از: مفتی رشید احمد فریدی
مدرسہ مفتاح العلوم،تراج، سورت ،گجرات
اتنا تو ہر انسان جانتا ہے اور جاننا ہی چاہیے کہ اس کا پیدا کرنے والا،آسمان و زمین بنانے والا، بارش کو برسانے اور ہوا کو چلانے والا ، درختوں اور پودوں کو اُگانے والا،چاند اور سورج کو روشن کرنے والا اور جانوروں کے تھن سے دودھ نکالنے والا ،پھولوں میں خوشبو اور پھلوں میں مٹھاس بھرنے والا؛ بلکہ ہر ایک کی زندگی اور موت کا خالق ،عزت و ذلت کا مالک ایک ایسی بے نیاز اور نورانی ہستی ہے جس کو اگر چہ ہم نہیں دیکھ پا رہے ہیں ؛ مگراس کا وجود اس قدر عظیم اور لطیف ہے کہ زمانہ کی گردش اور آسمان و زمین کا طول و عرض بھی اس کا احاطہ نہیں کر سکتے اور سارے انسان کی آنکھیں مل کر بھی اس کا ادراک نہیں کر سکتی ہیں اور وہ پوری کائنات کو اپنے قبضۂ قدرت میں کیے ہوئے ہے اور زمین میں چھپے ہوئے کیڑوں سے لے کر سمند ر کی مچھلیوں تک؛ بلکہ ہر جاندار کو اس کی ضرورت کے بقدر روزی پہونچاتا ہے اسی خالق و رازق اور قادر ہستی کو امن و شانتی پھیلانے ،چین و سلامتی باٹنے والے انسان یعنی مسلمان’’اللہ ‘‘ اور ’’خدا‘‘ کہتے ہیں اور اپنے سارے گناہوں کا کفارہ ایک نبی کے ذریعہ دلانے کا عقیدہ رکھنے والے یعنی نصاری اسی خالق کو (GOD) کہتے ہیں ،اورروشنی اور اندھیرے کے دو الگ الگ خالق کو مانے والے یعنی مجوس اسی کو ’’یزداں ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور ہر ہر مقصد کے لیے الگ معبود کا تصور رکھنے والے یعنی ہنود غالباً اسی کو ’’ایشور‘‘بولتے ہیں ۔
حقیقی معبود کی وحدانیت
سب لوگ حوادث اور مصائب میں اسی ایک ہی کی طرف رخ کرتے ہیں ،قحط سالی ہونے لگے تو اسی کو یاد کرتے ہیں ،آندھی کا طوفان آجائے تو اسی کی دہائی دیتے ہیں ،سمندری موجوں میں پھنس جائیں تو اسی کو پکارتے ہیں ،خطر ناک بیماری میں پکڑے جائیں تو تندرستی کی بھیک اسی سے مانگتے ہیں ، موت کی کٹھن گھڑی ہو تو اسی سے فریا د کریں ،گھُپ اندھیرا ،بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک گھیر لے تو اسی کی پناہ مانگیں ،کوئی خوف ناک بلا نکل آئے تو اسی کے نام کا بھینٹ چڑھائیں ،غرض انسانی زندگی میں جتنے بھی مشکل موڑ آتے ہیں خواہ جسمانی اعتبار سے ہو یا کاروباری لائن سے ہو اور سارے ہی انسانوں کا تجربہ ہے کہ ایسی مصیبتوں میں ان میں سے کوئی چیز بھی مدد کو نہیں آتی جس پر انسان نے بھروسہ کیاجن کو مشکل کشا سمجھا ،جن پر اس لیے اعتماد کیا تھاکہ مصیبت کے وقت میں کچھ کام آسکیں گے؛ لیکن انسا ن نے دیکھ لیا کہ سب سے زیادہ وہی بے وفا ثابت ہوئے ایسا جیسے کہ انسان کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہی نہیں ؛ حالانکہ برسوں ان کی منت سماجت کرتے رہے ان کی خوشامداور ہاتھ جوڑ کر ان کو خوش رکھنے کی تدبیریں کرتے رہے؛ یہاں تک کہ اپنے جسم کا سب سے اونچا حصہ جو قسمت کامرکز سمجھا جاتا ہے اسے بھی ان خیالی معبود کے سامنے جھکا دیا؛ بلکہ زمین پر رکھ دیا۔ آفت و مصیبت کے وقت میں یہ معبود مدد توکیا کرتے کبھی ایسا نہ ہوا کہ کم از کم تسلی کے دو بو ل بھی بول دیتے ۔ ہمیں اپنی پتھریلی خوبصورت آنکھ سے مصیبت زدہ دیکھ کر کبھی ان کی آنکھوں میں نہ آنسو آئے اور نہ انہوں نے کوئی حرکت کی۔ بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جس سے نفع کی امید لگائے بیٹھے رہے وہ نفع تو کیا پہونچاتے الٹا ہماری ہلاکت کا ذریعہ بن جاتے ہیں ؛ اس لیے جب کبھی سخت مصیبت آتی ہے تو دل کی آوازیہی آتی ہے کہ اس ذات سے فریاد کرو جس کو مسلما ن ’’اللہ‘‘ کہتے ہیں وہی حقیقی دانا و بینا ہے ،وہی واقعی نفع و ضرر کا مالک اور قادر ہے۔
اللہ کی کبریائی اور وحدانیت کا اقرار
اسی کا وجود حقیقی وجود ہے اس کا علم ساری مخلوق سے بڑھ کر، اس کی قدرت سب سے عظیم ،اس کا سننا سب سے اعلی ،اس کا دیکھنا سب سے بلند ،اس کا کلام سب سے عجیب ،اس کا ارادہ سب سے انوکھا،ا س کا کام سب سے مضبوط اوراس کی ذات سب سے نرالی ہے ، لیس کمثلہ شئی، خلاصہ یہ کہ جب سارے کمالات کا وہی مالک ہے اور ساری بڑائیوں کا وہی مستحق ہے تو ہر مخلوق اور ہر انسان کی فطری آواز اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ ہی سب سے بڑے ہیں اسی کو انسا ن کی سب سے قدیم مادری زبان یعنی عربی میں ’’اللہ اکبر ‘ ‘ کہتے ہیں ،فارسی میں ’’خدا بزرگ ترین است‘‘انگریزی میں (GOD IS GREAT) بولتے ہیں اور گجراتی میں کہیں گے’’ایشور سو تھی موٹو چھے‘‘۔۔۔۔۔۔
اس کی بڑائی کی چھاپ زمین کے چپہ چپہ میں ،درخت کے پتہ پتہ میں ،مٹی کے ذروں میں ، پانی کے قطروں میں ،ہوا کی لہروں میں ،سمندر کی موجوں میں ،سورج کی شعاعوں میں ،آگ کے انگاروں میں ،خاک کی شرافت میں ،انسان کے سینوں میں ،سمندر کے سفینوں میں ،آسمان کی بلندی میں اور زمین کی گہرائی میں غرض کائنات کی ہر چیز میں اس کی بڑائی کی چھاپ موجود ہے؛ اس لیے دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہے، آفاق کے چاروں سمت میں یہ آواز گونجتی ہے اور گونجنی بھی چاہیے ’’اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر‘‘۔
بھائیو آپ جانتے ہیں کہ یہ مرغ جو صبح سویرے بلند آواز سے پکارتا ہے یہ اسی کی بڑائی کی بانگ دیتا ہے اورپرندے صبح و شام چہچہاتے ہوئے اسی کی بڑائی کی گیت گاتے ہیں ؛بلکہ بعض پرندے صاف لفظ میں ’’اے پاک تو ،اے دوست تو ‘‘ کی صدا لگاتے ہیں یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی بلوں میں اور مچھلیاں سمندر میں اسی کی بڑائی کے گن گاتے ہیں اس لیے انسان کو بھی ’’اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے ،اللہ سب سے بڑا ہے کی اذان(بانگ) دینا ہی چاہیے ۔اس صدا میں جتنی بلندی ہوگی آواز میں جتنا درد ہوگا ،لہجہ میں جتنا اخلا ص ہوگا،اور دل میں جتنی عظمت ہوگی اتنا ہی اللہ کی رحمت انسانوں پر سایہ فگن ہوگی اور ایشور کی مہربانیوں کا سایہ ساتھ رہے گا۔اورسننے والے اس صدائے فطرت کا جتنا احترام اور قدر کریں گے اتنا ہی بھلائی پائیں گے۔
