بہ قلم:  ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            غیرافسانوی ادب میں ’’سوانح‘‘ پسندیدہ صنف ہے، کسی بھی فرد کی پیدائش سے موت تک کے خارجی اور داخلی حالات جامعیت کے ساتھ اس صنف میں بیان کیے جاتے ہیں ، اس میں افکار وافعال وقت اور زمانے کی صراحت کے ساتھ محفوظ ہوتے ہیں ، سوانح کے ذریعہ انسان کی چلتی پھرتی متحرک تصویر مصروف عمل نظر آتی ہے، سوانح کے ذریعے صاحبِ سوانح کی سیرت، شخصیت اور سرگزشت کے تمام پہلو سامنے آجاتے ہیں۔  سوانح میں  صاحبِ سوانح کی زندگی کے ساتھ اس کے گردوپیش کی تاریخ، تہذیب اور معاشرت بھی سوانح کا حصہ بن کر نظر آنے لگتی ہیں ، لکھنے پڑھنے کے رواج سے پہلے سینہ بہ سینہ زبانی حالات بیان ہوتے تھے، اس میں افسانویت کا رنگ پڑجاتا تھا، اٹھارہویں صدی میں سوانح نگاری میں پختگی آئی، اسلام کے آنے کے بعد سب سے پہلے اس فن کی تدوین پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے توجہ دی۔ امام زہری کی ’’مغازی‘‘ سامنے آئی، اردو زبان میں انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں سوانح عمری لکھنے کی روایت شروع ہوئی، دارالعلوم دیوبند کے اولین صدرالمدرسین مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ نے ۱۸۸۰ء/۱۲۹۷ھ میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا ’’خاکہ‘‘ سوانح عمری کے نام سے مرتب فرمایا، یہی تصنیف ’’خاکہ نگاری‘‘ کی اولین مثال بن گئی،اس کے بعد اردو میں دوسری سوانح نگارشات، تذکرہ، خاکہ اور سوانح عمریوں کی شکل میں سامنے آئیں ، سوانح نگاری میں دوسرے اہلِ قلم کی طرح علمائے دیوبند کی نگارشات بھی کتب خانوں کی زینت ہیں ؛ مگر افسوس کہ تاریخ ادب میں ان کاذکر اس طرح نہیں کیاگیا، جس کے وہ مستحق ہیں ۔

            حضرت مولانا سیّدمحمد میاں دیوبندیؒ علمائے دیوبند میں عظیم ترین قلم کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ، تاریخ نویسی اور سوانح نگاری میں ان کا مقام بہت اونچا ہے، موصوف علم وعمل اور فضل وکمال کی زمین دیوبند سے تعلق رکھتے تھے، ۱۲؍رجب المرجب ۱۳۲۱ھ مطابق ۴؍اکتوبر ۱۹۰۳ء کو ضلع بلندشہر میں پیدا ہوے، جہاں آپ کے والد ماجد سیّدمنظور محمد محکمہ نہر میں ملازم تھے۔

            ابتدائی تعلیم مظفرنگر میں حاصل کی، فارسی سے فضیلت تک ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۲ء – ۱۳۴۳ھ/ ۱۹۲۵ء) دارالعلوم دیوبند میں پڑھا، شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی امروہوی، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اور علامہ نورشاہ کشمیری سے حدیث شریف پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت شیخ الادب کے مشورہ سے فراغت کے بعد ۱۹۲۶ء میں بہار کے مدرسہ حنفیہ آرا، شاہ آباد میں تدریسی خدمات پر مامور ہوے، تین سال تک وہاں رہے؛چوں کہ مدرسہ کو سرکاری تعاون ملتا تھا؛ اس لیے چھوڑ دیا، اس کے بعد مدرسہ شاہی مرادآباد میں مدرس ہوے، علیا کی کتابیں پڑھائیں ۔

            ۱۹۲۹ء /۱۳۴۸ھ میں جب جمعیۃ علماء ہند نے تحریک آزادی اور سول نافرمانی شروع کی تو مولانا نے جمعیۃ کا ساتھ دیا، متعدد بار جیل جانے کی نوبت آئی، پھر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۶۵ھ میں جمعیۃ علماء ہند کے ناظم کی حیثیت سے دہلی میں قیام فرمایا، جمعیۃ میں آپ کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ بھاگل پور اور بھوپال کے فساد کے موقع سے بھی آپ کی  خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ ۱۹۶۳ء /۱۳۸۳ھ میں جمعیۃ علماء ہند کی نظامت سے دست بردار ہوکر دوبارہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا؛ چنانچہ مدرسہ امینیہ کشمیری گیٹ دہلی میں حدیث شریف پڑھانے لگے اور دم واپسیں تک صدارت افتاء اور مشیخیت حدیث کا سہرہ آپ کے سر رہا۔

            موصوف کی بعض کتابیں نصاب میں شامل ہیں ، مثلاً دینی تعلیم کے رسائل کے بارہ حصے، تاریخ اسلام، ہمارے پیغمبر اور روزہ وزکوٰۃ اور مشکوٰۃ الآثار ومصباح الابرار آخرالذکر کتاب دارالعلوم دیوبند کے نصاب سوم عربی میں داخل ہے۔ اور ناچیز کو اس کی تدریس کا شرف حاصل ہے۔ ’’سیرتِ محمد رسول اللہ‘‘، ’’حیات شیخ الاسلام‘‘ اور ’’اسیرانِ مالٹا‘‘ وغیرہ ان سب نے تاریخی مراجع کی حیثیت حاصل کرلی ہیں ، تاریخ اور اس کے تجزیہ وتقابل پر ان کا قلم بہت عمدہ چلتا تھا، ’’تحریک شیخ الہند‘‘، ’’عہد زریں ‘‘ (دوجلدیں ) ’’جمہوریت اپنے آئینے میں ‘‘، ’’صالح جمہوریت اور تعمیر جمہوریت‘‘، ’’آنے والے انقلاب کی تصویر‘‘ اور ’’سیاسی واقتصادی مسائل اور اسلامی تعلیمات واشارات‘‘ کے مطالعہ سے کوئی مؤرخ اور قاری متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

            فقہ میں نورالایضاح کی شرح نور الاصباح بہت عمدہ ہے، مقالہ نگار نے دارالعلوم دیوبند میں معین مدرسی کے زمانے ۱۹۹۸ء میں اس سے استفادہ کیا ہے۔

            تعلیم وتدریس کے اصول وضوابط پر اساتذہ کے لیے ایک بڑی قیمتی کتاب تصنیف فرمائی،اس کا نام: ’’مسئلہ تعلیم اور طریقۂ تعلیم‘‘ رکھا۔ خطرناک نعرے اور جمعیت علماء ہند کا صراطِ مستقیم، اسلام اورانسان کی حفاظت وعزت ہندوستان شاہانِ مغلیہ کے عہد میں ، ’’مختصر تذکرہ خدمات جمعیت علماء ہند‘‘ دین کامل، حیات مسلم، چاند تارے اور آسمان، ہماری اورہمارے وطن کی حیثیت اور ترکِ وطن کا شرعی حکم، پانی پت اور بزرگانِ پانی پت یہ سب مولانا دیوبندی کی اہم ترین تصانیف ہیں ۔ آپ کی سیاسی اور تصنیفی خدمات دستاویزی یادگار ہیں ۔

            ۱۶؍شوال المکرم ۱۳۹۵ھ مطابق ۲۲؍اکتوبر ۱۹۷۵ء بہ روز بدھ چوہتر سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی، دہلی میں تدفین عمل میں آئی۔

             (تفصیل کے لیے دیکھیے: مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ)

            حضرت مولانا کی سوانحی تصانیف میں چند تصانیف نمایاں حیثیت کی حامل ہیں :

۱- سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات پر بہت لکھا گیا، لکھاجارہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا، قرآن پاک کے بعد سیرت پاک ہی ایسا دریا ہے، جس کاکوئی کنارہ نہیں ،اس کی تہ کا کوئی اندازہ نہیں ،  ’’لَا تَنْقَضِي عَجَائبہٗ‘‘  کے شواہد صرف انھیں دونوں موضوع میں ملتے ہیں ، حضرت مولانا سیّد محمد میاں دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے سوانح نبوی پر قلم اٹھایا تو بہترین تصنیف سامنے آئی اس میں مطالعۂ سیرت کا نچوڑ پیش فرمایا، اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں سیرتِ نبوی کے تبلیغی اور اخلاقی پہلوکو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے، اسی سے متعلق مواد اکٹھا کیے گئے ہیں ، اندازِ بیان کی ندرت اور حوالہ جات کی قطعیت نے کتاب کے حسن واعتماد میں خوب اضافہ کیاہے۔

            یہی وہ تصنیف ہے جس کو خود مصنف اپنی ساری تصانیف پر مقدم خیال کرتے تھے اوراس کو ’’اپنی زندگی کا شاہ کار‘‘ کہا کرتے تھے۔

۲- علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے

            یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں ۱۸۵۷ء کے بعد سے قیام دارالعلوم اور اس کے بعد کے حالات درج ہیں ، سب سے پہلے ہندوستان کی حالت، ہندوستانی باشندوں کے بنیادی مزاج ومذاق پر گفتگو ہے، خصوصاً مسلمانوں کے دینی احوال اور ان کی مجاہدانہ طبیعت کو حوالہ جات سے ثابت کیا ہے، پھر دین کی حفاظت وصیانت، دارالعلوم دیوبند کا پس منظر، خاندانِ ولی اللّٰہی کی جانشینی پر گفتگو کی ہے، پھر دارالعلوم دیوبند کے اولین بزرگان کی حیات اورمختصر خدمات کو بیان کیا ہے، مثلاً بانی دارالعلوم دیوبند حضرت حاجی سیّدعابد حسین، مولوی مہتاب علی، شیخ نہال احمد، شیخ ذوالفقار علی، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے لائق وفائق شاگرد شیخ  الہند مولانا محمودحسن دیوبندی وغیرہ حضرات کی زندگی اور ان کی خدمات کو قدرے اختصار سے بیان فرمایاہے۔

            بلاتکلف یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب سوانح کم اور تاریخ زیادہ کی حکایت کرتی ہے، بات جو بھی پیش کی گئی ہے اس کے مأخذ کی طرف اشارہ ضرور کیاگیا ہے۔

            اس کا دوسرا حصہ جنگ عظیم دوم سے آزادیِ ہند تک کے احوال پر مشتمل ہے، یعنی ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۷ء تک کی تاریخ اس میں رقم کی گئی ہے، اس درمیان جن علمائے کرام نے دین کی حفاظت میں حصہ لیا، ان کے حالات بھی درج ہیں ، خاص طور سے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، اس میں بہت سی باتیں موصوف کی مشاہداتی ہیں اور بہت سے مندرجات کو حوالوں سے نقل فرمایا ہے۔

۳- اسیرانِ مالٹا

            پانچ شخصیات جو مالٹا کی جیل میں رہے، ان کی سوانحی اور قید وبند کی زندگی کے احوال  اس میں درج ہیں ، یعنی حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندیؒ اور حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا عزیرگل، مولانا وحیداحمد مدنی اور حضرت حکیم نصرت حسین؛ ان پانچوں حضرات کا اس میں ذکر ہے۔ اولین دو شخصیات پر تو خوب لکھا گیا؛ مگر بقیہ تین شخصیات پر دوسری کتابوں میں مواد بہت کم ہے۔

            مولانا سیدمحمد میاں صاحبؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے سب کے احوال کو قلم بند فرماکر ان کے ذکر کو دوام کا جامہ پہنادیا، راقم حروف کا خیال ہے کہ اس کا زیادہ تر مواد حضرت مولانا سیّداصغرحسین میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’حیات شیخ الہند‘‘ اورنقش حیات (خودنوشت حضرت مدنیؒ) سے لیاگیا ہے، اس کے علاوہ دوسرے مراجع بھی موصوف کے پاس تھے، مثلاً: مکتوبات شیخ الاسلام، سفرنامہ اسیرمالٹا، پیغام آزادی ومدنی، سوانح قاسمی، کابل میں سات سال، روح روشن مستقبل وغیرہ۔

۴- علمائے ہند کا شاندار ماضی

            یہ ان کی مایہ ناز تصانیف میں سے ہے، اس تصنیف میں علمائے ہند کے کارناموں کو بیان کیاگیا ہے، جس سے انگریزی حکومت کو غصہ آیا، کتاب ضبط کرلی گئی اور مصنف کو جیل میں ڈال دیاگیا، پھر چند دنوں کے بعد رہا ہوے تو مزید حوصلہ بڑھا اور اگلی کتاب ’’علمائے حق اوران کے مجاہدانہ کارنامے‘‘ کے نام سے دوجلدوں میں تصنیف رمائی۔ غرض یہ کہ مذکورہ بالا کتاب چارجلدوں میں مکمل ہوئی ہے، حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے بات شروع کی ہے اور ہندوستان کی آزادی پر لاکر ختم کی ہے، اس درمیان کے تقریباً سارے اہم ترین کارنامے اس میں شامل ہوگئے ہیں ، ہندوستان کے تین مجددین کے کارناموں کو تفصیل سے لکھا گیا ہے، پہلے مجدد الف ثانی، پھر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہم اللہ اور ان کے معاصرین کے علمی اور سیاسی کارناموں کو ان میں سمیٹا گیا ہے۔

            پہلی جلد: اس میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اوران کے معاصرین، خلفاء، خلفائے خلفاء، سلطنت مغلیہ کے چار تاج داروں (اکبر، جہاں گیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب) کے حالات وواقعات کو قلم بند کیاگیا ہے۔ اس درمیان کی سیاسی، معاشی ماحول میں علمائے امت کی مجاہدانہ اصلاحی سرگرمیوں اور اُن کے نتائج پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

            تصنیف کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ایک ناکارہ وسرگرداں نے دیدہ ریزی اور دل سوزی سے ہزارہا اوراق کو پلٹ کر ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔۔۔۔ التجا ہے کہ

ہم نے اپنے مقدس اکابر کو زُہد، تقشف، چلہ کشی، شب بیداری، سُبحہ خوانی، سجدہ ریزی کے چشمہ سے دیکھاتو بہت جلیل القدر اور عظیم الشان نظر آئے، آئیے اب مکہ کی مظلومیت، طائف کی مقہوریت، ہجرتِ وطن، ترکِ اقارب، غارثور کی روپوشی، بدر کی نصرت،اُحد کی شہادت، فتح مکہ کی مسرت، حنین وثقیف کی سطوت، تبوک کی شوکت وغیرہ وغیرہ سُنَن جہاد وسیاست کے چلمن سے نظر ڈالیں ، کیسے نظر آتے ہیں ؟ ہمارا حال ماضی کا ثمرہ اور مستقبل کا سنگ بنیاد ہے، آئیے تاریخ ماضی سے اپنے مستقبل کے لیے کچھ سبق حاصل کریں !‘‘ (علماء ہند کا شان دار ماضی ۱/ج)

            حضرت مجدد الف ثانی کے اوصاف حمیدہ، حلیہ، اتباعِ سنت اور اشاعتِ اسلام کے جذبات کو بڑے ہی اچھے انداز میں بیان فرمایا ہے، ’’علمائے سو اور صوفیائے خام‘‘ کا بھی ذکر ہے جنھوں نے حضرت مجدد کو دربار میں سجدہ کرنے کا حکم صادر کروایا اور حکم عدولی کی سزا کے طورپر جیل کی راہ دکھائی؛ مگر حضرت نے جیل میں بھی اشاعت اسلام کا کام جاری رکھا، سارے بدمعاش نیک صفت ہوگئے، رہائی ملی تو بادشاہ نے فوج میں اپنے ساتھ رہنے کا حکم دیا، بادشاہ بھی متاثر ہوا اور حضرت سے معافی مانگی اور مکمل طور پر آزاد کردیا۔ پھر حضرت نے دربار سے قریب لوگوں سے رابطہ کیا، بالآخر اکبری فتنہ ختم ہوگیا، ان کی ساری تفصیلات ’’الفرقان‘‘ مجدد نمبر میں موجود ہیں ۔

            اسی جلد میں ’’تحریک مہدویت‘‘ کا بھی ذکر ہے، سیدمحمدجون پوری نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا، اس کی ابتدائی حالت اچھی تھی،اندازِ خطابت پُرکشش تھا، اس کے دعویٰ سے عبداللہ نیازی اور شیخ علائی بھی متاثر ہوئے۔

            حضرت مجدد الف ثانی کا زمانہ ۱۰۰۰ھ/ ۱۵۹۱ء سے شروع ہوا، اس کے بعد تیس سال تک جن اہلِ علم نے ان کے ساتھ رہ کر خدمات انجام دیں ، ان کی تعداد دو سو سے زائد ہے، ان سب کے احوال ذکر نہیں کیے گئے ہیں ، صرف چالیس کے قریب علماء کے احوال ’’معاصرین‘‘ کے عنوان سے انھوں نے ذکر کیے ہیں ، جن کا تعلق ہندوستان کی سیاست سے رہا، یا جنھوں نے کم از کم درس وتدریس کے ذریعہ سے اشاعتِ علم اوراصلاحِ خلق کی کوشش کی۔

            انھیں میں مشہور فقیہ ملا جیونؒ بھی ہیں ، جنھوں نے عالم گیر اوران کے صاحب زادے شاہ عالم کو پڑھایا، ان کی کتاب ’’نوالانوار‘‘ دارالعلوم دیوبند میں داخل نصاب ہے، جس کی تدریس کا شرف ناچیز کو بھی حاصل ہے۔ آیاتِ احکام کی تفسیر ’’تفسیراتِ احمدیہ‘‘ کے نام سے انھوں نے لکھی یہ بھی بڑی مقبول ہوئی۔

            اس میں ’’فتاویٰ عالم گیری‘‘ کا بھی ذکر ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر رحمۃ اللہ علیہ نے ملک بھر کے بڑے بڑے فقہائے کرام کو جمع فرمایا تھا، ان سب کا نگراں ملا نظام کو بنایا تھا، دولاکھ روپے اس کی تدوین میں صرف ہوے، خود بھی ایک دو صفحہ روزانہ دیکھتے تھے، موصوف متقی وپرہیزگار تھے، اپنے ہاتھ سے قرآن کریم کی کتابت کیا کرتے تھے، ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن پاک کا چوبیسواں پارہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں موجود ہے، مقالہ نگار نے اس کا بارہا مشاہدہ کیا ہے۔

            پہلی جلد کے تیار کرنے میں موصوف نے بیالیس مآخذ سے استفادہکیا ہے، ان سب کی تفصیلات فہرست مضامین سے پہلے درج ہیں ۔ طوالت کے خوف سے اُن کونقل نہیں کیا جارہا ہے۔

            دوسری جلد: دوسری جلد میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے سیاسی اور اقتصادی نظریات اُن کی تعلیم وتربیت کے مرکز، حضرت شاہ عبدالعزیز کی سیاسی خدمات اور آپ کے مشہور فتوی اوراس کے قوی ترین اثرات کا ذکر ہے، اسی طرح حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید اور ان کے رفقائے کار کے مجاہدانہ کارنامے بیان کیے گئے ہیں ، اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے نصف اوّل کا سیاسی ماحول، شاہانِ اودھ، حافظ رحمت خان شہید، روہیلے اور مرہٹے، مرہٹوں کی قلیل مدتی حکومت کا بھی ذکر ہے، اسی طرح لفظ ’’وہابی‘‘ کی تشریح بھی کی گئی ہے۔

            ’’یہ لفظ ہندوستانی زبان کی ڈکشنری میں انیسویں صدی میں داخل کیاگیا اور اس مذہبی لفظ سے وہ عظیم الشان سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے جو لاکھوں انسانوں کی قربانی اور کروڑوں اربوں روپے کے خرچ کرنے سے بھی نہیں حاصل ہوسکتے تھے۔‘‘ (علمائے ہند کا شان دار ماضی ۲/۲۲۶)

            نجد کے ایک شخص محمد بن عبدالوہاب نے محمد بن سعود کے ساتھ حرمین شریفین پر حکومت کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تو اس وقت کی حکومت جو شریف حسین مکہ کے ہاتھ میں تھی اس کو باغی اور حرمین کا مخالف کہہ کر بدنام کیا، حجاج کرام کے درمیان حکومت اسلامیہ کا باغی قرار دے کر شہرت دی، وہابی کہہ کر بدنام کیا، پوری دنیا میں ان کو لوگ وہابی کہنے لگے، اب یہ بددین کا مترادف ہوگیا اور گالی کی طرح استعمال ہونے لگا، ہندوستان کے رضاخانی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اہل حدیث کو وہابی کہنے لگے، اورکبھی دیوبندی مکتبِ فکر کے حامل کو بھی وہابی کہنے سے باز نہ آئے؛  حالاں کہ اِن سے اُن کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اس طرح کی بہت سی علمی اور تاریخی معلومات اس جلد میں موجود ہیں ۔

            تیسری جلد: تیسری جلد میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریککادوسرا دور ذکر کیاگیا، علمائے ’’صادق پور‘‘ اور ان کے پُراسرار مجاہدانہ کارنامے بیان ہوے ہیں ، ایک عظیم ترین انقلابی تحریک جس کو ۱۸۵۷ء کا خونیں طوفان بھی مٹانہ سکا، جس کے لیے انگریزوں کو بار بار فوج کشی کرنی پڑی، گرفتاریاں ہوئیں ، سزائیں دی گئیں ، حضرت مولانا عنایت علی غازی کا کارنامہ بھلایا نہیں جاسکتا؛ حضرت مولانا محمد جعفر تھانیسری کو سرکاری گواہ بنانے کے لیے بارہ گھنٹے زدوکوب کیا گیا، پہلے پھانسی کا حکم ہوا، پھر کالا پانی میں قید کی سزا ہوئی، ان کے بھائی مولانا احمداللہ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، تمام جائیدادیں قُرق کرکے نیلام کردی گئیں ، گھر سے عورتوں اور بچوں کو نکال کر مکانات مسمار کردیے گئے۔ خاندانی قبرستان کھدواکر مردوں کو پھنکوادیاگیا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ  ’’وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْن‘‘ الخ  پڑھ کر تسلی دے رہے ہیں : شکر کرو کہ تم ایسے امتحان کے لائق ٹھہرے۔ یہاں پر یہ جلد پوری ہوگئی ہے۔

            حضرت مولانا محمد جعفر تھانیسریؒ نے ’’تواریخ کالا پانی‘‘ کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھی ہے، جو پہلے نایاب تھی، کچھ دنوں پہلے دیوبند کے مکتبہ حجاز سے راقم حروف نے حاصل کرکے اس کا دوبارہ مطالعہ کیا۔ بڑی معلوماتی کتاب ہے۔

            چوتھی جلد: چوتھی جلد بڑی اہمیت کی حامل ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جلد میں ۱۸۵۷ء/ ۱۲۷۴ھ کی مکمل داستان موجود ہے، اس میں اس کے سارے اجزاء کا باریکی سے جائزہ لیاگیا ہے، اسباب ووجوہات پر نئے انداز سے بحث کی گئی ہے، مجاہدین کے کارناموں کو اچھوتے انداز میں بیان کیاگیا ہے، اس میں بہت سے ایسے بزرگوں کا تذکرہ ہے جن کا ذکر دوسری کتابوں میں اتنی جامعیت کے ساتھ نہیں ملتا۔

جذبات سے لبریز انتساب

            تحریکِ ازادی کے ایک عظیم مجاہد جناب نوشہ خان تھے انھوں نے آزادیِ وطن کی خاطر اپنے بچوں کو بھوکا رکھا، گرفتار ہوے، جیل کی سزا کاٹی، ۱۹۳۸ء میں یوپی کونسل کے لیے الیکشن میں کام کرتے رہے، دن بھر بھوکے رہے، جنوری کا مہینہ تھا سخت سردی تھی، کپڑے بھی کافی نہ تھے، نزلہ، زکام ہوا، بخار نمونیہ ہوگیا، اگلے دن مرادآباد واپس آکر وفات پاگئے۔ مولانا دیوبندی لکھتے ہیں :

            ’’یہ کتاب ایسے ہی جاں باز وایثار شیوہ مجاہدینِ حریت کی خدمت میں نذر ہے، جن کی قربانیوں نے ایثار واخلاص کی عظیم الشان مثال قائم کی؛ مگر وہ خود سنگِ بنیاد کی طرح ایسے اوجھل ہوے کہ نہ کامیاب ہونے والوں کی نظر یں ان پر پڑیں اور نہ تاریخ ان کے آثار ونشانات کو محفوظ رکھ سکی۔ (علمائے ہند کا شان دار ماضی ۴/۶)

نامور علماء وفضلاء

            ۱۸۵۷ء/۱۲۷۴ھ کی داستان بیان کرنے کے بعدمؤلف نے چند بڑے اہل علم وفضل کا ذکر فرمایا ہے، جنھوں نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا، اذیتیں برداشت کیں ، قوم وملت کے لیے اور دین کی بقا کے لیے محنتیں کیں ، ان میں سرفہرست (۱) حضرت مولانا مفتی صدرالدین خاں آزردہؔ، ان کے والد کا نام مولانا لطف اللہ تھا، کشمیر کے رہنے والے تھے، مدرسہ غازی الدین کشمیری گیٹ دہلی میں استاذ اور صدرالصدور تھے، اس مدرسہ کو انگریزوں نے کالج میں بدل دیا تھا، اس کا نام ’’قدیم دہلی کالج‘‘ ہوگیا، آزادی کے بعد اس کا نام ’’ذاکرحسین کالج‘‘ ہوگیا، اب اسی نام سے جانا جاتا ہے،اس میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی پڑھتے تھے، وہیں حضرت آزردہؔ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا، تمام علوم؛ صرف،  نحو، منطق، فلسفہ، ریاضی، معانی، بیان، بدیع، ادب،انشاء، فقہ، حدیث اور تفسیر سب میں درک حاصل تھا، ذوقِ شعر وسخن میں جوانانِ عاشق مزاج سے زیادہ مذاق رکھتے تھے، عربی فارسی اور اردو میں عمدہ شعر کہتے تھے۔۔۔ اشعار کے پڑھنے میں نہایت دل شگاف آواز، لحن حزیں اور صوت دردانگیز رکھتے تھے، جس نے آپ کی زبان سے سخن موزوں سنا ہے، وہی اس کی کیفیت جانتا ہے کہ انشاء وشعر تھا، یا ایجادِ سحر۔ (علمائے ہند کا شان دار ماضی ۴/۳۳۰ بحوالہ حدائق الحنفیہ)

            شعراء اصلاح لینے آتے تھے، سیاست میں بڑی بصیرت حاصل تھی انقلابی سرگرمیوں میں خاموش دلچسپی لیتے تھے۔

            ان کی زندگی کے ایک پہلو سے راقم حروف کو تشویش تھی کہ اس زمانے میں انگریزوں سے وفاداری کا ان پر الزام تھا؛ مگر حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کی تحریر میں اس اشکال کاجواب نظر آیا:

            ’’(ایسٹ انڈیا) کمپنی کی حکومت کی طرف سے آپ کو تنخواہ ملتی تھی؛ مگر یہ صرف ایک ضابطہ کا تعلق تھا، آپ کے دل کالگائو اور آپ کی حقیقی وفاداری سلطنت مغلیہ کے آخری نشان ’’بہادرشاہ ظفر‘‘ کے ساتھ مخصوص تھی، اسی پر آپ کو فخر اور ناز تھا‘‘ (علمائے ہند کا شان دار ماضی ۴/۲۲۶)

            یہی وجہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ پر سب سے پہلے دستخط کیے، وہ فتویٰ آج بھی موجود ہے۔ بہت دنوں تک قید میں رہنا پڑا، تنخواہ بند ہوگئی، نوکری موقوف ہوگئی، جائیداد ضبط ہوگئی، جب جامع مسجد دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو دوسال تک مسجد فوجی استعمال میں رہی پھر وہ حضرت آزردہؔ کی محنت سے کھلی، اس کوشش میں مرزا الٰہی بخش بھی تھے؛ غالباً یہ وہی بزرگ ہیں جن کا بنگلہ مرکز حضرت نظام الدین دہلی میں تھا، اسی نسبت سے اس مسجد کو ’’بنگلہ والی مسجد‘‘ کہتے ہیں ۔ (حضرت مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت ص۴۴ ادارہ اشاعت دینیات دہلی ۲۰۰۲ء)

            اخیرعمر میں حضرت آزردہؔ کو فالج کا اٹیک ہوگیا تھا، اکاسی سال کی عمر میں انتقال ہوا، انتقال کی تاریخ ۲۴؍ربیع الاوّل ۱۲۸۵ھ/۱۵؍جولائی ۱۸۶۸ء بتائی جاتی ہے۔

            (۲) دوسری عظیم شخصیت نواب مصطفی خان شیفتہؔ کی ہے، سرسید مرحوم نے ’’آثار الصنادید‘‘ میں ان کا ذکر فرمایاہے۔ شیفتہ شاعر منش نواب زادہ ہی نہیں تھے؛ بلکہ شعر وسخن میں فیض شناس، سخن داں ، نکتہ سنج، نکتہ داں ، اخلاق وخصائل میں مہبط انوارِ سعادت، متقی وپرہیزگار اور زاہد شب زندہ دار تھے، انگریزوں کی مخالفت میں قیدوبند کی صعوبتیں اٹھائیں ، ۱۸۶۹ء/۱۲۸۵ھ میں انتقال ہوا، درگاہ نظام الدین میں تدفین عمل میں آئی۔

            (۳) صہبائی شہید: موصوف بہت سے فنون میں کمال رکھتے تھے، خصوصاً علم عَروض اور شاعری میں بڑا کمال حاصل تھا، انگریزوں نے کٹرہ مہرپرور کے سارے مردوں کو ایک ساتھ دریا کے کنارے کھڑا کرکے گولیوں سے شہید کرڈالا تھا۔ حضرت آزردہؔ کو جب شہادت کی اطلاع ملی توبے اختیار یہ شعر پڑھا:

کیوں کر آزردہؔ نکل جائے، نہ سودائی ہو

قتل اس طرح سے بے جرم جو صہباؔئی ہو

تذکرۃ الرشید کے ایک مضمون کی تردید

            اس کے بعد مؤلف نے میرٹھ، مظفرنگر، سہارن پور، بلندشہر، علی گڑھ اور روہیل گڑھ کے احوال تفصیل سے لکھے ہیں ، اس میں آگے چل کر ’’تذکرۃ الرشید‘‘ (سوانح عمری حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ) کے ایک مضمون کی تردید کی ہے، جس میں حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ نے انگریزی حکومت کے ڈر سے جہاد شاملی کو ایک اتفاقی مڈبھیڑ لکھا ہے۔ ’’علمائے ہند کا شان دار ماضی‘‘ میں اس کی تاویل یہ کی ہے کہ ایسااسلوب محض حالات کے تقاضے کی وجہ سے اختیار فرمایا تھا؛ اس لیے کہ وہ اتفاقی مڈبھیڑ نہیں ؛ بلکہ باضابطہ جہاد تھا۔

            اس کے بعد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا مظہرنانوتوی، مولانا منیر، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، ڈاکٹر وزیرخان، مولانا عبدالجلیل شہید، مولانا فیض احمد بدایونی، منشی ذوالفقارالدین، مفتی عنایت احمد کاکوری اور مولانا فضل حق خیرآبادی کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا ہے، ان حضرات کے کارناموں کو بیان کیا ہے کہ اگریہ حضرات اتنی جاں فروشانہ خدمات انجام نہ دیتے تو آج ہندوستان میں اسلام باقی نہ رہتا۔

            ان میں سے بہت سوں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ، جیسے حضرت مفتی عنایت احمد کاکوری (۱۲۲۸ھ/۱۸۱۳ء- ۱۲۷۹ھ/۱۸۶۳ء) ہیں ، موصوف کو ’’تقویم البلدان‘‘ کے ترجمہ کی وجہ سے جزیرہ انڈمان سے رہائی نصیب ہوئی، آپ نے چالیس فنون میں سے ایک ایک غیرمنقوط مسئلہ منتخب فرمایاتھا، ان میں سے ہر ایک پر چالیس چالیس صفحات لکھنے کا ارادہ تھا، مثلاً تفسیر میں قرآن کی ایک آیت  ’’وَعَلَّمَ آدمَ الأسْمَائَ کلہا‘‘  کو منتخب فرمایا تھا اور حدیث سے  ’’کل مسکر حرام‘‘ کو اور ہرایک پر غیرمنقوط چالیس چالیس صفحات لکھنے کا ارادہ تھا؛ مگر احرام کی حالت میں جہاز جدہ کے قریب پہاڑ سے ٹکراگیا، شہید ہوگئے اور مسودہ ضائع ہوگیا۔ (علمائے ہند کا شان دار ماضی۴/۴۳۸) ان کی کتاب ’’علم الصیغہ‘‘ دارالعلوم دیوبند اور دیگرمدارسِ اسلامیہ کے نصاب میں داخل ہے، کسی کتاب کے دیکھے بغیر تیار فرمایا تھا، راقم حروف کو بارہ سال تک پڑھانے کا شرف حاصل رہا، اسی طرح حضرت مولانا فضل حق خیرآبادیؒ (۱۲۱۲ھ/۱۷۹۷ء-۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ء) ہیں کہ ان کا انتقال جزیرہ انڈمان میں ہی ہوگیا، ان کی کتاب ’’مرقات‘‘ فن منطق میں بڑی معروف ہے، دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارسِ اسلامیہ کے نصاب میں داخل ہے، راقم حروف کو آٹھ سال تک پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔

            مولانا خیرآبادیؒ جہاں بڑے فاضل اور یگانۂ روزگار مدرس ومعلم تھے وہیں شعروسخن کے فن کار اساتذہ میں شامل تھے، ساتھ ہی شطرنج بھی خوب کھیلتے تھے، ان کے معاصر شعراء میں غالبؔ، مؤمنؔ، ذوقؔ، عیشؔ،آزردہؔ، نصیر،ؔ احسانؔ، تسکینؔاور صہبائیؔہیں یہ سب مولانا کے قدرشناس اور مولانا ان سب کے قدرداں تھے۔ یہ جلد حضرت حافظ ضامن شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے تذکرے پر ختم ہے۔

حاشیہ میں ایک تسامح

            حضرت مفتی عنایت احمد کاکوریؒ کی ایک کتاب ’’علم الفرایض‘‘ ہے، اس کا نام تاریخی ہے، ۱۲۶۲ھ میں لکھی گئی ہے، ابجدی حروف کے عدد کے لحاظ سے اس کے عدد اتنے ہی نکلتے ہیں ؛ مگر بعض لوگوں کو یہاں شبہ ہوتا ہے کہ ’’فرائض‘‘ کی ضاد سے پہلے ’’ہمزہ‘‘ کا عدد ایک جوڑا جائے یا ’’ی‘‘ کا عدد دس جوڑا جائے، جو لوگ ہمزہ سمجھتے ہیں ان کو نوعدد کی کمی نظر آتی ہے اور مادئہ تاریخ غلط معلوم ہوتا ہے؛ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ایسے الفاظ میں ’’ی‘‘ کا نمبر جوڑا جاتاہے۔ جیساکہ اس فن کی کتاب ’’محاسن التواریخ‘‘ میں موجود ہے۔ (محاسن التواریخ ص۸ مصنفہ مولانا محمدعثمان پورہ معروف مئو۱۹۸۷ء)

            اتفاق سے حضرت مولانا سیّدمحمدمیاں دیوبندیؒ کو بھی یہاں یہی شبہ ہوگیا، انھوں نے حاشیہ میں لکھا کہ یہ سن صحیح نہیں ہے (علماء ہند کا شان دار ماضی ۴/۴۲۸)؛  حالاں کہ یہ غلط فہمی ’’ی‘‘ کو ’’ہمزہ‘‘ سمجھ لینے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

یو، پی حکومت کی طرف سے ’’علمائے ہند کا شان دار ماضی‘‘ کی ضبطی کا حکم

            یوپی کی انگریزی حکومت نے حضرت مولانا سیّدمحمدمیاں کی مایہ ناز کتاب علمائے ہند کا شان دار ماضی کی ضبطی کے احکامات جاری کیے، جس پر جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ نے ۱۳، ۱۴؍جولائی ۱۹۴۰ء /۷،۸؍جمادی الثانیہ ۱۳۵۹ھ کے اجلاس میں اس بات کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جمعیت اس کو صریح تشدد اور قانون کا بے جا استعمال سمجھتی ہے؛ کیوں کہ وہ کتاب محض ایک تاریخی کتاب ہے، جس میں گزشتہ واقعات کو تاریخ کی کتابوں یا اسانید کے ساتھ جمع کیاگیا ہے، اس ضبطی کا علوم وتصانیفِ جدیدہ کی تدوین واشاعت پر نہایت ناگوار اور ناقابلِ برداشت اثر پڑے گا۔ (جمعیت علمائے ہند کیاہے؟ ص۳۱۴، الجمعیۃ بک ڈپو، دہلی)

            ’’علمائے ہند کا شان دار ماضی‘‘ کی دوسری جلد کی تمہید میں لکھتے ہیں :

            ’’علمائے ہند کا شان دار ماضی‘‘ پہلی مرتبہ ۱۹۳۹ء/۱۳۵۸ھ میں شائع ہوا، برطانوی دور تھا، جنگ کا زمانہ، فوراً ہی ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے شکنجہ میں کس دیا گیا، کتاب ضبط اور مصنف گرفتار۔

            اس زمانہ کی امنگیں اور تھیں ، جیسے ہی مقدمہ اوراس کی ہلکی سی سزا سے نجات ملی، کتاب پر نظر ثانی شروع کردی‘‘ (علمائے ہند کا شان دار ماضی)

—————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:104‏،  ربیع الثانی-  جمادی الاول 1442ھ مطابق  دسمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts