از: مفتی محمد مصعب
معین مفتی دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
فقہ حنفی میں علامہ محمد امین ابن عابدین (۱۱۹۸ھ/۱۲۵۲ھ) کی نہایت عظیم الشان تصنیف ردالمحتار کی حیثیت ایک لب لباب اور نچوڑ کی ہے، خود علامہ شامی کی تصریح کے مطابق اس کتاب میں متاخرین فقہائے احناف کی کتابوں اور رسائل کا خلاصہ آگیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ۱۲/۴۲۴،۴۲۵، ت:فرفور، کتاب الجہاد سے پہلے والا صفحہ، جس میں علامہ شامی نے کافی وضاحت کے ساتھ کتاب کا تعارف لکھا ہے)
اس کتاب کو فتاویٰ شامی کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، فروعات کی کثرت واستیعاب اور ایک حد تک مسائل کی تنقیح وتوضیح اور ترجیح وتصحیح میں یہ کتاب بے نظیرثابت ہوئی اور گزشتہ تقریباً دو صدی سے اہل افتاء کے لیے مرجع بنی ہوئی ہے، حتیٰ کہ آج ایک حنفی مفتی کے لیے ردالمحتار کو صرفِ نظر کرکے دوسری کسی فقہی کتاب سے اطمینان وتشفی حاصل کرنا ممکن نہیں ، اس کتاب کی خصوصیت واہمیت اورمنہج کے لیے علامہ ابن عابدینؒ کے دو اقتباس پیش کیے جاتے ہیں ، پہلا اقتباس مقدمہ کا ہے اور دوسرا مفصل اقتباس کتاب الجہاد سے پہلے ذکر کیا ہے۔
٭ وقد التزمتُ فیما یَقَعُ في الشرح مِن المسائل والضَّوابط مراجعۃَ أصلّہ المنقول عنہ وغیرہ خوفًا مِن إسقاطِ بعضِ القیود والشرائط، وزِدتُ کثیرًا مِن فروعٍ مہمّۃٍ، فوائدُہا جَمَّۃٌ، ومِن الوقائع والحوادث علی اختلاف البواعث، والأبحاثِ الرّائقۃ والنُّکَت الفائقۃ، وحَلَّ العویصات واستخراجَ الغویصات، وکشفَ المسائل المشکلۃ، وبیان الوقائع المعضِلَۃ، دفعَ الإیرادات الواہیۃ مِن أرباب الحواشي، والانتصارَ لہذا ’’الشارح‘‘ المحقق بالحق ورفعَ الغواشي، مع عزوکلِّ فرع إلی أصلہ، وکلِّ شيء إلی محلِّہ حتی الحجج والدلائل وتعلیلات المسائل۔ وما کان من مُبتکَرات فکري الفاتر، ومواقع نظري القاصر أُشِیْرُ إلیہ، وأنَبِّہُ علیہ، وبذلتُ الجہدَ في بیان ماہو الأقوي، وما علیہ الفتوی، وبیانِ الرجح من المرجوح مما أُطْلِقَ في الفتاوی أو الشروح، معتمدًا في ذلک علی ما حَرَّرَہ الأئمۃُ الأعلام مِن المتأخرین العظام۔ (مقدمۃ رالمحتار:۱/۴،۵، ت:فرفور)
٭ بسم اللہ وبحمدہ، والصلاۃ والسلام علی نبیہ وعبدہ، وعلی آلہ وصحبہ وجندہ۔ وبعد: فیقول مؤلفہ أفقر العباد إلی عفو مولاہ یوم التناد محمد أمین الشہیر بابن عابدین، خادم العلوم الشرعیۃ، في دمشق الشام المحمدۃ قد نجز تسوید یذا النصف المبارک، بعون اللّٰہ جل وتبارک من الحاشیۃ المسماۃ [رد المحتار، علی الدر المختار] في صفر الخیر سنۃ ثمان وأربعین ومائتین وألف، من ہجرۃ نبینا محمد الذي تم بہ الألف – صلی اللّٰہ علیہ وسلم – وشرفہ وعظم، فجاء بحمد اللّٰہ تعالیٰ مکملا فرعا وأصلا، [ردا للمحتار علی الدر المختار] اسما وفعلا، لاشتمالہ علی تنقیح عباراتہ، وتوضیح رموزہ وإشاراتہ، والاعتناء ببیان ما ہو الصحیح المعتمد، وما ہو معترض ومنتقد، وتحریر المسائل المشکلۃ، والحوادث المعضلۃ، التي لم یوضح کثیرا منہا أحد قبل ذلک، ولا سلک مہمۃ بیانہا سالک مشحونا بذخائر زبر المتقدمین، وخلاصۃ کتب المتأخرین، ورسائلہم المؤلفۃ في الحوادث الغریبۃ، الجامعۃ للفوائد العجیبۃ کرسائل العلامۃ ابن نجیم الأربعین، ورسائل العلامۃ الشرنبلالیۃ الستین، وکثیر من رسائل العلامۃ علي القاري خاتمۃ الراسخین ورسائل سیدي عبد الغني النابلسي الحبر المتین ورسائل لعلامۃ قاسم خاتمۃ المجتہدین۔ وحواشي البحر والمنح والأشباہ وجامع الفصولین للفہامۃ الشیخ خیرالدین، وفتاوی الزینیۃ والتمرتاشیۃ والحامدیۃ وفتاوی غیرہم من المفتین وتحریرات شیوخنا ومشایخہم المعتبرین، وما من بہ اللّٰہ تعالیٰ علی عبدہ من الرسائل التي ناہزت الثلاثین، وما حررتہ ونقحتہ في کتابي تنقیح الفتاوی الحامدیۃ الذي ہو بہجۃ الناظرین، وغیر ذلک من کتب السادۃ الأخیار المعتمدین، مع بیان ما وقع من سہو أو غلط في کتب الفتاوی وکتب الشارحین، ولا سیما ما وقع فی البحر والنہر والمنح والأشباہ والدرر وکتب المحشین، حتی صار بحمد اللّٰہ تعالیٰ عمدۃ المذہب، والطراز المذہب، ومرجع القضاۃ والمفتین، کما یعلمہ من غاص بأفکارہ في تیارہ من العلماء العاملین، الخالین عن داء الحسد المضني للجسد الصادقین المنصفین۔
علامہ شامیؒ نے جن خصوصیات کاذکر کیا ہے اور منہج کے سلسلے میں جو اصولی باتیں لکھی ہیں ، وہ واقع کے مطابق معلوم ہوتی ہیں ؛ تاہم ضرورت ہے کہ اہم مباحث کے تحت ان خصوصیات کو اجاگر کیا جائے اور منہج کی تطبیق پروضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جائے؛ اس لیے کہ کتاب سے کما حقہ استفادہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب کہ منہج کتاب سے گہری واقفیت ہو، کتاب کے اسرار ورموز کے علم کے بغیر عبارت فہمی میں دشواری ہوسکتی ہے؛ بلکہ بسا اوقات غلط فہمی کا بھی امکان رہتا ہے۔
اس وقت ہمارے پیش نظر حرام سے علاج کی بحث کی روشنی میں علامہ شامیؒ کے منہج پر کچھ اختصار کے ساتھ روشنی ڈالنی ہے، یہ صرف ایک بحث کا مطالعہ ہے، اس کو مکمل شامی کے منہج کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہیے، انشاء اللہ آئندہ دوسرے اہم مباحث کے تحت علامہ شامیؒ کے منہج کو سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔
حرام سے علاج کی بحث مختلف وجوہ سے اہمیت کی حامل ہے، علامہ شامیؒ نے بھی اس بحث کو اہمیت دی ہے، دو مقامات پر مطلب کا عنوان قائم کیا ہے اور دوسرے مقامات پر مختصر بحث کی ہے، شیخ حسام الدین فرفور صاحب کے نسخے کے اعتبار سے اس بحث کے اہم مظان یہ ہیں ۔
(۱) کتاب الطہارۃ، باب المیاہ قبیل فصل البئر، ۱/۷۰۱ تا ۷۰۴۔
(۲) کتاب النکاح، باب الرضاع، ۹/۳۹۔
(۳) کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ۱۴/۶۱۳-۶۱۴۔
(۴) کتاب البیوع، باب المتفرقات، اواخرباب السلم، ۱۵/۴۱۹۔
حرام سے علاجکی بحث کا خلاصہ
پہلے پوری بحث کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں :
٭ اگر ہلاکت سے بچنے کے لیے حرام چیز کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو، یعنی اضطرار کی حالت ہو، مثلاً کوئی شخص بھوکا ہو اور اس کے پاس مردار کے گوشت کے علاوہ کچھ نہ ہو یا کوئی شخص پیاسا ہو اوراس کے پاس شراب کے علاوہ کچھ نہ ہو، تو ایسے وقت میں بقدر ضرورت مردار کا گوشت کھانا اور شراب پینا ضرورت کی وجہ سے بالاتفاق جائز ہے۔
٭ تداوی بالمحرم کے مسئلہ کا تعلق غلبہ ظن سے ہے، یعنی اگرمریض کے لیے حرام دوا میں شفاء کا غلبہ ظن ہو۔
٭ متاخرین مشائخ احناف کے مفتی بہ قول کے مطابق بیمار کے لیے حرام دوا استعمال کرنے کی دو شرطوں کے ساتھ گنجائش ہے:
(۱) ماہر مسلمان طبیب کے نزدیک حرام دوا میں شفاء کا غلبہ ظن ہو۔
(۲) متبادل حلال دوا کا علم نہ ہو یا حلال دوا دستیاب نہ ہو۔
٭ اگر کوئی ماہر مسلمان طبیب یہ کہے کہ حلال دوا استعمال کرنے میں تاخیر سے شفا ہوگی اور حرام دوا استعمال کرنے میں جلدی شفایابی کی امید ہے، تو ایسی صورت میں حرام دوا استعمال کرنے کے بارے میں متاخرین فقہائے احناف کی دو رائیں ہیں : بعض کے نزدیک گنجائش ہے اور بعض کے نزدیک گنجائش نہیں ہے۔
٭ تداوی بالمحرم میں محرّم سے مراد یہ ہے کہ جس کا استعمال حرام ہو خواہ فی نفسہٖ وہ پاک ہو یا ناپاک ۔
٭ تداوی بالمحرم کے مسئلے کی اصل بول مایوکل لحمہ کا مسئلہ ہے۔
٭ حدیث إن اللّٰہ لم یجعل شفائکم فیما حرم علیکم میں علی الاطلاق حرمت کا حکم نہیں ہے؛ بلکہ حرام دوا سے علاج کرنا اس وقت حرام ہے جب کہ اس میں شفا کا علم نہ ہو؛ لیکن اگر کسی مرض میں حرام دوا میں شفا کاعلبہ ظن ہوجائے اور دوسری حلال دوا کا علم نہ ہو تو پھر حرام دوا استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔
٭ اگر کسی مرض میں مسلمان ماہر ڈاکٹر شراب استعمال کرنے کا مشورہ دے اور دوسری کوئی حلال دوا نہ ہو، تو دوا کے طورپر خاص طور پر شراب استعمال کرنے کے سلسلے میں دو قول ہیں ۔
بحث کا اصل ماخذ
علامہ شامیؒ نے اس بحث میں البحرالرائق کی عبارت کو اصل بنایا ہے؛ البتہ اس کی مکمل عبارت من وعن نقل نہیں کی ہے؛ بلکہ کہیں عبارت کا خلاصہ ذکر کیا ہے، کہیں اختصار سے کام لیاہے اورکہیں درمیان میں اضافہ بھی کیاہے، پہلے علامہ شامی کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
مطلب في التداوي بالمحرم (قولہ اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النہایۃ عن الذخیرۃ یجوز إن علم فیہ شفاء ولہم یعلم دواء آخر۔ وفي الخانیۃ في معنی قولہ – علیہ الصلاۃ والسلام – ’’إن اللّٰہ لم یجعل شفائکم فیما حرم علیکم‘‘ کما رواہ البخاري أن ما فیہ شفاء لا بأس بہ کما یحل الخمر للعطشان في الضرورۃ، من البحر۔ (کتاب الطہارۃ، باب المیاہ قبیل فصل البئر، ۱/۷۰۱ تا ۷۰۴)
وقد وقع الاختلاف بین مشایخنا في التداوي بالمحرم ففي النہایۃ عن الذخیرۃ الاستشفاء بالحرام یجوز إذا علم أن فیہ شفاء ولم یعلم دواء آخر اھـ
وفي فتاوی قاضي خان معزیا إلی نصر بن سلام معنی قولہ – علیہ السلام – ’’إن اللّٰہ لم یجعل شفائکم فیما حرم علیکم‘‘ إنما قال ذلک في الأشیاء التي لا یکون فیہا شفاء فأما إذا کان فیہا شفاء فلا بأس بہ ألا تری أن العطشان یحل لہ شرب الخمر للضرورۃ اھـ۔
دونوں عبارتوں کے مقارنے سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں :
٭ علامہ شامیؒ نے پوری بحث اگرچہ البحرالرائق سے اخذ کی ہے؛ لیکن نہایہ اور خانیہ کی عبارت کا خلاصہ ذکر کیا ہے اور خانیہ کی عبارت کا خلاصہ کرتے ہوئے درمیان میں حدیث کی تخریج بھی کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں :
وفي الخانیۃ في معنی قولہ – علیہ الصلاۃ والسلام – ’’إن اللّٰہ لم یجعل شفائکم فیما حرم علیکم‘‘ کما رواہ البخاری۔
٭ علامہ شامیؒ نے فتاویٰ قاضی خان کی جگہ اس کا دوسرانام خانیہ ذکر کیا ہے۔
٭ علامہ شامیؒ نے حدیث إن اللّٰہ لم یجعل شفائکم فیما حرم علیکم کے معنی ومطلب میں نصر بن سلام کا مکمل مقولہ نقل کرنے کے بجائے صرف بقدر ضرورت کلام پر اکتفا کیاہے۔
٭ علامہ شامی آگے لکھتے ہیں :
وأفاد سیدي عبد الغني أنہ لا یظہر الاختلاف في کلامہم لاتفاقہم علی الجواز للضرورۃ، واشتراط صاحب النہایۃ العلم لا ینافیہ اشتراط من بعدہ الشفاء ولذا قال والدی في شرح الدرر: إن قولہ لا للتداوي محمول علی المظنون وإلا فجوازہ بالیقیني اتفاق کما صرح بہ في المصفی۔ اھـ
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ تداوی بالمحرم کے مسئلہ کا تعلق غلبہ ظن سے ہے، یعنی اگر مریض کے لیے حرام دوا میں شفاء کا غلبہ ظن ہو، پس اگر شفا یقینی ہو، تو پھر حرام چیز استعمال کرنے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے، دیکھیے: علامہ عبدالغنی کے حوالہ سے فقہاء کے اختلاف کا محمل متعین کرکے مسئلہ کو کس طرح منقح کردیا۔
حاصل یہ ہے کہ علامہ شامیؒ کبھی کسی کتاب سے بنیادی بحث اخذ کرکے اس کی عبارتوں میں تلخیص، اختصار اور حسب ضرورت قیمتی اضافہ بھی کرتے ہیں اور ایسے مقامات پر آخر میں من کتاب کذا کہہ کر حوالہ لاتے ہیں ، اس تفصیل سے مذکورہ عبارت میں من البحر کا مفہوم بھی واضح ہوگیا۔
٭ علامہ شامیؒ نے دوسری جگہ یہ بحث قدرے تفصیل سے کتاب البیوع، باب المتفرقات میں ذکر کی ہے، پہلے اصل عبارت ملاحظہ کریں :
مطلب في التداوي بالمحرم (قولہ وردہ في البدائع إلخ) قدمنا في البیع الفاسد عند قولہ ولبن امرأۃ أن صاحب الخانیۃ والنہایۃ اختارا جوازہ إن علم أن فیہ شفاء ولم یجد دواء غیرہ قال فی النہایۃ: وفي التہذیب یجوز للعلیل شرب البول والدم والمیتۃ للتداوي إذا أخبرہ طبیب مسلم أن فیہ شفائہ ولم یجد من المباح ما یقوم مقامہ، وإن قال الطبیب یتعجل شفاؤک بہ فیہ وجہان، وہل یجوز شرب العلیل من الخمر للتداوي فیہ وجہان، وکذا ذکرہ الإمام التمرتاشي وکذا في الذخیرۃ وما قیل إن الاستشفاء بالحرام حرام غیر مجری علی إطلاقہ وأن الاستشفاء بالحرام إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفاء أما إن علم ولیس لہ دواء غیرہ یجوز ومعنی قول ابن مسعود – رضی اللہ عنہ – لم یجعل شفاؤکم فیما حرم علیکم یحتمل أن یکون قال ذلک في داء عرف لہ دواء غیر المحرم لأنہ حینئذ یستغني بالحلال عن الحرام ویجوز أن یقال تنکشف الحرمۃ عند الحاجۃ فلا یکون الشفاء بالحرام وإنما یکون بالحلال ۱ھـ نور العین من آخر الفصل الرابع والثلاثین۔ (کتاب البیوع، باب المتفرقات، اواخرباب السلم، ۱۵/۴۱۹)
اس عبارت میں نورالعین فی اصلاح جامع الفصولین کا حوالہ قابل توجہ ہے۔
نورالعین؛ شیخ سعدالدین آفندی شیخی زادہ کے شاگرد قاضی محمد بن احمد نشانجی زادہ (۹۶۲ھ/ ۱۰۳۱ھ) کی تصنیف ہے، علامہ شامی نے مختلف مباحث کے تحت جس انداز سے اس کتاب کا حوالہ دیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شامی کے نزدیک اس کتاب کی کافی اہمیت تھی، چنانچہ الفاظ کفر کی بحث کے تحت لکھتے ہیں : ومن أحسن ما ألف فیہا ما ذکرہ في آخر نورالعین، وہو تألیف مستقل۔ (ردالمحتار، کتاب الجہاد، باب المرتد)
تداوی بالمحرم کی بحث میں علامہ ابن عابدین نے نورالعین کی جو عبارت ذکر کی ہے،بلاشبہ وہ اس موضوع میں جامع ہے؛ نیز نورالعین کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مریض کے جملہ احکام فقہی ابواب کی ترتیب پر وضاحت کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، اس معنی کرتداوی بالمحرم کے مسئلے میں نورالعین کا حوالہ زیادہ معتبر مانا جائے گا۔
نورالعین کے دو مخطوطے ہمارے سامنے ہیں ، پہلا مخطوطہ جامعۃ الملک سعود، ریاض کی لائبریری، رقم ۳۷۷۷ پرموجود ہے، ٹائٹل پر ۱۹۵۷ء درج ہے، ناسخ کا نام درج نہیں ہے، اس کی تفصیلات میں لکھاہے: کتبت في القرن الثانی عشر الہجری تقدیرا، یعنی اس نسخہ کی کتابت کی تاریخ کا علم نہیں ہوسکا، اندازاً بارہویں صدی ہجری کا معلوم ہوتا ہے، یہ نسخہ خط نسخ میں بہت ہی جلی، صاف اور ملون ہے؛ لیکن افسوس کہ اس نسخے میں متعلقہ مقام پر شامی میں مذکور عبارت درج نہیں ہے۔
دوسرا نسخہ جامعۃ الملک سعود ریاض میں رقم ۲۹۶۵ پر ہے، جو دوجلدوں میں ہے، پہلی جلد میں ۲۸۷ صفحات ہیں اور دوسری جلد میں ۲۸۳ صفحات، اس کا خط بھی صاف ہے، یہ نسخہ سن ۱۲۸۷ھ کا لکھا ہوا ہے، ناسخ کا نام درج نہیں ہے، اس نسخے کے جلد اوّل صفحہ ۱۹۶ پر الفصل الرابع والثلاثون کے اواخر میں شامی میں مذکور مکمل عبارت موجود ہے۔
قابلِ تنقیح اجزاء
علامہ شامی نے تداوی بالمحرم کی بحث میں جن اجزاء پر کلام کیا ہے اور جس اسلوب ومنہج سے بحث ذکر کی ہے، مذکورہ صفحات میں اس پر قدرے روشنی ڈالی گئی، اب اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بحث کے وہ کون سے اجزاء ہیں جن کی تنقیح میں ابھی تشنگی باقی ہے، یہاں چند ایسے امور کی طرف اشارہ کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا:
٭ تداوی بالمحرم کے سلسلے میں متقدمین فقہاء، خصوصاً ائمہ احناف کا کیا قول ہے؟ اور حضرت امام ابویوسفؒ کیا مطلق تداوی بالمحرم کے جواز کے قائل ہیں یا صرف بول مایوکل لحمہ کو تداوی کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں ؟
٭ حرام دوا سے علاج کرنے کی جو دو شرطیں ذکر کی جاتی ہیں ، اس کی دلیل اور اس کا ماخذ کیاہے؟ یہ شرطیں سب سے پہلے کس فقیہ نے ذکر کی ہیں ؟
٭ تداوی بالخمر کے سلسلے میں راجح اور مفتی بہ قول کیاہے اور اس کا ماخذ کیاہے؟
٭ اگر تداوی بالمحرم کی صورت میں جلدی شفا کی امید ہوتو اس بارے میں مفتی بہ قول کیا ہے؟
٭ میتہ، دم اور خمر کے درمیان حکم میں فرق کیوں ہے؟ وجہ فرق کیا ہے؟
ردالمحتار میں ان اجزاء پر کلام مذکور نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ ان اجزاء کے حل ہونے کے بعدہی کہا جاسکتا ہے کہ بحث منقح ہوگئی، اس کے لیے تدبر واتقان کے ساتھ متقدمین کی کتابوں کی مراجعت ضروری محسوس ہوتی ہے۔
خلاصہ
مذکورہ جائزے اور دراسہ سے ایک پہلو یہ نکل کر سامنے آتا ہے کہ علامہ ابن عابدینؒ کی رالمحتار ان کی تصریح کے مطابق یقینا متاخرین کی کتابوں کا خلاصہ ہے اوراس میں ایک حد تک بحث منقح بھی ہوجاتی ہے اور نادر جزئیات وفروعات بھی مل جاتے ہیں ؛ لیکن یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کتاب کے بعد متقدمین کی تصنیفات اور دوسری کتبِ فقہیہ کی مراجعت کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ حسب موقع بحث کی تنقیح کے لیے دوسرے مصادر کی مراجعت بھی ضروری ہے۔
———————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :10-11، جلد:104، صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء
٭ ٭ ٭