اسی وجہ سے انسانوں کے اصلی اور فطری مذہب کی تعلیم ہے کہ اپنے محسن اور پالنہار کا نام بلند کرنا رات و دن کے ہر ایسے حصہ میں جب انسان غفلت کا شکار ہوتا ہے ضروری ہے جس کا نفع صرف انسان ہی نہیں ؛ بلکہ چوپائے ، چرند و پرند ،پیڑ پودے، دریا و ندی، زمین و پہاڑ ہر مخلوق کو پہنچتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کی پیدائش کے فوراً بعد بچوں کے کانوں میں ’’اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر‘‘ کی آوازیعنی اذان دی جاتی ہے اور ہر انسان کو دینا چاہیے؛ اس لیے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے؛ تاکہ جس نے پیدا کیا، جس نے دیکھنے ،سننے ،بولنے اور سمجھنے کی قوتیں عطا فرمائی ہیں ،کھانے ،پینے اور پکڑنے اور چلنے کی طاقتیں دی ہیں اسی خالق اور محسن کا نام بچے کے کان میں پڑ جائے؛ تاکہ بچہ بڑا ہو کر اپنے محسن کو نہ بھول جائے اور نہ اس کے محبوب کے طریق کو چھوڑ دے جن کے واسطے سے یہ دولتیں انسا ن کوملی ہیں ورنہ انسانیت کا دشمن شیطان انسان کا دوست بن کر حقیقی مربی سے غافل اور سیدھی راہ سے بھٹکادیتا ہے ایسے عیّار دشمن اور مکار دوست سے بچنے کے لیے بھی یہ اذان ہر انسا ن کی ضرورت ہے۔
اے شرافت کا تاج پہننے والو ! جب خداسے بڑا کوئی نہیں ،اس سے بڑا محسن کوئی نہیں ،اس سے بڑی قوت والاکوئی نہیں ،اس سے بڑی پکڑ کرنے والا بھی کوئی نہیں ، اور نفع و نقصان کا تنہا حقیقی مالک وہی ہے ۔اس کے پاس ہر چیز کا خزانہ ہے ایسا خزانہ جس میں آج تک نہ کمی کی شکایت آئی اور نہ آئندہ اس کا خطرہ کبھی آسکتا ہے؛ اس لیے اس کی بے نیازی بھی سب سے بڑھی ہوئی ہے تو فطرت پکار اٹھتی ہے، عقل سلیم رہنمائی کرتی اور کائنات کی خاموش زبان کہتی ہے کہ پھرہماری ساری نیاز مندیوں کا قبلہ وہی ہے، بندگی اسی کی،پرستش اور پوجا اسی ایک ذات کی ہونی چاہیے یہی صاف و سچی ضمیر کی پکار ہے اسی کاعربی میں ،اشہد ان لا الٰہ الّا اللّٰہ۔سے اعلان کیا جاتا ہے ،باقی شیطان کی خفیہ پالیسی اور نفس کی پوشیدہ چاپلوسیوں نے انسان سے بھی گئی گذری مخلوق کو جس میں نہ سننے کی طاقت نہ بولنے کی صلاحیت نہ دیکھنے کی لیاقت اور نہ چلنے، پھرنے کی طاقت ہے اور نہ نفع پہونچانے اور ضرر سے بچانے کی قوت ہے اسے اپنے خیال میں قسمت کا مالک بنا دیا ہے اور خدائی کا درجہ دے رکھا ہے یہ عمل کسی بھی طرح عقل و دانش رکھنے والے انسان کی طرف سے نہ ہونا چاہیے؛ بلکہ اذان چونکہ فطرت کی آواز ہے اور فطرت پیدا کرنے والے کی مرضی کے مطابق ہے اس کی حقیقت دلوں میں اتر جائے اور وہی زبان پر جاری رہے یعنی ، اشہد ان لا الٰہ الّا اللّٰہ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ پرستش کے لائق کوئی نہیں سوائے اللہ کے۔
ختم رسالت کا اقرار
اے عقل و فہم سے کام لینے والو ! کبھی غور کیا کہ کائنات کا اتنا بڑا نظام پھیلانے اور چلانے کا مقصد کیا انسان کا اس دنیا میں محض کھانا پینا ،عیش و نشاط کے دور سے لذت اندوزہو نا اور پھرگذر جاناہے ۔ہر گز نہیں ؛ بلکہ انسانی کردار اور کارناموں کا ایک حسین گلدستہ پیش کرنا ہے جس سے ساری مخلوق کو راحت و سکون نصیب ہو اس لیے انسانیت کے غمخوارو خیر خواہ،پاک اور مقدس انسان یعنی نبیوں کا سنہرا سلسلہ شروع کیا گیا اور جب جب محسن حقیقی سے بغاوت اور خالق کی نافرمانی کی زہریلی ہوا چلی اور انسان کی سوچ بھٹکنے لگی اور مرغ باد نما کی طرح جدھر دنیاوی اور عارضی نفع کا جھونکا محسوس ہواوہی انسان کا قبلہ بن گیا اور اس نے بارگاہ خداوندی کی طرف سے منہ موڑ لیا تو یہی قوم کے خیر خواہ حضرات انبیاء علیہم السلام انسانوں کے قبلۂ عبادت کو درست کرتے رہے اور’’ یک در گیر محکم گیر ‘‘کا سبق سکھاتے رہے یہاں تک کہ جب عالمی پیمانہ پر انسانیت مردہ ہوچکی تھی لوگوں کے حقوق کی پامالی اور قتل و غارت کے ذریعہ جان و مال کی قیمت یہاں تک گر چکی تھی کہ مظلوم کی سسکیوں کو سننے والا بھی معاشرہ میں کوئی نہیں تھا ،انسان کی بد قسمتی کاپھریرا اڑنے لگا تھا اس کی جبین کی بلندی بے حس و حرکت مخلوق کے سامنے بے حدخم ہوچکی تھی ،تو معبود حقیقی کی حکمت کا تقاضا ہوا ،رحمت الٰہی جوش میں آئی اور دنیا کو ضرورت لاحق ہوئی کہ انسانیت کی ڈوبتی نَیّا کا کھیون ہارایسی بڑی ہستی ہونی چاہیے جس کا جسمانی وجود بھی سب سے اکمل و احسن ہواور روحانی وجود بھی سب سے اعلیٰ اور مقدس ہو وہ انسانیت کا سب سے بڑا جھنڈالے کر آئے اور ذلیل و خوار پیشانی کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر ثُریّاکی بلندی عطا کرے۔
اور یہ کام وہی شخصیت کرسکتی ہے جس کی ذات صداقت و امانت کی پیکر ہو جو ساری مخلوق کا غم گسار اور ہر انسان کا ہمدرد ،مظلوموں کا سہار ا و مددگار ہو اور سب کے نزدیک مقبول و محبوب ہو یہاں تک کہ پیدا کرنے والے نے خود اس کو اپنا سب سے زیادہ پیار دیا ہو یقیناایسی پاک ہستی کا آنا مبارک جس کا کام سیدھی راہ کا بتانا اور اس پر چلنا نجات کا ذریعہ ہو اس کا کردار آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، بھلا ایسے محبوب کا نام لینا کون ناپسند کرے گا اس کا نام ہی کچھ ایسا پیارا ہے کہ عرش والے بھی اس پر قربان اور فرش والے بھی اس پر نچھاور ہونے کے لیے تیار؛ اس لیے کہ بھیجنے والا آقا بھی ان پر مہربان ہے ،ایسا پاک اور خوبیوں والا شخص جس مخلوق میں آیا اس کا ستارۂ اقبال چمک اٹھااور وہ مخلوق ساری کائنات سے اشرف و افضل ہوگئی ،اسی محبوب ہستی کو دنیا کی ایک قوم نصاریٰ کی مذہبی کتاب میں ’’فارقلیط ‘‘لکھا ہے، اورسب سے زیادہ امن و سلامتی پھیلانے اور بھائی چارگی قائم کرنے والی قوم مسلمان ان کو اپنی اصلی اور مذہبی زبان میں ’’محمد‘‘سے یاد کرتے ہیں وہی آخری نبی اورآخری رسول ہیں جس کے آنے کا ذکر آسمانی کتابیں تورات ،انجیل،زبور ،قرآن اور دوسرے انبیاء کی کتابوں میں بھی ہے؛ بلکہ ہنود کی مذہبی کتابوں میں بھی جو’’ اوتار‘‘ کی طرف منسوب ہیں اسی آخری رسول کی آمد کی خبر موجود ہے جن کو بہت سے نبیوں کے پیشوا حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ سے طلب کیا اور جن کے آنے سے کچھ پہلے ایک صاحب عزیمت نبی حضرت عیسیٰؑ نے بشارت بھی سنائی تھی۔
بہر حال وہ اللہ کا دلارا ،کائنات کا پیارا ،انسان کی آنکھوں کا تارا سارے نبیوں کے اخیر میں کہ یہی زمانہ ان کے حق میں مقدرتھا تشریف لائے پس دنیا میں اگر چہ دیر سے آئے؛ مگر سب کے لیے ہر زمانہ کے لیے اور ہر علاقہ کے لیے آئے ،ہر قوم بلکہ ہر مخلوق کے لیے رحمت بن کر آئے اور جس عظیم الشان مشن کے لیے بھیجے گئے اسے اچھی طرح انجام دیا اور رہتی دنیاتک کے لیے اپنا کام اور پیغام ساری انسانیت کو دے کر تشریف لے گئے، ایک سچا اور اچھا انسان بننے کے لیے اس آخری رسول کابھی دل سے ماننا ضروری ہے پس ایسی ہی پاک اور مقبول ہستی کاذکر اللہ کے ذکر کے بعد کیا جاتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے اقرار کرتے ہیں ، اشہد أن محمداً رسول اللّٰہ۔اشہد ان محمداً رسول اللّٰہ۔میں دل سے اقرار کرتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔
اِس آخری رسول نے اپنے مشن کا آغاز اس طرح کیا کہ چونکہ دنیا میں پیدا ئش کے مقصد کو انسان نے بھلا دیا تھا اور اپنی ہر آرزو کے لیے ایک مستقل خدا طے کر لیا تھا جب کہ سارے ہی خدا خالق حقیقی کو چھوڑ کر جسم بے جان تھے کہ ان سے کوئی حاجت پوری نہیں ہوسکتی تھی جس کی وجہ سے انسان قلبی طور پر بے چین تھا اور سکون دل کی صحیح راہ نہیں مل رہی تھی؛ اس لیے ایک قادر و مالک ذات کو راضی کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہی حقیقت میں پس پردہ ہر مخلوق کی ضرورت پوری کررہی تھی پس آخری رسول نے سب سے پہلے توحید کی دعوت پیش کی؛کیونکہ سارے کمزور سہاروں کو چھوڑ کر ایک قوی و قادر پالنہار کو دل سے تسلیم کرنے کا سب سے بڑا فائدہ دل و دماغ کا چین و سکون ہے جو در در کی ٹھوکروں میں نہیں ملتا ہے۔
(باقی آئندہ)
———————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :12، جلد:104، ربیع الثانی- جمادی الاول 1442ھ مطابق دسمبر 2020ء
٭ ٭ ٭