از: مفتی صدیق احمد جوگواڑ نوساری گجرات انڈیا
مطالعہ کا انسانی زندگی کی تعمیر و ترقی،اورانسان کو راہ راست پر لا کر قائم و دائم رکھنے میں اہم کردار رہا ہے۔نیز اقوام کی تقدیر بدلنے، اور اوقات کو کار آمد بنانے میں بھی اس نے ایک بڑا کار نامہ انجام دیا،اور مطالعہ ہی نے لوگوں کے ذہن و دماغ کو کھول کر ان کو بے پناہ معلومات فراہم کی،اسی کی بدولت دنیا کا ہر فرد ترقی کے منازل طے کرتا ہے اور وقت جیسے قیمتی سرمایہ کو کار آمد بنا کر ضائع ہونے سے بچا لیتا ہے اور اس کے علاوہ اور بھی بے شمار فوائد ہیں جنھیں مطالعہ کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے؛لیکن یہ سارے فوائد اسی وقت حاصل ہوں گے جب کہ مطالعہ کسی ماہر کی رہنمائی میں کیا جائے، مغلق باتوں کی سمجھ اورکتابوں کی درجہ بندی کرنے اور دشوار کن عبارتوں کو ماہرین سے پوچھ کر حل کیا جائے،ورنہ یہی مطالعہ بجائے مفید ہونے کے اتنا مضر ثابت ہوگا کہ ایمان و اعتقاد کو متزلز ل کر کے یا شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے چھوڑ دے گا،بسا اوقات یہی مطالعہ انسان کو ایسا شدت پسند اور ضدی بنا دیتا ہے کہ وہ غلط افکار و نظریات کو لیے بیٹھا رہتا ہے اور صحیح بات سمجھنے اور ماننے کے لیے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں ہوتا، نیز مطالعہ کرنے والا خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ میرا وقت کار آمد ہو رہا ہے، بہ نسبت ان لوگوں کے جو بالکل بھی مطالعہ نہیں کرتے یہ شخص مطمئن رہتا ہے،جس کی وجہ سے اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ بغیر رہنمائی کے وہ من مانی طور پر مطالعہ کر کے وہ اپنے اوقات کو ضائع کر رہا ہے،اور ظاہر سی بات ہے کہ جب تک غلطی کا احساس نہ ہو اصلاح ممکن ہو ہی نہیں سکتی، اور یقینی بات ہے کہ ایسے مطالعے سے بجائے فائدے کے بڑے بڑے نقصانات ہی مرتب ہونگے جواور بھی تباہی کا سبب بنیں گے، دور حاضر میں علمی انحطاط کا ایک سبب جہاں مطالعہ سے عدم مناسبت ہے وہیں غیر مرتب اور غیر منظم طریقے سے بغیر سر پرستی اور رہنمائی کے مطالعہ کر نا بھی ہے،کیونکہ مطالعہ کااصل مقصود ہی حاصل نہیں ہوگا اور خوش فہمی میں رہ کر مطالعہ کرنے والا اپنے اوقات کو یوں ہی ضائع کرتا رہے گا۔
(۱)حضرت مولانا منظور صاحب نعمانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’ ـــــ مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سر گزشت اور اب میرا موقف ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ :مولانا مودودی قلم کے بادشاہ تھے ان کے مضامین قوت استدلال کے لحاظ سے بہت ہی محکم اور بڑے مؤثر تھے،راقم السطور بھی ان سے غیر معمولی طور پر متأثر ہوا،مولانا مودودی کے ساتھ حضرت نے دو سالہ طویل عرصہ گزارا،اس درمیان حضرت نے ان کی تائید میں مضامین بھی لکھے،لیکن جیسے ہی ان کے نظریات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا حقیقت آشکارا ہوتی رہی بالآخر بزرگان دین سے خط و کتابت کے بعد حقیقت حال سے آگاہ کیا اور ان کے مشورے کے مطابق مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے بیزاری اور عدم اطمینان کا اظہار فرما کر اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا،اور ماہنامہ الفرقان میں ایک اسکا اعلان شائع فرمایا اسی پس منظر میں حضرت نے مذکورہ بالا کتاب لکھی ۔
اس کتاب کے ذریعے حضرت نے امت کو یہ پیغام دیا کہ ہر تحریر اور کتاب کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتاہے،اس لیے کسی بھی کتاب کو زیر مطالعہ لانے سے قبل ماہرین اور معتبر علماء سے مشورہ کر لینا چاہیے اور ان کی رہنمائی میں ہی مطالعہ کرنا چاہیے،ورنہ مزاج و قلب میں فرق پڑسکتا ہے، اور حق و باطل کی پہچان میں ذہنی کش مکش کا شکار ہوسکتے ہیں ۔
(۲)اس زمانے میں کتابوں کی ریل پیل ہے، مختلف علوم و فنون کی کتابیں بہ کثرت منظر عام پر آ رہی ہیں ،جن میں نفع بخش اور نقصان دہ دونوں شامل ہیں ،اس لیے اس مختصر سی زندگی میں تمام علوم و فنون اور ہر طرح کی تمام کتابوں کا احاطہ ایک نا ممکن ہے؛لہٰذاکتابوں کے انتخاب کے لیے ایک ماہر باذوق رہنما کی ضرورت ہے،کیونکہ کتابوں کا ازخود انتخاب کر کے مطالعہ کرنا بجائے مفید ہونے کے مضر ثابت ہوگا، اس لیے کہ کوئی بھی پڑھی ہوئی چیز خواہ بھلا دی جائے بے کار و بے اثر نہیں رہتی اپنا اچھا یا برُا اثر ضرور چھوڑتی ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓکا مقولہ ہے کہ علم کا احاطہ نہیں ہو سکتا،لہٰذا علم میں انتخاب سے کام لو،اور تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ علم کا انتخاب اپنی رائے سے نہ کرے بلکہ استاذ ہی سے انتخاب کروانا چاہیے، اسی وجہ سے صاحب ہدایہؒ فرماتے تھے کہ پہلے زمانے میں طلبہ اپنے پڑھنے پڑھانے کا معاملہ استاذ پر معلق رکھتے تھے جس کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو تے تھے، اور جب خود انتخاب کرنا شروع کردیا تو علم سے بھی محروم رہنے لگے ۔
(۳)مطالعہ جو عملی فکری اور روحانی غذاہے اس کا معاملہ زیادہ اہم اور نازک ہے، اس لیے بغیر رہنمائی کے مطالعہ نفس کے گھوڑے پر سوار کر کے چھوڑ دیتا ہے پھر نفس جدھر چاہے لے جاتا ہے،جیسا کہ حضرت اقدس شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانے میں مدارس عربیہ کے طلباء میں بھی آزادی آگئی ہے، کسی کے تابع رہنا نہیں چاہتے، نہ کسی قاعدہ قانون کی پابندی کرنا چاہتے ہیں ، خود بینی خود رائی کے شکار ہوچکے ہیں ،ان کے نزدیک نہ کوئی چھوٹا ہے اور نہ بڑا، ان کو کسی کا ادب ہے نہ لحاظ، اپنے نفس کے گھوڑے پر سوار ہیں جدھر لے جاتا ہے ادھر چلے جاتے ہیں ،گویا ان پر ان کا نفس مُستولی ہے، طبیعت ان پر غالب ہے جو اس کا تقاضا ہوتا ہے اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں ،اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال باوجود صدہا طلبا کی فراغت کے کام کے عالم نظر نہیں آتے، غرض قوت علمیہ و عملیہ دونوں ہی کا فقدان ہے تو پھر کام ہو تو کیسے ہو؟العیاذ باللہ ۔
(۴) ذوق کے مطابق مطالعہ نہ کیا جائے تو مطالعہ سرسری ہوجاتا ہے،جی بھی نہیں لگتا بس برائے نام مطالعہ ہوتا ہے، آدھی بات سمجھ میں آتی ہے اور باقی آدھی یوں ہی رہ جاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ مطالعہ سے قبل کسی کی رہنمائی سے اپنے ذوق کا پتہ نہ لگا یا گیا ہو۔
چنانچہ حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ مدارس عربیہ کے طلبہ کو ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ کسی کتاب کا سرسری مطالعہ کافی نہیں ہوتا؛بلکہ اس طرح مطالعہ کریں گویا پوری کتاب کو آپ نے چاٹ لیا ہے اور فرماتے تھے کی ہم نے احمد امین کی‘ فجر الاسلام ‘ضحی الاسلام اور ظہر الاسلام‘ کو اتنا پڑھا ہے کہ اس کے صفحات ازبر ہوگئے، اس دور میں جو سرسری مطالعہ کی عادت ہوگئی ہے اس سے مطالعہ کرنے والوں کو کما حقہ نفع نہیں پہنچتا۔
(۵) اگر مستقل ایک ہی کتاب میں ۲۴ گھنٹے لگا ئے جائے تو انسان ذہنی اعتبار سے پریشان ہوجاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مطالعے میں تنوّع پیدا کیا جائے وہ اس طرح کہ جس کتاب کا مستقل مطالعہ کر رہے ہیں اس کو کسی اور کتاب سے بدل لیا جائے یا موضوع تبدیل کر لیا جائے؛ لیکن بغیر رہنمائی کے مطالعہ کرنے والے اس چیز کو فضول اور ضیاع وقت سے کچھ کم نہیں سمجھیں گے، حالاں کہ ذہنی پریشانی ان کے مطالعے کے لیے اتنی مضر ثابت ہوگی کہ اس کو ہمیشہ ہمیش کے لیے مطالعہ سے دور کردے گی اور اس درمیان کوئی بات سمجھ میں بھی نہیں آئے گی ۔
حضرت ابن عباسؓ کے بارے میں ذکر کیاجاتا ہے کہ وہ اپنی مجلس میں جب اکتاہٹ محسوس کرتے تو فرماتے کہ شاعروں کے دیوان لے آئو اُن کے ذریعے شگفتگی پیدا کر لیتے ہیں ۔
(۶) بسا اوقات طالب علم غیر نصابی یعنی خارجی کتابوں کے مطالعے میں اتنا مصروف ہوجاتا ہے کہ نصابی کتابیں رہ جاتی ہیں ،پتہ چلا کہ مطالعہ توخوب ہو رہا ہے لیکن بغیر کسی کی رہنمائی کے ہورہا ہے، اس لیے درسیات جو اصل مقصود ہے اسی میں خلل ڈال کر نقصان ہی اٹھا رہا ہے، یا د رہیـ زمانۂ طالب علمی میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ جلدی دور نہیں ہوپاتی، لہٰذا ایسا مطالعہ بجائے مفید ہونے کے مضر ثابت ہوتا ہے ۔
(۷ ) بغیر رہنمائی کے مطالعہ کرنے والا کتابوں کی درجہ بندی نہیں کر پا تا،مثلاً: ابتداء ًہی اوپر کے درجے کی وہ کتابیں جو ایک مد کے بعد سمجھ میں آسکتی ہے اسے زیر مطالعہ لاتا ہے،جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں اُکتا کر مطالعہ ہی چھوڑ بیٹھتا ہے۔
جیسے :عربی اول کا طالب علم کافیہ کا مطالعہ کرے یا مالابد منہ پڑھنے والا ہدایہ یا اس کی شرح کا مطالعہ کرے تو ظاہر سی بات ہے سمجھ میں تو آئے گا نہیں اور وقت بھی یوں ہی ضائع کرتا رہے گا۔
(۸) ناول یا ادبی کتاب، زمانۂ جاہلیت کے اشعار، یہ سب علم کا ایک حصہ حاصل کرنے کے بعد جب ایمان و اعتقاد کے ساتھ ساتھ ذہن و دماغ راہ راست پر چلنے لگے اور برائی کو اچھائی سے ممتاز اور الگ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تب جا کر ناول یا ادبی کالم اور زمانۂ جاہلیت کے اشعار کو پڑھ کر اس میں سے اچھی چیزوں کو مثلاً انوکھی تعبیرات، ادبی جملے،بہترین منظر کشی کے طریقے کولے کر اپنی تحریروں کی زینت بنائیں ؛کیونکہ اگر پہلے ہی ان تمام چیزوں کا مطالعہ کیا گیا تو ذہن ودماغ آزاد اورمزاج عاشقانہ ہوجائے گا اور ان کی غلط چیزیں بھی مطالعہ کرنے والے شخص کے دل میں رچ بس جائے گی، چونکہ دل ایسی باتوں کی طر ف زیادہ راغب ہوتا ہے اور ان تمام چیزوں کا سبب رہنمائی کے بغیر مطالعہ کرنا ہے ۔
(۹)من مانی طور پر مطالعہ کرنے سے کم سمجھی یا نا سمجھی کی وجہ سے غلط بات یاواقعہ کے خلاف نقشہ ذہن میں بیٹھ جاتا ہے،یا بات خلط ملط ہوجاتی ہے اور ذہن صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کر پاتا ہے، لہٰذا ایسامطالعہ انتہائی مضرثابت ہوتا ہے ۔
(۱۰)بغیر رہنمائی کے مطالعہ میں مستقل مزاجی اور دوام پیدا نہیں ہوتا،لہٰذا ایسا مطالعہ سُستی اور کاہلی کا سبب بن کر صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے، ہمت و حوصلہ کو پست کر دیتا ہے، اس لیے اس طرح مطالعہ کرنا نقصان دہ ہوتا ہے۔
(۱۱)مطالعہ انسان کے لیے عمل کی راہ کوآسان کردیتا ہے،نیز مطالعہ کی عادت انسان کو بہت ساری بے جا مصروفیات سے بچالیتی ہے، لیکن جب کسی کی رہنمائی میں رہ کرمطالعہ نہ کیا جائے تو یہ جذبہ ہی ختم ہوجائے گا،پھر سوائے نقصان کے اورکیا حاصل ہو سکتا ہے ۔
(۱۲)سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا خواہ مطالعہ من مانی طورپر اور بغیر کسی کی رہنمائی کے کر رہا ہے،لیکن وہ اپنے متعلق خوش فہمی میں رہتا ہے کہ میں مطالعہ کر کے اپنے اوقات کو کار آمد بنا رہا ہوں ،حالاں کہ در حقیقت وہ اپنے اوقات کو ضائع کر رہا ہوتا ہے،اور جب یہ شخص اپنے متعلق خوش فہمی مبتلا رہتا ہے تو مطمئن ہونے کی وجہ سے جلدی وہ اپنی غلطی کی اصلاح نہیں کرپاتا،اور یہ سلسلہ ایک لمبے زمانے تک چلتا رہتا ہے۔
علامہ ابن حزم ظاہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علوم اور ان کے ماہر علماء کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی آفت نہیں ہے کہ نا اہل لوگ اس میں دخل دینے لگتے ہیں ،حالاں کہ وہ جاہل ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ علم رکھتے ہیں ، اور یہ خیال قائم کرتے ہیں کہ وہ درست کر رہے ہیں حالاں کہ وہ بگاڑ رہے ہیں ۔
(۱۳)یاد رہے جس طرح علم بغیر استاذ کے خطرات سے خالی نہیں اسی طرح مطالعہ بغیر رہنمائی کے سخت مضر ہے کیونکہ بہت سی دقیق عبارات اور اہم مسائل ایسے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ بغیر استاذ کی رہنمائی کے بالکل بھی سمجھ میں نہیں آپاتے ہیں ،اساتذہ کے بغیر حصول علم کے مضر اثرات میں سے یہ بھی ہے کہ اختلاف کے وقت سلف صالحین اور علماء کرام کے لیے غلط زبان استعمال کرتے ہیں اور ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ،ان تمام تفصیلات سے یہ بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ حصول علم کے لیے استاذ کا ہونا ازحد ضروری ہے، اور مطالعہ بھی من جملہ حصول علم کے ذرائع میں سے ہے، لہٰذا اس میں بھی رہنمائی ضروری ہے ورنہ اس مطالعہ سے حاصل شدہ معلومات نقصان اور خسارہ کا سبب بنے گی، اس لیے مطالعہ کے لیے بھی ایک باذوق اور ماہر رہنما کی ضرورت ہے، جس کی صحیح رہنمائی سے مطالعہ کی اگلی راہیں ہموار ہونے کے ساتھ ساتھ مفید بھی ہوں ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مطالعہ دودھاری تلوار کی طرح ہے، جس کے دوپہلو ہیں صحیح طور پر کسی کی رہنمائی میں مطالعہ کرنے کے جتنے فوائد ہیں اس سے کہیں زیادہ بغیر رہنمائی حاصل کیے مطالعہ کرنے نقصانات ہیں ، جیسا کہ اوپر مفصل ومدلل وضاحت گزر چکی ہے، اب مطالعہ کرنے والا اگر چاہے تواسے کار آمد اور نفع بخش بنائے یا نقصان دہ بنائے، لہٰذا پتہ چلا کہ مطالعہ کے لیے کسی کی رہنمائی بہت زیادہ ضروری ہے، ورنہ کی ہوئی تمام تر کوششیں اور محنتیں رائیگاں جائیں گی، اور وقت یوں ہی گزرتا رہے گا،پھر بعد میں کف ِافسوس ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اخیر میں میں دست بہ دعا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں مطالعہ کا جذبہ اور شوق عطا فرمائے اور مطالعہ کے نقصانات سے پورے طور پر ہمیں محفوظ ومأمون رکھے (آمین)۔
———————————————
دارالعلوم ، شمارہ :10-11، جلد:104، صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء
٭ ٭ ٭