از: مولانا وزیراحمد حنفی

استاذ مدرسہ تعلیم الدین پرانا پل، بنارس

            نیااسلامی ہجری سال 1442ھ شروع ہوچکا ہے، اور نیا ہجری کیلنڈر آویزاں ہوگیاہے، اس مناسبت سے ہجری کیلنڈر کی سنہری تاریخ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، تقریر وخطابت اور رسائل وجرائد کے ذریعہ ہجری کیلنڈر اور ہجری تاریخ کے عناوین سے بہت کچھ سنا سنایا، لکھا اور پڑھا جاتا ہے، جس سے ظاہر ہے ایک مقصد تو افادہ اور استفادہ ہوتا ہے، جو اسلامی تاریخ کے تحفظ وبقا کا سبب ہے، اور یہی دوسرا بڑا فائدہ اور اہم مقصد ہے؛ چنانچہ آئندہ سطور میں ہجری تقویم کے عنوان سے درج ذیل امور زیرِ بحث ہوں گے:

            ۱-         عام انسانی معاشرہ میں تقویم کی ضرورت واہمیت۔

            ۲-        اسلامی معاشرہ میں تقویم کی ضرورت واہمیت۔

            ۳-        شمسی اور قمری تقویم۔

            ۴-        ہجری تقویم کی تاریخ۔

            تقویم یعنی وقت ’’قُلْ ہِیَ مَواقیتُ للناسِ والحجِ۔۔۔۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۹)

            تقویم یعنی سالوں کا شمار اور مہینوں کا حساب ’’لِتعلموْا عددَ السِنینَ والحِسابَ۔۔۔‘‘ (یونس:۵، الإسراء:۱۲)

            تقویم یعنی شمسی وقمری حساب ’’الشَمسُ والقَمرُ بحسبان۔۔۔‘‘ (الرحمن:۵)۔

            تقویم یعنی سال کے بارہ مہینے ’’إنّ عِدۃَ الشُہورِ عندَ اللّٰہِ اثْناَ عَشَرَ شَہرًا فی کتابِ اللّٰہ۔۔۔‘‘ (التوبۃ:۳۶)۔

            تقویم یعنی عبادت کے اوقات ’’إنّ الصلوۃَ کانتْ علی المؤمنین کتاباً موقوتاً‘‘ (النساء:۱۰۳)۔

            ۱- اگر ہم معاشرہ کی دو تقسیم کریں ، ایک عام انسانی معاشرہ اور دوسرا خاص اسلامی معاشرہ، تو یہ کہنا بجا ہے کہ تقویم یعنی کیلنڈر، عام انسانی معاشرہ کی ایک بنیادی اور ناگزیر ضروت ہے، اس کی اہمیت وافادیت سے کسی فرد بشر کو انکار نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ انفرادی و اجتماعی، شہری وملکی، دینی ودنیوی غرض تمام امور کی انجام دہی تقویم ہی سے وابستہ ہے؛ بہ الفاظ دیگر، ایک انسان اپنی حیات میں ہر دن اور رات اپنے دینی اور دنیوی امور کو بروئے کار لانے میں تاریخ، دن، اور وقت کی تعیین یعنی تقویم کا محتاج اور ضرورت مند ہے۔تقویم کی ضرورت واہمیت اس لیے بھی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ تقویم قوموں کا نشان اور ان کی علامت ہے، مذاہب کا شعار ہے، قومی روایات کی پاسدار ہے، تقویم اقوام عالم کی روح اور حیات ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دو مشہور شمسی اور قمری تقویم کے علاوہ دیگر ناموں سے موسوم الگ الگ قسم کی تقویم پائی جاتی ہے، جس سے ظاہر ہے کسی نہ کسی قوم یا ان کی مذہبی روایات کا پتہ چلتا ہے؛ حاصل کلام یہ کہ تخلیق کائنات سے آدم وحوا تک، آدم سے نوح تک، نوح سے ابراھیم تک، ابراھیم سے یوسف تک، یوسف سے موسی تک، موسی سے سلیمان تک، سلیمان سے عیسی تک، عیسی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اور آپ سے قیامت تک پوری انسانی تاریخ تقویم سے مربوط ہے (الشماریخ في علم التاریخ: ۱/۸، کشف المشکل من حدیث الصحیحین: ۲/۲۸۳-۲۸۴)۔

            ۲- اسی طرح اسلامی معاشرہ میں تقویم کی ضرورت واہمیت دو چند ہوجاتی ہے؛ کیونکہ اسلامی معاشرہ کتاب وسنت کا تشکیل شدہ ہے، جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کا امتزاج ہے، حقوق اللہ یعنی عبادات جیسی نماز، زکات، روزہ، حج، قربانی وغیرہ۔ اور حقوق العباد یعنی معاملات ومعاشرت جیسے نکاح، طلاق، عدت، وصیت، وراثت، حضانت، کفالت، وکالت، بیع وشراء، ھبہ، رھن، قرض وغیرہ، سب کا سب ایک تاریخ، وقت اور دن کے ساتھ مقید ومؤقت یعنی تقویم سے منسلک ہے (الفتاویٰ الہندیۃ:۶/۳۸۸، کتاب الشروط)۔

            ۳- قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیوں میں سے بار بار سورج اور چاند کا تذکرہ کیا ہے، اور ان دونوں کے متعلق بہت سے حقائق اور سائنسی علوم کا انکشاف کیا ہے، جن میں سے ایک شمسی اور قمری تقویم کی معرفت کا بیان ہے؛ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

            ۱- یَسْـَلُونَکَ عَنِ الْأَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوٰقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۔۔۔ (البقرۃ:۱۸۹)۔ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ، آپ کہہ دیں کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات کو جاننے اور خاص کر حج کے ایام کو پہچاننے کا ذریعہ ہیں ۔

            ۲- فَالِقُ الإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ۔ (الأنعام:۹۶) وہی صبح کے نکالنے والے ہیں ، اسی نے رات کو راحت وسکون کے لیے اور سورج وچاند کو حساب کے لیے بنایا ہے، یہ غالب اور خوب علم رکھنے والی ذات کا متعین کیا ہوا ہے۔

            ۳- ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّہُ ذٰلِکَ إِلَّا بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْاٰیَـٰتِ لِقَوْم یَعْلَمُونَ (یونس:۵)۔ وہی خدا ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا اور چاند کو روشن بنایا، اور اس کے لیے منزلیں مقرر کردیں ؛ تاکہ سالوں کی تعداد اور تاریخوں کا حساب جان سکو، اللہ نے ان کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا ہے، اللہ ان لوگوں کے لیے نشانیوں کو واضح فرما رہے ہیں جو سمجھ دار ہیں ۔

            ۴- وَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّہَارَ ء َایَتَیْنِ فَمَحَوْنَآ ئَایَۃَ الَّیْلِ وَجَعَلْنَآ ئَایَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃ لِّتَبْتَغُوا فَضْلا مِّن رَّبِّکُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ وَکُلَّ شَیْء  فَصَّلْنَـٰہُ تَفْصِیلا (الإسراء:۱۲)۔  اور ہم نے دن اور رات کو نشانیاں بنایا ہے، رات کی نشانی کو بے نور اور دن کی نشانی کو روشن؛ تاکہ اپنے پروردگار کی روزی تلاش کرو اور تاکہ سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلو، اور ہم نے ہر چیز کھول کھول کر بیان کردی ہے۔

            ۵- وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ۔ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَـٰہُ مَنَازِلَ حَتَّیٰ عَادَ کَالْعُرْجُونِ لْقَدِیمِ (یٰس:۳۸-۳۹)۔ اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے، یہ اس ذات کا مقرر کیا ہوا نظام ہے جو بیحد طاقتور اور بڑا ہی باخبر ہے۔ چاند کے لیے بھی ہم نے منزلیں مقرر کر دیں ؛ یہاں تک کہ وہ سوکھی ہوئی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔

            ۶- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان (الرحمن:۵)۔ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں ۔ (آسان تفسیر قرآن مجید)۔

            مذکورہ آیات سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :

            ٭ سورج اور چاند تقویم کی بنیاد اور اصل ہیں ، سورج کے سالانہ منازل اور یومیہ طلوع وغروب سے شمسی تقویم کا وجود، اور چاند کے ماہانہ منازل اور یومیہ طلوع وغروب سے قمری تقویم کا وجود ہے۔

            ٭ شمسی اور قمری تقویم دونوں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں ؛ اس لیے دونوں قابل عمل اور لائقِ استفادہ ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے لیے معاون ہیں نہ کہ منافی اور نقیض؛ چنانچہ (چند ایک شرعی احکام کے استثناء کے) دونوں کے مطابق تمام امور و معاملات کی انجام دہی درست اور جائز ہے۔

            ٭ شمسی تقویم فکر ونظر اور علم ریاضی پر مبنی ہے، اور قمری تقویم رؤیت ہلال یعنی نیا چاند دیکھنے اور چاند کے حجم کے گھٹنے، بڑھنے پر مبنی ہے؛ اس لیے شمسی تقویم مشکل اور قمری تقویم سہل ہے۔

ہجری تقویم کی تاریخ

            ہر قوم ومذہب کی تقویم کی ایک پوری تاریخ اور کوئی نہ کوئی سبب اور پس منظر ہے، جیسے عربوں میں بنو اسماعیل نارِ ابراھیم سے تاریخ لکھتے تھے، پھر بنائے کعبہ سے، پھر مشہور زمانہ کعب بن لؤی کی موت سے، اور پھر ابرہہ کے لشکر اصحابِ فیل کے واقعہ سے تاریخ شمار کرنے لگے،’’أرخ بنو إسماعیل من نار إبراہیم، ثم أرخوا من بنیان إبراہیم وإسماعیل البیت، ثم أرخوا من موت کعب بن لؤی، ثم أرخوا من الفیل (البدایۃ والنہایۃ:۳/۲۵۲)۔

            اسلامی تقویم کی بھی ایک مشہور اور نمایاں تاریخ ہے، جس میں علمائے تاریخ کے درمیان قدرے اختلاف پایا جاتا ہے وأما ابتداء تاریخ الإسلام ففیہ اختلاف أیضاً، (عمدۃ القاری: ۱۷/۶۶)۔ اور وہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے تاریخ لکھنے کا حکم دیا، جیسا کہ ابن شہاب زہری کا بیان ہے : أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما قدم المدینۃ وقدمہا فی شہر ربیع الأول۔ أمر بالتاریخ (تاریخ الطبری:۲/۲۸۸، الشماریخ فی علم التاریخ:۱/۱۱) کیونکہ اب تک مسلمانوں کی اپنی کوئی مستقل تاریخ وضع نہیں ہوئی تھی؛ چنانچہ آپ کی وفات تک لوگ تاریخ کا شمار کرتے رہے؛ لیکن آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد تاریخ لکھنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت بھی اسی حال میں گزر گیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ابتدائی چار سال بھی کتابت تاریخ کے بغیر رہا؛ جیسا کہ علامہ بدر الدین عینی نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے لکھا ہے: عن ابن عباس: قدم النبیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ ولیس لہم تاریخ، وکانوا یؤرخون بالشہر والشہرین من مقدمہ، فأقاموا علی ذلک إلی أن توفی النبیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وانقطع التاریخ، ومضت أیام أبی بکر علی ہذا، وأربع سنین من خلافۃ عمر علی ہذا، ثم وضع التاریخ (عمدۃ القاری: ۱۷/۶۶)۔

            لیکن جمہور کے نزدیک ہجری تقویم کی راجح اور مشہور تاریخ یہ ہے کہ خلیفہ ثانی امیر المومنین سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت (علی اختلافِ الأقوال) سنہ ۱۶ یا سنہ۱۷یا سنہ۱۸؍ہجری میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مشورہ کیا کہ ہم مسلمانوں کا اپنا ایک الگ کیلنڈر ہونا چاہیے، تو مسئلہ یہ ہے کہ اول کس چیز کو بنیاد بنایا جائے اور تاریخ کا شمار کب سے کیا جائے؟ یعنی کیلنڈر کا نام کیا ہو؟ دوم یہ کہ سال کا پہلا مہینہ کونسا ہو یعنی کیلنڈر کا آغاز کس مہینہ سے ہو؟ چنانچہ اول الذکر مسئلہ کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حسب ذیل مشورہ دیا گیا :

            ۱-         ایرانیوں کی تاریخ سے آغاز ہو۔

            ۲-        رومیوں کی تاریخ کو بنیاد بنائی جائے۔

            ۳-        میلاد النبی سے ابتدا ہو۔

            ۴-        حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بعثت رسول سے شروعات ہو۔

            ۵-        حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہجرت مدینہ سے شمار ہو۔

            ۶-        حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہا کہ وفات نبی سے تاریخ لکھی جائے۔(عمدۃ القاری:۱۷/۶۶)۔

            سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور کچھ دیگر اشخاص نے مشورہ دیا کہ تاریخ کی ابتداء ہجرت کے واقعہ سے کی جائے؛ کیونکہ واقعہ ہجرت، ولادت وبعثت کی بہ نسبت زیادہ مشہور ومعروف ہے اور کیوں نہ ہو کہ ہجرت تاریخ اسلام کا ایک روشن باب ہے، ہجرت نے حق وباطل کے مابین واضح فرق کیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا اور خود ذاتی طور پر اسی کی جانب اپنا میلان ظاہر فرمایا؛ چنانچہ متفقہ طورپر واقعہ ہجرت سے اسلامی تاریخ کا نیا کیلنڈر وضع کیا گیا۔ وأشار علي بن أبي طالب وآخرون أن یؤرخ من ہجرتہ من مکۃ إلی المدینۃ؛ لظہورہ لکل أحد؛ فإنہ أظہر من المولد والمبعث، فاستحسن ذلک عمر والصحابۃ (البدایۃ والنہایۃ:۷/۸۵)۔

            قال سعید بن المسیب: کتب التاریخ بمشورۃ علي (کشف المشکل:۲/۲۸۴، عمدۃ القاری:۱۷/۶۶)۔

          فمال عمر رضي اللّٰہ عنہ إلی التاریخ بالہجرۃ؛ لظہورہ واشتہارہ، واتفقوا معہ ذلک۔ (البدایۃ والنہایۃ:۳/۲۵۱، تاریخ الطبری:۲/۳۸۹، أنساب الأشراف:۱۰/۳۲۱، الکامل في التاریخ:۱/۱۳، تاریخ خلیفۃ بن خیاط:۱/۵۰، الشماریخ في علم التاریخ: ۱/۱۰، صحیح البخاري: باب التاریخ، باب مناقب الأنصار)، ثم رأو أن یکون من الہجرۃ؛ لأنہ أول وقت بدأ فیہ الإسلام (الفتاویٰ الہندیۃ:۶/۳۸۸، کتاب الشروط)۔

            پھر ثانی الذکر مسئلہ کے متعلق رائے عامہ معلوم کی گئی تو درج ذیل مشورہ دیا گیا :

            ۱-         حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ماہ رجب سے آغاز ہو کہ یہ اشہر حرم کا پہلا مہینہ ہے۔

            ۲-        حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ماہ رمضان سے آغاز ہو کہ یہ امت کا مہینہ ہے۔

            ۳-        حضرت علی اور عثمان رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ماہ محرم سے ابتدا ہو؛ کیونکہ یہ سال کا پہلا اور حج سے واپسی کا مہینہ ہے۔(عمدۃ القاری:۱۷/۶۶)۔

            ۴-        بعض نے کہا کہ ذوالحجہ سے آغاز ہو کہ یہ حج کا مہینہ ہے۔

            ۵-        کچھ لوگوں نے کہا کہ جس مہینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کے لیے نکلے اسی سے آغاز ہو۔

            کچھ اور لوگوں نے کہا کہ جس ماہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے اس سے آغاز ہو۔(الشماریخ فی علم التاریخ:۱/۱۵)۔

            امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضراتِ ختنین رضی اللہ عنہما کی رائے کی موافقت کرتے ہوئے ماہ محرم ہی کے بارے اپنی رائے کا اظہار فرمایا، اور پھر بالاتفاق ہجری تقویم اور اسلامی کیلنڈر کا آغاز ماہ محرم سے کیا گیا۔ ثم قالوا: المحرم فہو مصرف الناس من حجہم وہو شہر حرام فاجتمعوا علی المحرم۔۔۔ والمقصود أنہم جعلوا ابتداء التاریخ الإسلامي من سنۃ الہجرۃ، وجعلوا أولہا من المحرم فیما اشتہر عنہم، وہذا ہو قول جمہور الأئمۃ (البدایۃ والنہایۃ:۳/۲۵۲، تاریخ الطبری:۲/۳۹۰-۳۹۱، تاریخ خلیفۃ بن خیاط:۱/۵۰، الکامل فی التاریخ:۱/۱۳)، فاستفدنا من مجموع ہذہ الآثار أن الذي أشار بالمحرم عمر وعثمان وعلی رضی اللّٰہ عنہم (فتح الباری:۷/۲۶۹، باب التاریخ)، ثم جعلوا الابتداء من المحرم (الفتاویٰ الہندیۃ:۶/۳۸۸، کتاب الشروط)۔

وضع تاریخ کا سبب

            ہجری تاریخ کی وضع کیوں ہوئی اور اس کا سبب اور پس منظر کیا تھا؟ فن تاریخ سے دلچسپی اور شغف رکھنے والوں کے لیے یہ بڑا اہم سوال ہے، علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں : واختلفوا في سببہ (عمدۃ القاری:۱۷/۶۶)کہ علمائے تاریخ کے درمیان اس کے سبب کے سلسلے میں اختلاف ہے؛ چنانچہ کتب تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجری تقویم کی وضع کے متعلق کل چار اسباب بیان کیے گئے ہیں ، (جن میں آپس میں کوئی تعارض اور تضاد نہیں ؛ کیونکہ اسلامی سلطنت کی وسعت اور روز افزوں فتوحات کے باعث بہت ممکن ہے کہ وقفہ وقفہ سے بارگاہِ فاروقی میں وضع تاریخ کی گزارش کی جاتی رہی ہو، اور بالآخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے وضع تاریخ کا فیصلہ کیا)۔ وہ چار اسباب حسب ذیل ہیں :

            ۱- حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خلیفہ وقت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شکایت نامہ ارسال کیا کہ اے امیر المومنین ہمیں آپ کے فرامین موصول ہوتے ہیں ؛ لیکن ان پر کوئی تاریخ رقم نہیں ہوتی، (جس سے ظاہر ہے ترتیب حساب میں دقت ہوتی ہے) کتب أبو موسی الأشعری إلی عمر أنہ یأتینا منک کتب، لیس لہا تاریخ (تاریخ الطبری: ۲/۳۸۸، أنساب الأشراف:۱۰/۳۲۰، الشماریخ فی علم التاریخ:۱/۱۴، فتح الباری: ۷/۲۶۸، کشف المشکل:۲/۲۴۸)۔

            ۲- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حساب کی ایک دستاویز پیش کی گئی جس میں تاریخ کی جگہ صرف شعبان لکھا تھا، تو آپ نے استفسار کیا کہ کونسا شعبان مراد ہے، آیا گزشتہ یا موجودہ یا آئندہ؟ فقال عمر: أی شعبان؟ أ شعبان ہذہ السنۃ التی نحن فیہا، أو السنۃ الماضیۃ، أو الآتیۃ؟ (البدایۃ والنہایۃ:۳/۲۵۱، الکامل فی التاریخ:۱/۱۲)۔

            ۳- حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے گزارش کی کہ آپ مسلمانوں کی ایک تاریخ اور تقویم قائم فرمائیے؛ کیونکہ عجمی لوگ اپنی تاریخ اور سن لکھتے ہیں ۔ قام رجل إلی عمر فقال: أرخوا، فقال عمر: ما أرخوا؟ فقال: شيء تفعلہ الأعاجم فی شہر کذا من سنۃ کذا (الکامل فی التاریخ:۱/۱۳، کنز العمال:۱۰/۳۱۰، أدب الکتابۃ)۔

            ۴- یعلی بن امیہ (جن کے متعلق مشہور ہے کہ انھوں نے پہلے پہل تاریخ لکھنی شروع کی) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یمن سے ایک خط لکھا جس پر تاریخ رقم تھی، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ طریقہ پسند آیا اور آپ نے تاریخ لکھنے کا حکم صادر فرمایا، اور صحابہؓ سے مشورہ کے بعد ہجری تقویم کی بناڈالی؛ جیسا ماقبل میں مذکور ہوا۔ (عمدۃ القاری:۱۷/۶۶)۔

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :10-11،    جلد:104‏،  صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts