از: مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

            دین اسلام میں صحابۂ کرام اور اہل بیت اطہار (رضوان اللہ علیہم اجمعین)کی عظمتِ شان اور بلندیِ مقام کا کون انکار کرسکتاہے؟یہ وہی پاک باز ہستیاں ہیں جن کو رب العالمین نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے چنا، جن کی آنکھوں نے نبی کے رخ انور کا دیدار کیا،جنہوں نے مشکوۃ نبوت سے بہ راہ راست استفادہ کیا، جن کی وساطت اورپیہم قربانیوں سے دین ہم تک پہنچا، قرآن وحدیث کا علم ہمیں حاصل ہوا اور ہم عرفان حق کی منزل تک رسائی میں کام یاب ہوئے۔لہٰذا جس طرح نبی پاکﷺ پر ایمان لانا،آپ سے محبت کرنا ہرمسلمان کے لیے لازم و ضروری ہے، اسی طرح صحابۂ کرام اور خصوصاً اہل بیت سے محبت کرنا بھی ایمان کا جز اورتعلیمات اسلام کا حصہ ہے،جس کے بغیر دین ناقص و ادھورا ہے۔

            یہ حضرات دین اسلام کے نقیب ومنادی، قرآن مجید کے امین وپاسبان اور احادیث مبارکہ کے شارح وترجمان ہیں ،جو اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل اور ہمت وعزیمت،شجاعت وحمیت اور حق گوئی وبے باکی کے علم بردار ہیں نیز اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہمہ وقت سرگرداں ،امت کی اصلاح وتربیت کے لیے مسلسل کوشاں اور دنیا وآخرت میں امت کی کامیابی وکامرانی کے خواہاں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعدسے کربلا تک، حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی دعوت وتبلیغ، جہاد وسرفروشی اور شہادت وجاں سپاری کی ناقابل فراموش خدمات وکارناموں کا ایک زریں تسلسل ہے جس کا تذکرہ ان شاء اللہ قیامت تک جاری وساری رہے گا۔

            اس میں ذرہ برابر کوئی شبہ نہیں کہ جس کو جس قدر نسبتِ قریبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہے اس کی تعظیم و محبت بھی اسی پیمانے پر واجب و لازم ہے اورفطری طور پر انسان اپنی ازواج اور صلبی اولاد سے محبت کرتا ہے؛ اس لیے جہاں ہمیں نبی پاک ﷺ سے محبت کا حکم ہے، وہیں آپ کی آل و اولاد اور آپ کے صحابہ سے بھی محبت کاحکم ہے۔مختصر یہ کہ ُحبِّ اہل بیت وآل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ امت میں کبھی زیر اختلاف نہیں رہا، باجماع واتفاق ان کی محبت وعظمت لازم ہے۔ اختلافات وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں دوسروں کی عظمتوں پر حملہ کیا جاتا ہے ورنہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے عام سادات خواہ ان کا سلسلہ نسبت کتنا ہی بعید ہو ان کی محبت و عظمت عین سعادت واجر ثواب ہے، یہی جمہور امت کا مسلک ومذہب ہے۔

اہل بیت سے کون مراد ہیں ؟

            یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ اہل بیت نبوی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن (جن کی تعداد گیارہ ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریات طیبات رضی اللہ عنہن (جن کی تعداد سات ہے) اور بنو ہاشم کی آل واولاد سب ہی شامل ہیں ؛ کیوں کہ قرآن مجید نے حضرات ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہی کو اہل بیت کہا ہے؛ چنانچہ سورہ احزاب کی آیت تطہیر میں مذکور ’’اہل بیت‘‘ کا لفظ ازواج مطہرات کے لیے استعمال ہوا ہے او را س کی اولین مصداق حضرات ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہی ہیں ، اس آیت کریمہ کا سیاق وسباق بھی اسی کا متقاضی ہے۔ نیز قرآن مجید کی دیگر آیات کریمہ (سورہ ہود اور سورہ قصص) میں بھی بیوی (گھروالی) کو اہل بیتؓ کہا گیا ہے۔ اور اس آیت (آیت تطہیر) کے ذیل میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول منقول ہے۔(فتح القدیر)

اہل بیت کے حقوق

            حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ کے فضائل احادیث و آثار اور اقوال صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ احادیث وسیرت کی مشہور کتابوں میں ان کے فضائل ومناقب کے ابواب قائم کیے گئے ہیں اور بہت تفصیل کے ساتھ ان کے فضائل مذکور ہیں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں ان کے کچھ حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں ، ان حقوق میں سب سے اہم حق یہ ہے کہ حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ کی تعظیم وتکریم کی جائے، ان کے شایان شان ان کا احترام واکرام کیا جائے،ان کا ذکرخیر کیاجائے، ان سے ربط وتعلق رکھا جائے اور ان سے خصوصی محبت وعقیدت کا معاملہ کیا جائے؛ کیوں کہ حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ سے محبت وعقیدت رکھنا کامل ایمان کے حصول کا باعث ہے، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے شکوہ پر نہایت ہی بلیغ وموثر انداز میں ارشاد فرمایا کہ’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوگا، اگر وہ تم (اہل بیت رضی اللہ عنہما) کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وخوشنودی حاصل کرنے کے لیے دوست نہیں رکھے۔ (ترمذی)۔فی الواقع حضرات اہل بیت سے محبت رکھنا، اللہ تعالیٰ ورسول سے محبت کی دلیل ہے، ایک حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’تم (سب) اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو کیوں کہ وہی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نعمتوں سے رزق پہنچاتا ہے اور تمہاری پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی بنا پر مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت رضی اللہ عنہما کو عزیز ومحبوب رکھو‘‘۔(ترمذی) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے پوری امت کو حضرات ازواج مطہرات خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے محبت وعقیدت رکھنے کا حکم عام دیا ہے، حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’پیاری بیٹی! جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تم اس سے محبت نہیں رکھتی؟ حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ! (میں پوری طرح محبت رکھتی ہوں ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تب تم بھی حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے محبت رکھا کرو‘‘۔ (بخاری ومسلم)

            حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا دوسرا اہم حق یہ ہے کہ ان کی سیرت وکردار کو اور ان کے اعمال وافعال کو اختیار کیا جائے، دینی معاملات میں ان کی اتباع وپیروی کی جائے کیوں کہ قرآن مجید کے بعد حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہما ہی اطاعت واقتدا کے قابل ہیں ، احادیث مبارکہ میں ان کی اتباع وپیروی کی تاکید وترغیب بہت ہی موثر انداز میں بیان ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو یہ مژدہ سنایا ہے کہ میں دنیا سے جارہا ہوں ؛لیکن (ہدایت ورہنمائی کے لیے) تمہارے درمیان قرآن مجید اور اپنے خاندان والوں کو چھوڑ رہا ہوں ، میرے بعد جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے،کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک چیز ان میں دوسری چیز سے عظیم تر ہے، وہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) ہے اور وہ آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی رسی ہے، اور دوسری (چیز) میری اولاد، میرے گھر والے ہیں ‘‘۔ (ترمذی) اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم اور اہل بیت کے اتباع کی تاکیدفرمائی ہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ حضرات اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سب کے سب اعلی درجہ کے متبع سنت تھے، اس اعتبار سے ان کی اتباع بھی سنت ہی کی اتباع تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اہل بیت کی طرف اگر کوئی ایسی بات منسوب ہو جو قرآن وسنت کے واضح حکم کے خلاف ہو، تو اس کا قطعاً اعتبار نہیں کیا جائے گا، پیغمبر علیہ السلام کے اہلِ بیت کے اتباع کے حکم کو آڑ بنا کر شیعوں نے حضرات اہل بیت کی طرف بہت سی ایسی باتیں منسوب کی ہیں جو قطعاً خلافِ واقعہ ہیں ۔ حضرات اہل بیت اس طرح کی جھوٹی اور من گھڑت باتوں سے بالکل بری ہیں ، اور امت کے لیے ایسی باتوں پر اعتماد کرنا جائز نہیں ۔حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہما کے مذکورہ بالا حقوق کے علاوہ اور بھی کچھ چھوٹے بڑے حقوق ہیں ، ان میں ’خیر خواہی وہمدردی‘اور ’مددوتعاون‘ سرفہرست حقوق ہیں ۔ (ملخص از خطبات حبان)

اہل بیت نبی کے مجاہدات

            اہل بیت اطہار کی قربانیاں ان کی جدوجہد اور دین کے سلسلہ میں ان کی مساعی جمیلہ بے حد وحساب ہیں ؛اس لیے کہ یہ حضرات اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ تبارک وتعالیٰ کے خصوصی ہدایت یافتہ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی تربیت سے سرفراز ہیں ۔سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح آپ کے اہل بیت کی زندگی بھی سراپا زہد ومجاہدہ تھی، قربانی کے ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل بیت آگے رہتے تھے اور منافع کے ہر موقع پر پیچھے رہتے تھے، روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کو خادم عطا فرمائے؛ مگر اپنی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو ضرورت کے باوجود نہیں دیا؛ بلکہ انہیں تسبیحات واذکار کی پابندی کا حکم دیتے ہوئے اسے خادم سے بہتر بتایا۔ (بخاری شریف)آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہرات بے انتہا قناعت پسند اور صبر شعار خواتین تھیں ، اکثر فقروفاقہ کی زندگی گزارتی تھیں ۔ فتح خیبر کے بعد جب مسلمانوں کو مالی وسعت اچھی خاصی ہوگئی تو ازواج مطہرات کو، جو ظاہر ہے کہ نبی اور صاحب وحی نہ تھیں ، محض امتی تھیں ، فطری طورپر یہ خیال گزرا کہ اب ہمارے نفقہ میں بھی معقول اضافہ ہونا چاہیے، اسی خواہش کا اظہار رسول اللہ ﷺ  کے سامنے کیا اور ذرا تقاضے کے ساتھ۔ رسول اکرم ﷺ   کے قلب مبارک کی اذیت کے لیے دنیا طلبی کی اتنی جھلک بھی بہت تھی، یہ آیتیں اس پر نازل ہوئیں ۔ یہ اختیار دینے کو تو دے دیا گیا؛لیکن اس کے مل جانے کے بعد حضرت عائشہ ؓ سے لے کر کسی ایک بیوی صاحبہ تک نے عیش دنیاکو ترجیح نہ دی، سب کی سب بدستور اللہ و رسول کے ساتھ وابستہ رہیں ۔

            امام ابن ماجہ نے کتاب الفتن میں باب خروج المہدی کے تحت ایک روایت نقل فرمائی ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند نوجوان آئے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا، تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں ، اور آپ کا رنگ بدل گیا، میں نے عرض کیا: ہم آپ کے چہرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور دیکھتے ہیں جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے (یعنی آپ کے رنج سے ہمیشہ صدمہ ہوتا ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لیے اللہ نے دنیا کے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیت مصیبت، سختی، اخراج اور جلا وطنی میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر (خزانہ) طلب کریں گے، لوگ انہیں نہ دیں گے تو وہ لوگوں سے جنگ کریں گے، اور (اللہ کی طرف سے) ان کی مدد ہو گی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جائے گا، (یعنی لوگ ان کی حکومت پر راضی ہو جائیں گے اور خزانہ سونپ دیں گے)، یہ لوگ اس وقت اپنے لیے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خزانہ اور حکومت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانہ کو پائے وہ ان لوگوں کے ساتھ (لشکر میں ) شریک ہو، اگرچہ اسے گھٹنوں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے‘‘۔

المختصر

            آج ملت کا شیرازہ مختلف جماعتوں ،فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوکر ملتِ واحدہ کی شناخت کھوچکا ہے ، ہر جماعت خود کو برحق ،ہر فرقہ خود کو صحیح اور ہر گروہ خود کو جنتی باور کروارہا ہے، ایسے میں ہمیں صحابۂ کرام اور اہل بیت کے طریق کو لازم پکڑنا چاہیے اور نبی اکرم ﷺ کی سنت اورخلفائے راشدین کے طریقے پر عمل پیراہونا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’میری امت۷۳ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے ، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم وہ کونسا گروہ ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ جماعت ہوگی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘(ترمذی )

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:104‏،  ربیع الثانی-  جمادی الاول 1442ھ مطابق  دسمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts