یہ کس نے زمانے سے پھیری نگاہیں
عظیم محدث ومحقق استاذ الاساتذہ علامہ ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی نعمانیؒ
از: مولانا عبداللہ بن مسعود
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی، ومتخصص فی علوم الحدیث، بنوری ٹائون
ہیں حسیں اور بھی پر تجھ میں ہے بات نئی
دھج نئی، گھات نئی، وضع نئی، بات نئی
وہ ایک پھول تھے جس کی خوشبوسے فضائیں معطر رہتیں ، ایک سائبان تھے جس کے سایہ میں ہر فرد سکون واطمینان کے احساسا ت سے اپنے وجود کو معمور پاتا، ایک شمع تھے جس کی روشنی میں ہر شخص اپنے آپ کو باہمت، حوصلہ منداور ترقی کی راہ پر گامزن محسوس کرتا۔آج اُس شخصیت کی خوشبو سے فضائیں محروم ہیں ، وہ شمع جو تشنگانِ علم کے دیوں کو جلا کر ہمت وحوصلہ سے نوازا کرتی وہ اپنی حیاتِ مستعار کے ایام گزار کر اب ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ہے، آج سن۱۴۴۲ھ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے تلمذ و بیعت کا عظیم تعلق رکھنے والی عظیم ہستی حضرت استادِ محترم ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتیؒ ۹۱ سالہ زندگی گذار کر اِس دارِ فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرگئی ہے اور ہزاروں شاگردوں ، متعلقین،منتسبین واہل خانہ کواپنی جدائی کے غم میں مبتلا کرکے ایک بڑا خلا پیدا کرگئی ہے۔
استاد محترمؒ بڑے عظیم انسان تھے ، وہ راقم کے استاد بھی تھے اور مربی بھی، محسن بھی تھے اور مشفق بھی، محبوب بھی تھے اور مُحب بھی۔اُن کی کل زندگی کا اثاثہ مدرسہ، طلبہ اور کتابیں تھیں ،کتابوں سے بے پناہ محبت اور لگاؤ تھا، گھر میں جدھر نظر اٹھاؤ چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آتیں ، الماریوں کے اوپر چھت تک کتابیں بھری رہتیں ، جب بھی کسی کتاب کا علم ہوتا جب تک خرید نہ لیتے چین نہ آتا تھا، ایامِ علالت میں کسی کتاب کا تذکرہ کردیا جاتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ طبیعت میں انبساط وفرحت پیدا ہوگئی ہے۔ہر وقت کسی نہ کسی کتاب پر جھکے ہوئے نظر آتے یا تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتے، اضاعتِ وقت کا تو آپ کی زندگی میں کوئی تصور ہی نہ تھا۔
استاد محترم ؒکا دن اطرافِ عالم سے آئے ہوئے تشنگانِ عالم کے ساتھ درس وتدریس، علمی گتھیوں کو سلجھانے اور حدیث کے اصولی مباحث کی توضیحات میں گزرتاتو شامیں بھی قال اللہ وقال الرسول کے فیض کو عام کرنے میں مصروف رہتیں ، مدرسے سے بڑا والہانہ تعلق تھا، غم کا موقع ہو یا خوشی کا مدرسے کا ناغہ نہیں ہونے دیتے، اپنی اہلیہ کی تدفین سے فارغ ہوتے ہی اگلے دن مدرسے حاضر ہوگئے ، سخت بیماری کے ایام میں بھی بارہا مدرسے جانے پر اصرار فرماتے، لاک ڈاؤن کے ایام میں مدرسے بند ہونے کی وجہ سے باہر سے ہی مدرسہ کی زیارت کرائی جاتی تو کچھ تسلی و اطمینان حاصل ہوتا، اپنی محبوب ترین کتابوں کو بھی اپنے بیٹوں کے باوجود قابل ومستحق ہونے کے وسیع تر افادہ و استفادہ کی خاطر مدرسہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے لیے وقف کردیا،حالانکہ کئی جگہوں سے ایک خطیر رقم کی بھی پیشکش کی گئی لیکن مدرسہ کی محبت غالب آگئی۔
استادِ محترم ؒنماز کے حددرجہ پابند تھے، اذان ہوتے ہی نماز کی فکر سوار ہوجاتی، ایامِ علالت میں جب نماز بھی صحیح طور پر ادا نہ ہوپاتی تھی اذان ہوتے ہی اصرار فرمانے لگ جاتے کہ مجھے وضو کراؤ، مجھے وضو کراؤ، آخری عمر تک نماز کھڑے ہوکر پڑھنے کا معمول تھا، بساا وقات نقاہت و ضعف کی وجہ سے گرپڑتے؛ لیکن ہمت، حوصلہ اور شوق میں فرق نہ آتا، حیاتِ مستعار کے آخری ایام تک تراویح میں چار چار، پانچ پانچ پارے کھڑے ہوکر سن لیتے، آخری رمضان تک یہی معمول رہا۔استادِ محترم کا قرآن کریم سے بڑالگاؤ تھا، تلاوت سنتے سنتے آنکھیں آنسووں سے بھر جاتیں اور آخر کیوں نہ ہو قرآن کریم سے عشق جب کہ استاد محترم نے آنکھیں ہی ایسے ماحول میں کھولیں جہاں گھر کا کیا ذکر پاس پڑوس تک سے قرآن شریف پڑھنے کی آوازیں آتی تھیں ۔آپ کو امامت کی سعادت بھی حاصل رہی، تقریباً پانچ سال کراچی یونیورسٹی کی جامع مسجداور کم وبیش پندرہ سال گول مارکیٹ کی جامع مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیے،استاد جیؒ کے نواسے محترم بھائی امین صدیقی (جن کو استادجیؒ اپنے بچوں سے زیادہ محبت و پیار دیا کرتے)سے معلوم ہوا کہ استاد جیؒ کا یہ معمول تھا کہ ہر جمعہ پورے اہتمام و انہماک سے عربی کا ایک نیا خطبہ پیش فرماتے۔
حضرتؒ بڑے خود دار، متواضع اور منکسر المزاج تھے۔کسی کا احسان لینا گوارا نہ کرتے؛ بلکہ دوسروں کو دے کر خوش ہوتے۔جو اُن کی کچھ عرصہ صحبت اٹھا لیتا اُن کا عاشق ہوجاتا، ہروقت آپ کی زبان شکرِ الٰہی سے تر رہتی،آپ کی حیات کے کس کس وصف کو بیان کیا جائے، زندگی کا ہر پہلو ہی قابلِ تقلید اور مثالی تھا، اقبال مرحوم کے اشعار میں اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔؎
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
حصولِ برکت کے لیے اپنے عظیم استادکے مختصر حالات بھی اپنی سعادت سمجھتے ہوئے سپرد قرطاس کرتا ہوں ۔
حضرتؒ کانام ’’محمد عبد الحلیم‘‘ہے،والد کانام ’’محمد عبد الرحیم خاطر‘‘ ہے، استاد جی کی ولادت ہندوستان کے مشہور شہر ’’جے پور‘‘ میں ۶؍اپریل۱۹۲۹ئبمطابق ذو القعدہ۱۳۴۷ھ کو ہوئی۔آپ کے ابتدائی استاذ جے پور میں مولانا قدیر بخش بدایونی ؒ تھے، آپ نے درسِ نظامی کی تکمیل ازہر ِہند دارالعلوم دیوبند سے کی، دارالعلوم میں آپ کا قیام۱۹۴۴ئبمطابق ۱۳۶۳ھ سے ۱۹۴۹ئبمطابق ۱۳۶۹ھ تک رہا۔وہاں آپ نے اُس وقت کے نام ور علماء و اساتذہ سے شرف تلمذ و کسبِ فیض کے ساتھ دیارِ ہند کے بلند پایہ عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒؒسے حدیث کا علم حاصل کیااور انہیں سے بیعت بھی ہوئے۔
پاکستان آنے کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رہاچنانچہ آپ نے:
۱- کراچی یونیورسٹی سے۱۹۶۴ئمیں B.O.L(Bachelor of Oriental Learning)کیا۔
۲- ۱۹۶۷ئمیں M. A. (Islamic Studies) سے کیا۔
۳- ۱۹۶۹ء میں Post Graduate Diploma (Library Science)کیا۔
۴- ۱۹۷۰ء میں (Library Science) M.L.S کیا۔
۵- اور ۱۹۸۱ء میں آپ کا لائبریری سائنس پر نہایت مفصل مقالہ بعنوان ’’عہدِ عباسی میں اسلامی کتب خانے‘‘(یہ مقالہ بعد ازاں مزید اہتمام، اضافوں اور تصحیحات کے بعد ’’اسلامی قلمرو میں اقرا و علم بالقلم کے ثقافتی جلوے‘‘ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہے)مکمل ہوا اور آپ کو پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری دی گئی، آپ وہ پہلی شخصیت ہیں جن کو پاکستان میں لائبریری سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری دی گئی، نیز آپ نے بحیثیت مشرف ونگرانِ تحقیق شعبہ لائبریری سائنس سے ایک ریسرچ اسکالر جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں سینئر لائبریرین کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں ، انہیں لائبریری سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی کرائی بھی ہے۔
حضرتؒ کو لائبریری سے متعلقہ امور کا تیس سالہ تجربہ حاصل تھا،آپ نے ملک وبیرونِ متعدد و مشہور لائبریریوں میں مختلف عہدوں پر چونتیس سال خدمات انجام دیں ۔پاکستان کی نیشنل لائبریری میں آپ نے چودہ سال، کراچی یونیوسٹی کی لائبریری میں دس سال اور تقریباً دس سے گیارہ سال نائیجیریامیں Bayero University کی لائبریری میں اپنی خدمات فراہم کیں ۔جیسا کہ ابھی ذکر ہوا استادِ محترم کراچی یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی سپروائزر بھی رہے اور مشیر مذہبی امور کے عہدہ پر بھی فائز رہے ہیں ۔
استاد محترم مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتیؒ کوعربی، فاری اور انگریزی پر یکساں عبور حاصل تھا، انگریزی زبان میں آپ نے علوم اسلامیہ کی تدریس بھی فرمائی،اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک کے بھی آپ کے کئی اسفار ہوئے جن میں سعودی عرب،مصر، ترکی،انگلینڈ،ایران اور ازبکستان وغیرہ شامل ہیں ۔آپ کئی کتابوں کے مصنف ومؤلف بھی ہیں (اِس حوالے سے ان شاء اللہ مفصل تحریر لکھنے کا ارادہ ہے، اللہ سے توفیق کا طلب گار ہوں )، متعدد عرب و غیر عرب اہلِ علم کی تحریرات میں آپ کی کتابوں کے حوالے پائے جاتے ہیں ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا ؒ نے آپ کی ایک کتاب سے متعلق یوں تحریر فرمایا ’’اب آنکھوں میں پانی اتر آیا ہے، ورنہ میں ایسی کتاب ایک رات میں ختم کرتا تھا‘‘،حضرت ؒکو ۱۹۷۵ء میں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے آپ کی ایک کتاب پرایوارڈ بھی پیش کیا گیا تھا، کتاب کانام ’’البضاعۃ المزجاۃ لمن یطالع المرقاۃ فی شرح المشکاۃ‘‘ ہے، یہ کتاب ملا علی قاریؒ کے حالات، اُن کی علمی و قلمی خدمات، مصابیح السنۃ اور اس کی شروحات، مشکاۃ المصابیح اور اس کی شروحات، بالخصوص مرقاۃ المفاتیح کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔ذیل میں متعدد اہل علم ، کئی مفید علمی و اصولی مباحث اور اہم کتب کے تذکرے نے کتاب کوچار چاند لگادیے ہیں ۔یہ کتاب عالمِ عرب سے بھی زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئی ہے۔
آپ کے قلم سے تصانیف کے علاوہ کئی گراں قدر مقالے اور متعدد و ہمہ جہت علمی و تحقیقی مضامین بھی تحریر ہوئے جو ہندوپاک کے متعدد مؤقر مجلات میں شائع ہوتے رہے۔آپ کے کئی مقالات وتالیفات کا عربی اور انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ان میں سے غیر مطبوع علمی سرمایہ کا جلد زیورِ طبع سے آراستہ ہونا آسان فرمائے۔
استاد محترم ؒ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں شعبہ تخصص فی علوم الحدیث کے مشرف بھی مقرر ہوئے اور کئی تشنگانِ علم کی سیرابی کا باعث بنے، تقریباً دو سو سے زائد قیمتی اور وقیع مقالہ جات آپ کی نگرانی میں لکھے گئے اور تاحیات آپ جامعہ میں اشراف کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔آپ سے قبل آپ کے بڑے بھائی مولانا عبد الرشید نعمانیؒ نگران کے فرائض انجام دے رہے تھے، مولانا نعمانیؒ کی حیات میں ہی حضرت استاد محترم مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی نعمانی ؒکو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔
نیز آپؒ آخری دس سالوں میں جامعۃ الرشیداحسن آباد کے شیخ الحدیث و سرپرست بھی رہے، جامعہ کے مہتمم حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب دامت برکاتہم نے آپ کو بڑی محبت واصرار کے ساتھ جامعہ تشریف لانے کی دعوت دی اور سرپرستی کی درخواست کی ۔ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم نے ایک تعزیتی مجلس میں اس واقعہ کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہم سفید بالوں کو ترس گئے تھے،ہم نے حضرت کو اس لیے دعوت دی تھی کہ حضرت کو سکون وآرام میسر ہوسکے اور حضرت ہماری سرپرستی فرمائیں ، ہمیں ایسے بزرگوں کی شفقت کی شدید ضرورت تھی‘‘۔بندہ بذاتِ خود اس مجلس میں شریک تھا۔ایک اور موقع پر حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم نے اعترافِ عظمت کے طور پر فرمایا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم اور ہمارے ادارے کو حضرت کی ذات سے خوب فیض حاصل ہوا اور محض حضرت چشتی صاحب کو ہی جامعہ سے نہیں بلکہ ہمارے طلبہ، اساتذہ اور خود جامعہ کوبھی حضرت کی ذات سے بے انتہا فیض اور فائدہ پہنچا‘‘۔
استادِمحترمؒ کے شاگردوں کا سلسلہ دنیا کے مختلف ممالک اور اطرافِ عالم تک پھیلا ہوا ہے، نیز آپ کے شاگرد حدیث،اصولِ حدیث، اسماء رجال، تذکرہ اور اس سے متعلق علوم و فنون میں تخصصات کے حوالے سے اندرون وبیرون ملک کے مختلف علاقوں میں گراں قدر خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ۔آپ کے شاگردوں نے آپ کی زیرنگرانی کئی وقیع مقالے تحریرفرمائے جن کو عالمِ عرب میں بھی خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور اہلِ علم سے داد تحقیق وصول کی۔اِن میں سرِ فہرست محترم مولانا عبد المجید ترکمانی حفظہ اللہ کا مقالہ ’’دراسات فی علوم الحدیث علی منھج الحنفیہ‘‘ ہے جو پاکستان میں مکتبۃالکوثر سے چھپ رہا ہے۔
استاد محترمؒ ایک وسیع خاندان کے سربراہ بھی تھے، آپ کے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں جن میں چار بیٹیاں اور تین بیٹے حافظِ قرآن ہیں ، چار بیٹوں میں ایک بیٹے محترم محمد اول ہیں ، دوسرے بیٹے ڈاکٹر حافظ محمد ثانی ہیں ، ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ نے درسِ نظامی کی تکمیل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے کی، اور تخصص فی علوم الحدیث بھی یہیں حضرت مولانا عبد الرشید نعمانیؒکی زیرِ سرپرستی کیااور ’’الطبقات الحنفیہ للذھبی‘‘ کے عنوان پر مقالہ تحریر فرمایا، آپ اِس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی میں صدر شعبہ قرآن وسنہ اور ڈائریکٹر سیرت چیئر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ استادِ محترم کے تیسرے بیٹے محترم حافظ محموداور چوتھے بیٹے محترم محمد حماد ہیں ، حافظ محمود صاحب نے اپنے والد صاحب کی زیرِ نگرانی حفظِ قرآن کریم کی تکمیل کی، گویا آپ صاحبزادے بھی تھے اور شاگرد بھی، یوں استاد محترم کو کلام رسول کے ساتھ کلام اللہ بھی پڑھانے کا موقع ملا،حافظ محمود صاحب نے نائیجیریا میں بھی حضرت کے ساتھ دو سال گزارے(یہ بھی استاد محترم کی حیات کا ایسا گوشہ ہے جس کو قیدِ تحریر میں لانا ہے، اللہ تعالیٰ آسان فرمائیں )، آپ قرآن کریم یاد کرتے اور استاد محترم کو سناتے اس طرح آپ کا حفظِ قرآن مکمل ہوا، استاد محترم کو اپنے پوتے(حافظ محمود صاحب کے بیٹے)کے حفظِ قرآن کے حوالے سے بھی بڑی فکر رہتی، جب بھی جاتے یہی سوال کرتے کہ کتنا ہوگیا؟، بقول حافظ محمود صاحب’’ابا میاں اپنے پوتے کی تکمیلِ حفظ سے کچھ عرصہ قبل فرمانے لگے کہ جلد مکمل کرلو، میری سانسیں اسی میں اٹکی ہوئی ہیں ‘‘، پوتے کا حفظِ قرآن مکمل ہوا اور استاد جی کچھ عرصہ بعد ہی اِس دنیا سے رحلت فرماگئے۔
حضرت کی ایک صاحبزادی جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ بنات کی ایک طویل عرصہ سے نگران ہیں ، آپ کو بھی قرآن کریم سے شغف غالباً اپنے والد سے ہی ورثہ میں ملا ہوا ہے، عام طور پرقرآنِ کریم کی تلاوت میں ہی مشغول رہتیں ، سفر میں آتے جاتے کئی پارے تلاوت کرلیتی ہیں ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ استاد محترم کے پورے گھرانہ کو نظرِ بد سے محفوظ فرمائے!
تبرکاً یہ چند سطور تحریر کی گئیں ، استادِ محترم کے مذکورہ بالا اوصاف میں سے ہر وصف ہی تفصیلی تذکرے کا متقاضی اور اپنا ایک پسِ منظر رکھتا ہے جس میں عمومی و خصوصی طور پر کئی سبق پنہاں ہیں ، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے محض اپنی سعادت و نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے استادِ محترم کی حیاتِ سعیدہ کے مختلف گوشوں ،گھریلو طرزِ زندگی، آپ کے کمالات، علمی مجالس، قلمی کاوشوں ، اندازِ تدریس و طرزِ تحقیق پرلکھنے کا آغاز کیا ہوا ہے، اگرچہ اِس امر کے زیادہ مستحق وہ حضرات ہیں جو استاد محترم کی طویل صحبتوں سے فیض یاب ہوئے، یہ اُن پر قرض بھی ہے اور فرض بھی۔
آخر میں تمام قارئین سے درخواست ہے کہ وہ حضرت استاد محترم کے لیے کم از کم تین بار سورۃ اخلاص پڑھ کر ایصالِ ثواب فرمادیں ، یہ ان کے لیے بھی ان شاء اللہ باعثِ سعادت ونجات ہوگا۔ اقبال مرحوم کی اس دعا پر اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں جو انھوں نے اپنی والدہ کے لیے کی تھی:
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
=====
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
————————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :12، جلد:104، ربیع الثانی- جمادی الاول 1442ھ مطابق دسمبر 2020ء
٭ ٭ ٭