از: مولانا اشرف عباس قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
رخ روشن کو داغ دار کرنے کی کوششیں
چھٹی صدی عیسوی میں سسکتی، بلکتی اور گم گشتۂ راہ انسانیت کی ہدایت کے لیے جب خلّاق ازل نے ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو جہاں سعید روحوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا، راہ کی مشکلات اور طاغوتی طاقتوں سے متاثرہوئے بغیر حق پرستی اور عزیمت کی نئی تاریخ رقم کی؛ وہیں انجام سے بے خبر شیطانی ٹولے نے نہ صرف یہ کہ اس صداقت کو قبول نہیں کیا؛ بلکہ اس نورحق کو اپنے پھونکوں سے بجھانے اور چراغ مصطفوی کو شرار بولہبی سے گُل کرنے کی ہرممکن کوشش کی روز روشن کی طرح واضح دلائل نبوت اور انتہائی جامع ومتوازن شرائع واحکام میں شکوک وشبہات پیدا کرکے خداکے بندوں کو خدا سے دور رکھنے کی مہم چھیڑدی؛ لیکن وہ اپنی ان کوششوں سے اسلام کے بڑھتے قدم کو نہ روک سکے، چنانچہ نورحق کی شعائیں پھیلیں اور پھلتی ہی چلی گئیں اور ظلمت کے پجاری خائب وخاسر ہوئے۔
اسلام مخالف چارمحاذ اوران کا حال
قرآن کریم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت اسلام مخالف خیمے میں بہ تدریج چار جماعتیں اکٹھی ہوگئی تھیں : (۱) کفار ومشرکین (۲) یہود (۳) نصاریٰ) (۴) منافقین۔
دلائل وبراہین کے اعتبار سے قرآن مقدس نے چاروں گروہوں کو مغلوب کرکے سب پر اپنی برتری ثابت کردی اور کسی کے پاس کچھ نہیں رہ گیا جس کے ذریعے وہ اسلام کے خلاف حجت قائم کرسکیں اور قادرمطلق نے صاف اعلان کردیا ’’الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِینًا‘‘(المائدہ:۳)
’’ اور آج کے دن تمہارے لیے میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا اور میں نے اسلام کو تمہارے دین بننے کے لیے پسند کرلیا۔‘‘
اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا: ’’وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الإِسْلاَمِ دِیناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ‘‘ (آل عمران:۸۵)
’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ اس کی طرف سے قبول نہ ہوگا‘‘۔
اور ظاہری وجود کے اعتبار سے ان میں سے مکہ کے کفار ومشرکین نے لاکھ جتن کیے؛ لیکن فتح مکہ کے ساتھ ہی ان کی رہی سہی شان وشوکت بھی صحرائے عرب میں دفن ہوگئی، بڑی تعداد نے حق کو قبول کرلیا اور جو نہیں مانے وہ بے نام ونشان مٹ گئے، حتیٰ کہ جزیرۃ العرب شرک اور بت پرستی کی آلائشوں سے پاک ہوگیا۔
منافقین جنھوں نے مدینہ منورہ کی نوزائیدہ اسلامی مملکت کی بیخ کنی اور مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھوپنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا اور دیگر تینوں اسلام مخالف طاقتوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرکے اسلام کی بیخ کنی کرتے رہے؛ وہ بھی ان طاقتوں کے کمزور ہوتے ہی پسپا ہوتے گئے اور ان کی جمعیت منتشر ہوگئی۔
تحریک استشراق کا پس منظر
جہاں تک تعلق ہے یہود ونصاریٰ کا تو ان کے پاس اپنی تہذیب، اپنی کتاب اور علم ومعرفت کا کچھ نہ کچھ سرمایہ تھا، جس کی بنا پر انھیں یقین تھا کہ یہی نبی نبیِ برحق اور دین اسلام ہی دین برحق ہے؛ چنانچہ قرآن کریم نے ان کے بارے میں کہا ہے:
الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَائَہُمْ وَإِنَّ فَرِیقاً مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُونَ (البقرۃ:۱۴۶)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بعضے ان میں سے امرواقعی کو باوجود یہ کہ خوب جانتے ہیں اخفا کرتے ہیں ۔‘‘
اس علم ویقین کے باوجود انھوں نے حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ انبیاء کی تعلیمات میں لفظی ومعنوی تحریفات اور کتمان سے کام لیا، میثاق مدینہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے گئے عہد وپیمان کی خلاف ورزی کی، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زہرخورانی اور پتھرگراکر جان لینے کی مذموم سازش کی اور کئی طرح کی خباثتوں کے مرتکب ہوئے جس کی بنا پر انھیں بھی اولاً مدینہ منورہ سے اور ثانیاً جزیرۃ العرب سے جلاوطن ہونا پڑا۔ ان کی سیادت واجارہ داری پر ضرب کاری لگی، ان کا یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل میں ہی مبعوث ہوں گے؛ جس سے یہ حسد اور عصبیت کی وجہ سے تلملا اٹھے اوراسلام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت وعداوت کے جذبات اپنی نسلوں کو منتقل کرتے گئے اور جوں جوں اسلام کا عروج ہوتا گیا ان کا جذبۂ عدوات دو آتشہ ہوتا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اہم مذہبی مقامات بیت المقدس وغیرہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آگئے اور بعد کی صلیبی جنگوں میں بھی وہ مسلمانوں کو زیرنہ کرسکے اور ان تمام ادوار میں اسلام ایک مکمل دین اور مستقل تہذیب کی حیثیت سے دنیا میں پھیلتا گیا، اس صورت میں یہود ونصاریٰ کو خطرہ محسوس ہوا اورپے درپے ناکامیوں کے بعد اپنے ہم مذہبوں کو اپنے مذہب پر باقی رکھنے اور اسلام کی تہذیبی ونظریاتی برتری کو ختم کرنے کے لیے اسلامی علوم وفنون پر گہرائی کے ساتھ مطالعے کی طرح ڈالی اس طرح تحریک استشراق وجود میں آئی۔
ایک رائے کے مطابق اس تحریک کا آغاز ۱۳۱۲ء میں ہوا، جب فینا میں کلیسا کی کانفرنس ہوئی جس میں یہ طے کیاگیاکہ یورپ کی جامعات میں عربی، عبرانی اور سریانی زبان کی تدریس کے لیے پیرس اور یورپ کے طرز پر چیٹرز قائم کی جائیں ۔
استشراق اور مستشرق
استشراق، شرق سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے روشنی اور چمک۔ مجازی طور سے سورج کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ اسی طرح سورج طلوع ہونے کی جگہ بھی مشرق کہلاتی ہے (لسان العرب/۱۷۴۱) تواستشراق کا مطلب ہوا مشرق کی طلب، مشرق کی یہ طلب علوم مشرق، آداب، لغات اور ادیان تک دراز ہے، صرف جغرافیائی مفہوم میں محدود نہیں ہے۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے المنجد میں مستشرق کا معنی بتایاگیا ہے۔
’’العالم باللغات والآداب والعلوم الشرقیۃ، والاسم استشراق‘‘ (المنجد فی اللغۃ والأعلام)۔
’’مشرقی زبان ، کتابیں اور مشرقی علوم وفنون سے واقفیت رکھنے والے کو مستشرق کہا جاتا ہے اور تحریک کا نام استشراق ہے‘‘۔
مستشرق کا حقیقی مفہوم
یہ مستشرق کا عام اور سادہ سا مفہوم ہے کہ کوئی مغربی مفکر اور عالم اگر قرآن، حدیث، فقہ،اصول فقہ اور علم کلام جیسے فنون میں مہارت حاصل کرے اوراسے وظیفۂ زندگی بنالے تو وہ مستشرق ہے؛ لیکن حقیقت واقعہ کے اعتبار سے اتنا کافی نہیں ہے؛ بلکہ یہ ضروری اضافہ کرلیجیے کہ علوم مشرق اور اسلامیات کا یہ مطالعہ صرف علم وآگہی میں اضافے اورجہالت دور کرنے کے لیے نہ ہو؛ بلکہ اس کا نشانہ اسلامی علوم کے سرمایے کی بے وقعتی اور اسلام کے احکام ومسلمات میں تشکیک وطعن پیدا کرنا ہو، اس پس منظر میں ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب نے استشراق کا جو مفہوم بیان کیا ہے وہ انتہائی جامع ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
الاستشراق: ہو دراسات أکادیمیۃ یقوم بہا غربیون کافرون من أہل الکتاب لوجہ خاص للإسلام والمسلمین من شتی الجوانب عقیدۃ وشریعۃ وثقافۃ وحضارۃ وتاریخًا ونظما و ثروات وامکانات ہدف تشویہ الاسلام محاولۃ تشکیک المسلمین فیہ، وتضلیلہم عنہ و فرض التبعیۃ للغرب علیہم ومحاولہ تبریر لہذہ التبعیۃ بدراسات ونظریات تدعی العلمیۃ والموضوعیۃ، ترغم التفوق العنصری والثقافي للغرب المسیحي علی الشرق الاسلامی‘‘ (رؤیۃ إسلامیۃ للاستشراق، أحمد غراب ص:۷)
’’استشراق، مغرب کے کفار اہل کتاب کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے مختلف جہتوں یعنی عقیدہ، شریعت، تہذیب، ثقافت، تاریخ، نظام حکومت اور وسائل وامکانات سے متعلق کی گئی تحقیق اور مطالعے کا نام ہے۔ جس کا مقصد مشرق کے اسلام پر مغرب کی عیسائیت کی نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم میں ، مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم کرنے کے لیے اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنا ہے اوراس تسلط کو ایسی تحقیقات اور نظریات سے جواز فراہم کرنے کی سعی کرنا ہے جنھیں سائنٹفک اور معروضی مطالعے کا نام دیا جاتا ہے۔‘‘
مستشرقین کے اہداف وعزائم
مستشرقین میں عیسائی بھی ہیں اور یہودی بھی، آپس میں زبردست مذہبی ونظریاتی اختلاف کے باوجود اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ان کے درمیان مضبوط تضامن واشتراک پایا جاتا ہے۔ ان مستشرقین کی تعداد سیکڑوں میں ہے، جو دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے مشن میں سرگرم عمل ہیں ۔ انھوں نے بڑی محنت سے اسلامی علوم کو پڑھا، کھنگالا، مہارت حاصل کی۔ ان سے استفادے کی راہیں آسان کیں ، حتیٰ کہ یہ یہود ونصاریٰ، پہلے ہی دن سے جن کا ہدف اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنا تھا؛ اسلامیات اور علوم کتاب وسنت کے محقق بن گئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان سے اسلامی علوم کی خاصی خدمت ہوئی اور بعض منصف مستشرقین نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کے آگے سرتسلیم خم کردیا؛ تاہم مجموعی اعتبار سے ان کی تگ ودو اور انتھک جدوجہد کے پس پردہ ان کے مذموم مقاصد تھے۔
مفکر اسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں :
’’مستشرقین کے علم وفضل کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی وضاحت کرنے میں کوئی باک نہیں کہ مستشرقین کے ایک بڑے طبقے کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلامی شریعت مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب وتمدن میں کمزوریوں اور غلطیوں کی تلاش وجستجو میں وقت صرف کریں اور سیاسی ومذہبی اغراض کی خاطر رائی کا پربت بنائیں ۔۔۔ ان کی ذہانت وطباعی کا پورامظاہرہ چہرئہ اسلام کو بدنما دکھانے میں ہوتاہے اور اس طرح اسلامی ممالک کے زعماء وقائدین کے دل ودماغ میں اسلام اور اسلامی قانون و تہذیب کے سرچشموں کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں اور اسلام کے مستقبل سے ناامیدی، حال سے بیزاری اور ماضی سے بدگمانی اس طرح پیدا کردیتے ہیں کہ ان کا سارا جوش وخروش دین کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور اسلامی قانون میں اصلاح وترمیم کی مہم چلانے میں منحصر ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘ (اسلامیات اور مغربی مستشرقین ومسلمان مصنّفین، ص۱۳-۱۴، لکھنؤ)
حیات طیبہ پر افترائات
اس طرح مستشرقین نے علمی تحقیقات اور دراسات اسلامیہ کی آڑ میں اسلام کی بنیادوں پر رکیک حملے کیے، کتاب وسنت میں کیڑے نکالنے کی کوششیں کی اور سب سے زیادہ پیغمبرانسانیت رسول امی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ شخصیت کو داغ دار کرنے کی کوشش کی؛ کیوں کہ آپ ہی کی وساطت سے ہمیں دین اسلام ملا ہے، تواس طرح انھوں نے دین کی اصل بنیاد پر ہی شکوک وشبہات کی دبیز چادر تان دینے کی سازش کی، عام طور سے لوگ کسی بھی مذہب کے داعی اور پیشوا کی شخصیت سے متاثرہوکر اس کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں ڈالتے ہیں اس لیے انھوں نے لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور آپ کی حیات طیبہ کو ہی اپنے گھٹیا حملوں کا نشانہ بنایا۔
ہم آئندہ سطروں میں ان شبہات واشکالات کا ذکر کریں گے جو مستشرقین ومخالفین اور بعض ہندو مصنّفین نے بڑے شدومد کے ساتھ اٹھائے ہیں ، جن کا تعلق رسول مطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور آپ کی ذات گرامی پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ اس کے ساتھ ان اعتراضات کے بودے پن اور صحیح صورت حال کو اللہ پاک کی توفیق سے واضح کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
(۱) رسول مطہرصلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ونسب پر طعن
انبیاء علیہم السلام عالی نسب ہوتے ہیں :
اللہ رب العزت کی یہ سنت رہی ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جتنے انبیاء کرام مبعوث کیے وہ حسب ونسب کے اعتبار سے عالی اور ممتاز تھے؛ چنانچہ صحیح بخاری میں ایک طویل مکالمہ مذکور ہے، جس میں ہرقل شاہ روم نے ابوسفیان سے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور جیش کفار کے سالار تھے، چند سوالات کیے ہیں اور ابوسفیان نے جواب دئیے ہیں ۔ شاہ روم کا پہلا سوال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان اور نسب کے متعلق تھا۔ شاہ روم قیصر نے سوال کیا: کیف نسبہ فیکم؟ تم لوگوں میں ان کا نسب کیا ہے؟ ابوسفیان نے جواب دیا: ہو فینا ذونسب۔ وہ ہم میں عالی نسب ہیں ۔ ابوسفیان کے اس جواب پر شاہ روم نے جو بڑا فاضل شخص تھا، تبصرہ کرتے ہوئے کہا: کذلک الرسل تبعث في نسب قومہا۔ اسی طرح پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی، حدیث:۷)
کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان فرستادہ منتخب بندوں کو بشری خصوصیات کے اعتبار سے اعلیٰ مقام عطا کرتے ہیں ؛ تاکہ کوئی کسی بھی جہت سے ان پر طعن نہ کرسکے اورمعاشرے میں ان کے مقام ومرتبے پر انگلی نہ اٹھائی جاسکے، تو جس طرح اعلیٰ بشری خصوصیات میں عفت وحیا، شجاعت وسخاوت، صداقت وامانت، حلم وعدالت اور علم وذکاوت شامل ہیں ، اسی طرح ان میں شرافت نسبی بھی شامل ہے، اگرچہ صرف نسب ہی معیار کرامت نہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبی شرافت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہارتشکر کے طور پر خود اپنے نسب کی فضیلت ذکرکرتے ہوئے فرمایا:
إنّ اللّٰہ اصطفٰی من ولد إبراہیم إسماعیل، واصطفٰی من ولد إسماعیل بنی کنانہ، واصطفٰی من بنی کنانۃ قریشًا، وصطفٰی من قریش بنی ہاشم، وصطفاني من بنی ہاشم (جامع الترمذی، حدیث:۳۹۶۴)
’’میراسلسلۂ نسب ہر دور میں بنی آدم کے بہترین قبیلے اور خاندان میں رہا، یہاں تک کہ میں اپنے دور تک پہنچا۔‘‘
تو جس طرح رسول مطہر صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر ہیں اسی طرح آپ کا نسب بھی افضل الانساب ہے اورکفار عرب جو اپنے انساب کے سلسلے میں بڑے حساس واقع ہوئے تھے وہ بھی آپ کی شرافت نسبی کو خوب اچھی طرح جانتے تھے؛ اس لیے انھوں نے اس حوالے سے کبھی طعن نہیں کیا؛ لیکن مستشرقین کی تحقیق پر ناطقہ سربگریباں ہے کہ یہ اپنے آپ کو کائنات کے سب سے اعلیٰ واشرف نسب میں بھی کیڑے نکالنے سے باز نہ رکھ سکے۔
مستشرقین کا نسب پر دواعتبار سے طعن
مستشرقین نے سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ونسب پر بہ طور خاص دو یہلوئوں سے خردہ گیری اور طعن کی کوشش کی ہے: (۱) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اولاد اسماعیل سے ہونا ثابت نہیں ، (۲) اولاد اسماعیل کو کوئی خصوصیت اور شرافت حاصل نہیں ۔
ترتیب وار دونوں بے بنیاد الزامات کا جائزہ لے کر حقیقت کی وضاحت کی جارہی ہے۔
۱- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا اسماعیلؑ سے تعلق
مستشرقین نے بڑے زور شور سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور عربوں کا حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہے؛ چنانچہ مشہور مستشرق ولیم میور لائف آف محمد میں لکھتا ہے:
While Mahomet’s paternal line was nevertheless traced up by fabricated steps, eighteen centuries farther to Ishmael. (Life of Mahomet, 1/cvii)
’’جب کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نسب بہ ہر صورت تراشیدہ کڑیوں کے سہارے اٹھارہ صدی بیشتر اسماعیلؑ سے ملالیاگیاہے۔‘‘
ایک اور مستشرق عالم منٹگمری واٹ نے اپنی طرف سے مفروضہ گڑھ لیا ہے اورکہا ہے کہ ابتداء میں مسلمانوں کو ابراہیم سے اسماعیل اور (عہد قدیم کے مطابق) عربوں کے تعلق کا علم نہ تھا، تاہم مدینہ میں یہود سے قریبی رابطے پر انھیں اس قسم کے معاملات کا پتہ چلا دیکھیے:(Muhammad of Medina p.204)
افتراء کاردّ
تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ اسماعیل علیہ السلام نے مکہ میں زندگی گزاری اور قبیلۂ جرہم میں آپ کا نکاح ہوا اور آپ ابوالعرب کہلائے۔ یہ بات قرآن مقدس اور تورات سے ثابت ہے اور بعض انصاف پسند مغربی مؤرخین نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا اعتراف کررکھا ہے۔
چنانچہ کم سنی میں ہی اسماعیل کو ان کی والدہ ہاجرہ کے ہم راہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اس مقام پر چھوڑا تو انھوں نے اپنے رب سے ان الفاظ میں دعا کی: ربنا اني اسکنتُ من ذریتي بوادٍ غیر ذی زرعٍ عند بیتِکِ المحرّم ربنا لیقیموا الصلاۃ فاجعَل أفئدۃً من الناس تہْوِیْ إلیہم وارزقہم من الثمرات لعلَّہُمْ یَشکُرون (ابراہیم:۳۷)
’’اے ہمارے رب! میں اپنی اولاد کو آپ کے معظم گھر کے قریب ایک میدان میں جوزراعت کے قابل نہیں ، آباد کرتا ہوں ، اے ہمارے رب تاکہ وہ لوگ نماز کا اہتمام رکھیں ، تو آپ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کردیجیے اور ان کو پھل کھانے کو دیجیے؛ تاکہ یہ لوگ شکر کریں ۔‘‘
اس سے صاف واضح ہے کہ ابتداہی سے اسماعیلؑ ارض حرم مکہ مکرمہ میں آباد رہے۔
تورات کے سفرالتثنیہ میں مذکور ہے: ’’رب سیناء سے آیا اور سعیر کولوگوں کے سامنے روشن کردیا اور فاران کے پہاڑ سے چمکا اور القدس کے ٹیلوں سے نمودار ہوا اور اس کی دائیں جانب لوگوں کے لیے شریعت کی روشنی ہے۔ (التثنیہ:۳۳/۲)
جرجیس صال کے مطابق اس کی وضاحت یہ ہے کہ سیناء سے رب کا آنا کنایہ ہے تورات کے عطا کرنے سے، اور سعیر سے روشن ہونا کنایہ ہے عیسیٰؑ کو انجیل دینے سے اور فاران سے چمکنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارے جانے سے کنایہ ہے؛ اس لیے کہ فاران مکہ کا ایک پہاڑ ہے۔ (السیرۃ النبویۃ وأوہام المستشرقین، عبدالمتعال الجیری، ص۶۳)
عیسائی پادری جارج بش کہتا ہے: اسماعیلؑ سے عربوں کے نسب کی ایک دلیل یہ ہے کہ زمانۂ قدیم سے ہی یہودیوں اور عربوں میں ختنے کا راوج ہے۔ یہودی ختنے میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں اور عرب اسماعیل علیہ السلام کی؛ اس لیے کہ اسماعیل ہی عرب قوم کے بانی ہیں ۔ (محمد مؤسس الدین الاسلامی، ترجمہ: عبدالرحمن الشیخ ص۱۲۶، بتغییر یسیر)
ان کے علاوہ بھی تاریخی کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے بیانات ہیں جن سے صاف واضح ہے کہ عربوں کا اسماعیل علیہ السلام کے نسل سے ہونا محض افسانہ نہیں ہے؛ بلکہ حقیقت واقعہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عربوں کے درمیان باقاعدہ نسب کے ماہرین موجود تھے؛ بلکہ عام طور سے عربی شخص کو اپنے خاندان کی ایک ایک کڑی یاد ہوتی تھی، اللہ پاک نے انھیں حافظے کی بھی زبردست قوت عطا کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں میں خاندانی بنیاد پر فخرومباہات عام بات تھے۔ اس صورت حال میں عربوں کو اپنے نسب سے ناواقف قرار دینا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
منٹگمری کا یہ دعویٰ بھی صریح جھوٹ ہے کہ یہودیوں سے تعلقات کی وجہ سے عربوں اور مسلمانوں کو اس قسم کے تعلقات کا پتہ چلا، بھلا عربوں کو یہودیوں سے نسب کا سبق پڑھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیوں کہ اقوام عالم میں سب سے زیادہ نسب سے واقفیت کرنے والے عرب ہی تھے۔ انھیں گھوڑے اور اونٹ تک کے نسب معلوم ہوتے تھے تو اپنے نسب نامے کیوں کر محفوظ نہیں ہوں گے جب کہ یہ نسب آپس میں فخرومباہات کا بھی ذریعہ تھا؛ بلکہ یہی عرب اسلام کے بعد یہودیوں سے کہا کرتے تھے: ہمارے اور تمہارے باپ ایک ہیں اور ہم انھی کے دین پر ہیں تم بھی ایسے ہی بن جائو۔ دوسری طرف حضرت ابلراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ہی کعبۃ اللہ کا حج کرتے آرہے تھے اور بڑے فخر کے ساتھ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ابرہیمؑ کے پیروکار ہیں ؛ لہٰذا یہ کہنا کہ مسلمانوں کو حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت اسماعیلؑ اور عربوں کے تعلق کا علم یہود کے ذریعے ہوا؛ حقیقت سے انتہائی بعید ہے۔
۲- اولاد اسماعیل سے شرافت وفضیلت کی نفی
بعض مستشرقین نے یہ راگ الاپا ہے کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی اسماعیل سے ہونا ثابت بھی ہوجائے تب بھی اس سے نسبی شرافت وفضیلت ثابت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ اسماعیل، ہاجرہ کے بیٹے ہیں اور ہاجرہ ایک باندی تھیں اور بھلا باندی اور لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہونے والے کو بھی شرافت حاصل ہوسکتی ہے؟
افتراء کا ردّ
اس بات کا بھی حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ اسماعیل علیہ السلام غلام تھے، باندی کے بیٹے تھے ؛اس لیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حُر اور آزاد ہونا تو مسلم ہے اور ظاہر ہے آزاد باپ کا بیٹا آزاد ہی شمار ہوگا؛ تورات کی ان نصوص کے مطابق جن کی رو سے باندی کے پیٹ سے اگر آقا کا بچہ جنم لے تو وہ آزاد شمار ہوتی ہے باندی نہیں رہتی۔ ان سب سے قطع نظر اصل بات یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ باندی نہیں ؛ بلکہ شہزادی تھیں ۔
کیا حضرت ہاجرہ ام اسماعیل باندی تھیں ؟
یہودیوں نے منصوبہ بند طریقے سے اسے خوب شہرت دی کہ حضرت ہاجرہؓ ایک لونڈی تھیں ، چوں کہ غلام یالونڈی کی نسل سے ہونا ذلت سمجھا جاتا تھا؛ اس لیے آغاز سے ہی تضحیک وتذلیل کی خاطر پہلے عربوں کو اور پھر اسلام کے آنے کے بعد مجموعی طور پر مسلمانوں کو ہاجری کہا جاتا تھا، ابن اثیرؒ نے بیان کیا ہے کہ رومی تذلیل کی خاطر عربوں کو ’’سارقیوس‘‘ کہا کرتے تھے جس سے مراد سارہ کے غلام تھے۔
وکانت الروم تسمّی العرب سار قیوس یعني عبیدَ سارۃ، بسبب ہاجر امّ اسماعیل۔ (الکامل في التاریخ، ابن اثیر ۱/۳۰۶)
دراصل حضرت ہاجرہ کے متعلق اس جیسی بہت سی روایات اس مخصوص پس منظر میں تراشی گئی ہیں جس میں دنیوی اور روحانی لحاظ سے بڑے بیٹے کو اصل مستحق وارث مانا جاتاہے؛ چوں کہ حضرت اسماعیلؑ حضرت اسحاقؑ سے بڑے تھے، جیساکہ تورات کی روایات سے معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے حضرت اسحاقؑ کو حضرت ابراہیمؑ کی برکات کا حقیقی وارث ثابت کرنے کے لیے حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہ پر مختلف الزامات لگائے گئے، چوں کہ دونوں بیٹوں کے والد ایک ہی تھے؛ اس لیے کوشش کی گئی کہ سارہ کا مقام اور درجہ ہرلحاظ سے ہاجرہ سے بہتر دکھایا جائے اور ثابت کیا جائے کہ اسماعیلؑ بعض وجوہ کی بنا پر حضرت ابراہیمؑ کے وارث نہ تھے؛ لیکن ان تمام کوششوں اور تحریفات کے باوجود خود یہودیوں کی شہادت ہے کہ حضرت ہاجرہ باندی نہیں ؛ بلکہ آزاد اور شریف شہزادی تھیں ۔ کئی سیرت نگار اور مؤرخین نے اس کو تفصیل سے ثابت کیا ہے۔ ہم اس کا خلاصہ درج کرتے ہیں :
یہودیوں کے زبردست مفسر توریت ربی شلومو اسحاق نے باب ۱۶ کتاب پیدائش کی تفسیر میں حضرت ہاجرہ کی بابت جو الفاظ تحریر کیے ہیں ان کا ترجمہ ہے:
’’وہ فرعون (شاہ مصر) کی بیٹی تھی جب اس نے کرامات کو دیکھا جو بوجہ سارہ واقع ہوئی تھیں تو کہا کہ میری بیٹی کا اس کے گھر میں خادمہ ہوکر رہنا دوسرے گھر میں ملکہ ہوکر رہنے سے بہتر ہے۔‘‘
اس شہادت سے صاف ظاہر ہوگیا کہ ہاجرہ شاہ مصر کی دختر تھیں اور شاہ مصر پر حضرت سارہ کی عظمت اس قدر طاری ہوگئی تھی کہ اس نے اپنی بیٹی کو بہ طور خادمہ ان کے ساتھ کردینا اپنے اور اپنے خاندان کے لیے فخروعزت کا باعث سمجھا۔
اس کے علاوہ عبرانی زبان میں لونڈی اور غلام کی مختلف حالتوں کے لیے ’’شیبوت حرب‘‘ ’’مقنت کشف‘‘ اور بلید بایشا‘‘ کے الفاظ بولے جاتے ہیں ۔ اب تمام توریت کو دیکھتے جائو کہ ہرسہ الفاظ میں سے کوئی لفظ بھی حضرت ہاجرہ کے متعلق ساری عبرانی کتاب میں مستعمل نہیں ہوا۔
خود توریت میں بعض انبیاء بنی اسرائیل کی زوجات اور بعض انبیاء کی امہات کو لونڈی قرار دیاگیا ہے۔ کتاب پیدائش کے ۳۰ باب کو پڑھ جائیں معلوم ہوجائے گا کہ:
۱- حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیوی مسماۃ لیاہ کی لونڈی کا نام زلفہ ہے اور مسماۃ زلفہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزندان مسمّیٰ جدوآشر کی والدہ ہیں ۔
۲- حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیوی مسماۃ راحیل کی لونڈی کا نام بلہہ ہے اور مسماۃ بلہہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزندان مسمّیٰ دوان ومسمّیٰ نفتالی کی والدہ ہیں ۔
یہ چاروں فرزند یعنی جدوآشر، دوان ونفتالی، اسرائیل کے ان بارہ فرزندوں میں سے ہیں ، جن کو یعقوب وموسیٰ ودائود وعیسیٰ علیہم السلام نے وقتاً فوقتاً برکتیں دی ہیں اور توریت کی کسی ایک جگہ میں بھی ان چاروں کو باقی آٹھ کے مقابلے میں کمتر نہیں بتایاگیا یا لونڈی کا بچہ نہیں کہا گیا۔ زلفہ اور بلہہ کے ذکر کو جانے دیجیے، خود لیاہ اور راخل کی بابت غور کرو جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے ماموں کی لڑکیاں اور بہ قول توریت حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیویاں ہیں ؛ یہ دونوں اپنے لونڈی ہونے کا اقرار اس طرح کرتی ہیں :
’’راخل اور لیاہ وہی خاتونیں ہیں جن کے فرزند موسیٰ ودائود علیہما السلام ہیں اور یہ دونوں خود اپنی زبان سے زرخرید ہونے کا اقرار کرتی ہیں ۔ کیا اس کے بعد بھی اہل کتاب کو کوئی حق حضرت ہاجرہ کی شان میں زبان کھولنے کا رہ جاتا ہے؟ حالاں کہ ان کے متعلق ایسا کوئی لفظ توریت میں موجود نہیں ۔
اہل کتاب یہ بھی غور کریں کہ انھوں نے مصر کی شہزادی کو تو صرف؛ اس لیے لونڈی بنایاکہ اس کے باپ نے اسے خاندان نبوی کی خدمت کے لیے چھوڑ دیا تھا؛ لیکن یوسف کی بابت کیا کہیں گے جن کو مصر میں یونانیوں نے فوطی فار (عزیز مصر) کے ہاتھ بیچاتھا (رحمۃ للعالمین ۲/۳۷، دیوبند، النصوص الباہرۃ فی حریۃ الہاجرۃ مولوی عنایت رسول چریاکوٹی، الخطبات الاحمدیہ لاہور، سرسید احمد خاں ص۱۲۴-۱۳۰)
خود بائبل حضرت سارہ پر حضرت ہاجرہ کی افضلیت پر گواہ ہے؛ کیوں کہ سیدہ ہاجرہ کے سامنے متعدد بار فرشتہ خود کو ظاہر کرکے آپ سے ہم کلام ہوا اور آپ کو خوشخبریاں سنائیں ۔ (ملاحظہ ہو Genesis کے ابواب سولہ اوراکیس) جب کہ حضرت سارہ کے سامنے فرشتہ کبھی کسی بھی مقصد کے لیے نمودار نہیں ہوا۔‘‘ (اردو ڈائجسٹ، نومبر ۲۰۱۸ء وجیہ کوثر)
بخاری شریف میں حضرت ہاجرہ کا تذکرہ
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طویل روایت مذکور ہے جس میں بادشاہ وقت کی دستبرد سے بچنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے توریے اور حضرت سارہ کی عظمت وکرامت سے متاثر ہوکر بادشاہ کی طرف سے حضرت ہاجرہ کے دئیے جانے کا تذکرہ ہے۔ اس میں اخیر میں ہے:
ارجعوہا إلی إبراہیم وأعطوہا اٰجر فرجعت إلی ابراہیم علیہ السلام فقالت: أشعرتَ أنّ اللّٰہ کبتَ الکافر واَخدم ولیدۃً (صحیح البخاری، حدیث: ۲۲۱۷،کتاب البیوع)
’’بادشاہ نے کہا: سارہ کو ابراہیم کے پاس پہنچادو اور انھیں آجر (حضرت ہاجرہ) کو بھی دے دو، چنانچہ حضرت سارہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ دیکھتے نہیں اللہ پاک نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوادی۔‘‘
اس روایت کی وجہ سے مسلمان، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ اس امر میں متفق ہیں کہ فرعون مصر نے حضرت ہاجرہ کو حضرت سارہ کی خدمت کے لیے دیا تھا۔ (بعد میں حضرت سارہ نے خود حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیمؑ کی زوجیت میں دے دیا تھا) لیکن اس جیسی روایت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں ،بالکل بعید ہے۔ یہاں لفظ ولیدۃ باندی کے معنی میں نہیں ہے۔ عربی زبان میں جاریہ اور ولیدۃ کے الفاظ عام لڑکی کے معنی میں آتے ہیں ،عربی بائبل میں سب جگہ حضرت ہاجرہ کے واسطے جاریہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ انگریزی بائبل میں سب جگہ میڈ MAIDکا لفظ ہے، جس کے معنی وہی ہیں جو جاریہ اور ولیدہ کے ہاں یعنی لڑکی۔
شارح بخاری علامہ قسطلانی نے بھی یہاں ولیدہ کا معنی واضح کرتے ہوئے لکھا ہے: الولیدۃ الجاریۃ للخدمۃ سواء کانت کبیرۃ أو صغیرۃ، وفي الأصل الولید الطفل والأنثی (ارشاد الساری)
لہٰذا بخاری کی روایت سے بھی حضرت ہاجرہ کے باندی ہونے پر استدلال درست نہیں ہے۔
مستشرق مؤرخ گبن کی شہادت
اس کے علاوہ منٹگمری واٹ جیسے مستشرقین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی وعرفی حیثیت کو مجروح کرتے ہوئے یہ تاثر دیا ہے کہ مکہ میں بنوہاشم کو کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں مالی اعتبار سے کمزور اور بے وزن خیال کیے جاتے تھے اور مالی تنگی کی وجہ سے ہی آپ نے غارحراء کی خلوت گزینی اختیار کی تھی، ظاہر ہے یہ سب بے ہودہ اور من گھڑت افسانے ہیں ۔ خاندان بنوہاشم کی عظمت وسیادت مکہ ہی نہیں پورے عرب میں مسلّم تھی۔ ہاشم نے قیصر سے جو تجارتی معاہدے کیے اور زائرین کعبہ کے لیے جس فیاضی اور سیرچشمی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس سے بنوہاشم کی وقعت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہوگئی تھی اور سارا عرب ان کا احترام کرتا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی کمالات اور حسن اخلاق کی وجہ سے اعلان نبوت سے قبل ہی امین وصادق کا تمغہ عطاہوچکا تھا اور اس قدر اکرام واحترام کسی قریشی نوجوان کو حاصل نہیں تھا۔ ہم اس باب کو خود ایک منصف مستشرق گبن کی شہادت پر ختم کرتے ہیں : گبن لکھتا ہے:
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ اور گھٹیا خاندانی ابتدا عیسائیوں کی بے ہودہ افترا پردازی ہے۔ وہ قبیلہ قریش اور خاندان بنوہاشم کے سپوت تھے، جو عربوں میں سب سے زیادہ معزز، مکہ کے بادشاہ اور کعبہ کے موروثی پاسبان تھے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب، ہاشم کے بیٹے تھے وہ ہاشم جو ایسے متمول اور فیاض شہری تھے کہ انھوں نے قحط کی تکالیف سے اپنے مال تجارت کے ذریعے نجات دلائی تھی۔ مکہ جسے باپ کی فیاضی وسخاوت نے سیر کیا تھا اسے بیٹے نے اپنے عزم وحوصلے سے بچالیا۔‘‘ (اردو ڈائجسٹ نومبر۲۰۱۸ء)
(جاری ہے)
————————————————
دارالعلوم ، شمارہ :10-11، جلد:104، صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء
٭ ٭ ٭