از: مولانارفیع الدین حنیف قاسمی

رفیق تصنیف دار الدعوۃ والارشاد، یوسف گوڑہ، حیدرآباد

            آج اس وقت ساری دنیا کووِڈ 19سے پریشان ہے، ساری حرکت بند، دنیا تھم سی گئی ہے ، جو بازار ہر وقت ہر دم لوگوں سے بھرے پرے رہتے تھے ،سڑکیں فراٹے بھرتے ہوئے نوع بنوع گاڑیوں سے آراستہ ہوتی تھیں ، جن گلی گوچوں میں دوکانیں ، کاروبار ، تجارت کی چمک دمک تھی، ٹرینیں اپنی پٹریوں سے برق رفتاری سے دوڑ تی تھی، ہوائیں اور فضائیں جو انسان کے مسخر تھیں ، جہاں انسانیت کا راج تھا، یہ انسان ناتواں ہوائیں اور فضاؤں کو مسخر کرنے کے بعد آسمان کے دوسرے سیاروں کو اپنی آماجگاہ اور اپناآشیانہ بنانے کی سوچ رہا تھا، اچانک ایک وبا کیا پھیل گئی ، ساری دنیا تھم سی گئی ، بازار وں اورسڑکوں کی رونقیں ، انسانیت کا دم خم، اس کا ناز ونعم، اس کی پررونق محفلیں ، عیاشی کی اڈے ،انسانیت کوشرمسار کرنے والی مجلسیں ، رقص گاہیں ، عیش وسرود کی رمزگاہیں ، سب رک گئیں ، سڑکیں اور بازار جو ہر دم انسانیت کی چہل پہل سے انسانیت کی قوت وطاقت اور ہر شخص اس کی وسعت بھر دولت وشہرت کاپتہ دیتیں ، آج وہ بازار، وہ سڑکیں ، وہ محفلیں ، آج وہ رقص گاہیں ، انسانیت کا سارا دم خم، اس کی قوت وتوانائی کا سرچشمہ سب ماند پڑچکا ہے ، ہر طرف ہو کا ساعالم ہے ، ہر شخص اپنے گھر تک محدود ہے ، ورنہ وہ پھر لقمہ اجل بننے کے لیے تیار ہے ، اس صورتحال نے عبرت وموعظت کے بہت سارے پہلو وائے کیے، شاید ہی کسی نے سوچا ہوگاکہ دنیا اس قدر تھم جائے گی، کل جو یہ کہتے نہ  تھکتے تھے کہ ’’کرلو دنیا مٹھی میں ‘ ‘ آج اسی گلوبلائزیشن کا مارا انسان اپنے گھر کی چہار دیواری تک محدود ہے ، جو محفلیں سجا کر اپنی طاقت وقوت کا مظاہرہ کیا کرتا، جو اپنی بادشاہت وسلطنت کے کر وفر کا لوہا منوانا، اپنے چیلے چباٹوں کے ساتھ اپنی انانیت کا تماشا کرتا،  سب دبے چھپے بیٹھے ہیں ، ساری حرکت وجنبش ماند پڑگئیں ، سب کے ہاتھ پیر سکڑ گئے، سب کی تمنائیں اور خواہشیں تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی دھری کی دھری رہ گئی۔

            اس صورتحال نے چند ایک حقائق اور سچائیوں کو ظاہر کردیا:

۱- تکبر اللہ کو زیب دیتا ہے

             اس صورتحال نے انسانیت کے لیے اس کی حقیقت وحیثیت کوواضح کردیا ، اس کی بے وقعتی اور کمزوری کو واشگاف کردیا، اس کے خدا کے مقابلے میں لا شیء ہونے کو ظاہر کردیا کہ انسان خواہ دنیا کو مسخرہی کیوں نہ کرلے، وہ ہواؤں اور فضاؤں کو اپنے قبضہ میں کیوں نہ کرلے، وہ زمین کی تہوں میں کیوں نہ پہنچ جائیں ، وہ بڑی سے بڑی مشینیں کیوں نہ ایجاد کر لے، وہ اپنے دماغی گلگاریوں کی کتنی ہی نقش کاری کر کے اپنے ترقی یافتہ ہونے کے کتنے ہی کیوں نہ ڈھول پیٹ لے ؛ لیکن در حقیقت وہ کمزور ہی ہے، وہ ناتواں ہی ہے ، اس کو تکبر زیب نہیں دیتا، تکبر تو شانِ خداوندی ہے، زینب رب ذوالجلال ہے ، حدیث قدسی ہے ’’الکبریاء ردائی والعظمۃ إزاری، فمن نازعنی منہما قذفتہ فی النار‘‘ (ابوداود، ابن ماجہ)(تکبر میری چادر ہے ، عظمت وبرتری میری تہہ بند ہے ، جو ان دونوں کے حوالے سے مجھ سے جھگڑا کرے تو میں اسے جہنم کے حوالے کردوں گا) دیگر روایات میں یہ الفاظ ہیں ’’عذبتہ‘‘ (میں اس کو عذاب میں مبتلا کروں گا) اور ایک روایت میں ہے ’’قصمتہ‘‘  (میں اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دوں گا) ۔

            اس وبا اور بیماری میں دنیا کی عظیم طاقتوں کے لیے ایک عبرت ونصیحت ہے ، ان کو تکبر بالکل زیب نہیں ہوتا، روئے زمین در حقیقت ایک خالق ومالک کی ہے ، جس کے قبضۂ قدرت میں اس کا سارا نظام ہے، جوصبح وشام کو پیدا کرتا ہے ، سورج وچاند کو نکالتا ہے ، موسموں کو تبدیل کرتا ہے ، زمین سے غلوں کو نکالتا ہے ، آسمان سے پانی کو برساتا ہے، وہی خدا کو خدائی کا دعوی کرنازیب دیتا ہے ، ہر کس وناکس ، ایک حقیر وناتوں مخلوق خدا کے مقابلہ میں اپنی نمردویت اور فرعونیت کا مظاہر کرے گی تواس کی گردن ایسے ہی موڑ دی جائے گی ، پھر سوائے ماتم کے کچھ باقی نہ رہے گا۔

۲- انسان نہایت کمزور ہے

            یہ انسان جان لے کہ وہ ایک مخلوط بے جان نطفہ سے بنایا گیا ہے ، اس کی حقیقت ایک گندگی ہے ، جس کو رب ذو الجلال اپنی قدرت سے انسان کے قالب میں ڈھالا، اس کی منظر کشی کی، اس کو حسین وجمیل اور بولتا چالتا، سوچتا ، غور وفکر کرتا بنایا، اس میں بے شمار صلاحیتیں ودیعت کیں ، وہ اس دنیائے جہاں میں اپنی آنکھیں کھولنے کے بعد وہ اپنی پچھلی حقیقت کو یکسر نہ بھلا دے ، اپنی صرف موجودہ شان وشوکت کے بھول بھلیوں میں ایسا گم نہ ہوجائے کہ پھر ان وباؤں اور بیماریوں کی شکل میں اس کی اصلی حقیقت کو خدائے برتر کی طرف سے واشگاف کرنے کی ضرورت پڑے ، اپنی تنہائیوں میں اپنے اصلی حقیقت وحیثیت کو ہمیشہ دل کے نہاں خانوں میں تازہ رکھے،ورنہ اس کی طاقت وقوت کا مدعی ہی ان مصائب ومتاعب کا باعث بن جائے گا ، سچ فرمایا خدائے ذو الجلال نے ’’خُلِقَ الإنسانُ ضَعیفًا‘‘(النساء:۲۸) (انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ) یعنی انسان طبعی اور فطری طور پرضعیف النفس ہے ، اس لیے کہ اس کے اندر خیر وشر دونوں مادے ودیعت کیے گئے ہیں ، اس کے اندر وساوس وخیالات ، خواہشات وتمناؤں کی بھی ایک لا متناہی اور عظیم دنیا ہے ، وہ خلقت کے اعتبار سے بھی ضعیف اور کمزور اس طرح ہے کہ ہر دم بیماریاں ، مصائب وآلام سے وہ دوچارہوتا رہتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ درد وکسک کو بھی محسوس کرتا ہے ، اس کو آرام وراحت کی بھی ضرورت پڑتی ہے ، اس کو نیند بھی ضروری ہوتی ہے ،وہ عقلی اعتبار سے بھی اس لیے کمزورہے کہ ، خواہ فہم وادراک کے اعلی منازل پر کیوں نہ پہنچ جائے؛ لیکن اس کا ہراٹھنے والا قدم اس کی کامیابی کا ضامن ہو ایسا نہیں ہوتا، اس کو خوشی کے لمحات بھی میسر آتے ہیں ، اسے رونے دھونے اور اپنے سر پر ہاتھ رکھ بیٹھ جانے پر مجبور کرنے والی گھڑیاں بھی درپیش ہوتی ہیں ۔اس لیے انسان خواہ دنیا کی ساری قوت وطاقت کا سرچشمہ کیوں نہ ہوجائے وہ اپنی حقیقت واصلیت سے آنکھیں نہ موند لے!

۳-  ظلم وستم سے باز آئے

            دنیا میں اللہ عزوجل کا یہ قانون ہے کہ اس نے سارے انسانوں کو یکساں اور ایک رتبہ کا حامل نہیں بنایا، لوگوں کو مختلف درجوں اور مراتب کا حامل بنایا ہے ، یہ اس لیے نہیں کہ بڑا انسان چھوٹے انسان پر ظلم کرے ، اس پراپنی طاقت اور انانیت کا مظاہر ہ کرے ، اس کو ناحق ستائے، اس پر ستمگری کرے، اس مجبوروناتواں انسان کو ناکردہ جرم کی سزا دے، اپنی نشہ قوت میں مست ہو کر بدمست ہاتھی کی طرح سارے انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روندنا پھرے، ارض خدا میں اپنی سلطنت اور خدائی کا دعوی کرے، خلق اللہ جو عیال اللہ (اللہ کا کنبہ ) ہے ، اس پر ظلم روا رکھے؛ بلکہ یہ اونچ نیچ ، یہ نشیب وفراز، یہ دولت وثروت، مراتب ودرجات کا تفاوت صرف اس لیے ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے ، جس کو اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا: ’’وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً‘‘(الزخرف:۳۲) (اور ہم نے بعض کو بعض پر درجات کے اعتبار سے فوقیت دی ہے؛ تاکہ ان میں سے ایک دوسرے سے کام لیتا رہے)اور یہ بھی اللہ عزوجل نے فرمایا کہ یہ خاندان یہ قبیلے ، یہ اونچ نیچ یہ تفاوت ، یہ انسانیت کے درمیان فرق مراتب ، تعارف اور پہچان کا ذریعہ ہے ، اس سے مقصود اور مطلوب حقیقی اس نشیب وفراز کو بتانا نہیں ؛ بلکہ حقیقت میں رب ذو الجلال کا یہاں محبوب وہ شخص ہے جو رب ذولالجلال کے احکام کو کتنا بجالاتا ہے ،اس روئے پر بحیثیت اس کے خلیفہ ہونے کے اس کے احکام کے نفاذ اور اس کے مخلوق کے ساتھ عدل اور اس کے ذات کے استحضار کے ساتھ اپنے کاموں کو کس قدر انجام دیتا ہے؟۔

            اس لیے کسی بھی انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے دوسرے انسان؛ بلکہ جانور پر بھی ناحق ظلم کرنا درست نہیں ، اللہ عزوجل نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے : ’’یا عبادی! حرمت الظلمَ علی نفسی وجعلتہ بینکم محرما، فلا تظالموا‘‘(مسلم)( اے میرے بندو! میں نے ظلم کرنے کو اپنی ذات پر حرام کیا ہے ، تم بھی ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لو، کسی پر ظلم نہ کرو)۔اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اتقوا دعوۃَ المظلوم، وإن کان کافرا، فإنہ لیس دونھا حجاب‘‘ (صحیح البخاری) (مظلوم کی بدعا سے بچو!  اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو؛ کیوں کہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی آڑنہیں ہوتی)ظالموں نے نہتے لوگوں میں روئے زمین کے مختلف حصوں پر کتنا ظلم نہیں کیا، اللہ عزوجل کو غصہ کیوں نہ آتا، ظالموں کی گردنیں مڑو ڑ کر کیوں نہ رکھ دی جاتی ،اس بیماری اوروبا میں ظالموں کے لیے تازیانۂ عبرت وموعظت ہے کہ وہ ظلم وستم کی اپنی پالیسیوں سے باز آئیں ، وہ مظلوموں کے خلاف تانے بانے بنیں گے؛ مکر وتدبیر کریں گے ، خدائی تدبیر کے سامنے انھیں بے بس اور لاچار ہوناپڑے گا۔

 ۴- خدائی حدود کو نہ پھلانگیں

            ہر چیز اپنے حد میں رہ کر ٹھیک ہوتی ہے ، اس کا حسن وکمال اس کے دائرہ کار میں بہتر نظر آتا ہے،  انسان کا خالق اللہ عزوجل ہے ، اس نے انسان کی تخلیق کی ، اس کو بہترین سانچے میں ڈھال کر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا، اس میں روح پھونکی ، اس کو عقل ودانائی، ادراک ووقوتِ شعور سے نوازا؛لیکن انسان کا حسن وکمال اس کے خدائی احکام کے حدود میں رہ کر اپنے کارہائے زندگی کو انجام دینے میں ہے ، خدائی احکام وحدود کا پھلانگنا تو عذاب خدا کو دعوت دینے والا ہوتا ہے ، یہ ایسی وباؤں کا باعث بنتا ہے، جس کا سرے کا بھی پتہ نہیں ہے ، جس کی ابتداء اور انتہاء بھی معلوم نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک، سر کے بالوں سے لے کر پیر کے ناخن نک ، صبح سے لے کر شام تک؛ احکام خداوندی ، خالق ومالک حقیقی کے احکام کے مطابق زندگی گذارنے میں ہی اس کی اور ساری خدائی مخلوق کا تحفظ مضمر ہے ، جہاں فطرت خداوندی سے چھیڑ چھاڑکیا، اپنے حدود کو پھلانگا، حرام وحلال کی تمیز کو ترک کردیا ، پھر گرفت خداوندی میں آگئے، عذاب الٰہی کو دعوت دے بیٹھے،اسی کو اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِینَ‘‘ ( البقرۃ:۱۹۰) ترجمہ: حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ عزوجل حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے ۔

۵- مخلوق خدا کی بھلائی کے لیے کام کرے

            آج کا انسان صرف اپنے خول میں محدود ہوگیا ، اسے صرف اپنے پیٹ اوراس کے اطراف واکناف کے خواہشات کی لگی رہتی ہے ، اسے سسکتی انسانیت، بلکتی مخلوق اور نہتے عوام سے کوئی مطلوب ومقصود نہیں ؛ بلکہ اس کی ہردم یہ خواہش ہوتی ہے کس طرح ، کون سی تدبیر ایسی اپنائی جائے کہ ہر مخلوق خدا کی کمائی کا کچھ نہ کچھ حصہ اس کے اپنے قبضے میں آئے، لینے کے ذرائع تو بہت سے بنالیے، دینے کے ذرائع، خدمتِ خلق ، خدمتِ انسان، دردِ انسانیت، احترامِ انسانیت، زکاۃ وصدقات کا اہتمام، اپنی کمائی کے حصہ کو راہِ خدا میں خدمتِ خلق کے لیے وقف کرنے کاجذبہ مفقود ہوچکا، جس کی وجہ سے یہ عمومی مصائب ومتاعب ساری دنیا پر آن پڑے، جس کی وجہ سے انسان کو اپنے ہاتھوں مجبور ہو کر گھروں میں محدود ہونا پڑا۔

            یہ وہ چند تلخ حقائق اورسچائیاں ہیں جو اس وقت ساری دنیا میں بسنے والی نوع انسانیت کی سمجھ میں ضرور آئے ہیں ، ہر حاکم ومحکوم، ہر اعلی وادنی، ہر امیر وغریب کے ذہن کے نہاں خانوں میں ان تلخ حقائق کا گذر اپنے اس غیر مصروف اورغیر ہنگامی زندگی میں ضرور ہوا ہوگا، اللہ عزوجل حقیقت کو سمجھ کر زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے !

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :10-11،    جلد:104‏،  صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts