از: مولانا محمد عارف جمیل قاسمی مبارک پوری

استاذ فقہ وادب ومعاون ایڈیٹر عربی ماہنامہ الداعی دارالعلوم دیوبند

            قرآن کریم ایک زندہ جاوید اور معجزاتی کتاب الٰہی ہے،اس کا لفظ لفظ حکمت ومصلحت سے لبریز ہے، اسی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے؛ جب ہم سورت رحمن کی تلاو ت کرتے ہیں تو ایک آیت میں قاصرات الطرف آتاہے اور دوسری آیت میں مقصورات فی الخیام  ہے اور ان دونوں آیات میں جنتیوں کے لیے انعامات کا ذکر ہے کہ ان کو حوریں ملیں گی؛لیکن ایک جگہ پر ان حوروں کے متعلق کہا گیا کہ یہ خود اپنی نگاہوں کو اپنے جنتی شوہروں پر رکھیں گی، کسی اور کی طرف نگاہ اٹھاکر نہیں دیکھیں گی؛جب کہ دوسر ی آیت میں بتایا گیا کہ ان حوروں کو خیموں میں محصور ومحبوس کردیا جائے گا،وہاں سے باہر نہیں نکلیں گی، اول الذکر میں ’’قصر‘‘ خو د حوروں کا ذاتی فعل ہے؛جب کہ موخر الذکر آیت میں ’’قصر‘‘دوسرے کا فعل ہے۔کیا اس تفریق  میں کوئی حکمت ومصلحت ہے یا محض تعبیر کا تنوع ہے اور مقصد دونوں جگہوں پر ایک ہے ؟

            ہم سب سے پہلے ا س لفظ کے مادئہ اشتقاق پر نظر ڈالتے ہیں :

            قاصرات الطرفکی تعبیر قرآن کریم میں تین جگہوں پر آئی ہے:

            اول: سورت صافات (آیت:48 )میں ہے: (وَعِنْدَہُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِینٌ)یعنی ان کے پاس نیچی نگاہ والی بڑی بڑی آنکھوں والی(حوریں ) ہوں گی۔

            دوم: سورت ص (آیت:52) میں ہے: (وَعِنْدَہُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ)یعنی ان کے پاس نیچی نگاہ والیاں ہم عمر ہوں گی۔

            سوم: سورت رحمن (آیت:56)میں ہے: (فِیہِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ إِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَانٌّ) یعنی ان باغوں میں نیچی نگاہ والیاں (یعنی حوریں )ہوں گی کہ ان(جنتی)لوگوں سے پہلے ان پر نہ تو کسی آدمی نے تصرف کیا ہوگا اور نہ کسی جن نے۔

            ’’قاصرات‘‘، قاصرۃ اسم فاعل کی جمع ہے، اس کا ماخذ ’’قصر‘‘ ہے،جس کا لغوی معنی:محدود کرنا، خاص کرناہے، کہاجاتاہے: (قَصَرَ غلَّۃَ کَذَا علی عِیَالہ: جعلہَا لَہُم خَاصَّۃً، وقَصَرَہا عَلی نَفسہِ: أمْسکہَا لنَفسِہ)کسی چیز کی آمدنی کو اہل وعیال کے لیے مخصوص کردیا یا آمدنی کو اپنے لیے روک لیا اورمخصوص کرلیا۔یہاں یہ لفظ متعدی استعمال ہواہے،عام مفسرین نے اس کے متعدی ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے؛ چناں چہ علامہ زمخشری سورئہ صافات کی تفسیر میں لکھتے ہیں : (قاصِراتُ الطَّرْفِ: قصرن أبصارَہنّ علی أزواجہنّ، لایمددن طرفا إلی غیرہم)اور سورت رحمن کی تفسیر میں لکھتے ہیں : (قاصِراتُ الطَّرْفِ: نساء قصرن أبصارہنّ علی أزواجہنّ: لاینظرن إلی غیرہم)(۱)۔

            امام رازی رحمہ اللہ نے متعدی اور لازم دونوں معانی کو ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ متعدی معنی میں ہونا ظاہر ہے؛اس لیے کہ قصر(متعدی) مدح ہے؛جب کہ قصور(لازم) مدح نہیں (۲)۔

            زمخشری،ابن عطیہ، رازی اورصاحب جلالین وغیرہ نے (الطرف) سے مراد حوروں کا اپنی نگاہ کو محدود کرنا مراد لیاہے،یعنی اپنے شوہروں کی خوب صورتی کی وجہ سے حوریں اپنی نگاہیں اپنے شوہروں پر ہی رکھیں گی،ان کی نگاہ کسی اور طرف نہیں اٹھے گی؛لیکن ابن عاشور نے ایک اور معنی کی طرف سے اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:’’یہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نگاہوں کو اپنی طرف موڑ لیں گی اور ان کے شوہر، دوسرے کی طرف نگا ہ اٹھاکر نہیں دیکھیں گے،ان حوروں کے حسن وجمال کی وجہ سے ان کو کسی اور طرف نگاہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوگی،اور اس صفت کا مطلب یہ ہے کہ یہ حوریں اپنے شوہروں کی نگاہ میں بے حد حسین و جمیل ہوں گی کہ کوئی اور عورت ان کو حسین نہیں لگے گی۔لہٰذا یہاں (الطرف)سے مراد،شوہروں کی نگاہیں ہیں ، خو د ان حوروں کی نگاہیں مراد نہیں ؛البتہ حوروں کی طرف(قاصرات)کی نسبت میں مجاز عقلی ہے؛ اس لیے کہ ان کا حسن وجمال، شوہروں کی نگاہوں کو اپنی طرف موڑنے اور مخصوص کرنے کا سبب ہوگا،لہٰذا ان کے اندر،قصر کے سبب کا سبب موجود ہوگا(۳)۔

            قاصرات اگرچہ وصف کا صیغہ ہے؛لیکن عورتوں کی تعریف کے لیے کثرت استعمال کی وجہ سے اسم بن گیا، لہٰذا یہاں قاصرات سے مراد ایسی عورتیں جن کی نگاہیں پست،جھکی ہوئی ہوں گی، غیرمردوں کی طرف نہیں اٹھیں گی۔ان میں فطر ی طور پست نگاہی اور جھکاؤ ہوگا،بعد کے شعراء نے اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ’’مِراض العیون‘‘ کا لفظ استعمال کیاہے۔ (قصور) اور (غض) سے ہرن کی آنکھوں کی صفات بیان کی جاتی ہے،عرب والے معشوقہ کو ہرن اور اس کی آنکھوں کو ہرن کی آنکھ سے تشبیہ دیتے ہیں ،مشہور شاعر کعب بن زہیر کا شعر ہے  :

وَمَا سُعَادُ غَدَاۃَ الْبَیْنِ إِذْ رَحَلُوا    ۔۔۔    إِلَّا أَغَنُّ غَضِیضُ الطَّرْفِ مَکْحُولُ

            (جدائیگی کی صبح میں ،جب لوگ  روانہ ہوئے، سعاد کی حالت یہ تھی کہ اس کی آواز میں نغمہ اور اس کی آنکھیں پست  سرمگیں تھیں )۔

            مقصورات کا لفظ سورت رحمن (آیت:72)میں آیاہے:(حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِی الْخِیَامِ) وہ عورتیں گوری رنگت کی ہوں گی(اور)خیموں میں محفوظ ہوں گی۔

            (مقصورات)اسم مفعول کا صیغہ ہے، جس کا مادہ بھی (قصر)ہے؛لیکن یہا ں فعل(قصر)خود ان حوروں کا عمل نہیں ؛بلکہ کسی اور کا عمل ہے۔یعنی ان حوروں کو خیموں میں محدود کردیا جائے گا،وہ وہاں سے باہر نہیں نکلیں گی۔علامہ زمخشری ا س کی تفسیر میں لکھتے ہیں : (مَقْصُوراتٌ قصرن فی خدورہنّ یقال: امرأۃ قصیرۃ و قصورۃ ومقصورۃ مخدرۃ(۴)۔

            ابن عاشور اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :’’مقصورات:یعنی یہ عورتیں اپنے شوہروں کے پاس ہی رہیں گی،ان کے علاوہ کسی اور سے انس نہ ہوگا، یہ دنیاوی عورتوں میں عیش وعشرت کی صفت ہے،یعنی ایسی عورتوں کو کسی خدمت یا کا م یا پھل توڑنے وغیرہ کے لیے اپنے گھروں سے باہر نہیں جانا پڑتا،بلفظ دیگر یہ مخدوم ومعززہیں ، جیساکہ ابو قیس بن اسلت کا شعر ہے:

وَیُکْرِمُہَا جَارَاتُہَا فَیَزُرْنَہَا   ۔۔۔   وَتَعْتَلَّ عَنْ إِتْیَانِہِنَّ فَتُعَذَرْ

            (پڑوسی عورتیں اس خاتون کی عزت کرتی ہیں اوراس سے ملاقات کے لیے خود اس کے پاس آتی ہیں اور یہ خود ان کے پاس جانے سے کو ئی عذر کرتی ہے تو اس کا عذر مان لیا جاتاہے)(۵)۔

’’قاصرات‘‘ اور’’مقصورات‘‘ میں فرق

            قاصرات کا ذکر،مقربین کی جنت کے تعلق سے آیاہے اور مقصورات کا ذکر ابرار کی جنت کے تعلق سے آیاہے۔

            قاصرات کا مطلب یہ ہے کہ وہ فطری طورپر اس صفت کی حامل ہوں گی، اور مقصورات میں کسی اور کی طرف سے ان پر فعل قصر آیاہے یعنی ان کو محدود کردیا گیاہے  اوریہ بھی بلند مقام ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ قاصرات سے کم درجہ ہے؛اس لیے کہ یہ صفت (قاصرات )میں فطری طورپرموجود ہے۔

            اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ درس گاہ میں دو طالب علم ہیں ،ایک اپنی ذاتی دل چسپی سے پڑھتاہے؛جب کہ دوسرا کسی اور کے کہنے سننے کے بعدپڑھتاہے تو اگرچہ پڑھنے میں دونوں برابر ہیں ؛لیکن دونوں کو ایک درجہ میں نہیں رکھا جاسکتا؛ بلکہ اول الذکر کو افضل قراردیا جاتاہے)(۶)۔

            چوں کہ مقربین کی جنت اعلی وارفع ہوگی؛ اس لیے اس میں موجود حوروں کے لیے اعلی صفت  بیان گئی، اور ابرار کی جنت ا ن کے مقابلہ میں کم درجہ ہوگی؛اس لیے اس میں موجود حوروں کے لیے بھی کم درجہ کی صفت بیان گئی)(۷)۔

            ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالی نے اس آیت میں (حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِی الْخِیَامِ)فرمایا اور سابقہ آیت میں (فِیہِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ) فرمایا اور بلا شبہ بذات خود اپنی نگاہ کو محدود ومحصورکرنے والی عورت، اس عورت سے افضل ہے،جس کو کسی اور نے محدود ومحصور کردیا گیا)(۸)۔

            عبد الکریم یونس اپنی تفسیر میں رقم طرا زہیں :آیت کریمہ (حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِی الْخِیامِ) میں جن حوروں کا ذکر ہے وہ فرمان باری: (فِیہِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ إِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلاَ جَانٌّ)میں مذکور دونوں جنتوں کی حور عین کے مقابل میں ہے۔اول الذکر حوروں اور موخر الذکر حورو ں میں بڑا فرق ہے، گوکہ ہرایک اس قدر حسین وجمیل ہوں گی کہ ان کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہوگا۔ چناں چہ اعلی جنتوں میں موجود حوروں کے بارے میں فرمانِ باری(قاصِراتُ الطَّرْفِ)،اس میں یہ اشارہ ہے کہ ان حوروں میں پردہ،شرم وحیا اور عفت وپاکدامنی اصل خلقت کے لحا ظ سے ہے اور فرمانِ باری (حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِی الْخِیامِ)میں مذکور حوروں کے بارے میں یہ اشارہ ہے کہ ان حوروں کو خیموں نے محصور کررکھاہے اور ان کو نگاہوں سے چھپادیا ہے؛لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ موخر الذکر حوروں میں ، اول الذکرحوروں کی طرح پردہ وحیا وغیرہ موجود نہ ہو؛تاہم مطلق پردہ وحیا (جو اول الذکر میں ہے )اور مقید پردہ و حیا (جو موخر الذکر میں ہے )میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔۔۔(۹)۔

            ایک دوسرا جواب بھی دیا گیا ہے؛لیکن اس کو سمجھنے کے لیے ایک تمہید ضروری ہے:

          اہل جنت دو قسم کے لوگ ہیں :

            اول:نیک لوگ یعنی انبیاء ورسل، صدیقین،اور اعلی درجہ کے لوگ۔یہ اللہ تعالی کے سابقین ومقربین بندے ہوں گے،جو واجبات وفرائض کی ادائیگی کرتے ہیں ،حرام چیزوں سے بچتے ہیں اورنوافل وسنن کوبھی بجا لاتے ہیں اسی کے ساتھ مکروہات سے بھی احتراز کرتے ہیں ۔

            دوم:عام اہل ایمان ہیں ، جو ان حضرات سے کم درجہ ہیں ،یعنی جولوگ  واجبات وفرائض پر عمل پیرا ہیں ،اور حرام چیزوں کو ترک کرتے ہیں ۔ان کو ’’ابرار‘‘ کہا جاتا ہے۔

            سابقین مقربین تو عبادت میں اس مقام پر ہوتے ہیں کہ گویا وہ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں اور ہر چھوٹے بڑے عمل میں ان کے مدِنظر صرف  اللہ تعالی کی طاعت ورضامندی ہوتی ہے،گویا انہوں نے شدتِ تعلق ومحبت کی وجہ سے، اپنی نگاہ اللہ تعالی کی رضا میں محدود کرلی ہے اور جہاں کہیں اللہ تعالی کی طاعت ومحبت کے مقابلہ دنیا کی کوئی چیز آتی ہے تو اللہ کی رضا  ومحبت کو ہی مقدم رکھتے ہیں اور مستحب وسنت میں جہا ں کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، وہاں بھی وہ ان کی بجاآوری کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ ان کی نگاہ،محض اللہ تعالی اور اس کی رضا میں محدود ہوتی ہے؛ اس لیے اللہ تعالی نے ا ن کو بدلہ میں جنت کے اندر ایسی حوریں عطا فرمائیں جو شدتِ تعلق ومحبت کی بنا پراپنی مرضی سے اپنی نگاہوں کو اپنے شورہروں پر محدود محبوس رکھیں گی، ا ن کے علاوہ کسی اور مرد پر ان کی نظر نہ اٹھے گی۔جن کو (قاصرات الطرف)سے تعبیر کیا گیاہے۔ اس میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جب یہ حضرات مقربین سابقین جنت میں داخل ہوں گے تو اپنے اعمال کی برکت سے ان حضرات کے چہرے  اس قدر حسین و جمیل ہوں گے کہ ان کی حوروں کی نگاہیں ان پر جم جائیں گی کسی اور کی طرف ان کی نگاہ نہیں جائے گی اور ان کے چہروں کی تابناکی کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ ان کو کثرت سے دیدار الٰہی نصیب ہوگا،جس کی برکت سے ان کا حسن وجمال افزوں ہوگا،سورت قیامہ (آیت:22،23)میں فرمان باری تعالی ہے: (وُجُوْہٌ یَّوْمَیِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) (بہت سے چہرے تو اس روز بارونق ہوں گے اور اپنے پر وردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے)۔

            اس طرح اس آیت کریمہ سے تین باتیں معلوم ہوئیں :

            اول:ان حضرات مقربین سابقین کو کثرت سے اللہ تعالی کا دیدار نصیب ہوگا۔

            دوم: اس کی وجہ سے ان کے چہروں کے حسن وجمال میں چار چاند لگ جائے گا۔

            سوم: ان سے کمال محبت وتعلق کی وجہ سے، حوروں کی نگاہیں کسی اور طرف نہیں جائیں گی۔

            اس کے بالمقابل ’’ابرارمومنین‘‘ نے سزا کی ڈرسے اوامر ونواہی کی پابندی توکی؛لیکن سنن و مستحبات پر عمل پیرا نہیں ہوئے،تو اللہ تعالی نے ان کو ایسی حوریں دیں جن کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی نظر اپنے شوہروں پر ہی رکھیں ،نیز دوسروں کی طرف التفات نہ کرنے پر مجبو ر کیا گیا،لہٰذا حوروں نے اللہ تعالی کے امر کی رعایت میں اپنے شوہروں پر نظر رکھا اور اللہ تعالی کی ممانعت کی رعایت میں کسی اور کی طرف نہیں دیکھا۔ اس طرح یہ (الجزاء من جنس العمل )کے باب سے ہوگیا)(۱۰)۔

قاصرات ومقصورات دونوں ایک ہیں ؟

            اما م رازی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قاصرات ومقصورات ہر چہار جنتوں کی حوروں کی صفت ہے، لہذا وہ حوریں ،قاصرات اور مقصورات دونوں ہیں ،اور دونوں صفات کا مصدا ق ایک ہے۔پھر اس کی تفسیر میں دو احتمال نقل کیا: پہلااحتمال یہ ہے کہ یہ حوریں اپنی نگاہوں کو پست رکھنے والی ہوں گی جیساکہ پاک دامن عورتوں کا شیوہ ہوتاہے، اوریہ خود اپنی ذات کو خیموں میں محصور کرنے والی ہوں گی،جیساکہ پردہ نشیں عورتیں اپنی ذات کو خیموں میں محبوس او راپنی نگاہ کو دوسری طرف اٹھنے سے روکتی ہیں ۔

            دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں ان کی عظمت وعفت کا بیان ہے؛ اس لیے کہ اگر عورت کا اپنا ضمیر روک ٹوک کرنے والا نہ ہو،اور کوئی نگراں نہ ہوتو  وہ ایک طرح سے بے حیثیت ہوتی ہے؛لیکن اگر اس کے باعزت ولی ونگراں ہوں تو باہرآمدورفت کرنے سے گریز کرتی ہے، اور یہ اس کی عظمت کی دلیل ہے اوراگر باہر نکلنے پر وہ بذات خود ادھر ادھر دیکھنے بچتی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ذاتی طور پر باعفت ہے،لہٰذا یہا ں پر دواشارے ایک ساتھ آگئے:پہلا اشارہ ان کی عظمت کی طرف (مَقْصُوراتٌ) کے ذریعہ فرمایاکہ ان کے اولیاء (جویہاں اللہ تعالی کی ذات ہے )نے ان کو باہر نکلنے سے رو ک دیا ہے۔دوسرا اشارہ ان کی عفت کی طرف ہے،جو فرمانِ باری(قاصِراتُ الطَّرْفِ) میں ہے۔مزید لطف یہ ہے کہ اللہ تعالی عفت کے اشارہ کو عظمت کے اشارہ پر مقدم رکھا،اور اعلی جنتوں کے سیاق میں (قاصرات )اور ادنی جنتوں کے سیاق میں (مقصورات )کا ذکر فرمایا۔

            (مقصورات )میں عظمت کی طرف اشارہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ عورتوں کو (مخدرات) کہا جاتاہے، (متخدرات)نہیں کہا جاتا۔جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ انہو ں خود نہیں ؛بلکہ کسی اور نے ان کو پردہ میں رکھا ہے،مثلا وہ شخص جس نے خیمہ اور پردہ لگایاہے۔اس کا یہ عمل ہے بذات خود پردہ کا التزام اور بدست خود اپنا دروازہ بند کرنے والی عورت اس سے مختلف ہے)(۱۱)۔

            لیکن علامہ شوکانی غالباً اس رائے سے متفق نہیں ،وہ کہتے ہیں کہ اس صفت کو چاروں جنتوں کی حوروں کی طرف لوٹانے کی کوئی وجہ نہیں ؛ اس لیے اول الذکر دوجنتوں کی حوروں کی صفت (قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ کَأَنَّہُنَّ الْیاقُوتُ وَالْمَرْجانُ)اور ان دوصفات میں بہت بڑا فرق ہے)(۱۲)۔

٭        ٭        ٭

حواشی:

(۱)       زمخشری تفسیر آیت؛ لیکن صاحب اللباب فی علوم الکتاب لکھتے ہیں : (قاصرات الطرف) میں دو احتمال ہیں : اول: یہ صفت مشبہ کے باب سے ہو،اور تقدیر عبارت یہ ہوگی: قاصرات أطرافہن،جیسے کہتے ہیں :منطلق اللسان یعنی منطلق لسانہ.دوسرا احتمال یہ ہے کہ ا سم فاعل کا اطلاق اپنی اصل پرہو،دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں مضاف الیہ محلاً مرفوع ہے؛ جب کہ دوسری صورت میں محلاً  منصوب ہے۔اس دوسر ی صورت میں تقدیر عبار ت یہ ہوگی:(قصرن أطرافہن علی أزواجہن)اور یہ بہت بڑ ی تعریف ہے، امرء القیس کا شعر ہے:

مِنَ الْقَاصِرَاتِ الطَّرْفِ لَو دَبّ مُحْوِلٌ  ۔۔۔   مِـــنَ الذِّرِّ فَـــوْقَ الإتْبِ مِنْہَا لأَثّرَا

(وہ ان پست نگاہ عورتوں میں سے ہے کہ اگر اس کی قمیص پر چھوٹی سے چھوٹی چیونٹی بھی رینگنے لگے تو  اثر پڑ جائے گا)

(۲)       رازی تفسیر آیت سورت رحمن                                    (۳)      التحریر والتنویر از ابن عاشورتفسیر آیت

(۴)      زمخشری تفسیر آیت                                                (۵)      التحریر والتنویر از ابن عاشورتفسیر آیت

(۶)       عائلۃ الصواف فی الوطن العربی                                    (۷)      ابن کثیر تفسیر آیت

(۸)      عائلۃ الصواف فی الوطن العربی                                    (۹)       اللبا ب فی علوم الکتاب تفسیر آیت

(۱۰)     موقع الشیخ عدنان عبد القادر                                       (۱۱)      رازی تفسیر آیت سورت رحمن

(۱۲)     فتح القدیر از شوکانی،تفسیر آیت سورت رحمن

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :10-11،    جلد:104‏،  صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts