گھر میں بھی ایسا ہی نظام لاگوکرنا چاہیے؛ کیوں کہ اساتذہ سے زیادہ والدین ذمہ دار ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق کی تربیت دیں ۔ انہیں اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر ہمیشہ نگاہ رکھنی چاہیے۔ انہیں کبھی بھی بچیوں کو سفر، ٹیوشن، پکنک، کھیل یا دوست کے گھر اکیلے نہیں چھوڑ ناچاہیے، بچوں کو مشورہ دیا جانا چاہیے کہ وہ کسی بھی اجنبی یا مخالف جنس سے کسی بھی قسم کی دوستی نہ کریں چاہے وہ اس کا ہم جماعت ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں کسی غیرمحرم(غیرخونی رشتہ داروں ) سے آزادانہ طور پر بات چیت کرنے کاموقعہ نہیں دیاجاناچاہیے۔ اگر کسی غیر متوقع طرز عمل کا پتہ چل جائے تو انہیں ان کو نصیحت کرنی چاہیے،ڈانٹ ڈپٹ سے بھی اورہلکی پھلکی پٹائی کے ذریعہ بھی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ان کی جیب خرچ کے روکنے جیسی سزابھی دی جاسکتی ہے۔بہرحال  والدین کو جو سزامناسب لگے وہ ضرور کرناچاہیے۔ والدین کو اپنے بچوں کو واضح طور پر متنبہ کرنا چاہیے کہ وہ ہر طرح کے گناہ اور نافرمانی کو معاف کردیں گے؛ لیکن وہ کبھی بھی کسی بھی اجنبی شخص کے ساتھ  دوستی، محبت، یا شادی کرنے کے جرم کو معاف نہیں کریں گے۔

۵- غیر ضروری طور پر سوشل میڈیا کی لت سے بچنا:

            بچوں کوبلاوجہ سوشل میڈیا کو استعمال  نہیں کرناچاہیے، معقول  وجہ کے بغیر کسی بھی اجنبی یا غیرمحرم سے بات چیت نہ کریں ،اگر کوئی بات چیت کرنے کی کوشش کرتاہے، تو اسے فوری طور پر بلاک کردیا جانا چاہیے۔

۶- ایمان کو مضبوط بنانا:

            مسلمانوں میں بین المذاہب شادیوں کو روکنے کے لیے ایمان کو مضبوط کرنانہایت ہی ضروری ہے، یہ صرف ایمان ہی ہے،جوایک مسلمان کو شریعت کے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی سے روک سکتا ہے۔ ایمان کو مضبوط کرنے کے کچھ طریقے یہ ہیں :

(الف)نماز کی پاپندی:

            نمازکی پابندی انسان کو ہر قسم کی برائی سے اور برے کام کرنے سے روکتی ہے؛جیساکہ ایک قرآن کریم میں اس وضاحت آئی ہے۔ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنْکَرِ(سورۃ العنکبوت:۴۵)

(ب)قرآن کی تلاوت:

            قرآن کی تلاوت بھی ایمان کو مضبوط کرنے میں  مددگار ہوتی ہے، بالخصوص جب کہ پڑھنے والا اس کو سمجھتابھی ہو۔

(ج)کسی مذہبی آدمی  سے بیعت:

            کسی بزرگ اور اللہ والے سے بیعت کرنا بھی انسان کے ایمان اور اخلاق کو سنوارتاہے۔خود بھی  بیعت ہوجاناچاہیے اور اپنے بچوں کوبھی  بزرگان دین کی مجلس میں بٹھاناچاہیے۔

(د)آخرت کادھیان:

            ہر قول وفعل میں آخرت کادھیان ہو، جنت  وجہنم کے بارے میں پڑھنا بھی انسان کو اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس کو بڑھاتاہے۔

(ھ)قبرکی زیارت:

            قبرکی زیارت کرنا بھی اس فانی دنیاوی زندگی کی حقیقت کویاددلاتی ہے۔   

(ح)اللہ کاذکر:

            اللہ کے نام کاذکر کرنا مثلا اللہ اللہ، لاالہ الااللہ کا ورد بھی کمزورایمان کے لیے بہترین علاج ہے، یقینا اللہ کاذکر کرنا چنددنوں میں ایمان کو روشن کردیتاہے۔

            یہ کچھ طریقے ہیں جن سے انسان اپنے ایمان اورتقویٰ کو مضبوط کرسکتاہے۔ جو بین مذہبی شادیوں کی روک تھام کے لیے معین ومددگار ہوں گے۔ ان شاء اللہ

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :1-2،    جلد:105‏،  جمادی الاول-  رجب المرجب 1442ھ مطابق   جنوری- فروری 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts