حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            موجودہ وقت میں ، امت مسلمہ جو بلاشبہ خیرامت ہے، جس قسم کے حالات سے گزررہی ہے وہ بہت سے ذہنوں میں خوف اور مایوسی کی نفسیات پیدا کررہے ہیں ۔ ایک طرف مسلم ملکوں کے حالات ہیں جہاں دین کا صحیح پیغام پہنچانے والے علماء اور صحیح فکر رکھنے والے قائدین کو زبان کھولنے کی اجازت نہیں ہے، وہاں کا حکمراں طبقہ اپنے کردار کی کمزوری کی بناء پر اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے اسلام دشمن طاقتوں کا سہارالیتا ہے، جو اس کی تائید کرنے کے بدلے، اس کی پالیسیوں میں دخل اندازی کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں ، مزید وہ ان ممالک کے حکمرانوں کو آپس میں لڑاکر یا ایک دوسرے کا ہوّا دکھا کر قابو میں رکھتی ہیں اوراُن سے اپنے پسندیدہ فیصلے کراتی ہیں ، اس کی تازہ مثال وہ معاہدے ہیں جو متحدہ عرب امارات اور متعدد مسلم ممالک کی حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ کیے ہیں ، جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ان حکومتوں نے اسرائیل کے وجود کو درست اور قانونی تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کی مسلسل پامالی اور بدترین ظلم وستم کو پوری طرح نظر انداز کردیا؛ بلکہ متحدہ عرب امارات نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے تجارتی معاہدات اور ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزا کی شرط سے مستثنیٰ کردینے تک کے اقدامات کرڈالے۔

            کئی مسلم ممالک کی حکومتوں کا یہ اقدام، عالم اسلام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، جس سے اس پورے خطے میں اسرائیلی دبدبے اوراثر ورسوخ کا راز عالم آشکارا ہوگیاہے اورجس نے انصاف پسند طاقتوں اورایمان دار عوام کو مایوس کیا ہے۔

            دوسری طرف ان ممالک کے حالات ہیں جہاں مسلمان اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہیں ، ان میں بھی عالمی طاقتوں اور اُن کے ایجنٹوں کی ریشہ دوانیاں اہل ایمان کے لیے مشکلات کھڑی کررہی ہیں اور ایسے ایسے مسائل ابھارے جارہے ہیں جن سے مسلمانوں پر قافیۂ حیات تنگ سے تنگ ہوتا چلاجائے، مثال کے طور پر ہمارے ملک میں گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران قانون ساز اداروں یاعدلیہ کے ذریعہ کیے جانے والے اقدامات پر نظر ڈالی جائے تو حالات کا رُخ سمجھنا اور ان کی سنگینی کو محسوس کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون، طلاق ثلاثہ، دفعہ ۳۷۰ جیسے معاملات پر پارلیمنٹ کی کارگزاری اور عدالت کے ذریعہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی اجازت نیز بابری مسجد انہدام کیس کے ملزمان کو بری کیے جانے جیسے فیصلے، صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ؛ بلکہ ہرامن پسند اور منصف مزاج ہندوستانی کے لیے باعث تشویش ہیں ۔

            اس کے علاوہ میڈیا کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا تسلسل اور نیوز اینکروں کا غیرمنصفانہ، شورش انگیز اور غیرصحافیانہ رویہ ماحول کو مسلسل خراب کررہا ہے جس سے عام ذہنوں میں نفرت پیداہوتی ہے اور معاشرے کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کا ماحول بن رہا ہے۔

            پھر اسی عرصے میں حکومت کی جانب سے منظور کی گئی نئی تعلیمی پالیسی سامنے آئی ہے، جس کی تفصیلات کا جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ تعلیم کو ایک مخصوص فرقہ وارانہ ذہنیت کے رنگ میں رنگنے کا منصوبہ نافذ ہوگیا ہے، یہ پالیسی آنے والوں کو کس طرح متاثر کرے گی، اس کا احساس، کسی بھی معلومات رکھنے والے ہوش مند شخص کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے، خصوصاً مسلمانوں کو اپنی نسلوں کے ایمانی وجود کے تحفظ کے بارے میں اس پالیسی نے سخت تشویش میں مبتلا کردیاہے۔

            ہمارے وطن کے ان حالات کے ساتھ، ساری دنیا کے مسلمانوں کو سخت رنج والم میں مبتلا کرنے کا کام فرانس کے حادثے نے کیاہے، جس سے فائدہ اٹھاکر اسلام دشمن طاقتوں نے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کی مہم ازسرِ نو شروع کردی ہے؛ بلکہ اسی مقصد کے لیے ایسے واقعات سامنے لائے ہیں ۔

            ان حالات میں اہلِ ایمان کو بہت زیادہ ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت ہے،مختصر الفاظ میں اپنے آپ کو کامل مسلمان بنانے کی فکر کی جائے، آپس میں جس قسم کے بھی اختلافات ہوں ان کو ممکنہ حد تک محدود یا ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور اپنے ذہنوں سے خوف اور مایوسی دور کرکے، مستعدی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی فکر کی جائے۔اگرہم ہوش مندی کے ساتھ حالات کا سامنا کریں گے تو ان شاء اللہ حالات بدل جائیں گے اور یہ اندھیری رات، روشن صبح میں تبدیل ہوگی۔

            بقول شاعر:

میں اسیرِ ظلمتِ شب سہی، مری دسترس میں سحر بھی ہے

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :10-11،    جلد:104‏،  صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts